غزلیں ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

 

ابر پیاسوں کے لیے جتنا بھی مینہ برسائے گا

کچھ زمیں پی جائے گی، کچھ آسماں لے جائے گا

 

مہرباں جتنا بھی دریا ہو مگر میرا نصیب

پیاس کا صحرا کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئے گا

 

اس قدر ہلکان مت ہو ڈھونڈنے میں اس کو تُو

بے طلب یونہی کہیں اک روز وہ مل جائے گا

 

دفن کر دو آرزوؤں کو سرابوں میں کہیں

بوجھ   ہلکا   جانبِ منزل ذرا ہو جائے گا

 

برف پگھلے گی نہیں جب تک پہاڑوں پر جلیلؔ

ابر بھی سوکھے ہوئے دریاؤں کو ترسائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

اب رُلاتے ہیں نہ فریاد کہیں کرتے ہیں

کس قرینے سے ترے درد غزل بنتے ہیں

 

راتیں رہتی ہیں مسلسل یہاں دوپہر تلک

دن یہاں شام سے پہلے ہی ڈھلا کرتے ہیں

 

اذنِ پرواز یہاں سب کو کہاں ملتا ہے ؟

چند مخصوص پرندے ہی یہاں اُڑتے ہیں

 

کیا ستم ہے میں بنا جن کے ستم سے شاعر

وہ بھی کتنا مرے اشعار پہ سر دھنتے ہیں

 

چشمِ بے خواب! مقدر میں ترے خواب کہاں

آ کہ اب خواب کے اُس پار کہیں چلتے ہیں

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے