ہر عہد اپنے ساتھ نئے مسائل اور نئے موضوعات لے کر آتا ہے۔ جب جب زمانے نے کروٹ لی ہے موضوعات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔۔۔ کچھ روایت پرست ادیب نئے موضوعات کو بہ آسانی قبول نہیں کرتے ہیں لیکن عام طور پر ادیب چونکہ زمانے کا نبض شناس اور عوام کی بہ نسبت کہیں زیادہ حساس اور باریک بیں ہوتا ہے اس لیے سماج کے دوسرے افراد کے مقابلے میں بہت جلد بدلتے ہوئے حالات کو سمجھ لیتا ہے اور نت نئے پیدا ہونے والے مسائل سے موضوعات کا انتخاب کر لیتا ہے۔
اردو افسانے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔ پریم چند نے اپنے عہد کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے یلدرم کی رومانی فضا کو بدلا اور دیہات، کسان، مزدور، نچلے طبقے کے مسائل، حکومت سے بیزاری، ظلم و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج اور غربت و افلاس سے پیدا ہونے والی بے حسی جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کی۔۔۔ اس کے بعد ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا اور ایک بار پھر زمانے کے ساتھ ساتھ مسائل میں تغیر پیدا ہوا جس کے نتیجے میں افسانوں کے موضوعات بھی بدل گئے۔
موضوعات کی تبدیلی سے مراد یہ نہیں کہ زمانہ بدلتے ہی آسمان سے کچھ نئے مسائل ٹپک پڑے اور ایک دم نئے موضوعات پر افسانے لکھے جانے لگے اور زمانہ بدلنے سے بھی یہ مراد نہیں کہ کسی خاص وقت، خاص تاریخ یا خاص سن میں اچانک زمانہ بدل گیا۔۔۔ ظاہر ہے ہر چیز میں تغیر بتدریج ہی ہوتا ہے اور جس وقت تغیر کا یہ عمل جاری رہتا ہے، کسی کو اس اندازہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ جب تک کوئی واضح تبدیلی سامنے نہ آ جائے۔۔۔ مختصر یہ کہ مسائل میں جب بھی تبدیلی آتی ہے، افسانہ نگار کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے اور وہ ایک نئے زاویۂ نگاہ سے زمانے کو دیکھنے لگتا ہے۔ بدلتے ہوئے موضوعات کے سلسلے میں رشید امجد کے خیالات:
’’گزشتہ دس بارہ سالوں میں سماجی، سیاسی اور فکری سطح پر جو تبدیلیاں آئی ہیں انھوں نے زندگی کا سارا ڈھانچہ بدل دیا ہے۔ ہم نئے نئے مسائل سے دوچار ہوئے ہیں۔ ان مسائل کا حل پرانوں میں ہے نہ ان کے اصول اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مدرس ایک قابل احترام شخصیت ہے۔ مدرس پرانے معاشرے میں بھی تھا لیکن اس دور میں حالات اور معاشرے کے پیٹرن کی وجہ سے اس کی شخصیت کا گناہ آلود ہونا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ پرانے ادب میں مدرس قابل احترام شخصیت بن کر وارد ہوتا ہے لیکن نئے معاشرے نے جہاں بہت سی بیماریاں پھیلائی ہیں ان میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے مکتب بھی منافقت کی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہ سکے چنانچہ مکتب کی ان لعنتوں کا سراغ لگانا اور مدرس کی بد دیانتی کو بے نقاب کرنا نیا موضوع ہے۔۔۔‘‘
( ’’افسانے کے نئے موضوعات، رشید امجد، پاکستانی ادب: تنقید (پانچویں جلد، ص782)
اگر اس موضوع پر کوئی افسانہ نگار افسانہ لکھے اور یہ کہا جائے کہ یہ موضوع بہت پرانا ہے، اس پر بہت سے افسانے لکھے جا چکے ہیں تو یہ کہنا درست نہ ہو گا کیوں کہ فی زمانہ مدرس کے تئیں رویہ بدلا ہے، نقطۂ نظر بدلا ہے۔۔۔ لہٰذا یہ موضوع ہر چند کہ پرانا ہے مگر نیا ہی کہلانے کا مستحق ہے۔
پریم چند کے یہاں عورت کا جو تصور تھا، ترقی پسند تحریک کے دور میں بدل گیا۔۔۔ پریم چند عورت کو دیوی کے روپ میں پیش کرتے تھے۔ اس زمانے کا یہی تقاضہ تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں ہر شخص عورت کو دیوی ہی سمجھتا تھا یا اس کا استحصال نہیں ہوتا تھا۔۔۔ عورت پر مظالم بھی ہوتے تھے، عورت کو دیوی ہی سمجھتا تھا یا اس کا استحصال نہیں ہوتا تھا۔۔۔ عورت پر مظالم بھی ہوتے تھے، عورت کو ستی بھی ہونا پڑتا تھا، بیوہ ہو جانے کے بعد اس کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی تھی۔ اسی غیر انسانی طرز عمل کو ختم کرنے کے لیے پریم چند نے عورت کے تقدس کو ابھارا اور نتیجتاً ان کے ناول اور افسانوں میں عورت دیوی کی شکل میں نمودار ہوئی جب کہ ترقی پسند مصنفین نے عورت کا ایک فعال کردار خلق کیا۔۔۔ افسانوں کا موضوع تو عورت ہی رہی لیکن افسانہ نگاروں کا نظریہ عورت کے تئیں بدل گیا۔۔۔ عورت اگر جسم فروشی کرتی ہوئی نظر آئی تو اس گناہ کا مرتکب صرف عورت کو ہی نہیں ٹھہرایا گیا۔۔۔ کرشن چندر نے اس موضوع پر متعدد افسانے لکھے ہیں، ان کو عورت کی جسم فروشی کے پس پردہ بھی اقتصادی جبر ہی کار فرما نظر آتا ہے۔۔۔ وہ اس کا ذمہ دار مرد کو بھی نہیں ٹھہراتے بلکہ ان کے نزدیک عورت کی مظلومیت اور اقتصادی و اخلاقی پس ماندگی کا سبب پورا سماجی ڈھانچہ اور اس کا صدیوں پرانا تادیبی و تہدیدی نظام ہے۔۔۔ منٹو بھی قصوروار، عورت کو نہیں، حالات کے جبر کو قرار دیتے ہیں، ان کے یہاں حقیقی صورت حال کے اظہار کا رویہ ملتا ہے لیکن وہ اس بارے میں اپنا کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے۔۔۔ منٹو کے افسانوی اقلیم کی عورت بھی حالات کے ظلم و جور کا شکار ہے۔۔۔ وہ قدیم اخلاقی آئین کی رو سے گناہ گار ہے تاہم بدکار نہیں بلکہ قابل احترام بھی ہے اور ہمدردی کی مستحق بھی۔۔۔ کیوں کہ وہ مجبور محض ہے۔۔۔ بیدی نے عورت کو دوسری ہی عینک سے دیکھا ہے۔ بیدی کی عورت، عام عورت ہے، وہ گناہ کی مرتکب بھی ہو سکتی ہے اور وفا کی دیوی بھی ہو سکتی ہے۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘، ’’لاجونتی‘‘ اور ’’ہڈیاں اور پھول‘‘ وغیرہ جیسے افسانے بیدی کی نفسیاتی بصیرت کا ثبوت ہیں۔۔۔ عورت کے سلسلے میں عصمت کا رویہ بے باکانہ اور دو ٹوک نظر آتا ہے جب کہ بیدی کے نزدیک عورت ہو یا مرد بہر حال ایک اسرار ہے۔۔۔ ان کے کردار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ وہ آہستہ آہستہ اپنے کرداروں سے قاری کو متعارف کراتے ہیں۔ بعض اوقات تو کردار اپنا تعارف خود کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ترقی پسند مصنفین نے جبر و ظلم کے خلاف بے شمار کامیاب افسانے لکھے ہیں بلکہ یہی اس تحریک کا اولین مقصد تھا لیکن بعد میں اس تحریک نے سماجی حقیقت نگاری کے زیر اثر سماج کی متعدد برائیوں کو بے نقاب کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔۔۔ مزدوروں کا استحصال، زمیندار کا جبر، بنگال کا قحط، متوسط طبقے کے مسائل، لڑکیوں کے شادی بیاہ میں معاشرے کی طرف سے پیدا کردہ رکاوٹیں، عورت کو جسم فروشی پر مجبور کرنے کی گھناؤنی سازشیں۔ بٹوارے کے وقت ملک بھر میں فسادات کی بھڑکتی ہوئی آگ، عالمی جنگ کے اثرات، تقسیم وطن کا کرب، مذہبی، علاقائی، لسانی اور طبقاتی تنازعات، عام بدحالی اور اسی قبیل کے بے شمار موضوعات پر ترقی پسند ادیبوں نے افسانے لکھے۔۔۔ یہ تمام موضوعات اس دور کی ضرورت تھے۔
’’کوریا کے محاذ جنگ سے ایک ایمبولینس ڈرائیور کا خط‘‘ ۔۔۔ اور۔۔۔ ’’میں انتظار کروں گا ‘ ‘۔۔۔ کرشن چندر کے یہ دونوں افسانے کوریا کی جنگ کے موضوع پر ہیں۔ اس موضوع پر انور عظیم نے بھی ایک افسانہ لکھا تھا۔۔۔ انور عظیم کا یہ افسانہ جو کوریا کے محاذ جنگ سے ایک خط کی صورت میں کرشن چندر کے نام لکھا گیا ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
1943-44ء میں بنگال جس قحط سے دوچار ہوا تھا، اس پر بھی کئی ترقی پسند ادیبوں نے افسانے، ناول اور نظمیں لکھیں۔۔۔ بنگال کے قحط کے موضوع پر کرشن چندر کا افسانہ ’’ان داتا‘‘ خواجہ احمد عباس کا ’’ایک پتیلی چاول‘‘، اختر اورینوی کا ’’جنگل‘‘ دیویندر ستیار تھی کے‘‘ پھر وہی کنج قفس‘‘، ’’دو راہا‘‘، ’’قبروں کے بیچ در بیچ‘‘، ’’نئے دھارے سے پہلے‘‘ ۔ صدیقہ بیگم کا ’’چاول کے دانے ‘، سردار جعفری کا ’’چہرہ مانجھی‘‘، میرزا ادیب ’’کاکنگال دیس میں‘‘، ریوتی سرن شرما کا ’’دراڑیں‘‘ وغیرہ کامیاب افسانے ہیں۔
تقسیم ہند پر بھی بے شمار اچھے افسانے لکھے گئے۔ تقریباً سبھی اردو کے ترقی پسند مصنفین نے اس واقعے سے متاثر ہو کر اس موضوع پر افسانے لکھے تھے۔ خاص طور پر تقسیم ملک کے فوراً ہی بعد رونما ہونے والے قیامت خیز فسادات پر سب سے زیادہ افسانے لکھے گئے۔
منٹو کا مجموعہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ (ٹھنڈا گوشت، شریفن، کھول دو، گور مکھ سنگھ کی وصیت، موذیل)، کرشن چندر کے افسانے ’’ہم وحشی ہیں‘‘، ’’ایک طوائف کا خط‘‘، ’’امرت سرآزادی سے پہلے‘‘، ’’امرت سر آزادی کے بعد‘‘ ۔۔۔ حیات اللہ انصاری کے ’’ماں بیٹا‘‘ اور ’’شکر گزار آنکھیں‘‘ ۔ احمد ندیم قاسمی کا پرمیشور سنگھ‘‘ ۔۔۔ عصمت چغتائی کا جڑیں۔۔۔ خواجہ احمد عباس کے ’’سردار جی‘‘، ’’میں کون ہوں‘‘ اور ’’انتقام‘‘ ۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی کا ’’لاجونتی‘‘ ۔۔۔ عزیز احمد کا ’’کالی رات‘‘ سہیل عظیم آبادی کا ’’اندھیارے میں ایک کرن‘‘ ۔ خدیجہ مستور کے ’’ٹامک ٹوئیے‘‘، ’’مینو لے چلا بابلا‘‘ ۔۔۔ ہاجرہ مسرور کے ’’امت مرحوم‘‘، بڑے انسان بنے بیٹھے ہو‘‘ ۔۔۔ ممتاز حسین کا ’’سورج سنگھ‘‘ ۔۔۔ صدیقہ بیگم‘‘ کا ’’گوتم کی سرزمین‘‘ وغیرہ وہ کامیاب افسانے ہیں جو1947ء کے فسادات کو موضوع بنا کر لکھے گئے ہیں۔
تقسیم وطن سے ادیبوں کو جو ایک خاص طرح کا صدمہ پہنچا تھا اس کے رد عمل کے طور پر بھی کچھ افسانے لکھے گئے۔ اس ضمن میں کرشن چندر کا افسانہ ’’باپو کی واپسی‘‘ قابل ذکر ہے۔۔۔ منٹو کا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ بھی بٹوارے پر گہرا طنز ہے۔ 1935ء کے نئے قانون پر بھی منٹو نے افسانہ ’’نیا قانون‘‘ لکھ کر طنز کے تیر و نشتر کا بھر پور استعمال کیا ہے۔
آزادی اور تقسیم وطن کے بعد جو افسانے لکھے گئے ہیں ان میں بھی سماجی بے راہ روی کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ 1947ء کے بعد بھی عوامی مسائل جوں کے توں تھے۔۔۔ وہی اقتصادی بدحالی، وہی ظلم و جبر، وہی زمینداروں کا تسلط اور وہی بے گاری کی گرم بازاری۔۔۔ لہٰذا آزادی کے بعد بھی ان موضوعات پر پورے شد و مد سے لکھا گیا۔۔۔ آزادی اور جمہوریت کے باوجود افلاس کے جو کرب ناک رخ سامنے آئے وہ اس دور کے افسانوں کے موضوعات بنے۔
کرشن چندر نے ’’زندگی کے موڑ پر‘‘، ’’بالکونی‘‘، ’’کالو بھنگی‘‘، ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ وغیرہ افسانوں میں افلاس، طبقاتی کشمکش، قتل، غارت گری، استحصال اور جبرو ظلم کی وہ تصویر کشی کی ہے جس کے لیے رنگ و روغن ’’آزادی ہندوستان‘‘ سے ہی حاصل ہوا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی اس طرح کے ترقی پسند تھے کہ خود مارکسسٹ ہوتے ہوئے بھی اپنے کرداروں کو خالص ہندوستانی (سادہ لوح) کردار بنا کر پیش کرتے تھے۔ ان کے افسانے ’’گھر بازار‘‘، ’’گرہن‘‘، ’’گرم کوٹ‘‘، ’’کوکھ جلی‘‘ اور ’’لاجونتی‘‘ وغیرہ میں انسان مجبور محض دکھائی دیتا ہے۔۔۔ ان کے افسانوں میں رسم و رواج کی جھلکیاں بھی بڑی حد تک نظر آتی ہیں۔۔۔ عصمت چغتائی نے متوسط مسلم گھرانوں کی کامیاب عکاسی کی ہے۔ ’’چوتھی کا جوڑا‘‘، ’’بچھو پھوپھی‘‘ وغیرہ اس سلسلے کے قابل ذکر افسانے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے دیہاتی مسائل، فسادات، طبقاتی رسہ کشی اور افلاس وغیرہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔
قرۃ العین حیدر نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے لیے تاریخ کے آئینے میں ماضی اور حال کے رشتے کو تلاش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں بر صغیر کے ہندو مسلم گھرانوں کی باہمی یگانگت و تقسیم کے بعد ہونے والی تبدیلیاں، سرمایہ دارانہ نظام کے پنپنے کی چھٹپٹاہٹ، ٹوٹتی ہوئی قدریں، بدلتے معاشرے میں شرفا کے خاندانوں کی زبوں حالی جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ1936ء سے 1960ء تک کی حقیقی تاریخ مذکورہ بالا افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں مرتب کر دی ہے۔
1956ءسے ہی ادیبوں نے محسوس کرناشروع کر دیا تھا کہ حالات بدلتے جا رہے ہیں، قدریں بدل چکی ہیں، اخلاقیات کے معنی بھی اب وہ نہیں رہے جن کو بنیاد بنا کر اخلاقی اصول وضع کیے گئے تھے۔ لہٰذا 1960ء کے آتے آتے اردو افسانوں کے موضوعات بھی بدلے اور ایک طبقہ جدید افسانہ نگاروں کا ایسا سامنے آیا جس نے ہیئت کے ساتھ ساتھ افسانے کے موضوعات بھی پرانے موضوعات سے بالکل الگ منتخب کیے۔
یہ تغیر 1955ء سے 1956ء کے درمیان ہوا۔۔۔ یہی زمانہ جدید افسانے کے آغاز کا دور ہے۔ اس زمانے کے لکھنے والوں نے پرانے اصولوں، پرانے موضوعات، پرانی اخلاقیات، پرانی اقدار اور پرانے نظریات غرضیکہ ہر پرانی چیز سے اختلاف کیا۔۔۔ خاص طور پر مروجہ اقدار اور سماجی اخلاقی پابندیوں سے انحراف کو اپنا فرض منصبی گردانا۔
جدید افسانے کا ایک خاص موضوع فلسفۂ وجودیت ہے۔۔۔ ’’وجودیت‘‘ جو دہشت انگیز فضا، مشینی دور میں انسان کی شناخت ختم ہو جانے کا خوف، اقدار کے زوال اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھر جانے جیسے مسائل کی دین ہے، جس میں انسان بھیڑ میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگا ہے۔۔۔ ان مسائل کا اثر انسان کے ظاہر سے زیادہ باطن پر پڑا۔۔۔ جدید افسانہ نگاروں نے ان کے اندرون میں ڈوب کر انسان کی داخلی کیفیات کی اس صدائے باز گشت کو سننے کی کوشش کی اور اپنے افسانوں کے موضوعات کو بھی انسان کے ظاہر یا سماجی پس منظر سے نہیں، اس کے اندرون سے ہی منتخب کرنا پسند کیا لیکن ایسا نہیں ہے کہ جدید افسانہ نگار سیاسی اور سماجی حالات سے یکسر لا تعلق ہو کر رہ گیا ہو۔ صرف ہوا یہ کہ سیاسی جبر یا معاشی ناہمواری کے اثرات جو انسانی باطن پر پڑے ہیں ان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اندرون پر جو چیزاثر انداز ہو گی اس کا ظہور سماج کے کسی گوشے میں ہی ہو گا۔ کامیاب افسانہ نگاروں نے جب بھی انسان کے داخلی مسائل کو موضوع بنا کر کہانی لکھی تو اس کا نشانہ سماجی عدم مساوات، سیاسی جبرو استحصال اور اسی طرح کے متعدد مسائل بنے اور ان کی نقاب کشائی ہوئی۔ خاص طور سے انور سجاد اور بلراج مینرا کے مشترک موضوعات سیاسی جبر۔۔۔ اقتصادی ناہمواری اور معاشرے میں زندگی کی منفی جہت وغیرہ تھے۔ مرزا حامد بیگ کے ایک مضمون کا اقتباس پیش خدمت ہے:
’’انور سجاد اور بلراج مین را نے ہر سو دندناتے ہوئے شر کی چہرہ نمائی کی ہے۔ سیاسی جبر، معاشی ناہمواری اور معاشرت میں زندگی کی منفی جہت دونوں افسانہ نگاروں کے خاص موضوعات ہیں لیکن دونوں کے افسانوی تدبیر کاری میں وہی فرق ہے جو SUMLIME(انور سجاد) اور ELEVATE (مین را) کرنے کا ہے۔ انور سجاد کے لہجے کرختگی ”LOOK IN ANGER”(اوس یورن) کی تیزابیت سے ملتی جلتی ہے۔ زبان۔۔۔ جیسے کوڑے برستے ہوں اور کھال ادھڑ رہی ہو جب کہ مین را کے یہاں کو ملتا ہے اور اس کے کردار ETHEREALنظر آتے ہیں۔۔۔‘‘
(مرزا حامد بیگ، افسانے کا منظر نامہ، 142-143)
اس کے علاوہ دفتری زندگی، کلریکل ذہنیت، دفتری سیاست، تشکیک کی وبا، اسکولوں اور کالجوں کی زندگی اور وہاں کا ماحول و سیاست، شہروں کا پھیلاؤ اور لوگوں کا ازدحام، انسانوں کو شہروں کی طرح نمبروں میں تقسیم کرنے اور نمبروں سے پہچاننے کا کرب، نئے انسانوں کی کھوکھلی عظمت کے در پردہ چھپی ہوئی خباثتیں، جنگل کے معاشرے سے اجتماعی ہجرت سے انفرادی ہجرت تک کا سفر جیسے موضوعات پر جدید افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے۔۔۔ انتظار حسین نے اس انسان کی جڑیں جو نئے معاشرے کی فضا میں معلق ہے، متھ اور لوک روایتوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اس دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان عدم اعتماد کا شکار ہو چکا ہے، ہر آدمی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے۔۔۔ اس موضوع پر انتظار حسین نے متعدد افسانے لکھے ہیں۔ ان کا ایک افسانہ ’’مشکوک لوگ‘‘ اس موضوع کی بڑی اچھی نمائندگی کرتا ہے:
’’شکر ہے میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘ باتیں سنتے سنتے اس نے سوچا اور اطمینان کا سانس لیا۔ ایک تو حسنین تھا، ایک عارف تھا اور ایکہ خود۔۔۔ پھر شفیق بھی آ گیا۔
’’آ بھئی شفیق!‘‘ عارف کہنے لگا۔ ’’یار تو تو نظر نہیں آیا۔۔۔؟‘‘ میں وہاں پہنچا تھا مگر پھر میں پلٹ آیا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’بس پلٹ آیا، سب بکے ہوئے ہیں سالے۔ ’’شفیق کو بولتے بولتے غصہ آ گیا۔‘‘
(مشکوک لوگ، انتظار حسین)
’’شفیق تلخ سی ہنسی ہنسا اور کہنے لگا۔ ’’جب میں نے اشتیاق کو آگے آگے چلتے دیکھا تھا تبھی میرا ما تھا ٹھنکا تھا۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ حسنین کچھ چکرا سا گیا۔
’’تمہارے ساتھ وہ ہاتھ کر گیا اور تم مجھ سے مطلب پوچھ رہے ہو!‘‘
عارف سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا۔۔۔ ’’یار حسین! شفیق ٹھیک کہہ رہا ہے، اس وقت مجھے بھی تھوڑی سی حیرانی ہو ئی تھی کہ آخر اشتیاق کیوں اتنا معتبر بن رہا ہے۔۔۔‘‘
(مشکوک لوگ، انتظار حسین)
’’دروازہ کھلا اور طفیل داخل ہوا۔ آ کر پوچھنے لگا۔۔۔‘‘ یار یہاں حسنین تھا، کہاں گیا؟‘‘
عارف ہنسا اور بولا۔۔۔‘‘ تھا تو سہی، مگر شفیق نے اسے اکھاڑ دیا۔۔۔‘‘
’’وہ کیسے۔۔۔؟‘‘
شفیق پائے کی ہڈی چوستے چوستے بولا۔ ’’یار وہ اشتیاق کو DEFEND کر رہا تھا جیسے ہم اشتیاق کو جانتے ہی نہیں۔‘‘
عارف کہنے لگا۔۔۔ ’’مجھے بھی حسنین کے بارے میں کبھی کبھی شک ہوتا ہے۔‘‘
’’شک؟‘‘ شفیق نے نوالہ شوربے میں ڈبوتے ڈبوتے ہاتھ روکا۔
’’تمہیں ابھی تک شک ہے۔ میں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں۔‘‘ پھر وہ بڑبڑایا۔۔۔ ’’حرام زادے، سب بکے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ پھر اس نے نوالہ شوربے میں ڈبویا اور منھ میں رکھ لیا۔۔۔‘‘
(مشکوک لوگ، انتظار حسین)
’’عارف چلا گیا۔ شفیق خاموشی سے کھانا کھاتارہا۔ پھر کھاتے کھاتے بولا۔
’’یار عارف کے فون کچھ زیادہ ہی آتے ہیں اور کبھی پتہ نہ چلا کہ کہاں سے آتے ہیں۔ فون پر یا تو بہت لمبی گفتگو کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ دو سکنڈ بات کی اور فوراً چلا گیا۔‘‘
’’ہاں آدمی خاصا پر اسرار ہے۔۔۔‘‘ طفیل نے ٹکڑا لگایا۔۔۔‘‘
(مشکوک لوگ، انتظار حسین)
’’شفیق نے چائے بناتے بناتے سادگی سے پوچھا۔ ’’یار صابر! طفیل تیرا دوست ہے، آج کل کیا کر رہا ہے۔۔۔؟‘‘
’’فری لانسنگ!‘‘
’’فری لانسنگ! کون کہتا ہے؟‘‘
’’خود طفیل کہہ رہا تھا کہ آج کل فری لانسنگ کر رہا ہوں۔‘‘
’’بکواس کرتا ہے۔۔۔‘‘
شفیق چپ ہو گیا۔ چائے بنانے لگا۔ پھر پوچھنے لگا۔ ’’اگر فری لانسنگ کرتا ہے تو کسی اخبار میں اس کا کوئی فیچر، کوئی کالم آنا چاہیے۔۔۔ بتاؤ کس اخبار میں آتا ہے؟‘‘
اس سوال پر اس نے سوچا۔۔۔ پھر گھبرا کر کہا۔۔۔‘‘ یار پتہ نہیں !‘‘
شفیق جب اس سے براہ راست سوال جواب کرنے لگتا تو وہ بالعموم گھبرا جاتا۔ کسی کی بات ہوتی مگر اسے یوں لگتا وہ مجرم ہے اور شفیق کے رو برو کٹہرے میں کھڑا ہے۔ مگر پھر شفیق نے خود ہی پہلو بدلا۔۔۔‘‘ اور اگر فری لانسر بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جو اخبار میں باقاعدہ کام کرتے ہیں انھیں بھی میں جانتا ہوں۔ سب سالے بکے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
(مشکوک لوگ، انتظار حسین۔ مجموعہ: شہر افسوس،ص 99-100-104)
ان اقتباسات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس افسانے کے تمام کردار ایک دوسرے کی نظر میں مشکوک ہیں۔ جب بھی کوئی کسی کام سے اٹھ کر جاتا ہے تو اس پر بقیہ سبھی لوگ شک کرنے لگتے ہیں اور جب وہ شخص اپنا کام نمٹا کر واپس آ جاتا ہے اور چائے خانے میں ان لوگوں کے ساتھ میز پر بیٹھتا ہے اور ان کی گفتگو میں شریک ہو جاتا ہے تو وہ شک کے دائرے سے باہر نکل آتا ہے اور خود بھی اس محفل میں غیر حاضر شخص کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتا ہے۔ پوری کہانی شک و شبہ کی فضا میں گھومتی رہتی ہے۔ پھر جب شفیق بھی یہ کہہ کہ دفتر چلا جاتا ہے کہ آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، اکاؤنٹ کلوز کرنا ہے، دفتر میں بہت زیادہ کام ہے۔۔۔ تو باقی ماندہ سبھی لوگ اسے تشکیک کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔۔۔ اس کہانی کے موضوع کے سلسلے میں رشید امجد لکھتے ہیں:
’’انتظار حسین کے‘‘ مشکوک لوگ‘‘ میں اس دور کی تشکیک کو موضوع بنایا گیا ہے، جہاں ہر شخص دوسرے کو حتیٰ کہ خود کومشکوک سمجھتا ہے۔ صابر ایسے ماحول کا فرد ہے جہاں آدمی دوسرے کے بارے میں جاسوس کی آنکھ رکھتا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے کے متعلق اپنی معلومات کا اظہار کرتا ہے، صابر اس ساری گفتگو کا گواہ ہے اور ہر ایک کوشک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اس کا یہ رجحان اس حد تک بڑھتا ہے کہ آخری لمحہ میں اسے اپنی ذات بھی اس کی زد میں محسوس ہوتی ہے۔ انتظار حسین نے اس افسانے میں بڑی خوبصورتی سے اس دور کے پڑھے لکھے لوگوں کی ذہنی کیفیت بیان کی ہے۔ یہ افسانہ محض چند کرداروں کا المیہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ذہنی رویے کا احاطہ کرتا ہے۔ انتظار حسین کے اسلوب پرداستان کا گہرا اثر ہے جس کے باعث ان کی تحریر میں شگفتگی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ لفظی علامتوں کا استعمال کرنے کی بجائے قصہ اور کرداروں کو علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔۔۔‘‘
( ’’افسانے کے نئے موضوعات‘‘ رشید امجد۔ پاکستانی ادب، تنقید، ص782-783)
انتظار حسین کے علاوہ کئی نئے لکھنے والوں نے بھی اس موضوع پر افسانے لکھے ہیں۔۔۔ آزادی کے بعد موجودہ نظام سے غیر اطمینانی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اردو جدید افسانے پر یہ الزام کہ جدید افسانہ سماجی و سیاسی مسائل سے کٹ کر انسان کی ذات تک محدود رہ گیا ہے، صحیح نہیں ہے۔
جہاں انسانی ذات کو محور بنا کر افسانے لکھے گئے ہیں وہاں اس ذات کا عکس سماج پر بھی پڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ کوئی بھی انسانی ذات سماجی مسائل سے لا تعلق نہیں رہ سکتی، اگر کسی افسانہ نگار نے انسانی باطن کی کشمکش پر بھی قلم اٹھایا ہے تو کسی نہ کسی موڑ پر اس کشمکش کا ذمہ دار سماج ہی ٹھہرایا گیا ہے۔۔۔ سریندر پرکاش نے ’’بجو کا‘‘ ایک علامتی افسانہ لکھا ہے مگر اس کا موضوع موجودہ نظام سے بے اطمینانی ہی ہے۔ اگر اس افسانے کا تفصیل سے جائز لیا جائے تو اس کے موضوع اور اس کی تکنیک کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔۔۔ تکنیک یا اسلوب کو موضوع سے بالکل الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اصل میں ہر موضوع اپنے ساتھ زبان، اسلوب اور تکنیک لے کر آتا ہے۔ افسانہ علامتی ہو، تجریدی ہو، استعاراتی ہو، تمثیلی ہو یا بیانیہ؟ اس کا فیصلہ بھی افسانہ نگار موضوع کو پیش نظر رکھ کر ہی کرتا ہے۔۔۔ اب سریندر پرکاش کے افسانے ’’بجو کا‘‘ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
یہ حقیقت ہے کہ سریندرپرکاش کی کہانی ’’بجوکا‘‘ قاری کے ذہن کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر قاری اس کہانی سے متاثر ہوتا ہے۔۔۔ یہ سمجھنے کے لیے اس کے مختلف اجزا پر غور کرنا پڑے گا اور اس نکتے کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ’’بجو کا‘‘ جس زمانے میں تخلیق ہوئی ہے، اس دور میں کہانی کس منزل سے گزر رہی تھی:
’’وہ ہمیشہ اسٹیج پر بڑا سا ٹوپا پہن کر آتا ہے اور سامعین کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ بڑا اداس لگتا ہے، پڑوسی کے فیتے سے اپنا قد ناپتا ہے، پھر روئے گا بیٹھا ہوا، میرے لیے آخر شراب درکار ہی کتنی ہے، خدا کے وجود جتنی، شراب چوری کے گلاس میں ڈالو، ساتوں فرشتوں کو لا کر بٹھا لو اور پھر بلند آواز سے کہو، مفت کی ہے۔ حرام کی ہے، تم قاضی ہو اور تم پر حلال ہے، بس ہو گیا کام، میرا بھوت تمھارے بس میں ہے۔۔۔‘‘
یہ اقتباس سریندر پرکاش کی کہانی ’’تلقارمس‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس طرح کی مبہم اور بے معنی تحریریں جس زمانے میں لکھی جا رہی ہوں، بلکہ خود اسی فنکار کے قلم سے نکلی ہوں جس نے ’’بجوکا‘‘ جیسی صاف اور بامعنی کہانی لکھی ہے تو پھر اس کہانی پر (جوبآسانی سمجھ میں آنے والی ہو، جس میں کہانی پن ہو، دلچسپ واقعات ہوں اور معنی خیز بھی ہو) قارئین و ناقدین کا چونکنا اور توجہ دینا فطری ہے۔
سریندر پرکاش کی ’’بجوکا‘‘ خالص علامتی کہانی ہے لیکن اسلوب کے لحاظ سے بیانیہ۔۔۔ ! کچھ لوگ علامتی اور تجریدی کہانی کو ایک ہی خانے میں رکھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔۔۔ علامتی کہانی بیانیہ بھی ہو سکتی ہے اور تجریدی بھی۔۔۔ تجرید در اصل اسلوب کا نام ہے۔۔۔ ایسی کہانی جس میں کوئی علامت نہ ہو اور وہ کسی سچوئیشن پر لکھی گئی ہو یا کسی کردار کی داخلی کیفیت یا ذہنی کرب کو پیش کر رہی ہو، تجریدی اسلوب میں لکھی جا سکتی ہے اور وہ علامتی نہ ہونے کے باوجود تجریدی کہانی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انور سجاد کی ’’مرگی‘‘ اور سریندر پرکاش کی ’’تلقارمس‘‘ ۔۔۔ بالکل اسی طرح ’’بجوکا‘‘ بیانیہ اسلوب کی علامتی کہانی ہے۔
اگر ہم علامت نگاری کی مختلف شاخوں کو نظر میں رکھ کر اس کہانی کا جائزہ لیں تو یہ کہانی ILLUSTRATIVEیعنی مثالیہ کہانیوں کے ذیل میں آئے گی۔ یہ واضح رہے کہ مثالیہ کہانی تمثیلی کہانی سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔ اس کہانی میں پوری کہانی کے جسم سے کوئی علامت پھوٹ کر نہیں آتی بلکہ اس کے مختلف کردار یا ایک مخصوص کردار کسی چیز کا SYMBOLبن کر سامنے آتا ہے۔۔۔ ذہن پر چنداں زور ڈالے بغیر ہی دو باتیں صاف ہو جاتی ہیں کہ ہوری ایک تلمیح ہے جو علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ’’بجوکا‘‘ خالص SYMBOL۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’بجوکا‘‘ کو کس چیز کی علامت بنا کر سامنے لایا گیا ہے، یہ بات سمجھ لینے پر کہانی کا موضوع از خود واضح ہو جائے گا۔
اس ضمن میں چند باتیں ذہن میں آتی ہیں۔۔۔ پہلی ہی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ ’’بجوکا‘‘ مزدور کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اپنا حق مانگ رہا ہے۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص اس کا حق دینا نہیں چاہتا وہ کون ہے؟ کوئی جابر یا ظالم۔۔۔ لیکن یہاں تو وہ شخص خود مظلوم اور بے کس ہو ری ہے۔۔۔ تو پھر کیا یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پہلے جو مظلوم تھا اب وہ ظالم ہو گیا ہے۔۔۔ لیکن کہانی اس بات کی بھی تصدیق نہیں کرتی ہے۔۔۔ ’’بجو کا‘‘ کی فصل کاٹنے کی حرکت اور ’’زہر خند‘‘ اس کا بین ثبوت ہے کہ وہ مظلوم نہیں ہو سکتا۔۔۔ لیکن اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ مظلوم ہے یا مزدور کی علامت ہے تو پوری پنچایت اسے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑی کیوں ہو جاتی ہے۔۔۔؟
تو پھر شاید سریندر پرکاش نے یہ کہنا چاہا ہو کہ وہ شخص جو کل تک بے زبان تھا، آج اس کا بھی حق کوئی آسانی سے نہیں چھین سکتا۔۔۔ یعنی موجودہ نظام سے انصاف کی پوری توقع ہے، بہ الفاظِ دیگر اب کوئی کسی کا استحصال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔۔۔ لیکن کیا واقعی آج کا سماج اتنا دیانتدار اور منصف ہے۔۔۔؟
پریم چند کا ہوریؔ آخر میں مر جاتا ہے، اس کے بر خلاف سریندر پرکاش کا ہوریؔ مر کر بھی ’’بجو کا‘‘ بن جاتا ہے۔ یہ آج اور کل کے حالات کا فرق ہے۔۔۔ تو کیا یہی فرق کہانی کا محرک ہے؟ مگر پھر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ’’بجوکا‘‘ جو ہوریؔ کی فصل کا ایک حصہ کاٹ لیتا ہے۔۔۔ وہ در اصل کیا ہے۔۔۔؟
کہانی کے مختلف حصوں پر غور کرنے سے مختلف النوع باتیں ذہن میں گردش کرتی ہیں مگر یہ کہانی کو سمجھنے کی صحیح APPROACHنہیں ہے۔ کہانی سمجھنے کے لیے کہانی کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔
اگر ہم شروع سے کہانی کا جائزہ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔۔۔ کہانی میں سب سے پہلے پریم چند کے ہوری کا ذکر ہوا ہے۔۔۔ ہوریؔ کے کردار سے ادب کا ہر طالب علم یا ادب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص کم و بیش متعارف ہے۔۔۔ یہ کردار فرنگی دور حکومت کا ایک پسماندہ کسان ہے جو ہندوستانی مظلوم عوام کا SYMBOLبن کر سامنے آتا ہے۔۔۔ آج ہوری بہت خوش ہے کیوں کہ اس کی فصل پک چکی ہے اور کاٹنے کا وقت آ گیا ہے۔۔۔ وہ سوچتا ہے۔۔۔ ’’کتنا اچھا سمے پہنچا ہے۔ نہ اہلمد کی دھونس، نہ بنئے کا کھٹکا، نہ انگریز کی زور زبردستی اور نہ زمیندار کا حصہ۔۔۔ !‘‘ ’’بجوکا‘‘ کے اس اقتباس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اب انگریزی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ہوریؔ یعنی ہندوستانی کسان آزاد ہندوستان کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ وہ خوشی خوشی اپنے اہل خاندان کے ساتھ فصل کاٹنے کھیت پر پہنچتا ہے لیکن وہاں پہنچ کر وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس کی فصل کاٹنے میں مصروف ہے۔۔۔ وہ شخص کون ہے؟ یہ جاننے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس کے حلیے پر غور کرنا ہو گا:
’’تم بجو کا۔۔۔ تم۔۔۔ ارے تم کو میں نے کھیت کی نگرانی کے لیے بنایا تھا۔۔۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔ تیرا چہرہ میرے گھر کے کار ہانڈی سے بنا تھا اور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا۔۔۔ ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے۔۔۔‘‘
یہ امر مسلمہ ہے کہ ’’بجوکا‘‘ ایک ایسی شے ہے جسے کسان اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور وہ اس کے کھیت کی نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے اور بے جان بھی ہے۔۔۔ اگر ہم کسان (ہوری) کو ’’عوام‘‘ سمجھ کر ان تین چیزوں کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں تو بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ موجودہ جمہوری نظام ہی ’’بجوکا‘‘ ہے۔۔۔ اس نظام میں عوام، حکومت کسی شے کا نام نہیں بلکہ ایک نظام کا نام ہے۔۔۔ اس بات کی تصدیق اس وقت ہو جاتی ہے جب ہم اس SYSTEMکے STRUCTUREپر غور کرتے ہیں جو بلا شبہ برطانوی جمہوری نظام کے PATTERNپر بنایا گیا ہے۔ اسی لیے کہانی کار اس نظام کے SYMBOLیعنی ’’بجوکا‘‘ کو انگریزوں کا اتارا ہوا لباس پہنا دیتا ہے اور اپنے گھر کی ہانڈی سے بنے ہوئے سر پر انگریز شکاری کا ’’ٹوپا‘‘ رکھ دیتا ہے۔ شکاری سے مراد انگریز حاکم ہے۔۔۔ ظاہر ہے انگریز حاکموں کا رویہ شکاریوں جیسا ہی تھا اور کچھ ہندوستانی اس کے شکار میں ہانکا لگانے پر مامور تھے۔
اب اگر ہم یہ مان لیں کہ ’’بجوکا‘‘ موجودہ جمہوری نظام کی علامت ہے۔ تو بجوکا کے ذریعے فصل کا کاٹا ہوا حصہ۔۔۔ حکومت کے مختلف TAXESکی علامت بن جاتا ہے۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجو کا نگرانی کے عوض اپنا حصہ مانگتا ہے تو ہوری اس قدر حیرت زدہ کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں آزادی کے تاریخی پس منظر کو نظر میں رکھنا ہو گا اور یہ بھی جاننا ہو گا کہ آزادی کا تصور عوام کے ذہن میں کیا تھا۔۔۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو ہر شخص آزادی کا مطلب اپنے طور پر نکال رہا تھا۔۔۔ حکومت کے سلسلے میں اس کا خیال تھا کہ یہ حکومت اس کی ہے، اس کے لیے ہے اور اس کے ذریعے بنائی گئی ہے۔۔۔ یہی جمہوری نظام کی تعریف بھی ہے۔۔۔ ہر شخص کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ حکومت کا ’’کارندہ‘‘ اس کا حاکم نہیں بلکہ اس کا محافظ ہے۔۔۔ لیکن جب مختلف انداز میں حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی کی جانے لگی اور عوام پر مزید بوجھ پڑنے لگا تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔۔۔ اور یہ خیال کہ حکومت ہم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔۔۔ ہم آزاد ہیں اور حکومت ہماری اپنی ہے۔۔۔ ایک سراب، ایک خواب ہی ثابت ہوا۔
اب کہانی آگے بڑھتی ہے اور بات عدالت یعنی پنچایت تک پہنچتی ہے، وہاں یہ طے ہو جاتا ہے کہ بجو کا کو اس کا حق ملنا ہی چاہیے۔۔۔ ’’بجوکا‘‘ کو دیکھ کر سارے پنچ تعظیماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ واقعہ بھی اس خیال کی تصدیق کرتا ہے کہ ’’بجوکا‘‘ کسی مزدور یا مظلوم یا بے زبان طبقے کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ ایک سسٹم ہے جس کا احترام قانون، پنچ، سرپنچ اور عدالتیں تک کرتی ہیں۔۔۔ کہانی کار کو اس کہانی کے لکھنے پر مجبور کیا۔۔۔ اگر ہم آخری واقعہ کے اس ٹکڑے پر غور کریں تو بات شاید آسان ہو جائے گی:
’’میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں، اپنی فصل کی حفاظت کے لیے پھر کبھی ’’بجوکا‘‘ نہ بنانا۔ اگلے برس جب ہل چلیں گے، بیج بویا جائے گا اور بارش کا امرت کھیت سے کونپلوں کو جنم دے گا تو مجھے ایک بانس میں باندھ کر کھیت میں کھڑا کر دینا ’’بجوکا‘‘ کی جگہ پر۔۔۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جو عوام کی علامت ہے موجودہ SYSTEM یا طرز حکومت سے قطعی غیر مطمئن اور بیزار ہے۔ موجودہ SYSTEMسے غیر اطمینانی یا بیزاری ہی وہ محرک ہے جس نے کہانی کار کو کہانی لکھنے پر مجبور کیا۔
سریندر پرکاش کی ’’باز گوئی‘‘ اور ’’بال خورہ‘‘ کے مطالعے سے بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ مصنف کسی نہ کسی سطح پر موجود طرز حکومت سے نالاں اور متنفر ہے اور وہ کہنا چاہتا ہے کہ جب سے انسان عالم وجود میں آیا ہے وہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک وہ طبقہ جس کا استحصال ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو استحصال کرتا ہے۔۔۔ استحصال پہلے بھی ہوتا تھا، استحصال آج بھی ہوتا ہے، صرف طریق کار کا فرق ہے:
’’میں ہوں ہوری کاکا۔۔۔ بجوکا۔۔۔ !‘‘
بجو کا حسب معمول مسکرا رہا تھا پھر بولا۔۔۔‘‘ تم خواہ مخواہ خفا ہو رہے ہوں ہوری کاکا۔ میں نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔۔۔ ایک چوتھائی۔۔۔‘‘
’’میرا حق ہے ہوری کاکا، کیوں کہ میں بجوکا ہوں۔ اور میں نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے۔‘‘
ان جملوں سے بجو کا کے نرم لہجے اور خوشامدانہ رویے کا اظہار ہوتا ہے جو یقیناً موجودہ دور کے استحصال کرنے کے طریقے سے عین مطابقت رکھتا ہے۔
اس کہانی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ کہانی کار اپنی طرف سے ’’بجوکا‘‘ اور ہوری دونوں فریق میں سے کسی کے لیے کوئی COMMENTنہیں کرتا اور نہ قاری پر اپنا نقطۂ نظر تھوپتا ہے بلکہ کہانی کار نے پوری صورت حال سامنے رکھ دی ہے۔۔۔ البتہ کہیں کہیں کہانی کار کی موجودگی اور مداخلت گراں گزرتی ہے کیوں کہ اب کہانی کا فن اپنی بلندی پر پہنچ چکا ہے جہاں اس طرح کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ مثال کے طور پر منصف نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’جب بھی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اس کاپولس کے ساتھ مقابلہ ہو جانا قدرتی ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘
اس جملے میں کہانی کار کی موجودگی تاثر کو کچھ کم کر دیتی ہے، مگر اس جملے میں بھی موجودہ حکومت سے غیر اطمینانی کی جھلک نظر آتی ہے اور جب ہم کہانی کار کا آخری جملہ پڑھتے ہیں:
’’بجو کا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اتار کر سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔۔۔‘‘ تو اقتدار کے عروج و زوال اور اس کے تبادلے کی طرف اشارہ ہوتا نظر آتا ہے اور یہ کہانی ایمرجنسی کے دور اقتدار اور اس کی تشکیل کی طرف قاری کی توجہ مبذول کراتی ہے۔۔۔ یوں بھی سریندر پرکاش کی کئی کہانیوں میں ایمرجنسی کا ذکر اور اس سے غیر اطمینانی کی جھلک نمایاں ہے۔۔۔‘‘ باز گوئی‘‘ اور ’’بال خورہ‘‘ میں تو ایمرجنسی کا کھل کر تذکرہ کیا گیا ہے۔۔۔ سریندر پرکاش کی اکثر کہانیوں میں داخلی موضوعات کو جگہ دی گئی ہے لیکن ان میں بھی سماجی ناہمواری کا احساس صاف نظر آتا ہے۔۔۔ مرزا حامد بیگ، سریندر پرکاش کے موضوعات کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’سریندر پرکاش کا بنیادی موضوع انسانی باطن کا اندرونی اجاڑ پن اور ویرانی کا شدید احساس ہے۔ یہ بنیادی طرزِ احساس سریندر پرکاش کے کرداروں کو جائے پناہ ڈھونڈنے میں سرگرداں رکھتا ہے۔ اس کیفیت کے اظہار کے لیے سریندر پرکاش کے موسم شدید ہیں۔ منھ زور ہوائیں اور بے کنار پانی کی تند لہریں۔ جائے عافیت کے طور پر آسیب زدہ گھرا بھرتا ہے جس میں چوکیدار ہے اور آتش دان میں جلتی ہوئی لکڑیاں۔
سریندر پرکاش نے بہتے ہوئے وقت کے دھارے کو تجریدی تدبیر کاری کے تحت اپنے بس میں کر لیا ہے۔ اس کا بے پناہ تہذیبی اور تاریخی شعور امیجری اور آوازوں کے DISTORTہو جانے پر بھی ایک خاص قسم کی ماورائی کیفیت برقرار رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر افسانہ ’’چھوڑا ہوا شہر‘‘ کے ریلوے اسٹیشن کی معروضی صورت حال اور سنیما میں پردۂ اسکرین پر اجتماعی لا شعور کا پھیلاؤ باہم ایک ہو کر بھی لا یعنیت کو جنم نہیں دیتے۔ ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ اور ’’جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں‘‘ میں ندی کی علامت، انسانی زندگی کی علامت ہے جو قرنوں سے رواں دواں ہے۔
’’یہ طے پا گیا کہ ندی کنارے بسے ہوئے نگر میں میں رہتا ہوں۔ اس کے بڑے چورا ہے پر مجھے مصلوب کر دیا جائے اور میری لاش کو اسی تابوت میں رکھ کر اس پر میرا یوم ولادت لکھ کر ندی میں پھینک دیا جائے تاکہ آئندہ جب کبھی پھر میری ضرورت پڑے اس وقت کے لوگ مجھے حسبِ خواہش مصلوب کر سکیں۔۔۔‘‘
( ’’جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں‘‘ سریندر پرکاش)
دونوں افسانے یقین اور رجائیت کی انتہائی زیریں لہروں سے تکمیل پائے ہیں اور ان میں ماورائیت کا احساس سریندر پرکاش کے پختہ تہذیبی اور تاریخی شعور کا پیدا کردہ ہے۔۔۔‘‘
(مرزا حامد بیگ، افسانے کا منظر نامہ، ص148-149)
اس اقتباس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ سریندر پرکاش کے ابتدائی افسانوں میں انسان کے داخلی کرب کا بیان زیادہ ہوتا تھا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ انسان کے داخلی کرب کا تعلق خارجی حالات، سماجی انتشار یا سیاسی بازی گری سے نہ ہو۔۔۔ ہاں اسلوب اور تکنیک کے لحاظ سے سریندر پرکاش کی کچھ کہانیاں ایسی ضرور ہیں جن کی ترسیل بہ آسانی نہیں ہو پاتی۔ بعد میں سریندر پرکاش نے تکنیکی اعتبار سے کچھ صاف اور واضح افسانے لکھے۔ ’’رونے کی آواز‘‘، ’’باز گوئی‘‘ اور ’’بجو کا‘‘ ایسے افسانوں کی صف میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔۔۔ سریندر پرکاش نے ہندوستان کی موجودہ طرز حکومت سے غیر اطمینانی کا اظہار اپنی کہانی ’’بجو کا‘‘ میں کیا ہے۔۔۔ پاکستان میں بھی بہت سے ادیب اسی انداز میں سوچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مارچ 1978ء میں ایک افسانوں کا مجموعہ ’’گواہی‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں چودہ افسانے ہیں اور ہر افسانہ ظلم و تشدد کے خلاف ہے۔ اس مجموعے میں احمد جاوید، احمد داؤد، اعجاز راہی، انور سجاد، رشید امجد، مرزا حامد بیگ اور مظہر الاسلام کے افسانے شامل ہیں۔۔۔ مرزا حامد بیگ نے اس مجموعہ کے ابتدائیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’گواہی کے افسانے ظالمانہ طبقاتی نظام اور اس کی جبریت کے خلاف شدید احتجاج رکھتے ہیں۔ ’’گواہی‘‘ کے ابتدا میں اعجاز راہی لکھتا ہے:
’’فن اور اس کی قدریں زمانی اور مکانی صورت حال سے تبدیل ہوئی ہیں۔ اگر معصوم جسموں پر پڑنے والے کوڑوں کی ظالمانہ آوازیں ادیب کے احساسات کو مجروح نہیں کرتیں تو ادب ٹھہرے ہوئے گندے پانی کے کائی زدہ جوہڑسے بد تر ہے (جس سے کتا بھی پانی پینا پسند نہیں کرتا)۔ میں یہ بات واضح کر دوں کہ ادیب کو سلطان یاسلطنت سے کوئی عناد نہیں ہوتا لیکن ریاست پر ظالمانہ طبقاتی نظام کی چاپ اس کے جذبات و احساسات پر قطرہ قطرہ تیزاب کی طرح گرتی رہتی ہے چنانچہ اس کے قلم سے نظام کی جبریت کے خلاف احتجاج جنم لینے لگتا ہے۔۔۔‘‘
ان افسانوں میں مارشل لا کی جبریت کے خلاف نفرت کا سمندر موجزن ہے۔ ہر ہر لفظ کے ورقارے میں شدید تیزابیت گھلی ہوئی ہے۔ یہ نفرت اور جھنجھلاہٹ انسانی ہاتھوں کی پھولی ہوئی نسوں اور پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ تخلیق کار کے اظہار میں اپنی واضح پہچان کرواتی ہے:
’’میں زور سے ہنسا۔۔۔ ’’قومی سلامتی یہ بھی خوب چیز ہے۔‘‘ اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور بولا۔
’’عصمت فروش عورت کی انا جو بگڑ جائے تو عصمت دری کے الزام میں پکڑواتی ہے۔ ہمارے قومی سلامتی بھی اس قسم کی چیز ہے۔‘‘
( ’’وہسکی اور پرندے کا گوشت: احمد داؤد)
مستنصر حسین تارڑ، اعجاز راہی اور احمد داؤد نے خصوصی طور پر اپنے افسانوں میں فکری اور نظریاتی محاذ آرائی ان طاقتوں کے خلاف کی ہے جو ترقی پذیر ممالک میں اپنے استحصال کرنے والے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
(مرزا حامد بیگ: افسانے کا منظر نامہ، ص143-144)
رام لعل عام طور پر علامتوں سے گریز کرتے ہیں اور کسی حد تک روایتی کہانیاں لکھتے ہیں لیکن ان کے افسانوں میں بھی اکثر و بیشتر نئے موضوعات دکھائی دے جاتے ہی۔ ان کی افسانہ نگاری کا فن عام فہم ہے لیکن جدید احساس فکر سے پر۔۔۔ وہ بڑی سادگی اور سلیقے سے عام قاری تک اپنی بات پہچانے میں جدید انسان کی ذہنی کیفیت تک کو انھوں نے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ متوسط طبقے کے ایک انسان کے احساس کمتری کو بڑی خوبی سے اپنے افسانہ ’’چاپ‘‘ میں پیش کیا ہے۔ وہ انسان دولت کے حصول کے لیے کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک دولت کی کتنی اہمیت ہے۔۔۔ اس کی اپنی ذات کے دو پہلو ہیں۔۔۔ اس کے اندر کا انسان اسے ہمیشہ دولت کی اہمیت اور اس کے حاصل کرنے کی نت نئی تدبیریں بتاتا رہتا ہے۔۔۔ زمین کھود کر دولت نکالنے کا خیال وکاس کے دل میں اس کے اندر کے انسان (جو نفسیاتی خواہشات کی علامت ہے ) نے جگا دیا ہے اور وہ دیوانہ وار گڑھا کھود نے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس افسانے سے چند اقتباسات:
’’اس کے پاس زمین کھودنے کے اوزار نہیں تھے۔ اس نے مکان کا کونہ کونہ چھان مارا۔ دل ہی دل میں اس کلرک کو بھی کوسا جو اس چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ اچانک اس کے ہاتھ کوئلہ توڑنے والی ایک ہتھوڑی لگ گئی کچھ اور کوشش کرنے پر لکڑی پھاڑنے والی ایک کند کلہاڑی بھی ملک گئی لیکن یہ دونوں اوزار فرش کا پختہ سیمنٹ توڑ لینے اور ایک گہرا گڑھا کھود لینے کے لیے کار آمد نہیں تھے۔ اسے رات بھر نیند نہ آ سکی۔ وہ فرش پر لیٹا لیٹا گڑھا کھودنے کی تدبیریں سوچتا رہا۔۔۔‘‘
( ’’چاپ‘‘ ۔ مجموعہ: رام لعل کے منتخب افسانے، ص12)
’’وکاسؔ کے اندر اس قسم کی تبدیلی اور بھی نمایاں ہوتی چلی گئی۔ وہ گڑھے کے اندر بیٹھا بیٹھا ان لوگوں کی باتیں خاص دھیان سے سنتا تھا جو اس سے ملنے کے لیے آ جاتے تھے لیکن دروازے پر تالا پڑا دیکھ کر پڑوسیوں سے ہی اس کے بارے میں پوچھنے لگتے تھے۔ وہ کھریا بھی چلاتا رہتا اور بڑبڑاتا بھی رہتا۔ ذلیل۔۔۔ مردود بس کچھ دن اور رک جاؤ۔ تم میرے یہاں مہمان بن کر رہنے کے لیے آئے ہونا۔ پر یہاں جگہ ہی کتنی ہے، جانتے ہو پھر بھی چلے آتے ہو۔‘‘
( ’’چاپ‘‘ ۔ مجموعہ: رام لعل کے منتخب افسانے، ص14)
’’لیکن وہ اب نہیں اٹھ سکتا۔ کتنے برسوں سے تو مٹی کے نیچے دبا پڑا ہے۔ اب تو وہ اپنی ساری شکتی ہی ختم کر چکا ہے۔ اب اس کے بدن کا کوئی انگ سجیو نہیں ہے۔ اس کا صرف احساس ہی زندہ ہے۔ اسے ابھی تک یاد ہے، اس کی بیوی اس کے ہاتھوں سے وہ بکس چھین کر لے گئی تھی۔ پھر اس نے اس کے اوپر بہت ساری مٹی گرا دی تھی۔ ایسے دفنا چکنے کے بعد بھی وہی اس کے اور چلتی رہتی ہے۔ وہ اس کی چاپ کو پہچانتا ہے۔ اب تو اس کے ساتھ کوئی اور بھی اوپر آ کر چلتا رہتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کون ہے۔‘‘
اچانک اسے یاد آ جاتا ہے۔ دوسری چاپ کو بھی پہچان لیتا ہے۔ یہ اسی آدمی کی چاپ ہے جو اسے کئی سال پہلے گاڑی میں مل گیا تھا۔ وہ بھی وکاسؔ ہی تھا لیکن کون سا وکاس؟ اور یہ وکاسؔ کون ہے جو مٹی کے نیچے دبا پڑا ہے؟
یہ یاد کر کے اس کی قوتِ سامعہ ختم ہو جاتی ہے۔ قوتِ احساس بھی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وہ کچھ نہیں سن پاتا، کچھ بھی نہیں سوچ پاتا اور اس کے بعد وہ مر جاتا ہے۔‘‘
( ’’چاپ‘‘ ۔ مجموعہ: رام لعل کے منتخب افسانے، ص17-18)
رام لعل کے اس افسانے کا مرکزی کردار وکاس ہے۔ وکاس ایک متوسط طبقے کا شخص ہے، جو COMPLEXکا شکار ہے۔ وکاس کی ذات کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک وکاس اس کے اندر جنم لے رہا ہے جو باہر والے وکاس کو نت نئے رنگین خواب اور سبز باغ دکھاتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں بھی ’’بڑا آدمی بننے‘‘ اور خزانہ پانے کی خواہش اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ بالآخر اس کی یہ خواہش جسم کا روپ لے کر دوسری ذات کے پیکر میں اسے خزانے کی بشارت دیتی ہے اور انجام کار وکاس خواہشات کی مٹی کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دیتا ہے۔
اس سلسلے میں رشید امجد اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’یہ افسانہ (چاپ) انسان کے فطری رجحان اور خواہشات کا دلچسپ مطالعہ ہے۔ اس میں ذات کا بکھرنا اور خانوں میں بٹ جانا بنیادی تنازعہ ہے۔‘‘
( ’’افسانے کے نئے موضوعات‘‘ ۔ رشید امجد۔ پاکستان ادب۔ تنقید،ص 786)
’’بٹی ہوئی شخصیت‘‘ کے موضوع پر جدید افسانہ نگاروں نے کثرت سے افسانے لکھے ہیں۔ قاسم محمود نے ’’چیونٹی کا قاتل‘‘، بلراج کو مل نے ’’کنواں‘‘، سریندر پرکاش نے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘، وہاب دانش نے ’’دوڑتے جسم پگھلتے شبد‘‘ وغیرہ۔۔۔ ان سبھی افسانوں میں شخصیت کے بکھراؤ اور ظاہر و باطن کے درمیان ذہنی کشمکش کو بنیادی موضوع بنایا گیا ہے۔ ’’چیونٹی کا قاتل‘‘ (قاسم محمود) ایک کامیاب نفسیاتی افسانہ ہے۔ اس کا مرکزی کردار ذہنی کشیدگی اور نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔ نفسیاتی طور پر اسے احساسِ جرم کی شدت دو حصوں میں بانٹ دیتی ہے اور وہ درمیان سے کٹ سا جاتا ہے۔ وہ اس کٹی ہوئی ذات (جو اس کی اپنی ذاتی کا ہی ایک حصہ ہے ) سے ڈراسہما، احساس جرم میں مبتلا ایک نفسیاتی مریض بن کر سامنے آتا ہے۔ بار بار وہ کٹی ہوئی ذات، غیر ذات، دوسری ذات بن کر آسیب کی طرح اس کی گرد منڈلاتی رہتی ہے۔ یہ ایک علامتی افسانہ ہے۔۔۔ بلراج کو مل نے بھی ذات کو دو حصوں میں بانٹ کر افسانہ ’’کنواں‘‘ تخلیق کیا ہے۔ اس افسانے کے متعلق رشید امجد رقم طراز ہیں:
’’بلراج کومل کے کنواں کا مرکزی کردار گولنکر ذہین شہری کے روپ میں چیزوں کو بیکار سمجھ کر ترک کر دینے کے خلاف ایک طنزیہ رجحان ہے۔ بنیادی طور پر کنویں سے نل کی طرف ہجرت ایک معاشرے اور تہذیب کی اپنی اصل بنیادوں سے دوسرے غیر منطقے کی طرف سفر کی غماز ہے۔ کنواں ایک مخصوص معاشرے اور تہذیب کا اشاریہ ہے۔ یہ تہذیب جو زمین سے لپٹی ہوئی ہے اور جس کی جڑیں دھرتی کے سینے میں دور تک اتری ہوئی ہیں۔
گولنکر کا چھلانگ لگانے کا عمل اس کی تہذیب کے انسان کی وہ ذہنی جست ہے جس سے وہ خلاؤں میں معلق ہو گیا ہے اور دھرتی سے دور، یہی حال گولنکر کا ہوتا ہے۔ اس کی چھلانگ ہی اس کی موت کا اعلان نامہ ہے۔ وہ بٹی ہوئی شخصیت کا مسئلہ ہے۔ کنویں پر اس کی ملاقات جس اجنبی سے ہوتی ہے وہ اس کے اندر کی بے نام ذات ہے۔۔۔‘‘
( ’’افسانے کے نئے موضوعات‘‘ ۔ رشید امجد۔ پاکستان ادب۔ تنقید، ص787-788)
عابد سہیل نے بھی اس موضوع پر ایک کامیاب افسانہ ’’میں اور میں‘‘ لکھا ہے۔ ’’میں اور میں‘‘ ایک کامیاب نفسیاتی افسانہ ہے۔ ضمیر کی پکار سے الجھا ہوا ایک شخص اپنا چہرہ نظر آنے والے آئینے پر ایک کپڑا ڈال دیتا ہے۔۔۔ آئینے میں اس کی اپنی ذات اس کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور مآل کار وہ اس کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو دیتا ہے۔ ایک بے بس اور لاچار، ٹوٹا بکھرا شخص آئینے پر کپڑا ڈالنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
عابد سہیل نے جدید مسائل کو محسوس کرتے ہوئے بہت سے افسانے لکھے ہیں جن میں ’’سب سے چھوٹا غم‘‘، ’’روح سے لپٹی ہوئی آگ‘‘، ’’دوسرا آدمی‘‘، ’’دو نقش ایک تصویر‘‘، ’’پیاسے‘‘، ’’نوحہ گر‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے افسانوں میں جدت کا رنگ نمایاں ہے۔ انھوں نے افسانے کی روایت سے بغاوت نہیں کی ہے۔ ان کے یہاں پلاٹ ہوتا ہے، کردار ہوتے ہیں اور قاری تک پہچانے کے لیے کوئی نہ کوئی نئی بات بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی وحدتِ تاثر کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جب کوئی نیا کرب اس دنیا میں غوطے لگاتا ہوا گوہر مراد لے کر کنارے تک پہنچا کرتا ہے۔ وہ موضوع کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور قاری کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہوئے خوبصورتی سے پلاٹ بن کر کہانی کے پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔۔۔ ان کی باریک بینی کا یہ عالم ہے کہ جب کہانی ’’نوحہ گر‘‘ کی رخشندہ دیوار پر لکھا ہوا اپنا نام پن سے کھرچ کر مٹاتی ہے تو مصنف کو اس کے ہاتھ پر گرے ہوئے سفیدی کے چھوٹے چھوٹے ذرے بھی نظر آ جاتے ہیں۔ ان کی ایک کہانی ’’منیر کی ماں‘‘ کا موضوع جدید دور میں بھی آقا اور خادم کے درمیان کھڑی ہوئی مضبوط دیوار پر مبنی ہے۔ اس کہانی میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں کہانی کار مالک اور ملازم کے مابین امتیاز کی دیوار قائم کر دیتا ہے۔۔۔ مالک، نوکر کو محبت، خلوص، ہمدردی اور شفقت، سب کچھ دیتا ہے اور اسے اپنا سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ نوکر سے لپٹ کر رو نہیں سکتا کیوں کہ ایم۔ اے کی ڈگری، انگریزی اخبار کی ملازمت، سوٹ بوٹ اور سماج کے طنزو تمسخر سے چنی ہوئی ایک دیوار ان دونوں کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
