اصل نام: محمد انوار الدین
قلمی نام: انور سدید
پیدائش: 4دسمبر 1928ء قصبہ میانی، تحصیل بھلوال، سرگودھا پاکستان۔
مستقل پتہ: 172۔ ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔
انور سدید کے بیٹے مسعود انور صاحب کی فیس بُک وال سے ایک تفصیلی تعارفی نوٹ کا اضافہ۔
"نامور ادیب، صحافی ڈاکٹر انورسدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھاکے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سکولوں میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ ان کا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن والدین سائنس کی تعلیم دلا کر انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دیا۔ اس وقت ان کے افسانے رسالہ بیسوی صدی، نیرنگ خیال اور ہمایوں میں چھپنے لگے تھے۔ عملی زندگی کی ابتدا محکمہ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔
بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ سکول رسول(منڈی بہائو الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست1948ء میں اول آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر کی ملازمت پر فائز ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ناآسودگی محسوس کی تو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دئیے۔ ایم سے فرسٹ کلاس حاصل کی اور خارجہ طلبہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
انور سدیدنے”اردو ادب کی تحریکیں” کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگران راہنما وزیر آغا تھے، پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر شمس الحسن صدیقی کو ان کا ممتحن مقرر کیا۔دونوں نے ان کے مقالے کو نظیر قرار دیا جو آئندہ طلبہ کو راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔ "اردو ادب کی تحریکیں” کے اب تک نو اڈیشن چھپ چکے ہیں -اس دوران انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔
محکمہ آبپاشی پنجاب سے ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے سے 60 برس کی عمر پوری ہونے پر دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ماہنامہ "قومی ڈائجسٹ "ہفت روزہ "زندگی” روزنامہ "خبریں” لاہور میں چند سال کام کرنے کے بعد وہ ملک کے نظریاتی اخبار "نوائے وقت” کے ادارے میں شامل ہو گئے، اس ادارے سے انہوں نے”دوسری ریٹائرمنٹ”جولائی2003ء میں حاصل کی لیکن مجید نظامی چیف ایڈیٹر "نوائے وقت ” نے انہیں ریٹائر کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ "نوائے وقت” کے ساتھ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا – تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری ان کے اظہار کی چند اہم اصناف ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے اپنے بچپن میں ہی ادب کو زندگی کی ایک بامعنی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا تھا، ابتدا بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھنے سے کی، افسانے کی طرف آئے تو اس کے دور کے ممتاز ادبی رسالہ”ہمایوں” میں چھپنے لگے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے "اوراق” جاری کیا تو انہیں تنقید لکھنے کی ترغیب دی اور اپنے مطالعے کو کام میں لانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رسالہ”اردو زبان” سرگودھا کے پس پردہ مدیر کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ”اوراق” کے معاون مدیر کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ روزنامہ "جسارت”، روزنامہ "نوائے وقت”، "مشرق”، "حریت”، "امروز”، ” زندگی”، "قومی زبان” اور "خبریں ” میں ان کے کالم متعدد ناموں اور عنوانات سے چھپتے رہے۔ "دی سٹیٹسمن”اور "دی پاکستان ٹائمز” میں انگریزی میں ادبی کالم لکھے۔ انہیں تعلیمی زندگی میں تین طلائی تمغے عطا کیے گئے۔ ادبی کتابوں میں سے "اقبال کے کلاسیکی نقوش”، "اردو ادب کی تحریکیں” اور "اردو میں حج ناموں کی روایت” پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے انہیں بہترین کالم نگار کا اے پی این ایس ایوارڈ عطا کیا۔ ۲۰۰۹ میں ادبی خدمات پر صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر انور سدید کی چند کتابوں مثلاً "اردو ادب کی تحریکیں”، "اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش”،” اردو ادب میں سفر نامہ”،” پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ”، "اردو ادب میں انشائیہ” کو موضوع کے اعتبار سے اولین تصنیف ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ انور سدید ان دنوں "نوائے وقت” سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے ایک سال میں 225کتابوں پر تبصرے لکھ کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انور سدید کے فن اور شخصیت پر پروفیسر سید سجاد نقوی نے ایک کتاب "گرم دم جستجو” شائع کی ہے۔ رسالہ "اوراق”، "تخلیق”، ’۔’ارتکاز”، "جدید ادب”، ” کو ہسار جرنل”، ” چار سو” اور "روشنائی” میں ان پر گوشے چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی بیشتر کتابیں کالج اور یونیورسٹی طلبا کے علاوہ اعلیٰ ملازمین کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی معاونت کرتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے اردو نصاب میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی چار تصنیفات اور بھی ہیں، یہ ان کے چار بیٹے مسعود، امتیاز، انس او ر ندیم ہیں ، جنہیں وہ اپنے انشائیے تصور کرتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے ڈاکٹر اور دو انجینئر ہیں۔ ان کے ہاں فیملی سسٹم خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کو اپنا محسن تصور کرتے اور کہتے کہ ان دونوں نے انہیں ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔”
کالم نگاری:
روزنامہ”مشرق” لاہور ہفتہ وار اَدبی کالم”سدیدیات” 1989ء تا 1999ء۔
روزنامہ”جسارت” لاہور ہفتہ وار اَدبی کالم”دید و بازدید” 1983ء تا 1990ء۔
ہفت روزہ”زندگی” لاہور حالات جہاں کا کالم”عالم تمام” 1991ء تا 1995ء۔
روزنامہ”حیرت” کراچی ہفتہ وار اَدبی کالم”سدیدیات” 1985ء تا 1989ء۔
ماہنامہ”قومی زبان” کراچی ماہانہ کالم”کچھ وقت ہندوستانی کتابوں کے ساتھ” 1982تاحال۔ روزنامہ”خبریں” لاہور کالم”گفتنی” 1995ء تا 1998ء۔
روزنامہ”نوائے وقت” کالم”گفتنی” 1999ء تا حال۔
انگریزی کالم نگاری:
"پاکستان ٹائمز” لاہور ہفتہ وار اَدبی کالم 1993ء تا 1995ء۔
"دی اسٹیٹس مین” کراچی :ہفتہ وار اَدبی کالم 1986ء تا 1990ء۔
اعزازات: کتاب”اقبال کے کلاسیکی نقوش” رائٹرز گلڈ ایوارڈ داؤ اَدبی انعام۔
مقالہ”اُردو اَدب میں حج ناموں کی روایت نقوش ایوارڈ۔
کتاب”اُردو اَدب کی تحریکیں” ہجرہ ایوارڈ اکادمی اَدبیات پاکستان۔
"بہترین کالم نگاری”آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹ a.p.n.sایوارڈ۔
صدارتی”تمغہ امتیاز” 14اگست 2008ء کو اَدبی خدمات پر عطا کیا گیا۔
تصنیفات و تالیفات:
اقبالیات”اقبال کے کلاسیکی نقوش” پہلا ایڈیشن1977ء دوسرا ایڈیشن 1989ء۔
” اقبال شناسی اور اَدبی دنیا” 1989ء۔
"اقبال شناسی اور اوراق” 1989ء۔
تحقیق اُردو افسانے میں دیہات کی پیشکش1983ء۔ اُردو اَدب میں انشائیہ 1985ء۔
اُردو اَدب میں سفر نامہ 1989ء۔
اَدبی تاریخ”اُردو اَدب کی تحریکیں”تین ایڈیشن 1985ء۔
