سہ ماہی علم و عمل (ادبی مجلہ) ۔۔۔ غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
اپریل تا جون ۲۰۱۵۔ زیر اہتمام سر سید میموریل سوسائٹی۔ اسلام آباد
_______________________________
دنیا بھر میں مشاہیر کی عظیم خدمات کو یاد رکھنے کے لیے تنظیموں۔ مجالس اور سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ زندہ اقوام کا سپاس گزاری کا یہ احساس آنے والی نسلوں کے لیے صدیوں تک نشانِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے سر سید احمد خان کی علمی۔ ادبی اور ملی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ سر سید میموریل سوسائٹی۔ اسلام آباد کا قیام اس عظیم محسن کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔ بریگیڈئیر اقبال شفیع (علیگ)اس سوسائٹی کی روح رواں ہیں۔ اس سوسائٹی نے تعلیم۔ ادب۔ فنون لطیفہ۔ سائنس۔ ٹیکنالوجی۔ طب اور انجینٔرنگ کے شعبہ میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ قومی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سوسائٹی کے سر پرست اور عہدے دار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک ایسی نابغۂ روزگار اور نایاب ہستی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر اُس کی یاد کی شمع فروزاں کر رکھی ہے جس نے برطانوی استعمار کے ہراساں شب و روز میں بھی حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔ حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی۔ جدید تعلیم کی طرف قوم کو مائل کیا اور مسمانوں کے مکمل انہدام کے مذموم منصوبوں کو ناکا م بنا دیا۔ سرسید میموریل سوسائٹی۔ اسلام آباد نے پاکستان میں روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا ہے اس کے اعجاز سے معاشرتی زندگی سے سفاک ظلمتیں کافور کرنے میں مدد ملی ہے۔
سر سید میموریل سوسائٹی۔ اسلام آباد کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے سہ ماہی علمی و ادبی مجلے ’’علم و عمل‘‘ کا شمار پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں ہوتا ہے۔ یہ مجلہ اردو اور انگریزی کے دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اردو کی ادارت زیرک ادیب طارق نعیم کے سپرد ہے جب کہ حصہ انگریزی کی ترتیب و ادارت پر محترمہ ماجدہ اقبال شفیع مامور ہیں۔ سبدِ گُل چیں پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے دونوں حصوں میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ کے انتخاب میں مجلسِ ادارت نے جس محنت۔ لگن اور فرض شاسی کو پیشِ نظر رکھا ہے وہ ان کے ذوقِ سلیم کا آئینہ دار ہے۔
رجحان ساز مجلہ ’’علم و عمل‘‘ کا یہ شمارہ اقبال نمبر ہے جو دونوں اطراف سے علامہ اقبال کی رنگین اور خوب صورت تصاویر سے مزین ہے۔ یہ پینٹنگز فن مصوری کا شاہ کار ہیں۔ سر سید میموریل سوسائٹی کی نصابی اور ہم نصابی فعالیتوں کی رنگین اور خوب صورت تصاویر کو آرٹ پیپر کے دس صفحات پر شائع کیا گیا ہے۔ یہ تصاویر دیکھ کر دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے اور اس سوسائٹی کی سرگرمیوں اور شاہین بچوں کے عزائم کے بارے میں آگہی حاصل ہوتی ہے۔ حصہ اردو میں بارہ مضامین جب کہ حصہ انگریزی میں دس مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔ جدید دور میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں نئے آفاق تک رسائی کی جدو جہد کو شعار بنایا گیا ہے۔ فاضل مضمون نگاروں کی دقیقہ سنجی نے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ تاریخی حقائق کو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی یہ مساعی لائق صد رشک و تحسین ہیں۔ تاریخی واقعات اور صداقتیں قارئین پر فکر و خیال کے نئے در وا کرتی ہیں اور زبانِ حال سے یہ کہتی ہیں کہ ذرا نم ہو تو ارضِ وطن کی اس زرخیز مٹی سے بے شمار اشجار۔ بُور لدے چھتنار اور اثمار کی روئیدگی ممکن ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی میراث اور درخشاں ماضی سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ہر شخص کی جبلت میں شامل ہے۔ اس لیے وہ سکون قلب کی خاطر ایامِ گزشتہ اور اپنے عہد کے حالات و واقعات کے بیان پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ اس شمارے کے حصہ اردو میں علامہ اقبال پر دو اہم مضامین۔ قائد اعظم پر دو وقیع مضامین۔ علی گڑھ کی یادوں پر مشتمل دو مضامین۔ مولاناحسرت موہانی پر ایک مضمون۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی پر ایک مضمون۔ کائنات کے مسائل پر ایک مضمون۔ ایک شگفتہ تحریر اور خوش حال پاکستان مشاعرے کی دل کش روداد شامل ہے۔ حصہ انگریزی میں علی گڑھ کے جذبہ۔ قومی تشخص۔ سر زمین عرب کی مہک۔ پاکستانیت کی شناخت۔ مذہبی وسیع النظری۔ اقبال کا مردِ مومن۔ قراردادِ پاکستان۔ حالی اور شبلی کی شاعری۔ چکسبست لکھنوی اور حریتِ فکر اور تخلیق کار جیسے اہم موضوعات پر مضامین شاملِ اشاعت ہیں۔
ادبی مجلے ’’علم و عمل ‘‘میں شامل مضامین جہاں مضمون نگاروں کے تبحرِ علمی کے مظہر ہیں وہاں ان میں مضمون نگاروں کی حسین یادیں بھی قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہیں۔ یادِ ماضی کو بالعموم ایک بیش بہا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ ایامِ گزشتہ کے اوراق پر مشتمل یہ حسین یادیں ایک سر بہ فلک نخلِ تناور کا رُوپ دھار کر قارئین کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ انسان کی زندگی کاسفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتا ہے لیکن اس جان لیوا مسافت میں اس کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ آزمائش و ابتلا کے مسموم ماحول میں طوفانِ حوادث کے تیز و تند بگولے خزاں رسیدہ بُور لدے چھتناروں کے زرد پتوں۔ کمہلائے ہوئے پھولوں۔ مرجھائے ہوئے شگوفوں اور سُوکھی ڈالیوں کو اُڑا لے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک شانِ استغنا کے ساتھ صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں اور دِل میں اُمید بہار لیے اسی شجر سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیتے ہیں۔ مستقبل میں کامرانیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ وہ فصلِ گُل کے بارے میں اس قدر پُر عزم ہوتے ہیں کہ انھیں اندیشۂ زوال کبھی یاس و ہراس اور اضمحلال و اضطراب کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا۔ اس کے بعد ہر انسان زینۂ ایام پر عصا رکھتے وقت کی تہہ میں اُتر جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہی فطری انجام ہے لیکن لفظ باقی رہ جاتے ہیں جو اس کے تخلیقی وجود کا اثبات کرتے ہیں۔ اس شمارے میں ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے حال اور مستقبل کے بارے میں نہایت حقیقت پسندانہ۔ واضح۔ ٹھوس۔ قابلِ عمل اور مثبت اندازِ فکر اپنانے کی راہ دکھائی گئی ہے۔ سہ ماہی ادبی مجلے ’’علم و عمل‘‘ میں اصلاح اور مقصدیت کی جو شان ہے اسے دیکھ کر علی گڑھ تحریک کے ترجمان مقبول اور تاریخی ادبی مجلے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی یاد تازہ ہو گئی۔ ملت۔ وطن۔ اہلِ وطن اور بنی نوع انسان کے وقار اور سر بلندی کو نصب العین بنانے کی وہی تڑپ اس مجلے کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے۔ قومی تشخص اور ملی وقار کا علم تھامے علم و ادب کا یہ کارواں مسلسل سوئے منزل رواں دواں ہے۔ ایسے کثیر المقاصد علمی و ادبی مجلات کی اشاعت قومی تعمیر و ترقی اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے نیک شگون ہے۔
علم و عمل کا یہ شمارہ بیاسی صفحات پر مشتمل ہے۔ طباعت کا معیار نہایت اعلا ہے اور اس کی طباعت کے لیے معیاری سفید کاغذ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مجلے کا سالانہ زرِ تعاون ایک ہزار روپے ہے۔ یہ مجلہ ہر با ذوق کتب فروش کے ہاں دستیاب ہے۔
٭٭
طاہر نقوی:میں اور میرے افسانے ۔۔۔ غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
ادارہ ممتاز مطبوعات کراچی۔ سال اشاعت درج نہیں۔
_______________________________
کراچی میں مقیم نامور پاکستانی ادیب اور دانش ور طاہر نقوی کا شمار اردو زبان کے مقبول افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ فن افسانہ نگاری میں ان کے متنوع تجربات کو قارئینِ ادب نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ طاہر نقوی کے آبا و اجداد کا تعلق بجنور (اتر پردیش۔ بھارت) کے ایک ممتاز علمی و ادبی اور معزز خاندان سے تھا۔ بجنور کی سر زمین نے ادب اور فنون لطیفہ کی ترقی میں ہر دور میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ طاہر نقوی ۱۹۴۲میں شمالی ہند کی ریاست اترا کھنڈ کے صدر مقام ڈیرہ دون (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ یہ شہر دہلی سے دو سو چھتیس کلومیٹر شمال میں ہمالیہ کے سر بہ فلک سلسلۂ کو ہ کے دامن میں ایک پُر فضا مقام پر واقع ہے۔ اس شہر کی صحت افزا۔ پُر اسرار اور رومان پرور فضا میں کئی نابغۂ روزگار ہستیوں نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے اور یہاں تعلیمی مدارج طے کیے۔ طاہر نقوی نے اس وقت کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا جب وہ سکول میں ابتدائی جماعتوں میں زیر تعلیم تھے۔ اللہ کریم نے انھیں علم و دب کے جس ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا اس کے اعجاز سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ سکول کی تعلیم کے دوران وہ اردو زبان کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ کر چکے تھے اور عالمی کلاسیک کے اہم تراجم میں ان کی دلچسپی کا آغاز ہو گیا تھا۔ طاہر نقوی کے اساتذہ اور سکول میں ان کے تمام ہم جماعت طالب علم اس شاہین بچے کی تخلیقی فعالیت اور اعلا ادبی ذوق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی مختصر کہانیاں بچوں کے مقبول رسائل۔ مقامی اور قومی ادبی مجلات کی زینت بنتی رہیں جنھیں قارئین نے بہت سراہا۔ ۱۹۷۰ میں ان کا پہلا افسانہ صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلے ’’افکار ‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے افسانے تواتر کے ساتھ پوری دنیا کے ممتاز اردو مجلات میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے ۱۹۷۰میں ایم۔ اے تاریخ اور ۱۹۷۲میں ایم۔ اے اردو کیا۔ طاہر نقوی نے پرورشِ لوح و قلم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ وطن۔ اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کے ا سلوب کا نمایاں وصف ہے۔ ایک زیرک۔ فعال۔ مستعد اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اور ہر قسم کی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بے لوث محبت۔ بے باک صداقت۔ ایثار۔ حریتِ ضمیر سے جینے اور انسانی ہمدردی پر مبنی اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں ان کے نمائندہ افسانوں کے تراجم کیے گئے جنھیں ادب کے با ذوق قارئین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ دنیا کی جن بڑی زبانوں میں ان کے افسانوں کے تراجم شائع ہو چُکے ہیں ان میں انگریزی۔ سندھی۔ بلوچی۔ گر مکھی۔ پنجابی۔ ہندی۔ تامِل اور سرائیکی شامل ہیں۔ دنیا کے طول و عرض میں منفرد اسلوب کے حامل اس مایہ ناز پاکستانی افسانہ نگار کے مداح بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں ان کے کئی افسانے دنیا کی بڑی اردو ویب سائٹس اور سائبر کتب خانوں پر دیکھے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ برطانیہ۔ امریکہ۔ جرمنی۔ کینیڈا۔ دبئی اور جاپان سے ان کے افسانوں کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔
طاہر نقوی کے افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں :
بند لبوں کی چیخ (۱۹۸۲) ایوارڈ یافتہ۔ حبس کے بعد پہلی بارش(۱۹۸۹)۔ شام کا پرندہ(۱۹۹۸)۔ دیر کبھی نہیں ہوتی(۲۰۰۵) ایوارڈ یافتہ۔ کوؤں کی بستی میں ایک آدمی(۲۰۱۱)
طاہر نقوی کی علمی۔ ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں جن اہم ایوارڈز سے نوازا گیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ آدم جی ادبی انعام۔ کراچی۔ ۲۔ اسرار و افکار اکیڈمی کراچی ایوارڈ
