کتاب: تخلیقی زاویے
مصنف : پروفیسر علم الدین غازی
مثال پبلشرز، فیصل آباد
سال اشاعت 2017
پروفیسر غازی علم الدین اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علم و ادب کے عام قاری کو اس مر دِ خود آگاہ کی تہہ دار شخصیت کے اسرار تک رسائی میں کئی سخت مقام آتے ہیں۔ ادیانِ عالم اور تاریخ سے وابستہ دانش ور اسے اپنے معدن کا گنج گراں مایہ مانتے ہیں۔ پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کا اصرار ہے کہ یہ ارض وطن اور اہلِ وطن کا دلدادہ ہے جب کہ عالمی ادبیات کے محققین کی متفقہ رائے ہے کہ آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری میں ہر جادہ پر اس کا خانوادہ موجود ہے جو تخلیق ادب میں اس کا بلند ارادہ سامنے لاتا ہے۔ ماہرین لسانیات و صوتیات اس بات پر نازاں ہیں یہ ان کا ہم نوا ہے، گرامر کے ماہرین اسے اپنے قبیلے کا فرد سمجھتے ہیں جب کہ تحقیق و تنقید میں دلچسپی رکھنے والے اسے اپنے میدان کا مرد تسلیم کر کے اس کی تقلید کو لائق صد افتخار قرار دیتے ہیں، علوم شرقیہ میں دلچسپی رکھنے والے اس کے افکار کو خضر راہ قرار دیتے ہیں۔ اسلامیات، عالمی ادبیات، علم بشریات، نفسیات، تاریخ، فلسفہ، سماجی سائنسز، تعلیم و تعلم، سیاسیات اور عمرانیات کے شعبوں میں اس نابغۂ روزگار فاضل کی کامرانیوں کا ایک عالم معترف ہے۔ اس قدر مقبولیت اور پذیرائی کے باوجود پروفیسر غازی علم الدین کے عجز و انکسار کا یہ حال ہے کہ کبھی اپنے بارے کسی زعم کا شکار نہ ہوئے۔ تخلیق ادب میں انھوں نے نظم اور نثر کی ہر صنف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس وقیع تصنیف میں شامل حصہ ’ شخصی مطالعے ‘مصنف کے ذوق سلیم کا آئینہ دار ہے۔ یہ شخصی مطالعے نہایت دلچسپ شخصی خاکوں پر مشتمل ہیں جن میں زیر بحث شخصیت کی زندگی کے سب اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اردو نثر میں خاکہ نگاری میں مصنف کی دلچسپی قابل قدر ہے۔ اپنی محبوب شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت وہ حقائق کی اس انداز میں گرہ کشائی کرتے ہیں کہ شخصیت قاری سے ہم کلام ہو جاتی ہے۔ شخصیات کا یہ احوال ان کی معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے پڑھ کر قاری شخصیت کی غواصی کر کے اس کی زندگی کے سب راز جان لیتا ہے اور اس کی خداداد صلاحیتوں، محاسن اور معائب کا احوال پڑھ کر اش اش کر اُٹھتا ہے۔
اردو ادب میں خاکہ نگاری کے ابتدائی دھندلے نقوش قدیم تذکروں میں ملتے ہیں جن میں تذکرہ نگاروں نے معاصر تخلیق کاروں کی زندگی کے حالات، معمولات اور نشیب و فراز کو موضوع بنایا ہے۔ قدیم زمانے کے تخلیق کار اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت اپنی تخلیقات پر مشتمل اپنی بیاض مرتب کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ معاصر ادیبوں کی زندگی اور تخلیقی فعالیت کے بارے میں بھی اپنے تاثرات کو زیب قرطاس کرتے تھے۔ بادی النظر میں تذکروں کے سوتے بیاض ہی سے پھوٹے ہیں۔ فارسی تذکرہ ’لباب الالباب‘ (۶۱۸ ہجری) ہو یا میر تقی میرؔ کا ’نکات الشعرا ‘ (۱۷۵۲ عیسوی) سب تذکروں میں شخصیت نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ اردو زبان میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش محمد حسین آزادؔ (۱۸۳۰۔ ۱۹۱۰) کی تصنیف ’ آبِ حیات ‘میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں محمد حسین آزادؔ نے اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں کے حالاتِ زندگی اور ان کے اسلوب پر روشنی ڈالی ہے۔ محمد حسین آزادؔ نے انشا پردازی کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنے عہد کی نامور ادبی شخصیات کی لفظی مرقع نگاری کا وہ معیار پیش کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس عالمِ آب و گِل کی تاب و تواں، زندگی کی حقیقی معنویت، سوانحی معائر، تنقید و تحقیق، تخلیقی محرکات، معاصر ادبی رجحانات اور شخصیت کے ورق ناخواندہ کے بارے میں آگہی سے لبریز یہ سوانحی تحریریں اس تخلیقی شعور سے متمتع تھیں جو مستقبل میں خاکہ نگاری کے لیے قابلِ قدر دستور العمل ٹھہرا۔ محمد حسین آزادؔ کے بعد مرزا فرحت اللہ بیگ (۱۸۸۳۔ ۱۹۴۷) نے اپنی گل افشانی گفتار سے خاکہ نگاری کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ سوانح نگاری اور خاکہ نگاری کے حوالے سے مرزا فرحت اللہ بیگ کی تصنیف ’ مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی ‘منفرد اسلوب کی حامل ہے۔ اردو زبان میں خاکہ نگاری کے فروغ میں جن ممتاز ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ان میں سید عابد حسین، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، اور محمد طفیل کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پروفیسر غازی علم الدین نے ’’شخصی مطالعے‘‘ کے عنوان سے اپنے جن معاصرین کے سوانحی خاکے لکھے ہیں ان میں سیف اللہ خالد، خیال آفاقی، رؤف خیر، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر ماجد دیوبندی، ڈاکٹر شکیل اوجؔ، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر اور منیر احمد یزدانی شامل ہیں۔
پر وفیسر غازی علم الدین نے اردو تنقید و تحقیق کو تخلیق کا جو رنگ و آہنگ عطا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سال 2017 کے وسط میں دو سو چھہتر (276) صفحات پر مشتمل ان کی نئی کتاب ’تخلیقی زاویے‘ شائع ہوئی ہے جس کا دھنک رنگ منظر نامہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر معین الدین عقیل اور پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کے پیش لفظ شامل ہیں۔ یہ کتاب چار حصوں، شخصی مطالعے، نقد و نظر، زبان و ادب اور رُو برو پر مشتمل ہے۔ شخصی مطالعے کے تحت آٹھ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ نقد و نظر کے تحت پندرہ مضامین کو کتاب میں جگہ ملی ہے۔ زبان و ادب کے عنوان سے پانچ مضامین اس کتاب کی زینت بنے ہیں۔ کتاب کے آخر میں رُو برو کے عنوان سے پروفیسر غازی علم الدین کے دو انٹرویو موجود ہیں۔ پروفیسر غازی علم الدین نے اپنی اس کتاب میں ’’اردو اشعار: منسوبات اور صحت متن کے مسائل‘‘ پر خوب دادِ تحقیق دی ہے۔ شعر و ادب میں تحقیق کی غیر محتاط روش اور تہی دامنی کیا گُل کھِلا رہی ہے اس کی متعدد مثالیں اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ایک زیرک، فعال اور مستعد محقق کی حیثیت سے مصنف نے ثبوت اور تنقید کی روشنی میں تاریخ ادب سے وابستہ حقائق کی گرہ کشائی کی جوسعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے متعدد ادبی اور لسانی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان میں مطالعۂ ادب میں در آنے والے غلط اشعار کا تذکرہ افادیت سے لبریز ہے۔ لائق محقق نے مثالوں کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ روّیہ صحت مند تحقیق کی راہ میں سد سکندی بن کر حائل ہو رہا ہے۔ سید صادق حسین شاہ صادقؔ سیالکوٹی (1898-1989) کا یہ شعر نامعلوم کن وجوہات کی بنا پر کچھ لوگوں نے علامہ محمد اقبال سے منسوب کر رکھا ہے۔
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
