کوٹھی کے آہنی گیٹ کی کھڑکی میں اندر قدم رکھتے ہی اسے سلمان کی گاڑی نظر آ گئی۔ اس کی رگوں میں جیسے سنسنی سی دوڑ گئی۔ کئی ہفتوں کی منصوبہ بندی حقیقت کا روپ دھارنے لگی تو اسے خوف محسوس ہوا اوراس کے قدم ڈگمگانے لگے لیکن یہ کیفیت صرف چند لمحوں کی تھی۔
اس نے سر جھٹکا اور پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھی۔ پورچ عبور کر کے رہائشی عمارت کے قریب پہنچی تو سلمان دروازے سے باہر نکل رہا تھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرادی۔ سلمان جو اس کی غیر متوقع آمد پر گڑبڑا سا گیا تھا، سکون کا سانس بھر کر مسکرایا۔
کہیں جا رہے تھے کیا۔۔ ۔۔؟ اس کے انداز میں مایوسی کی جھلک تھی۔
ناٹ اینی مورnot any more) ) آؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ سلمان نے اسے راستہ دیا۔ اس کی آنکھوں میں ہوس کی چمک عود کر آئی تھی۔
دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔
لگتا ہے کالج سے آ رہی ہو؟ سلمان کا انداز استفہامیہ تھا۔
ہاں کالج سے سیدھا ادھر ہی آئی ہوں اس امید پر کہ تم گھر میں مل جاؤ گے، اس نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
دوبئی کی فلائٹ کب ہے؟ اس نے سلمان کو بولنے کا موقع نہیں دیا۔
پرسوں صبح کی فلائٹ ہے۔ کیا لاؤں تمھارے لئے؟ سلمان کا انداز رومینٹک تھا۔
سرپرائز می ( surprise me)۔۔ ۔۔ ۔۔ اس نے بھی ادائے دلربائی کے ساتھ جواب دیا۔
اوو کے۔۔ ۔ اِٹس اے ڈیل (it’s a deal )۔۔ ۔۔ ۔ اس کے رویئے سے سلمان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے آگے بڑھ کراسے باہوں میں بھرنے کی کوشش کی لیکن گڑیا نے دونوں ہتھیلیاں اس کے سینے پر رکھ کر اسے روک دیا۔
بے صبرے نہ بنو۔۔ ۔۔ نیچے چلو۔ میں چائے لے کر آتی ہوں۔ اس کے لہجے میں دعوت اور آنکھوں میں خمار تھا۔
اوکے۔۔ ۔۔ ۔ سلمان نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں دونوں ہاتھ ہوا میں لہرائے اور مسکراتے ہوئے تہہ خانے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
کچن کی طرف جاتے ہوئے اسے اپنی بے خوفی کے ساتھ ساتھ اپنی اداکاری پر بھی حیرت ہو رہی تھی۔
چائے بنانے کے دوران نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تین ماہ پیچھے چلی گئی۔
یہ کیسا عجیب اتفاق تھا کہ وہ بھی بدھ کا دن تھا اور یہی وقت تھا۔ اس دن بھی وہ کالج سے آئی تھی اور اس دن بھی سلمان گھر میں اکیلا تھا۔ اس دن بھی اس نے چائے بنائی تھی لیکن سلمان کی خواہش پر۔ آج بھی وہ چائے بنا رہی تھی لیکن اپنی ضرورت کے لئے۔
بدھ کا وہ دن اس کی انیس سالہ زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جسے وہ تا دم مرگ نہیں بھلا سکتی تھی۔ اس دن سلمان نے اس کی زندگی اندھیر کر دی تھی۔
آج وہ سلمان کی دنیا تاریک کرنے والی تھی۔
وہ اسی گھر میں پلی بڑھی تھی اور اس کے مکین اس کی اپنی فیملی ہی کی طرح تھے۔
باپ کی اچانک موت کے بعد سال بھر میں جمع پونجی ختم ہونے لگی تو ماں نے ایک بڑے آدمی کے ہاں رسوئی سمبھالنے کی نوکری کر لی تھی۔ اس وقت وہ چار برس کی تھی۔
منور صاحب ملک کی بڑی سیاسی شخصیت تھے اور ان کی محل نما کوٹھی میں آئے دن دعوتیں ہوتی رہتی تھیں ایسے موقعوں پر سارا دن کام کرنا پڑتا تو ماں اسے سکول کے بعد وہیں لے جاتی تھی۔ وہ بچوں کے ساتھ مل کر خوب اودھم مچاتی اور ماں کو ذرا بھی تنگ نہ کرتی۔ ماں بھی مطمئن رہتی کہ بیٹی آنکھوں کے سامنے ہوتی۔
ماں نے اس کی پرورش روایات سے ہٹ کر بلکہ ان سے بغاوت کر کے کی تھی اور اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی تھی۔ اسے بلا امتیاز لڑکے لڑکیاں سب کے ساتھ گھل مل کر کھیلنے کی کھلی چھٹی تھی۔ چھوٹے بال رکھنے کی عادت بھی اسے لڑکوں کی صحبت میں پڑی تھی۔ بوائے کٹ اب اس کی شخصیت کا حصّہ بن چکا تھا اورجس پر ماں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس طرح کے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھنے کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں بلا کی خود اعتمادی اور جرات مندانہ بے باکی پیدا ہو گئی تھی۔ اور اب جب کہ وہ انیس برس کی ایک خوبصورت دوشیزہ تھی اس کی شخصیت میں نسوانی نزاکت اور فطری معصومیت کے ساتھ ساتھ مردانہ دلیری اور جسارت بھی رچ بس گئی تھی۔
دوسال پہلے کالج میں داخلہ ملتے ہی اسے سلمان بھائی کے دو بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا کام مل گیا تھا جس سے اس کا کالج کا کچھ خرچہ نکل آتا تھا۔ منور صاحب کے دو ہی اولادیں تھیں، سلمان بھائی اور صائمہ۔
سلمان کے دونوں بچے جو ابھی کے ۔ جی اور پہلی کلاس میں تھے، اس کے ساتھ مانوس تھے۔ وہ صبح کالج چلی جاتی اور ماں منور صاحب کے ہاں نوکری پر۔ جس وقت ماں کام سے فارغ ہو کر گھر جاتی اسی وقت وہ کالج سے فارغ ہو کر ٹیوشن پڑھانے پہنچ جاتی۔
اس بدھ کو بھی وہ معمول کے مطابق ٹیوشن پڑھانے پہنچی تھی۔۔
منور صاحب کا شمار ملک کے سینئر اور تجربہ کار سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا اور ان کے ہاں ملاقاتیوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ ان کی کوٹھی کے باہر اکثر و بیشتر دو تین گاڑیاں نظر آتیں لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے خاموشی تھی کہ منور صاحب معہ بیگم ملک سے باہر تھے۔
وہ مین گیٹ میں داخل ہوئی تو گارڈ نے اسے بتا دیا تھا کہ چھوٹی بیگم اور بچے تھوڑی دیر پہلے باہر گئے تھے۔ پہلے معلوم ہوتا تو ادھر آنے کی زحمت سے بچ جاتی۔ کتنا وقت ضائع ہو گیا۔ اس نے تاسف سے سوچا تھا۔ لیکن ابھی وہ مڑ کر واپس جانے والی تھی کہ گیٹ میں سلمان کی گاڑی داخل ہوئی۔ وہ رک گئی۔ پھر جتنی دیر میں سلمان پورچ میں گاڑی پارک کر کے باہر نکلا وہ بھی پورچ میں پہنچ چکی تھی۔
سوری گڑیا۔۔ ۔۔ ۔۔ میں تمہیں اطلاع دینا بھول گیا کہ مہوش اور بچے نانی کے گھر گئے ہیں۔ اسے دیکھتے ہی سلمان نے معذرت کی۔
اس کو غصّہ تو تھا لیکن پھر سلمان کی معذرت پر اس نے درگزر سے کام لیا۔
چلو۔۔ ۔۔ معاف کیا۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو سلمان بھی مسکرایا۔
اچھا اب آ ہی گئی ہو تو ایک کپ چائے ہی پلا دو۔ سر میں شدید درد ہے۔۔ ۔۔ سلمان نے لجاجت بھرے لہجے میں کہا تو وہ مان گئی۔
اسی بہانے وہ بھی ایک کپ چائے پی لے گی۔۔ ۔۔ یہ سوچتے ہوئے وہ سلمان کے پیچھے پیچھے عمارت کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی۔
گڑیا۔۔ ۔۔ میں کپڑے بدل کر بیس منٹ (Basement) میں جا رہا ہوں، چائے وہیں لے آنا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے آواز دے کر اسے اطلاع دی۔
او کے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس نے مختصر جواب دیا اور باورچی خانے کی جانب بڑھ گئی۔
گھر کی بیس منٹ سلمان، بچوں اور خود اس کی بھی پسندیدہ جگہ تھی کہ اس میں دنیا بھر کی گیمز اور انٹر ٹینمنٹ کا سامان موجود تھا۔
سلمان اس سے عمر میں دس سال بڑا تھا۔ چھوٹی سی جب ماں کے ساتھ آتی تھی تو سارا سارا دن اس کے اور اس کی بہن صائمہ جو بھائی سے آٹھ برس چھوٹی تھی کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ دونوں کے ساتھ اس کی مانوس بے تکلفی تھی۔ صائمہ تو کب کی شادی کر کے بیرون ملک جا چکی تھی۔ اس کے جانے کے بعد گھر سونا پڑ گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی سلمان کو شادی کرنا پڑی تھی۔ یہ شادی اس کے لئے نیک فال ثابت ہوئی۔ بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین تھی۔ تھوڑے عرصے میں اس نے سلمان کو اوباش رئیس زادوں کی صحبت سے دور کر دیا۔ سسر نے اپنے ساتھ کاروبار میں لگا دیا۔ اب وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا۔
اس دن چائے کے دو کپ اور بسکٹ ٹرے میں سجا کر وہ نیچے بیس منٹ میں پہنچی تو سلمان ریموٹ لئے ٹی وی چینل بدل رہا تھا۔ ٹرے ٹیبل پر رکھ کر وہ اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔۔ ۔۔ سلمان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
رات کو نیند پوری نہیں ہوئی۔۔ ۔۔ اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے تھکی تھکی آواز میں کہا
اس عمر میں نیند نہ آئے تو شادی کر لینا چاہیے۔۔ ۔۔ ۔۔ سلمان نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا
اسنے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی تھی۔
چند لمحے دونوں کے درمیان خاموشی رہی اور دونوں کی نظریں ٹی وی سکرین پر رہیں۔
امی ابو نے جلد بازی سے کام لیا ورنہ میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سلمان خود کلامی کے سے انداز سے بولا۔
سلمان بھائی۔۔ ۔۔ ۔۔ اس نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
یہ مذاق نہیں۔۔ ۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ چائے کا کپ ٹیبل پر دھرتے ہوئے سلمان نے کہا تو اسے غصہ آ گیا۔
لگتا ہے آج کچھ پی رکھا ہے تبھی یوں بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ اس کا لہجہ قدرے سخت تھا۔
تمہیں دیکھ کر تو ویسے ہی نشہ چڑھ جاتا ہے۔ سلمان نے اس کے لہجے کی پرواہ کئے بغیر کہا تو وہ ایکدم سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اب میرا یہاں رکنا مناسب نہیں۔۔ ۔۔ کہتے ہوئے اس نے قدم اٹھائے تو سلمان بھی کھڑا ہو گیا۔
ناراض کیوں ہوتی ہو گڑیا۔۔ ۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا، سلمان نے آگے بڑھ کر اسے دونوں کندھوں سے پکڑا تو وہ مزید بپھر گئی۔
ڈونٹ یو ڈیر ٹچ می (don’t you dare touch me) اس نے سلمان کے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے غصے میں کہا تو سلمان جیسے ہتھے ہی سے اکھڑ گیا اور اس کی نازک کلائیوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لے کر اس کی کمر کے پیچھے مروڑ دیا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔
سلمان بھائی۔۔ ۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو، چھوڑیں۔۔ ۔۔ ۔ میری کلائیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ سلمان کی اس بے باک حرکت پر وہ تلملا اٹھی اور اس کی چیخیں نکل گئیں۔
لیکن سلمان کے سر پر شیطان سوار ہو چکا تھا۔ اسنے گڑیا کو اسی طرح سینے سے بھینچتے ہوئے اٹھایا اور صوفے پر پٹخ دیا۔ سلمان کی گرفت سے نکلتے ہی اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی لیکن چھ فٹ لمبے اور ڈھائی سو پونڈ وزنی مرد کا جسم اس کے اوپر گرا تو وہ ہلنے کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔ اس کی چیخ پکار تہہ خانے کے اندر ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ پھر جب وہ اٹھنے کے قابل ہوئی تو کسی قابل نہیں رہی تھی۔
اس دن وہ گھر واپس کیسے پہنچی تھی۔۔ ۔۔ اسے یاد نہیں لیکن اپنے کمرے میں پہنچتے ہی وہ شاور میں گھس گئی تھی اور ایک لمبی شاور لیتے ہوئے وہ اس قدر روئی کہ اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ رات بھر بخار میں جلتی رہی۔ ماں اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتی تھی لیکن اس نے ماں کو یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ اس کی دائمی الرجی اور موسمی وائرس نے مل کر اسے ادھ موا کر دیا تھا۔ لیکن اسے ماں کے گھریلو ٹوٹکوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔
اگلے دو دن وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔ اپنے اوپر گزرے سانحے کو یاد کر کر کے کبھی روتی اور کبھی خاموش سر گھٹنوں میں دیئے سوچتی کہ اب کیا ہو گا۔ سلمان نے اس کی اناء کو چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ ہو گئی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسے بھرے بازار میں ننگا کر دیا ہو۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کس سے فریاد کرے۔
کیا اسے ماں کو بتا دینا چاہیئے یا منور صاحب کی واپسی کا انتظار کرے اور انھیں بتائے یا پھر پولیس میں رپورٹ لکھوائے۔ وہ ساری رات انہی باتوں پر غور کرتی رہی لیکن کسی ایک بات پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکی تھی۔ منور صاحب گو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خدا ترس انسان تھے لیکن سلمان ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بیٹے کا جیل جانا انھیں کبھی گوارا نہ ہوتا اور پھر اپنے نام اور عزت کی نیلامی بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ بلکہ بہت ممکن تھا کہ وہ خود اسے ہی خریدنے کی کوشش کرتے اور اسے خاموش رہنے کی تلقین کرتے۔ اور اگر وہ خود پولیس میں رپورٹ درج کرواتی تو تب بھی اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کا امکان نہیں تھا کہ منور صاحب بڑے طاقتور اور با اثر سیاست دان تھے۔ اسے ایسے کئی واقعات یاد آئے جب با اثر لوگوں کے ہاتھوں ریپ (rape) ہونے والی غریب لڑکیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا الٹا انہی مظلوموں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی صدمے سے پاگل ہو گئی اور کسی نے سر عام خود سوزی کر کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ قصور شہر میں سیکڑوں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات بھی ابھی اس کے ذہن میں تازہ تھے۔
لیکن وہ جو دوسروں کی حق تلفی پر بپھر جاتی اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش کیسے بیٹھ سکتی تھی۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کر سکتی تھی۔
اسی کشمکش میں اس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔
وہ سارا دن بھی وہ برائے نام ہی سوئی۔ ذرا آنکھ لگتی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی۔ سر تھا کہ درد کے مارے پھٹا جا رہا تھا۔ شام ہوتے ہی اس کی بے چینی و بے قراری مزید بڑھ گئی۔ اسے اپنے کمرے میں گھسے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ رات کو ماں گرم دودھ لائی تو دیر تک اس کے سرہانے بیٹھی اس کا سر دباتی رہی۔ ماں کی موجودگی میں اسے سکون رہا لیکن ماں کے جاتے ہی اس کی بے چینی پھر شروع ہو گئی اور وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ رک جاتی یوں جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گئی ہو لیکن پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے ٹہلنے لگتی۔
رات کا دوسرا پہر تھا جب وہ تھک ہار کر بستر پر دراز ہوئی تھی۔ سوچتے سوچتے شاید اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر تھی۔
اللہ جانے یہ خواب تھا یا اس کی سوچ، جو بھی تھا اسے خوف زدہ کر گیا تھا۔ سر جھٹک کر اس نے اس خیال کو ذہن سے نکالنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ اس نے زبردستی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی غیر مرئی قوت اسے یہ آئیڈیا قبول کرنے پر اکسا رہی ہو۔ جس قدر اس نے مزاحمت کی، اسی قدر وہ آئیڈیا اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوتا گیا۔ اور پھر صبح پو پھٹنے سے پہلے نہ صرف یہ کہ وہ دلی اور ذہنی طور پراس آئیڈئیے کو قبول کر چکی تھی بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی بھی کر چکی تھی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلمان ایسی ہی سزا کا مستحق تھا۔ یہ فیصلہ کرتے ہی اسے گہری طمانیت کا احساس ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ گہری نیند سو گئی تھی۔
گزشتہ ڈھائی تین ماہ سے وہ اسی دن کی منصوبہ بندی کرتی رہی۔ ٹیوشن پر تو اس نے تیسرے دن ہی سے جانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو نارمل دکھانا چاہتی تھی۔
سلمان مہینہ بھر اس سے کتراتا رہا اور کبھی اتفاق سے آمنا سامنا ہوا بھی تو اس سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ کی اور حیلے بہانے سے پہلو بچاتا رہا۔ پھر ایک دن اچانک ان کی آنکھیں چار ہوئیں تو گڑیا مسکرا دی۔ یہ سلمان کے لئے بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ دونوں کے درمیان برف پگھلی اور پھر ہفتے بھر میں نہ صرف یہ کہ سلمان نے اس سے آنکھیں چرانا بند کر دیا بلکہ ایک آدھ بات بھی کر لیتا۔ پھر مزید ایک مہینہ گزرا تو دونوں کے درمیان پہلے والے تعلقات بحال ہو چکے تھے۔
اتنے عرصے میں وہ گاہے گاہے اپنے اندر اٹھنے والے خوف اور وسوسوں پر بھی مکمل طور پر حاوی ہو چکی تھی۔ اب اسے صرف انتظار تھا تو اس سنہری موقعے کا جب وہ اپنے منصوبے کو عملی جامعہ پہنا سکتی تھی۔
اور پھر اس سانحے کے لگ بھگ تین ماہ بعد اسے وہ موقع میسر آ گیا۔ منور صاحب مع اپنی بیگم، بہو اور بچوں کے ایک شادی میں شرکت کے لئے دوبئی سدھارے۔ سلمان ایک میٹنگ کے سلسلے میں دو دنوں کے لئے رک گیا تھا۔ یہ اس کے لئے بہترین موقع تھا۔
آج وہ اسی منصوبے کی تکمیل کے لئے یہاں موجود تھی۔
چائے کا ٹرے اٹھانے سے پہلے اس نے اپنا پرس کھول کر اندر کا جائزہ لیا اور پھر پرس کندھے پر لٹکا کر اس نے ٹرے اٹھایا اور بیس منٹ کی سڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
سلمان حسب معمول ٹی وی ریموٹ کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اسے آتے دیکھ کر مسکرایا اور صوفے پر ایک طرف ہو کر گویا اسے اپنے قریب بیٹھنے کی دعوت دی۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی اور صوفے پر اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ٹرے کافی ٹیبل پر سجا کر اس نے سلمان کا مخصوص چائے کا مگ اس کے آگے رکھا اور اپنا کپ اپنے قریب کر لیا۔ بسکٹ کی پلیٹ بھی اس نے سلمان کے قریب رکھی۔
چند لمحے ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی جو خاصی عجیب اور تکلیف دہ تھی۔ گڑیا نے اس خاموشی کو اپنا کپ اٹھا کر توڑا۔
مجھے اس وقت چائے کی شدید طلب ہو رہی ہے۔ اس نے سلمان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
طلب تو مجھے بھی ہے۔۔ ۔ کہتے ہوئے سلمان نے بھی اپنا مگ اٹھایا۔
چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں خاموشی سے ٹی وی کی سکرین کو گھورتے رہے۔ خاموشی کے یہ چند منٹ گڑیا کو نروس کر رہے تھے۔ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ چائے کا کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے وہ اٹھی۔
میں ذرا ریفریش ہوتی ہوں۔ تم اتنی دیر میں جلدی سے چائے ختم کر لو۔۔ ۔ کہتے ہوئے اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔
سلمان کو گڑیا کا کھلی دعوت دینے والا یہ انداز بہت بھایا اور وہ جلدی جلدی چائے کے گھونٹ لینے لگا۔
گڑیا پورے دس منٹ کے بعد باہر نکلی تو سلمان صوفے پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ اس کی گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوئی تھی۔
گڈ۔۔ ۔۔ گولی نے کام دکھایا۔ گڑیا نے سوچا
قریب آ کر اس نے سلمان کو پکارا۔ اس کے گالوں کو تھپتھپایا۔
سلمان بے ہوش ہو چکا تھا۔
گڑیا نے پرس کھول کر اس میں سے تیز دھار استرا نکالا۔ ربر کے دستانے نکال کر پہنے۔ اور پھر اوپر کچن سے لائی ہوئی پلاسٹک کی ایپرن پہنی۔
دل مضبوط کر کے اس نے قدم اٹھایا۔ ہاتھ آگے بڑھائے تواس کے دونوں ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ اس وقت اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ خوفزدہ بھی تھی لیکن اس نے ہاتھ بھی نہیں روکا اور یونہی روتے ہوئے اس نے کام تمام کیا۔
فارغ ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے باتھ روم میں جا کر خون میں لتھڑا استرا بڑی احتیاط کے ساتھ دھویا۔ پھر خون میں لت پت دستانے دھوئے۔ ایپرن پر سے خون کی چھینٹیں صاف کیں۔ استرا اور دستانے اپنے پرس میں رکھے اور باہر نکل آئی۔ ایپرن اتار کر اس نے وہی چھوڑ دی تھی۔ سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ایک اچٹتی سی نظر سلمان پر ڈالی۔
صوفے کے ساتھ جڑی کافی ٹیبل پر رکھی پلیٹ میں دھری سلمان کی مردانگی اس کے ہوش میں آنے کی منتظر تھی۔ وہ جلدی سی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
٭٭٭