فالج
———————–
نیند گہری نیند
خاموشی مسلسل،
دست و پا حرکت سے عاری
چلتے پھرتے ژدمی کا بوجھ
ہے بستر پہ بھاری
بے بسی کے اک بھنور میں
تہ نشیں ہے ذات ساری
بے حسی کی دھند میں
شام و سحر کی بے کناری
مرکز اعصاب پر ہے چوٹ گہری
بے نشاں ہر زخم کاری
منجمد ہے کاسہ سر میں لہو کی آبیاری
٭٭٭
وہ دنیا
————–
کسی اونچی حویلی کی کبھی خواہش نہ کرتے تھے
اور مٹی کے ہی سوندھے برتنوں میں
روکھی سوکھی کھا کے بھی دل شاد رہتے تھے
سو ہوس نے ان کی روحوں پر کوئی سایہ نہ ڈالا تھا
وہ دنیا تم نے دیکھی ہی نہیں
جہاں اک دوسرے کو جانتے پہچانتے تھے سب
جہاں ہر سو اجالوں کی کھنک سے گونجتے تھے دن
جہاں راتیں سکوں کی چھاؤں سے بھر پور ہوتی تھیں
میں تم کو کیسے بتلاؤں
کہ وہ خوابوں کی بستی اک حقیقت تھی
جہاں رشتوں کی سچائی میں سب ایمان رکھتے تھے
کسی مشکل میں بھی شانہ بہ شانہ ساتھ رہتے تھے
وہ سب کچے گھروں میں چین سے عمریں بتاتے تھے
مٹی کے سوندھے برتنوں میں
روکھی سوکھی کھا کے بھی دلشاد رہتے تھے
سفر کرتے تو تھے روزی کما نے کے لئے لیکن
ہمیشہ اپنی اپنی بستیوں میں لوٹ ژتے تھے
کسی بے جا نمود و نام کے طالب نہیں تھے وہ
ضرورت کو قناعت پر کبھی حاوی نہ کرتے تھے
کوئی قصہ نہیں ہے یہ نہ فرضی داستاں ہے یہ
محبت ان کا شیوہ تھا محبت ان کی قوت تھی
نگاہ و دل میں بس ایمان کی زندہ حرارت تھی
ہوس نے ان کے سینے میں کوئی فتنہ نہ پالا تھا
منور دید رس میں سادہ لوحی کا اجالا تھا
میں نوحہ گر نہیں ہوں اپنے ایام گذشتہ کا
پرستش میرا شیوہ کب رہا ہے عہد رفتہ کا
مگر جس بے ریا تہذیب سے منہ موڑ ژئے ہیں
وہ دنیا خود شناسی کی جو پیچھے چھوڑ آئے ہیں
ادھر الٹے قدم چلنے سے حاصل کچھ نہیں ہو گا
مگر ہم ان کی آب و تاب کو بھی یاد تو رکھیں
خیال و خواب کو اس نور سے آباد تو رکھیں
٭٭٭
رخصتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدری کی رخصتی ہے
اس کی ڈولی سج رہی ہے
دکھ میں ڈوبی شام
قدموں سے لگی ہے
بھیگی پلکوں سے
اجازت چاہتی ہے
حیدری کی رخصتی ہے
وہ پرائی ہو چکی ہے
کوئی دولہا ہے
نہ ہے کوئی براتی
دعوتی رقعہ نہ
کچھ مہماں نوازی
گیت گاتی لڑکیاں ہیں
اور نہ کوئی سرخ جوڑا
شوخیاں ہیں اور نہ چہلیں
حیدری کی رخصتی ہے
اس کو آنگن میں نہایا جا رہا ہے
دادی اماں رو رہی ہیں
ہوش میں اماں نہیں ہیں
فرش پر بے سدھ پڑی ہیں
سوگواری کی فضا میں
اس کی ڈولی
اٹھ رہی ہے
گھر کے سارے لوگ
مردانے سے باہر
سست قدموں سے
رواں ہیں
کیسی ڈولی جا رہی ہے
ہر کوئی کاندھا بدلتا جا رہا ہے
قبر کھو دی جا چکی ہے
میں وہیں چھپ کر کھڑا ہوں
سر جھکا ئے دیکھتا ہوں
ہو گیا کیا سوچتا ہوں
٭٭٭
کھنڈر
————–
کھنڈر میں کون رہتا ہے
یہ افتادہ در و دیوار، چھت کا سر نگوں پیکر
یہ ویراں صحن میں اکھڑی ہو ئی اینٹیں
یہاں کیا ہے
چلے آتے ہو بے تابی سے لہراتے ہو ئے
مٹی کے ان بے جان تودوں سے گلے ملنے کی خاطر
کیوں؟
مرا ہمزاد مجھ سے پوچھتا رہتا ہے
اسے کیسے بتاؤں میں
کھنڈر کی گرد میںڈوبا بہت کچھ ہے
مرے عہد گذشتہ کا نشاں ہے ان فضاؤں میں
یہیں پل کر بڑھا ہوں میں
یہاں ان زندہ روحوں سے
گلے ملتا ہوں جو مجھ میں ہمیشہ سانس لیتی ہیں
انہیں چلتے ہوئے پھرتے ہوئے میں دیکھتا ہوں
ان کی آوازیں بھی سنتا ہوں
شکایت سے بھرا لہجہ کہ تم اتنے دنوں کے بعد آئے ہو
ندامت سے مجھے دو چار کرتا ہے
٭٭٭