پروفیسر غازی علم الدین نے اپنے اس مضمون میں سید صادق حسین شاہ صادقؔ سیالکوٹی کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور تخلیق کار کی پوری غزل بھی پیش کر دی ہے۔ اس طرح تخلیق ادب سے متعلق وہ تمام حقائق جو ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے تھے سامنے آ گئے ہیں۔ اشعار کے غلط تلفظ، غلط لہجہ، کج بحثیوں اور املا کی اغلاط پر محقق نے نہایت صراحت اورفراست سے تحقیق کی اساس پر استوار اپنا واضح موقف پیش کیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے طالب علم کی حیثیت سے بعض اشعار کی غلط بخشیوں کے سلسلے میں میرے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
نامور محقق نصیر الدین ہاشمی (1895-1964) نے اپنی کتاب ’ دکن میں اردو ‘ میں درج ذیل غزل غواصیؔ کی تخلیق بتائی ہے جس کے مطلع اور مقطع سے اس قدیم ترین تخلیق کے بارے میں تمام صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔ تخلیق ادب میں اجتماعی مواد اور انفرادی اسلوب کے شائقین کے لیے ار دو زبان کے کلاسیکی شعرا کے کلام کا یہ تقابلی مطالعہ حیرت و استعجاب کے نئے در وا کرے گا:
پیا بِن پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تِل جیا جائے نا
غواصیؔ نہ دے توں دیوانے کوں پند
دیوانے کوں پند دیا جائے نا (1)
اردو زبان کے ممتاز نقاد اور محقق سید احتشام حسین (1912-1972) کی سال 1922 میں شائع ہونے والی کتاب دکن میں اردو بہت مقبول ہوئی۔ محقق کی کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ کے مطابق محولہ بالا غزل قلی قطب شاہ کی تخلیق ہے۔ ذیل میں اس غزل کے مطلع اور مقطع سے حقیقت واضح ہو جائے گی اور زمانہ ماضی کے ذہن اور شعور کو حقیقی تناظر میں دیکھنے کی صورت پیدا ہو گی۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مجھ دوانے کو پند
دوانے کو کچھ پند دیا جائے نا (2)
ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کی جلد اوّل میں درج ذیل شعر قلی قطب شاہ کی تخلیق قرار دیا گیا ہے:
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج ایک پل جیا جائے نا (3)
جب اردو زبان و ادب کا ایک عام طالب علم سرابوں کے اس نوعیت کے عذابوں سے گزرتا ہے تو وہ خامہ انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا لکھا جائے اور ناطقہ سر بہ گریباں دکھائی دیتا ہے کہ ایسے موضوعات کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے۔
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن سے شمالی ہند کی جانب ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے سیر و سیاحت کی غرض سے اپنے جس پہلے ادبی سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوقِ سلیم سے متمتع باشندوں، علم دوست، ادب پرور اور جو ہر شناس حلقوں کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا موثر ترین وسیلہ بن گیا۔ مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کے افق سے طلوع ہونے والے اس نیّر تاباں نے فکر و خیال کو جو تابانی عطا کی وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ولیؔ نے واضح کیا کہ عشق کا تیر ایسا کاری ہوتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والا زندگی سے بیزار ہو جاتا ہے۔ اپنے دامن میں یقین، عزم، محبت، وفا، اتفاق، دوستی، یگانگت، خلوص، مروّت اور عجز و انکسار کے گل ہائے رنگ رنگ لیے ولیؔ جب پہلی مرتبہ 1700 میں دہلی پہنچا تواس کے خیالات سے شمالی ہند کے ادیبوں کا قریۂ جاں مہک اُٹھا۔ دکن سے دہلی کی جانب ولیؔ کے اس یادگار سفر کے بعد سر زمینِ دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے اور معتبر ربط کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ دکنی زبان کے شعر و ادب میں سراپا نگاری، حیات و کائنات، قلب و روح، ارضیت و مادیت، انسانیت و روحانیت، اضافی حقیقت، دروں بینی، ورائے واقعیت، جذبات و احساسات کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی ادب کا ثمر ہے۔ تخلیق ادب اور اس کے لاشعوری محرکات پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ دکنی ادب میں رنگ، خوشبواورحسن و خوبی کے تمام استعارے جذبۂ عشق ہی کا ثمر ہیں۔ دہلی پہنچنے کے بعد ولیؔ نے یہاں کے معمر ادیب شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات کی۔ شاہ سعداللہ گلشن نے ولیؔ کو فارسی زبان کی کلاسیکی شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے اسلوب میں جگہ دینے کا مشورہ دیا۔ قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولیؔ نے اس مشورے پر عمل کیا۔ ولیؔ کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے دہلی کے سفر کے بعد برہان پور، احمد آباد، گجرات اور کئی اہم تاریخی مقامات کی سیاحت بھی کی۔ سیرو سیاحت کا یہ شوق ولیؔ کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ اپنے اس شوق کے بارے میں ولیؔ نے کہا تھا:
ع: ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
اس شوق نے ولیؔ کو نئے ماحول سے آشنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولیؔ کی شخصیت میں وسعت نظر، و سیع القلبی، خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر تعلقات اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مزید نمو ملی۔ دورانِ سفر متعدد مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ متعدد مسافر نواز احباب سے پڑا۔ اس کے اثرات ولیؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ ولیؔ کے لیے یہ سفر وسیلۂ ظفر ثابت ہوا۔ کئی تراکیب، محاورات، ضرب الامثال، تشبیہات، استعارات اور علامات کا تعلق سفر کے تجربات سے ہے۔ ان میں سفر، ہجرت، وصل، غربت، جدائی، یادیں، فراق، کرب، راحت، رخصت، گلگشتِ چمن، موجِ دریا، سیر صحرا، موج رفتار اور منزل شامل ہیں۔ ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دہلی شہر سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کی جو کیفیت ولیؔ کی شاعری میں موجود ہے وہ اسی سفر کا کرشمہ ہے۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ ولیؔ کے دِل میں دہلی کی محبت رچ بس گئی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر سیدہ جعفر نے دکن کے قدیم شاعر ولیؔ دکنی (عرصۂ حیات (1667-1707) سے منسوب اس شعر کو ولیؔ کی تخلیق تسلیم کرتے ہوئے اس قدیم تخلیق کار کی دہلی کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی پر محمول کیا ہے۔
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں (4)
ابو الکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رکن کی حیثیت سے سال 1995سے علمی و ادبی تحقیق کے فروغ کے لیے کوشاں بھارت سے تعلق رکھنے والی تینتیس (33) تحقیقی کتب کی مصنفہ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کی سابق صدر شعبہ اردو اور اپنے عہد کی ممتاز نقاد و محقق پروفیسر ڈاکٹر سیدہ جعفر (1934-2016) نے دکنی زبان و ادب پر اپنی وقیع تحقیق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ولیؔ دکنی نے سادات بارہہ کی مدد سے زندان سے رہا ہو کر اقتدار کے ایوان میں سبز قدم رکھنے والے دہلی کے مغل شاہ شطرنج اور نام نہاد شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا (عہد حکومت: 1719-1748) کو اس شعر کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ شہر دہلی کی محبت نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ہے کاش دہلی کا یہ مغل بادشاہ اسے افکار معیشت سے نجات دلا کر دہلی میں اس کے قیام کی کوئی پُر آسائش صورت پیدا کر دے۔ محمد شاہ رنگیلا کی کور مغزی، بے بصری، عیاشی، فحاشی اور عفونت سے تاریخ کے اوراق آلودہ ہیں۔ طوائفوں کے گرویدہ اس بد اندیش بادشاہ کی سفلگی کا یہ حال تھا کہ اس نے ایک گھوڑے کو ہندوستان کے وزیر کے منصب پر فائز کیا۔ مجلس وزرا کے اجلاس میں جس وقت یہ گھوڑا دو لتیاں جھاڑ کر گرد اُڑاتا تو رنگیلا بادشاہ اپنا گرد آلود لباس پہنے گھوڑے کے ساتھ مل کر خوب ہنہناتا تھا۔ اس کے ساتھ طوطا چشم ابن الوقت مارِ آستین، مشکوک نسب کے کینہ پرور حاسد، خوشامدی مسخرے، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے سفہا، اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے اجلاف و ارذال اور موقع پرست درباری بھڑوے بھی دُم ہلانے لگتے تھے۔ آخری عہد مغلیہ میں بر صغیر پر واسکوڈے گاما اور سسلین مافیا جس نے تاجر کا جامہ پہن رکھا تھا وہ سب اپنے مکر کی چالوں سے تاج ور بننے کی فکر میں تھے۔ مغلیہ خاندان کے رنگیلا جیسے خبیث خر اور شاہ بے خبر سے کسی بھلائی کی توقع ہی عبث تھی۔ محولہ بالا شعر میں اس عیاش بادشاہ سے ولیؔ دکنی کے مخاطب ہونے کے بارے میں مصنفہ نے معاصر محققین کے برعکس لفظ ’ چھین‘ کے بجائے لفظ ’ جِیت ‘ شامل کیا ہے مگراس تبدیلی کا کوئی حوالہ کہیں مذکور نہیں۔ شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ (1789-1854) کے شاگرد اور اردو کے عناصر خمسہ (سرسید، حالیؔ، شبلی، نذیر احمد، آزادؔ) میں شامل اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ ادیب، نقاد، محقق و انشا پرداز مولانا محمد حسین آزادؔ (1830-1910) نے اپنی کتاب’ آب حیات‘ میں ولیؔ دکنی کے بارے میں لکھا ہے:
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے اور بِکتا ہے۔
یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیا ہے۔ اس میں علاوہ ردیف وار غزلوں کے رباعیاں، قطعے، دو تین مخمس، قصیدے، ایک مثنوی، مختصر معرکۂ کربلا کے حال میں، ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے۔ واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔ اس فخر کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے، بادشاہ یا کسی امیر کی تعریف بھی نہیں۔ شاید خواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کو شان و شکوہ دیتے تھے چنانچہ ولیؔ کی تصنیفات میں سے ایک غزل میں کہتے ہیں:
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چھِین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (5)
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کاسال جلوس 1131 ہجری (1719 عیسوی) ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119 ہجری (1708 عیسوی) میں زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا۔ قاضی عبد الودود نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ
شعر ولیؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمونؔ کا ہے۔ اصل شعر اس طرح ہے:
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (6)
تاریخ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ولیؔ دکنی کی دہلی آمد سے قبل دکن کی زبان کو شمالی ہند میں تخلیقی سطح پر مقبولیت و استنادحاصل نہ تھا۔ ولیؔ دکنی کی دہلی آ مد کے بعد شمالی ہند میں بالعموم اور دہلی میں بالخصوص دکن میں بولی جانے والی زبان اور اس خطے میں تخلیق ہونے والے ادب کو لائق تحسین اور لائق تقلید سمجھا جانے لگا۔ دہلی میں مقیم ادب دوست حلقوں اور تخلیق کاروں نے ولیؔ دکنی کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی خوب پذیرائی کی۔ گمان ہے کہ اس عہد نا پرساں میں قحط الرجال کے لرزہ خیز و اعصاب شکن حالات میں دہلی کا حال بھی عجیب ہو رہا تھا اور یہ شہر کُوفے کے قریب ہو رہا تھا۔ جس شہر سنگ دِل میں میر تقی میرؔ جیسے نابغۂ روزگار شاعر خوارو زبوں پھرتے ہوں وہاں حساس تخلیق کاروں کے دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ دہلی میں پیہم شکستِ دِل کے باعث ہر سُو بے حسی کا عفریت منڈلا رہا تھا، وعدہ خلافوں اور وعدہ معافوں کی پانچوں گھی میں تھیں۔ قصرِ شاہی میں بُوم و شِپر، کرگس اور زاغ و زغن مستقل طور پر بسیرا کر چکے تھے۔ جب حالات اس قدر ابتر ہو جائیں کہ ہر مہم جُو، طالع آزما بو الہوس کی کرگسی نگاہیں لفافوں کے حصول پر مرکوز ہو جائیں تو مضمون کس شمار میں ہو گا۔ اسی کشمکش میں دِلِ زار سے آہ نکلی کہ اگر مضمونؔ نے اپنے اس شعر میں سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں اور مصائب کے گرداب میں پھنسی مغلیہ خاندان کے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کے فاتر العقل کھیون ہار مغلیہ خاندان کے بادشاہ رنگیلا کو داد رسی کے لیے پکارا ہے تو اس کی یہ فغاں صحرا کی آواز اور قبر کے غوغا کے مانند رائیگاں گئی ہو گی۔ شمالی ہند میں مقیم اس عہد کے جن ممتاز ادیبوں نے ولیؔ کے کلام کو بہ نظر تحسین دیکھا ان میں عبدالقادر بیدلؔ، مولوی خان فطرتؔ، نواب امید خان مغزؔ، نواب امیر خان عمدۃ الملک انجامؔ اور قزلباش خان اُمیدؔ شامل ہیں۔ حاتمؔ، مضمونؔ ، فغاںؔ ، آبروؔ اور فائزؔ جیسے شعرا نے بھی ولیؔ دکنی کی شاعری کی تعریف کی۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ ولیؔ دکنی نے آخری عہدِ مغلیہ کے رنگیلا حاکم کو مخاطب کر کے محولہ بالا شعر کہا تاریخی حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔
تحقیقی مطالعہ ایک محنت طلب، صبر آزما، غیر مختتم اور پیہم رواں عمل کا مظہر ہوتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک کتابی سلسلے ’استفسار‘ (اکتوبر 2017 تا مارچ 2018) کا مطالعہ کر رہا تھا۔ یہ ادبی سلسلہ معروف ادیب شین۔ کاف۔ نظام کی ادارت میں جے پور (بھارت) سے شائع ہوتا ہے۔ اس مجلے میں مدیر کا ایک مضمون ’ میرؔ کے دو شعر‘ بھی شامل ہے۔ اپنے اس مضمون میں لائق مدیر نے جن فکر پرور، خیال افروز اور حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور جن چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے ان کے اعجاز سے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ کی جستجو کے جذبات کو مہمیز کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ادبی تخلیقات کے استحسان کے لیے مستندمآخذ اور اغلاط سے پاک متن تک رسائی ناگزیر ہے۔ ہماری تحقیق کی محرومی اور المیہ یہ رہا ہے کہ جب سے تن آسانی، غیر محتاط اسلوب اور نمود و نمائش کو وتیرہ بنانے والے مرغانِ باد نما اور جامۂ ابو جہل میں ملبوس سسلین مافیا اور حشرات الادب نے گلشن علم و ادب کو تاراج کرنے کس سلسلہ شروع کیا ہے تحقیق بھی پشتارۂ اغلاط بن گئی ہے۔ شین کاف نظام نے متن کی تحقیق میں اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے ’میرؔ کے دو شعر‘ میں لکھا ہے کہ میر تقی میرؔ کا ایک شعر اپنے اصل متن کے مطابق یوں ہے:
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
میر تقی میرؔ کے مندرجہ بالا شعر کو متن کی غیر محتاط تحقیق کی بھینٹ چڑھانے والے محققین نے پہلے مصرع کو بلا جواز اور بلا استناد اس طرح بدل دیا کہ اس مُو شگافی پر خامہ انگشت بہ دنداں اور ناطقہ سر بہ گریباں رہ جاتا ہے۔ میر تقی میرؔ کے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’ کوئی نہ ‘ کے بجائے ’ آہستہ‘ شامل کرنا نہ صرف ذوقِ سلیم پر گراں ہے بل کہ تحقیقی اعتبار سے بھی محل نظر ہے۔
’سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو‘
میر تقی میرؔ کے اس شعر کا درست متن درج ذیل ہے۔ دوسرا مصرع ’ گلشنِ سخن ‘ میں بھی اسی طرح درج ہے۔
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی وہ روتے روتے سو گیا ہے (7)
دیوان میرؔ کا مخطوطہ (نسخہ محمود آباد) جو ڈاکٹر اکبر حیدری کے عالمانہ مقدمے کے ساتھ سری نگر سے سال 1973 میں شائع ہوا اس میں بھی یہ شعر درج ذیل صورت میں موجود ہے۔ یہ مخطوطہ میر تقی میرؔ کی زندگی میں ان کے وفادار اور خدمت گزار شاگرد موتی لال حیفؔ کے ہاتھ کی تحریر ہے۔ اس قدیم ترین مخطوطے کے بارے میں گمان ہے کہ یہ میر تقی میرؔ کی نظر سے بھی گزرا ہو گا۔ نواب مصطفی خان شیفتہؔ کے تذکرہ ’ گلشنِ بے خار‘ مطبوعہ لکھنؤ سال 1982 (8) اور کریم الدین نے ’طبقات شعرائے ہند ‘ میں میر تقی میرؔ کے اس شعر کا متن اس طرح لکھا ہے:
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
اردو زبان کے ممتاز مزاح نگار مرزا محمد رفیع سوداؔ نے جب یہ شعر سنا تو اُن کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور انھوں نے بے ساختہ اور طنزیہ انداز میں یہ کہا کہ یہ شعر میر تقی میرؔ کا نہیں بل کہ اس کی والدہ کا ہے۔ (9)کلیات میرؔ (نول کشور مطبوعہ 1874 طبع دوم) میں بھی یہ شعر محولہ بالا صورت میں درج ہے۔ اس کے علاوہ احتشام حسین اور انتخاب کلامِ میرؔ میں پروفیسر حامدی کاشمیری نے بھی نول کشور کے قدیم ترین دستیاب ایڈیشن اور کریم الدین سے اتفاق کرتے ہوئے اولین مآخذ پر انحصار کرتے ہوئے شعر کو مندرجہ بالا صورت ہی میں نقل کیا ہے۔ (10) اس سے تحقیق کی ثقاہت کا یقین ہو جاتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ’ انتخاب کلام میرؔ ‘میں میر تقی میرؔ کا مذکورہ بالا شعر اس طرح درج کیا ہے:
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے (11)
اپنے مضمون ’’میرؔ کے دو شعر ‘شین کاف نظام نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ نا معلوم کیوں مصحفیؔ کا درج ذیل شعر بھی میر تقی میرؔ سے منسوب کر دیا گیا ہے:
شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے
دِل ہے گویا چراغ مفلس کا
اپنی مستند صورت میں میر تقی میرؔ کا اصل شعر انتخاب کلام میرؔ مرتبہ حامدی کاشمیری (ساہتیہ اکادمی، دہلی 1992) اور مولوی عبدالحق کے مرتب کردہ انتخاب کلام میرؔ اور کلیاتِ میرؔ میں اس طرح ہے۔
شام سے کچھ بُجھا سا رہتا ہے
دِل ہوا ہے چراغ مفلس کا (12)
ادبی تحقیق کے لیے علمی فضیلت، فصاحت و بلاغت، ثقاہت، تحقیقی و تنقیدی اور علمی وات کی مظہر شال دل ربائی ناگزیر ہے۔ یہی وہ ارفع اوصاف ہیں جن کے اعجاز سے لمحۂ موجود میں دستیاب علمی و ادبی مواد اوردستیاب معلومات کے بارے میں راجح، ٹھوس اور قابل اعتماد نتائج کو منصۂ شہود پر لایا جاتا ہے۔ موضوعِ تحقیق کے بارے میں نظری، عملی اور فکری مباحث کو حرفِ صداقت کی کسوٹی پر دیانت داری سے پر کھنا محقق کا فرض منصبی ہے۔ اولین بنیادی مآخذ کو زادِ راہ بناتے ہوئے محقق ہمیشہ جہانِ تازہ تک رسائی کا آرزو مند رہتا ہے۔ بصیرت میر تقی میرؔ کے مذکورہ بالا اشعار کے مستند متن کو اردو زبان و ادب کے ذہین محققین سید جعفر طاہر، حاجی حافظ محمد حیات، مہر بشارت خان، اشفاق بخاری، کبیر انور جعفری، ارشاد گرامی، دیوان احمدالیاس نصیبؔ ، محمد فیروز شاہ، امیر اختر بھٹی، اسحاق ساقی، دانیال طریر، سیف زلفی، صاحب زادہ رفعت سلطان، علی سردار جعفری، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، غلام علی خان چینؔ، شفیع ہمدم، مظفر علی ظفرؔ ، ڈاکٹر بشیر سیفی، رحیم بخش شاہینؔ، احمد بخش ناصر، شوکت علی قمرؔ ، عطا شاد، گدا حسین افضل، اسماعیل صدیقی، خادم مگھیانوی، ذکیہ بدر، صابر آفاقی، صابر کلوروی، سمیع اللہ قریشی، میاں اقبال زخمی، حسرت کاس گنجوی، انعام الحق کوثر، عاشق حسین فائق اور ڈاکٹر صفدر آہؔ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے کلیات میرؔ کی ترتیب میں نہایت محنت سے کام لیا ہے۔ کتابی سلسلہ ’ استفسار‘ کے مدیر شین کاف نظام نے پروفیسر احتشام حسین کے مرتبہ کلیات میرؔ کو مستند سمجھتے ہوئے شعر کے اس متن سے اتفاق کیا ہے۔ پروفیسر احتشام حسین کے مرتبہ کلیات میر تقی میرؔ میں مندرجہ بالا شعر اس طرح درج ہے:
شام سے کچھ بُجھا سا رہتا ہوں
دِل ہوا ہے چراغ مفلس کا (13)
مشاہیر کے کلام میں تغیر و تبدل اور غیر محتاط مطالعہ اب روز کا معمول بن گیا ہے۔ میر تقی میرؔ کا ایک شعر بالعموم درج ذیل صورت میں لکھا جاتا ہے:
رہی نا گفتہ میرے دل میں داستاں میری
نہ اِس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
ممتاز محقق احمد بخش ناصرؔ نے دیوان میرؔ کے نسخہ محمود آباد (مرتبہ ڈاکٹر اکبر حیدری) کے حوالے سے لکھا ہے کہ ناگفتہ کے بجائے اصل متن میں نہفتہ درج ہے۔ اس شعر کا اصل متن اس طرح ہے:
رہی نہفتہ میرے دِل میں داستان میری
نہ اِس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری (14)
کتاب ’تخلیقی زاویے‘ میرے خیال میں اس قدر جامع ہے کہ اس میں تحقیق، تنقید، لسانیات، علم بشریات، عمرانیات، تاریخ، فلسفہ اور عالمی کلاسیک کے اہم موضوعات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کتاب کے تنقیدی اور تحقیقی حاشیے یہ ثابت کرتے ہیں کہ مصنف نے اسے قاری کے لیے قابل مطالعہ مواد کا حسین اور عطر بیز گل دستہ بنا دیا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت قاری ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس نے دھنک کے اس پار دیکھنے کی سعی کی ہے۔ یہی دھنک رنگ منظر نامہ اس کتاب کا وہ امتیازی وصف ہے جس کے معجز نما اثر سے اس کتاب کو قارئین کی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی ہے۔
٭٭
مآخذ
(1) نصیر الدین ہاشمی: دکن میں ارد و، حیدر آباد دکن، مکتبہ ابراہیمیہ، سال اشاعت 1936، صفحہ 71۔
(2) سید احتشام حسین: اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، دہلی، قومی کونسل برائے فروغ ارد و، 1999، صفحہ 36۔
(3) جمیل جالبی ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو، جلد اول، نئی دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٌس، طبع دوم، سال اشاعت، 1986 صفحہ 439۔
(4) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو، جلد اوّل، حیدر آباد، سال اشاعت 2012، صفحہ 2۔
(5) محمد حسین آزادؔ : آب حیات، لاہور، مطبع نول کشور، 1907، صفحہ 87۔
(6) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ، تحقیقات اُردو، نقش ثانی، 1984، صفحہ 2۔
(7) مردان علی خان مبتلاؔ لکھنوی: گلشن سخن (تذکرہ) مرتبہ سید مسعود حسین رضوی ادیبؔ، انجمن ترقیِ اردو (ہند) علی گڑھ، بارِ اول، 1965، صفحہ، 212۔
(8) نواب مصطفی خان شیفتہؔ: گلشنِ بے خار، اتر پردیش اردو اکیڈمی، لکھنو، 1982، صفحہ218۔
(9) کریم الدین: طبقات شعرائے ہند، اُتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، سال اشاعت، 1983، صفحہ، 120۔
(10) حامدی کاشمیری پروفیسر: انتخاب کلامِ میرؔ، ساہتیہ اکادمی، دہلی پہلا ایڈیشن، 1992، دیوان اول، غزل #477 صفحہ141۔
(11) مولوی عبدالحق: انتخابِ کلامِ میرؔ ، انجمن اردو پریس، اورنگ آباد (دکن) بار سوم 1926، صفحہ 129۔
(12) میر تقی میرؔ : کلیات میرؔ ، مطبع نول کشور لکھنو، بار دوم، 1874، غزل # 7 صفحہ، 46
(13) شین کاف نظام: ’’میرؔ کے دو شعر ‘مضمون مشمولہ کتابی سلسلہ استفسار، جے پور (بھارت) شمارہ 16-17، اکتوبر 2017 تا مارچ 2018، صفحہ 6۔
(14) میر تقی میرؔ: کلیات میر، بہ حیات میرؔ (نسخہ محمود آباد) مرتبہ ڈاکٹر اکبر حیدری، اردو اکیڈمی، سری نگر، 1973، پیش لفظ، صفحہ ب۔
٭٭٭إإإإإإإإإإإإإإإ