اُردو اَدب کی مختصر تاریخ 1990تین ایڈیشن۔
پاکستان میں اَدبی رسائل کی تاریخ 1992ء۔
کلاسیکی شُعرا پر کُتب میرانیس کی اقلیم سخن 1985ء۔
غالب کا جہاں اور 1986ء۔
میرانیس کی قلمرو ترمیم و اضافہ شدہ 1989ء ۔
تنقیدی کُتب
"فکر و خیال” 1971ء۔
"اختلافات” 1975ء۔
"کھردرے مضامین” 1988ء۔
"نئے ادبی جائزے”1989ء۔
"شمع اُردو کا سفر”1989ء۔
"برسبیل تنقید”1990ء۔
"موضوعات” 1991ء۔
” اُردو افسانے کی کروٹیں” 1992ء۔
"اُردو نظم کے اَرباب اَربعہ 2007ء۔
"خطوط کے آئینے میں” 2007ء ۔
"مشفق خواجہ۔ ایک کتاب” 2008ء ۔
شخصیات پر کُتب
"مولانا صلاح الدین احمد: ایک مطالعہ” بہ اشتراک ڈاکٹر وزیر آغا1990ء۔
"وزیر آغا ایک مطالعہ 1983ء۔
"شام کا سورج” 1989ء۔
"پاکستان کا ایک بطل جلیل حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی”۔
"مولانا صلاح الدین احمد شخصیت اور فن” 2007ء۔
"بانو قدسیہ شخصیت اور فن” 2008ء۔
"پروفیسر غلام جیلانی اصغر شخصیت اور فن” زیر اشاعت۔
"غلام الثقلین نقوی شخصیت اور فن” زیر اشاعت۔
"فرخندہ لودھی، شخصیت اور فن”زیر قلم۔
انشائیے
"ذکر اس پری وش کا” 1982ء۔
"آسمان میں پینگیں 1994ء۔
طنزو مزاح
"غالب کے نئے خطوط” 1982ء۔
"دلاور فگاریاں” 1990ء۔
خاکہ نگاری
” محترم چہرے” 1989ء۔
"قلم کے لوگ” 1999ء ۔
"ادیبانِ رفتہ 2007ء۔
"زندہ لوگ 2008ء۔
تالیفات
"آخری نظمیں راجہ مہدی علی خاں” 1976ء۔
"بہترین اَدب” 1968ء۔
"بہترین اَدب”1990ء۔
"رادھے شیام کے نام” 1970ء۔
"بہترین نظمیں” 1976ء۔
"بہترین نظمیں” 1978ء۔
"جدید اُردو شاعری” بہ اشتراک ڈاکٹر وزیر آغا1980ء ۔
"وزیر آغا کے خطوط انور سدید کے نام”1985ء۔
"مکالمات”وزیر آغا سے انٹرویوز 1992ء۔
"سُخن ہائے گسترانہ” مشفق خواجہ کے کالم 2007ء۔
سفر نامہ
"اپنے وطن میں” روزنامہ”جسارت” میں چھپا۔
"دلی دور نہیں” ماہنامہ”تخلیق” لاہور اور کتابی صورت میں چھپا۔
تراجم”زلفی، بھٹو آف پاکستان” والپورٹ قومی ڈائجسٹ لاہور میں چھپا۔
"کشمیر سرد جہنم” گورنر جگ موہن قومی ڈائجسٹ لاہور میں چھپا۔
"شہزادی ڈیانا کی محبت” قومی ڈائجسٹ لاہور میں ہی چھپا۔
"فریب کار” فریڈرک فورساتھ۔”مائی فیوڈل لارڈ” تمہینہ درانی” زندگی” لاہور میں چھپا۔
"ایک بے عنوان کتاب”غلام اکبر قومی ڈائجسٹ لاہور میں چھپا۔
” مون اسٹون ویکلی کالمز قومی ڈائجسٹ لاہور۔
جائزے نئے اَدبی جائزے 1988ء۔
اَدب کہانی 1996ء۔
اَدب کہانی 1997ء۔
کچھ وقت کتابوں کے ساتھ 2001ء۔
جائزہ اُردو اَدب 1998ء تا2008ء۔
اَدبی رسائل میں گوشے:
ماہنامہ”تخلیق” لاہور مدیر: اظہر جاوید۔
ماہنامہ”جدید اَدب” خان پور مدیر: حیدر قریشی۔
سہ ماہی”اوراق” لاہور مدیر:ڈاکٹر وزیر آغا۔
ماہنامہ”کوہسار” بھاگل پور بھارت مدیر: ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی۔
ماہنامہ”چہارسو” راولپنڈی مدیر: گلزار جاوید۔
سہ ماہی”ارتکاز” کراچی مدیر: راغب شکیب۔
سہ ماہی”روشنائی”کراچی مدیر: احمد زین الدین۔
ماہنامہ”اُردو زبان” انور سدید نمبر، مدیر: پرویز بزمی، ایم ڈی شاد۔
یونی ورسٹیوں میں ڈاکٹر انور سدید کے فن و شخصیت پر کام:
1۔ پنجاب یونی ورسٹی”ڈاکٹر انور سدید کی اَدبی خدمات” ایم اے کا مقالہ، از محمد نعیم بزمی۔
2۔ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور،”ڈاکٹر انور سدید کی تنقید” ایم فل کا مقالہ، از شائستہ پرویز خان۔
3۔گورکھ پور یونی ورسٹی بھارت” ڈاکٹر انور سدید کی اَدبی خدمات، پی ایچ ڈی کا مقالہ، از ڈاکٹر سلطان احمد۔
4۔”گرم دم جستجو”انور سدید کے فن اور شخصیت پر مقالات کا مجموعہ پروفیسر سجاد نقوی۔
5۔”انور سدید، شخصیت اور فن” اکادمی ادبیات پاکستان کے سلسلہ”پاکستانی اَدب کے معمار” کی کتاب زیر اشاعت۔
(۲۰۰۹ء تک)
٭٭٭