عابد سہیل کا ’’سب سے چھوٹا غم‘‘ بھی ایک دل چھو دینے والا افسانہ ہے۔ اس افسانے میں مصنف نے مزار کی جالی کو دنیا کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے اور بندھے ہوئے دھاگے، غم، آرزو اور تمنائیں ہیں۔۔۔ یعنی یہ دنیا غم اور خواہشات کا سمندر ہے۔ ہر آدمی اپنے غم میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی اپنی مسرتوں کو سینے سے لگائے کب تک خوش رہ سکتا ہے۔ دوسروں کو غموں سے نجات دلانے کی خواہش ہی اسے اپنے غم کے بوجھ سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔۔۔ لہٰذا وہ لڑکی جو مزار پر مراد مانگنے آئی تھی، اتنے سارے مرادوں کے دھاگوں کو دیکھ کر اب بڑا سا دھاگا جالی کے چاروں طرف کونوں پر باندھ دیتی ہے اور کہتی ہے:
’’شیخ ان سب کی مرادیں بر آئیں تو میرا غم بھی ہلکا ہو جائے گا۔ اتنے بہت سے دکھوں کے بیچ میں کیسے خوش رہ سکوں گی۔۔۔‘‘
اقبال متین کے افسانے ’’بیر بہوٹی‘‘ کا مرکزی کردار ایک لڑکی بٹّن ہے جس کی ماں اسے ڈاکٹر بنانے کی شدید خواہش میں یہ تک جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی کہ آیا بٹن اس کی اہل ہے بھی یا نہیں۔ یہاں تک کہ بٹن کا بابا اس کی نا اہلی کے سلسلے میں جب اس کی ماں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرتا ہے تو اسے سخت ناگوار گزرتا ہے اور وہ بابا کی بات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب میں یہ اعلان کر دیتی ہے کہ اس کی بیٹی عنقریب ڈاکٹر بننے والی ہے اور پی۔ یو۔ سی کا امتحان فرسٹ کلاس پاس کرے گی۔۔۔ حالانکہ اس کی ماں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا اور اس کی یہ خواہش بٹن کے حق میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
اس افسانے میں اقبال متین نے در اصل ان والدین کی غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے جو بچوں کی دلچسپی اور ان کے طبعی رجحان کو جانے بغیر اپنی خواہشات کے مطابق ان کی زندگی اور مستقبل کے فیصلے کر لیتے ہیں اور بچوں کی بے جا تعریف کر کے ان کے حق میں کانٹے بوتے ہیں اور ایسے لوگ جو اپنی جھوٹی تعریف سے پھولے نہیں سماتے اور جنھیں خود ستائی تو بہت عزیز ہے لیکن مقابلے کے وقت یا موقع پڑنے پر ’’بیر بہوٹی‘‘ کی طرح اپنے پاؤں سکیڑ لینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔
جبر اور ظلم کی درد ناک گھٹن کے احساس کو اقبال مجید نے اپنی کہانی ’’مدافعت‘‘ میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک عمارت میں آگ لگ جانے کی وجہ سے دھوئیں سے بھرے کمرے میں گھٹتے رہنے کے بجائے کھڑکی سے کود کر کھلی فضا میں مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اقبال مجید کہنا چاہتے ہیں کہ آدمی کے لیے دھوئیں کی گھٹن میں بے دست و پا پڑے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ تازہ ہوا میں موت کو گلے لگا لے۔ اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اگر دھواں ہمیں کھڑا نہیں ہونے دیتا تو آؤ ہم سب رینگ رینگ کر آگے بڑھیں۔‘‘
اس کے ساتھی نے پوچھا۔۔۔ ’’تمھارے داہنی طرف کیا ہے؟‘‘
’’دھواں۔۔۔‘‘
’’بائیں طرف۔۔۔؟‘‘
’’دھواں۔۔۔‘‘
’’تمھارے اوپر کیا مسلط ہے۔۔۔؟‘‘
’’دھواں۔۔۔‘‘
’’اس لیے نیچے دبکے پڑے رہو کیوں کہ سب سے کم دھواں نیچے ہی ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ تو جبر ہے۔۔۔‘‘
’’ہاں اور جبر کے حالات میں زمین پکڑ کر پڑے رہنا ہی مدافعت ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ تو بزدلی ہے۔۔۔‘‘
’’نہیں یہ مدافعت ہے۔۔۔‘‘
’’مدافعت۔۔۔ دم گھٹا دینے والے حالات میں جان دینے سے بہتر مدافعت تو کھلی ہواؤں میں جان دینا ہے۔۔۔‘‘
وہ اپنی تمام قوت کو یکجا کر کے فرش چھوڑ کر پورے قد سے کھڑا ہو گیا۔ دھوئیں میں ہاتھ پری مارکر ڈگمگاتے قدموں سے چل کروہ اس کھڑکی تک آیا جو انھیں کمرے کے اندر لائی تھی اور کھڑکی نیچے پھاند گیا۔۔۔‘‘
( ’’مدافعت‘‘ : اقبال مجید انتخاب: بیسی نئی کہانیاں۔ مرتب، علی احمد فاطمی، ص123-124)
ہندو پاک کی تقسیم کے کرب نے جہاں بہت سی کہانیوں کو جنم دیا ہے وہاں رتن سنگھ کی کہانی ’’پناہ گاہ‘‘ بھی اردو افسانے کی دنیا میں ایک دل دوز اور لرزہ خیز کہانی کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ موضوع اردو افسانے کا خاص موضوع رہا ہے۔۔۔ نئے افسانہ نگار جنھوں نے ’’بٹوارے‘‘ کے کرب کو خود جھیلا نہیں ہے وہ بھی اس کے اثر سے آزاد نہیں۔
ابن کنول نے ’’بند راستے‘‘ افسانہ لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نسل جو آزادی یا تقسیم وطن کے بعد پیدا ہوئی ہے وہ بھی اس لعنت کا شکار ہے۔ جس زمانے میں ’’بند راستے‘‘ کا مرکزی کردار ہندوستان آتا ہے، اسی وقت جنگ چھڑ جاتی ہے اور آمدورفت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں، اب وہ بے گھر ہو جاتا ہے۔ نہ وہ پاکستان جا سکتا ہے اور نہ اب ہندوستان ہی اس کا گھر ہے۔ اس کرب کی عکاسی ابن کنول نے بڑی مہارت سے کی ہے۔
سید محمد اشرف نے ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ کہانی بھی اسی موضوع کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ جب ایک نوجوان پاکستان اپنے عزیزوں سے ملنے جاتا ہے تو وہ لوگ حیرت سے ہندوستان کے بارے میں پوچھتے ہیں اور وہ ان کرداروں کے چہرے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے جو مجبوری کے تحت پاکستان چلے تو گئے ہیں لیکن آج بھی مادر وطن کی یاد ان کے دلوں کو برماتی رہتی ہے۔۔۔ ان کی مثال ان پرندوں کی سی ہے جو ڈار سے بچھڑ گئے ہیں۔
عورت مرد کے رشتوں پر 1970ء کے بعد والی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار شفقؔ اچھے اور کامیاب افسانے لکھ رہے ہیں۔۔۔ ’’نچا ہوا گلاب‘‘ اور ’’اکھڑے ہوئے پاؤں‘‘ اس سلسلے کی اچھی کہانیاں ہیں۔ ’’اکھڑے ہوئے پاؤں‘‘ عورت کی لاچاری اور بے بسی کی کہانی ہے۔ آج بیسویں صدی میں بھی عورت، مرد کی ہوس کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔۔۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر کے گھر سے مائیکے جا رہی ہوتی ہے کہ راستے میں ہوس کے بھوکے بھیڑئیے اس کی عصمت لوٹ لیتے ہیں۔ اب اس کے بعد اس عورت کی زندگی میں کیا رہ جائے گا، اس کی طرف شفق نے بڑی فنکارانہ مہارت سے اشارہ کیا ہے۔۔۔ اس عورت کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے اس شوہر کا سامنا کیسے کرے گی جو اس سے ناقابل بیان حد تک محبت کرتا ہے۔
اس کہانی میں مصنف نے چند اَن کہے سوال کھڑے کیے ہیں جن کا جواب سماج کے ان ہوس پرست درندوں سے مانگا ہے جو چند لمحوں کی لذت کی خاطر عورت کی زندگی تباہ کر ڈالتے ہیں۔۔۔ اس کہانی سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
’’مگر اس بار اس کے سینے پر سر رکھ کر کچھ پوچھ سکوں گی، اتنی دیر تک اس کی آنکھوں میں دیکھ سکوں گی؟ میری نظریں جھک نہ جائیں گی۔ میرا چور پکڑا نہ جائے گا، تو پھر کیا ہو گا۔۔۔؟ چہرے کی خراشوں کی کھرنڈ تو چھٹ گئی ہیں، ہلکی سفید لکیریں میک اپ سے چھپ جائیں گی مگر چھاتیوں پر دانتوں کے نشانات اور پیٹھ کی خراشیں۔
کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی وہ میرے کپڑے اتارنے شروع کر دے گا، کتنے پیار اور ملائمت سے بازو کے بٹن اور بریشیر کے ہُک کھولتا ہے۔۔۔ بلب بھی نہیں بجھاتا۔ پھر مجھے اچھی طرح روشنی میں دیکھے گا، کانچ کی گڑیا کی طرح چھو چھو کر ہاتھ پھیر پھیر کر، پھر مخصوص جگہوں پر ہونٹوں سے برش کرے گا اور تب۔۔۔ خراشیں اور دانت کے نشانات۔
تب اسے وہ تاریک رات یاد آئی، بند کمرے کی گھٹن، جد و جہد، آگ، لاوا اور اڑتی ہوئی چٹانوں کی خراشیں، بے بس چڑیے کی طرح پھڑ پھڑاتی ہوئی وہ اور آگ کی دہکتی ہوئی چٹان، نوکیلا پتھر اور۔۔۔ اور۔ تب اسے محسوس ہوا جیسے اس رات وہ پہلی بار عورت بنی تھی۔‘‘
( ’’اکھڑے ہوئے پاؤں‘‘ ۔ شفق۔ مجموعہ: سمٹی ہوئی زمین، ص25)
شفق نے اس کہانی کے آخری جملے میں بڑی تلخی سے سماج پر طنز کیا ہے۔۔۔‘‘ عورت کا مقدر ہی مردوں کے بنائے سماج کے شکنجوں میں پھنس کر تلملاتے رہنا ہے۔۔۔‘‘
نئی کہانی کے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے جو گندر پال کا کہنا ہے کہ زندگی کی کیفیات پیہم تغیر پذیر ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو زندگی کی کہانیوں کی پٹاری کب کی خالی ہو چکی ہوتی۔۔۔ نئے نئے خیالات ادب کو زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر مسائل، خیالات، نظریے اور موضوعات میں تغیر نہ ہو تو کہانی مر جائے۔۔۔ ان دنوں نئے افسانے میں پروٹسٹ اور اینگر کا کافی تذکرہ ہے، اس ضمن میں جوگندر پال یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
’’آج کل ہماری کہانی میں پروٹسٹ اور اینگر کا بہت چرچا ہے۔ پروٹسٹ کا رویہ تخلیقیت کے لیے بہت سازگار ہے کہ تخلیق کار کو بے چین رکھتا ہے اور اسے پلانیچیوڈ کے نرم و گرم کیچڑ میں لت پت ہو کر خوابیدگی کا شکار ہونے سے بچائے رکھتا ہے، لیکن اس ضمن میں یہ نکتہ بھی یکساں اہم ہے کہ تخلیق کار کا پروٹسٹ ہی کہیں اس کا پلانیچیوڈ نہ بن جائے۔ اگر وہ ساری دنیا سے صرف اس لیے خفا ہے کہ اسے اپنے آپ سے بڑی محبت ہے تو اس سے تو یہی ادنیٰ پن بہتر ہے کہ سارے جہاں سے بنا کر رکھے تاکہ اپنے اس رویہ سے کم از کم کسی عام دنیا دار کی طرح اپنے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کے ذرائع بنائے رکھے۔ پروٹسٹ کی تخلیقی سطحیں اوپر اوپر ہی کی متلاطم نہیں ہوتیں۔ خود خفگی کا اضطراب اس سطحوں کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا کرتا ہے۔ اوپر تو پر سکون ہوتی ہیں تاکہ جہاز رانی کا باب نہ ٹوٹے۔۔۔‘‘
( ’’نئی کہانی کے مضامین‘‘، جوگندر پال رسالہ ’’عصری آگہی‘‘ (دہلی) جلد ۱، شمارہ 7-8، ص5)
جوگندر پال آگے لکھتے ہیں:
’’یہ صحیح ہے کہ ہر دور میں موضوعات بیش بیش ہوتے ہیں اور نیا رائیٹر جہاں اپنا نیا ماحول پیدا کرتا ہے، وہاں اپنے ماحول کی پیداوار بھی ہوتا ہے اور اسے اپنے گرد و پیش کے رد عمل سے گریز نہیں، پھر بھی عصری موضوعات کے جلی عنوانات گڑھ لینے سے کہانی شروع نہیں ہو پاتی۔ کہانی تب ہوتی ہے جب زندگی کے کسی سچے واقعہ کے مانند خاص حالات میں لوگوں پر پہلی اور آخری بار بیتتی ہوئی لگے۔‘‘
( ’’نئی کہانی کے مضامین‘‘، جوگندر پال رسالہ ’’عصری آگہی‘‘ (دہلی) جلد ۱، شمارہ 7-8، ص7- 8)
نئی کہانی کے موضوعات کے سلسلے میں جوگندر پال کے جو خیالات ہیں عین انھیں کے مطابق ان کی کہانیوں کے موضوعات بھی ملتے ہیں۔ ’’اسٹاپ‘‘، ’’بیک لین‘‘، ’’کایا کپٹ‘‘، ’’بے مراد‘‘، ’’باز رفت‘‘، ’’واردات‘‘، ’’سیدھی سی بات‘‘، ’’سمندر‘‘، ’’بھوت پریت‘‘، ’’بازدید‘‘، ’’نادیدہ‘‘، ’’جادو اور تخلیق‘‘ وغیرہ ان کی نمائندہ کہانیاں ہیں۔
نئے دور میں کالج کی جو صورت حال ہے اس پر انھوں نے اپنے ایک افسانے بازیچۂ اطفال میں روشنی ڈالی ہے۔ کالج کے پرنسپل جن کی عمر تقریباً ۵۰ سال ہے اس افسانے کے مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کردار کی ذات کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کالج کے پرنسپل کا نفسیاتی اور ذہنی تجزیہ کرنے کے ساتھ ہی ساتھ کالج کی سیاسی جگلری، اندرونی حالات، ادھیڑ عمر مجرد اساتذہ کے جذبات اسفل، اندرونی خباثتوں اور کسی حد تک ان کے دبے ہوئے جنسی محرکات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔۔۔ اس کہانی کے موضوع میں تازگی ہے اور انداز تحریر کی شگفتگی نے اسے اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے۔
انسانی ذات کو کئی حصوں میں بانٹنے کا رجحان کئی افسانہ نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔ سمیع آہوجہ نے ’’برسات کی رات‘‘ میں اسی موضوع کو اپنایا ہے۔۔۔ کہانی کے چند اقتباسات ملاحظہ ہو:
’’مشینی درندے کے پیٹ میں رہتے ہوئے اس کے پانچ سال بالکل روکھے پھیکے بیت گئے۔ نہ جانے وہاں صبح کس لمحے شروع ہوتی اور کس وقت شام کا شامیانہ تن جاتا، اس نے ایک ہی رنگ میں دیکھا۔‘‘
( ’’برسات کی رات‘‘ : سمیع آہوجہ)
’’بالکونی کی کھڑکی اس نے زور سے بند کر دی اور چند لمحے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر اس نے آنکھیں موند لیں اور ایکا ایکی اس کا گلا دبوچ لیا۔۔۔‘‘
’’وہ مسحوراس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی جو بتدریج تیز غرّاتی آواز میں بدل گئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دروازے میں کھڑا تھا۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ تو۔۔۔ وہ خود ہی تھا۔‘‘
( ’’برسات کی رات‘‘ : سمیع آہوجہ، انتخاب: بہترین نئی کہانیاں۔ مرتبین: اعجاز راہی، احمد داؤد، ص126-127-130)
اس کہانی میں شخصیت کو پانچ مختلف ٹکڑوں میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔ افسانے کا واحد غائب بارش کی طوفانی رات میں اپنی داخلی شخصیتوں، بھیڑیا۔۔۔ کتا اور سانپ سے آشنا ہوتا ہے۔۔۔ اس کی شخصیت کے تمام خول اس رات اتر جاتے ہیں اور وہ برہنہ ہو جاتا ہے۔۔۔ اور اس طرح وہ خود اپنا صحیح اور اصل روپ دیکھ لیتا ہے مگر دوسرے دن علی الصباح وہ تمام کردار جو خول سے باہر نکل آئے تھے، پھر اس کی ذات کے اندر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اترے ہوئے خول ایک ایک کر کے پھر شخصیت پر اپناتسلط جما لیتے ہیں۔
اس موضوع پر کلام حیدری کا افسانہ ’’سخی‘‘، شمس نعمانی کا‘‘ اندھے کنویں کی چھپکلی‘‘ اور اثر فاروقی کا ’’القارعہ‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔۔۔ پاکستانی افسانے کے سلسلے میں رشید امجد کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:
’’بٹی ہوئی شخصیت کے علاوہ ایک اور موضوع جس نے اردو افسانے کو نئی جہت دی ہے اس کی زمینی وابستگی کا اظہار ہے۔ مٹی کی محبت اردو افسانے میں ایک نئے رخ کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارے قدیم افسانے میں وطن پرستی کا جذبہ اس شد و مد کے ساتھ سامنے نہیں آیا جس طرح نئے افسانہ نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔ اس موضوع پر جو افسانے میری نظر سے گزرے ہیں ان میں فرخندہ لودھی (لیگی)، نسیم درّانی (اب ادھر آ جاؤ‘‘ ) غلام الثقلین نقوی (سبز پوش) کا ذکر کرنا چاہوں گا۔‘‘
(افسانے کے نئے موضوعات: رشید امجد، پاکستانی ادب۔ تنقید۔ پانچویں جلد، مرتبین: رشید امجد/ فاروق علی ص۷۸۹)
رشید امجد نے مذکورہ افسانوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ سبھی افسانے وطن پرستی، زمین سے محبت اور زمین سے کٹے ہوئے انسان کے کرب کی ترجمانی کرتے ہیں۔۔۔ انتظار حسین کے بھی متعدد افسانے اسی موضوع پر موجود ہیں۔۔۔ مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ کے تمام افسانے آبائی وطن سے افسانہ نگار کی دلی وابستگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔۔۔ انتظار حسین کا ایک خاص موضوع ’’ہجرت‘‘ بھی ہے۔۔۔ اس موضوع پر انھوں نے بے شمار کامیاب افسانے لکھے ہیں۔ ’’ہجرت‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے افسانے ہندوستان سے ان کا قلبی لگاؤ ظاہر کرتے ہیں۔
اردو میں جدید افسانے پر ایک الزام یہ ہے کہ اس نے صرف قصباتی اور شہری مسائل کو TOUCHکیا ہے، دیہات کی عکاسی نہیں کی ہے۔۔۔ لیکن یہ الزام درست نہیں ہے۔۔۔ بہت سے نئے افسانہ نگاروں نے دیہات پر بھی افسانے لکھے ہیں، جن میں قاضی عبد الستار کا نام ایک معتبر نام ہے۔ قاضی صاحب کے علاوہ رتن سنگھ، بلونت سنگھ، غیاث احمد گدی اور سریندر پرکاش نے بھی دیہاتی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جدیدافسانہ کا رشتہ تجریدی، تمثیلی اور استعاراتی اسلوب کی بنا پر کسی حد تک دیہات سے کٹ گیا ہے۔۔۔ اس ضمن میں انور سدید ان الفاظ میں اظہار خیال کرتے ہیں:
’’ہیئت اور اسلوب کے ان تجربوں سے میرے خیال میں دیہات کی پیش کش پر کوئی نمایاں مثبت اثر نہیں ڈالا۔ وجہ یہ کہ جدید افسانے میں جس حسیت کو فروغ ملا ہے اس میں فرد کی تنہائی، ماحول کی شکستگی، قدروں کے زوال وغیرہ کو اہمیت حاصل ہے اور یہ سب میکانکی دور کی پیداوار ہیں۔ دیہات میں تبدیلی کا عمل آ رہا ہے لیکن اس کی رفتار تیز رو نہیں۔ دوسرے جوں جوں یہ تبدیلی دیہات کی طرف لپک رہی ہے، دیہات توں توں پیچھے کی طرف بھاگ رہا ہے۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ دیہات نے جس طرح اپنے معاشرے کا تحفظ کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح افسانے کی پیش کش میں کہانی کے قول کو بھی برقرار رکھا ہے۔ جدید افسانہ نگار جس انداز فن کو فروغ دے رہا ہے، دیہات فی الحال اس انداز کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔
(جدید افسانے میں دیہات کی پیشکش: انور سدید، کتاب: اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش، مصنف: انور سدید، ص168)
لیکن اس کے باوجود جدید افسانے کاکینوس دیہاتی پس منظر کے لیے اتنا موزوں نہیں ہے۔ پھر بھی جدید افسانہ نگار دیہات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا رہے ہیں بلکہ تجریدی اور علامتی کہانیاں بھی دیہاتی پس منظر میں تخلیق کی جا رہی ہیں۔۔۔ غلام الثقلین نقوی نے دیہات سے اپنا رشتہ مضبوطی سے قائم کر رکھا ہے۔ افسانوں کے علاوہ انھوں نے دیہاتی پس منظر میں ایک ناول ’’میرا گاؤں‘‘ بھی لکھا ہے۔ اس ذیل میں ان کا افسانہ ’’اندھا کنواں‘‘ قابل تحسین ہے۔
علاوہ ازیں چودھری محمد نعیم کا افسانہ ’’بس ایک کہانی‘‘، سریندر پرکاش کا ’’بجوکا‘‘، جوگندر پال کا ’’بازدید‘‘، مشتاق قمر کا ’’لہو اور مٹی‘‘، محمد منشا یاد کے افسانے ’’باگو بگھیلی رات‘‘، ’’کچی پکی قبریں‘‘، ’’باس اور مٹی‘‘ اور ’’پانی میں گھرا ہوا آدمی‘‘ ۔۔۔ مرزا حامد بیگ کے افسانے ’’بالے نور محمد کا آخری گیت‘‘ اور ’’سونے کی مہر‘‘ ۔۔۔ مظہر الاسلام کا ’’بارہ ماہ‘‘ وغیرہ نہ صرف یہ کہ دیہاتی پس منظر میں لکھے گئے کامیاب افسانے ہیں بلکہ ان کے موضوعات بھی دیہاتی مسائل سے پر ہیں۔
عورت کی مظلومیت کے موضوع پر ترقی پسند مصنفین اور ان سے قبل پریم چند نے خوب خوب خامہ فرسائی کی لیکن ایسا نہیں کہ اب بظاہر عورت کے حالات بدل جانے سے نئے لکھنے والوں کی توجہ اس موضوع سے ہٹ چکی ہو۔۔۔ ’’کوئی گل پھر کھلے گا‘‘، ایک بالکل نئے لکھنے والے افسانہ نگار عظیم اقبال کی اس موضوع پر تحریر کردہ کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی ڈری سہمی لڑکی کی کہانی ہے جس نے اپنی ماں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے ہیں لہٰذا وہ بذاتِ خود حد درجہ تنہائی پسند ہو گئی ہے اور اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔ اب اسے کسی دوسرے پر کیا خود اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا ہے جس کی بنا پر اس کا ذہنی ہیجان دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ زیر تذکرہ کہانی کا ایک اقتباس:
’’میں نے اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ مجھے اعتبار لفظ سے ہی چڑ ہونے لگی ہے۔ غیر کچھ کریں کوئی بات نہیں، پر جب اپنے تکلیفیں دینے لگیں تو آپ ہی بتائیے کیا کرے کوئی؟ آپ پر بھی اعتبار کرتے ہوئے ڈرتی ہوں۔‘‘
(کوئی گل پھر کھلے گا: عظیم اقبال۔ مجموعہ: جو کہا نہیں جاتا: عظیم اقبال، ص13)
انسان دولت پیدا کرنے کی ہوس میں مشین بن چکا ہے۔۔۔ روپے پیسے نے انسانی رشتے ناطوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس موضوع پر ’’لمحوں کی باز گشت‘‘ سید احمد قادری کا خوبصورت اور اثر انگیز افسانہ ہے۔ جو لوگ صرف دولت بٹورنے کے خیال سے اپنا وطن چھوڑ کر خلیجی ممالک جانے کے لیے بے چین ہیں اور اپنے بیوی بچوں کی مفارقت بھی بخوشی گوارا کر لیتے ہیں ایسے ہی ایک شخص کے کرب کی کہانی ہے۔۔۔ ’’لمحوں کی باز گشت‘‘ ۔۔۔ گھر سے دور کس طرح وقت گزرتا ہے اور کن کن محرومیوں اور غم انگیزیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اس کی عکاسی سید احمد قادری نے بڑے فنکارانہ انداز سے کی ہے۔۔۔ ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
’’ان ہی اداسیوں، محرومیوں اور کرب ناکیوں کے درمیان دن گزرتے رہے۔۔۔ اور ایک دن چپکے سے میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں یہاں آ کر انسان نہیں رہا، روپے چھاپنے کی بے جان مشین بن کر رہ گیا ہوں۔ مشین جو روپیوں کا ڈھیر تو لگا دیتی ہے۔۔۔ لیکن اس کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔۔۔‘‘
(لمحوں کی باز گشت: سید احمد قادری، مجموعہ: ریزہ ریزہ خواب، ص36)
اردو کے نئے لکھنے والوں میں کچھ افسانہ نگاروں نے سماجی مسائل پر بہت کم توجہ دی ہے۔۔۔ ان کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر داخلی ہوتے ہیں۔۔۔ انسان کی ذات کا کرب، تنہائی کا مسئلہ، اقدار کی شکست و ریخت وغیرہ۔۔۔ ان افسانہ نگاروں میں ایک نام حمید سہروردی کا بھی ہے۔ ان کے بارے میں مہدی جعفر کی رائے ملاحظہ ہو:
’’وہ (حمید سہروردی) بصری تاثیر (VISUAL EFFECTS)پیدا کرنے میں منفرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر داخلیت کے بصری اظہار میں حد درجہ کامیاب ہیں۔ کہیں پرانے محاوروں سے نکل کر نئے محاوروں کی طرف آنے کا رجحان ہے، کہیں فکر اور حسیت کا تصادم یا ادغام نظر آتا ہے اور تہ در تہ ادراک پیدا کرتا ہے۔ ان کی دنیائیں نئی اور انجانی ہیں۔ وہ جہاں داخل سے خارجیت کو دیکھتے ہیں وہیں خارج سے داخلیت کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے فن میں جذباتیت سے گریز ملتا ہے اور حسی اور فکری طریق کار کو اہمیت حاصل ہے۔۔۔‘‘
(مہدی جعفر: پیش لفظ: ریت ریت لفظ: مصنف: حمید سہروردی، ص12)
انور خاں 1970ء کے بعد کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے نئے موضوعات تلاش کیے ہیں اور اچھے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے ایک افسانے ’’اپنائیت‘‘ کے سلسلے میں باقر مہدی رقمطراز ہیں:
’’مجھے ان کی سب سے زیادہ جو کہانی پسند ہے وہ ’’اپنائیت‘‘ ہے۔ اس میں ایک طرح کی تحیر آمیز تشنگی ہے۔ ’’اپنائیت‘‘ کا موضوع کیا ہے؟
تعلق خاطر کا فقدان۔۔۔
کیوں۔۔۔؟
یہ کیسا سماج ہے جس میں دوست، دوست نہیں صرف آشنا ہے۔ کوئی رشتہ دیرپا نہیں ہے، ہر رشتہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اگر اس کو تلاش کیا جائے۔۔۔ اور سب کسی نہ کسی طرح امیج کا شکار ہیں یعنی وہ نہیں ہیں جو نظر آتے ہیں۔۔۔‘‘
(باقر مہدی: انور خاں کا فن۔ رسالہ قلم (بمبئی) مدیر: الیاس شوقی کتاب۔ 2)
اسی نسل کے ایک اور افسانہ نگار بیگ احساس ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ کہانی میں خارجی موضوع ہو یا داخلی، ہر کہانی واضح اور صاف ہوتی ہے جو قاری کے ذہن پر ایک نقش چھوڑ جاتی ہے۔ ان کی کہانی ’’ریت اور سمندر‘‘ پر اپنی رائے کا اظہار اس سے قبل والی نسل کے مشہور افسانہ نگار اقبال متین نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’احساس کی ایک کہانی ’’ریت کا سمندر‘‘ ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے انسانی جبلت کے تضادات کا خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔ کامنیؔ ماں بن کر بھی مامتا کے جذبے سے اس لیے دور ہے کہ مسلط کردہ ازدواجی زندگی نے اس کے لہو میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے اور دل و دماغ میں نفرت کے بیج بو دیے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچے کے قتل کے بعد بھی وہ پشیمان نہیں ہے۔ کامنیؔ کی خود کشی کا سبب ہے وکرم کی موت، جس سے اس کے ناجائز تعلقات تھے۔ لیکن اس کی موت پر لوگوں کا رد عمل یہ تھا کہ مامتا کے جذبے نے آخر اس حد تک اس پر غلبہ پا لیا کہ اس نے اپنے احساس مجرمانہ کے آگے سپر ڈال دی اور زندہ رہنا گوارہ نہیں کیا اور اپنے اضطراری جرم کے خمیازہ میں خود کشی کر لی۔ در آنحالیکہ حقیقت اس کے بالکل مختلف تھی۔۔۔‘‘
(اقبال متین: ابتدائیہ: خوشۂ گندم، مصنف: بیگ احساس، ص13)
پاکستان میں نئی نسل کا ایک معتبر نام زاہدہ حنا کا بھی ہے۔ ان کے افسانے انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کے فن کی آمیزش معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے افسانوں میں تقسیم ہند کا کرب بھی ہے اور بے ذہنی کا احساس بھی۔۔۔ ان کے موضوعات میں کافی تنوع ہے۔۔۔ فخر الکریم، زاہدہ حنا کے موضوعات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’زاہدہ حنا کے افسانے انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کی افسانوی روایت کی توسیع ہیں۔ تقسیم ہند اور ہجرت سے پیدا ہونے والے مصائب، بے زمینی کا احساس، وقت کا جبر، انسانی زندگی کی بے بضاعتی اور سماج اور تاریخ کے رد عمل سے پیدا ہونے والے تلخ و شیریں دونوں رخ ان افسانوں کے توسط سے پیش کیے گئے ہیں۔ بغور دیکھا جائے تو ان کی بنیاد خارجی دنیا کی صداقت پر، مادی حقیقتوں پر، معیشت کے بے رحمانہ تضادات پر، بھوک پر، جنس پر اور انسانی رشتوں پر قائم ہے۔ ان کے افسانوں کے سارے کردار وقت اور تاریخ کی قید میں سانس لیتے ہیں۔۔۔‘‘
(فخر الکریم: رسالہ اندازے، ص9، پاکستانی کتب نمبر (الہ آباد)، ص77)
نئے افسانے کا جواز تلاش کرتے ہوئے پروفیسر محمد حسن نے اپنے مضمون ’’نئے افسانے کے بارے میں چند خیالات‘‘ میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
’’نئے افسانے کا صرف ایک ہی جواز ہے اور وہ یہ کہ نئی حقیقتیں برابر وجود میں آتی رہتی ہیں اور ان کے جلوے ادراک کے نئے آئینے اور شعور کے نئے عکس تلاش کرتے ہیں اور نئے افسانے تراشتے ہیں۔ جب تک یہ ناثباتی حقیقت بڑھتی، بدلتی اور نشو و نما باقی رہے گی ادب اور افسانے کے سرچشمے کبھی خشک نہیں ہو سکتے۔۔۔‘‘
(پروفیسر محمد حسن: نئے افسانے کے بارے میں چند خیالات: ادبی تنقید، 131)
یہ حقیقت ہے کہ نئے افسانے میں موضوعات سے زیادہ فن اور اسلوب پر زور دیا گیا ہے۔۔۔ اکثر و بیشتر موضوعات میں تازگی و ندرت نہ ہوتے ہوئے بھی لفظیات اور اسلوب نے اس افسانے کو تازہ اور جدید بنا دیا ہے۔ بہر حال افسانے میں موضوع کے ساتھ ساتھ لفظ کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔۔۔ شمیم حنفی نے انتظار حسین کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لفظ کی اہمیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اسلوب محض مخصوص لفظوں کی مخصوص تربیت نہیں بلکہ اپنی کائنات کی پہچان، حقیقت کی تفہیم اور ایک پوری تہذیب کے ادراک یا اس سے مربوط تجربوں اور واردات کا منظر نامہ ہے۔۔۔‘‘
(شمیم حنفی: کہانی کے پانچ رنگ، ص33)
یہ صحیح ہے کہ جدید افسانے نے اسلوب کے میدان میں کامیاب تجربے کیے ہیں لیکن موضوعات کے سلسلے میں پروفیسر محمد حسن کی شکایت بجا معلوم ہوتی ہے:
’’جدید اردو افسانے کے اس جائزے کے بعد اس کے چند کمزور گوشوں کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے۔ پہلی نمایاں کمزوری موضوعات کی یکسانیت اور خیال کے محدود ذخیرے کی ہے۔ ابھی تک لے دے کے چند خیالات ہی بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً یہ خیال کہ سماج کی گندگی نے افراد کی نیک سیرتوں کو مسخ کر دیا ہے یا بظاہر پاکباز لوگ بھی در اصل قریبی ہوتے ہیں یا پھر ایسے سیاسی اور صحافتی خیالات جن کے ذریعے کسانوں، مزدوروں اور نچلے متوسط طبقوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس کے بعد جنس اور عشق و عاشقی کے موضوعات۔۔۔‘‘
(پروفیسر محمد حسن: مختصر افسانہ، کتاب: جدید اردو افسانہ، ص44)
ان تمام حقائق کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے افسانے کا مستقبل تاریک نہیں ہے۔ اس میں متعدد روشن امکانات ہیں اور بہر حال مجموعی طور پر افسانے کا ارتقا روشن امکانات کی سمت ہو رہا ہے۔۔۔ ہیئت اور موضوع کے حسین امتزاج سے بھی بہترین افسانے تخلیق ہو رہے ہیں اور ہونے کے امکانات بھی ہیں۔۔۔ مہدی جعفر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ظاہر ہے کہ نئے فن کار کا مرحلہ سخت ہے۔ ایک تو مواد کی حیثیت سے، دوسرے ہیئتی لحاظ سے۔۔۔ خوف ہے کہ کہیں ایک ہی قماس کا گتھا ہوا ادب تخلیق نہ ہونے لگے۔۔۔‘‘
(مہدی جعفر: نئے امکانات۔ کتاب: اردو افسانے کے افق، ص175)
لیکن شکر ہے کہ جس خدشے کا اظہار مہدی جعفر نے مندرجہ بالا اقتباس میں کیا ہے وہ ردست نہیں۔۔۔ نئے افسانہ نگاروں نے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے اور ہیئت کے تجربے بھی ترسیل و ابلاغ کے مسائل سے الجھے بغیر کیے ہیں۔۔۔ آج جو افسانے تخلیق ہو رہے ہیں وہ1960ء سے 1970ء کے درمیان لکھے گئے افسانوں کے مقابلے میں زیادہ واضح اور موضوعات کے لحاظ سے زیادہ متنوع ہیں۔
نئے اور پرانے لکھنے والوں میں نیر مسعود، الیاس احمد گدی، احمد یوسف، کلام حیدری، سلام بن رزاق، عبد الحمید، انور خاں، انیس رفیع، پیغام آفاقی، انجم عثمانی، قمر احسن، حسین الحق، انور قمر، شوکت، حیات، آصف فرخی اور سید محمد اشرف وغیرہ سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔
***
ماخذ:
http: urdufiction.commazamin_details.php?id=7