طاہر نقوی کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے مختلف اصناف۔ ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ ان کے اسلوب کے سوتے ان کے مشاہدات اور تجربات سے پھُوٹتے ہیں۔ یہ مشاہدات و تجربات جب ایک انتہائی مؤثر ذہنی عمل کی صورت میں ان کے ڈراموں۔ افسانوں۔ ریڈیو اور اخبارات کے لیے لکھے گئے کالموں اور مضامین میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو ان کی تخلیقی تحریروں کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم ثابت ہوتا ہے۔ افکارِ تازہ سے مزّین ان مسحورکُن تحریروں کے مطالعہ سے قاری ایک جہانِ تازہ میں پہنچ جاتا ہے جہاں فکرو خیال کی وسیع اور متنوع دنیا کا منفرد نظام دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’رجحان‘‘ نے تخلیقِ ادب اور تنقید و تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے قلم کا احترام کرنے والے حریتِ فکر کے اس مجاہد نے گزشتہ نصف صدی کے دوران اپنے دل پر گزرنے والی ہر کیفیت کو نہایت خلوص اور درد مندی کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے۔ معاشرتی زندگی کے وہ تمام حقائق جو ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک کو متاثر کرتے ہیں بڑی خوش اسلوبی سے ان تحریروں میں سمٹ آئے ہیں۔ طاہر نقوی کے اسلوب کے بارے میں گزشتہ نصف صدی میں اخبارات۔ جرائد۔ مجلات اور سائبر حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے اب کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا ہے۔ حال ہی میں طاہر نقوی نے اس موضوع پر ’’میں اور میرے افسانے ‘‘کے عنوان سے جو کتاب تالیف کی ہے اسے مستقل نوعیت کی مستند حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے۔ ایک سو نواسی صفحات پر مشتمل اس کتاب میں عالمی شہرت کے حامل چھیاسٹھ نقادوں کے عالمانہ تنقیدی مضامین اور چالیس ممتاز ادیبوں کی وقیع مختصر آرا شامل ہیں۔
یہ تالیف جو ’’میں اور میرے افسانے ‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے طاہر نقوی کی ایک اور اہم خدمت ہے۔ اپنی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں دنیا بھر کے اہم ادبی مجلات۔ جرائد اور اخبارات میں شائع ہونے والی منتشر تحریروں کو یک جا کر کے انھیں کتابی صورت میں شائع کر کے طاہر نقوی نے علم و ادب کی جو خدمت کی ہے اس کے بارِ احسان سے اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ اس کے اعجاز سے اردو زبان و ادب کے طلبہ۔ اساتذہ۔ محققین اور نقادوں کو اسلوبیاتی تنقید کے تنوع اور ہمہ گیری کی تفہیم میں مدد ملے گی۔ طاہر نقوی نے پسِ منظر میں رہتے ہوئے اپنی ذات اور اسلوب کے بارے میں مشاہیرِ ادب کی بے لاگ رائے نذرِ قارئین کر دی ہے۔ اسلوبیاتی مطالعات میں ایک زیرک نقاد قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھانے پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کوتاہ اندیشی پر مبنی مبہم۔ الجھے ہوئے اور فرغلوں میں لپٹے سہل پسندانہ موقف کو کبھی تسلیم نہیں کرتا تنقید میں طویل اور صبر آزما راستوں سے ہراساں ہونا بعید ازقیاس ہے۔ تنقیدی مطالعات کے اس مخزن میں شامل جامع آرا کا تعلق پل دو پل کی باتوں سے ہر گز نہیں کہ یہ تو نصف صدی کے حقائق۔ تجزیات و مطالعات کا ایسا مرقع ہے جس کا ہر جملہ بے حد دل کش اور حسین ہے۔ ہماری بزمِ ادب کے کئی آفتاب و ماہتاب اور نیّر تاباں جو عرصہ ہوا عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو چُکے ہیں یہاں اپنی ضو فشانی سے سفاک ظُلمتوں کو کافور کر کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کر رہے ہیں اور طاہر نقوی کے اسلوب کو حقیقی تناظر میں سمجھنے پر مائل اور اس کی افادیت کا قائل کر رہے ہیں۔ میری مراد احمد ندیم قاسمی۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ رئیس امروہوی۔ میرزا ادیب۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی۔ ڈاکٹر آغا سہیل۔ غلام الثقلین نقوی۔ غلام محمد۔ پروفیسر عتیق احمد۔ قمر جمیل۔ شفیع عقیل۔ ڈاکٹر سہیل بخاری اورپروفیسر آفاق صدیقی ہیں۔ ایسی نادر و نایاب اور یادگارِ زمانہ ہستیوں کے بے لاگ تجزیاتی مطالعات نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ فضاؤں میں ہر طرف ان کی حسین یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی تخلیقی فعالیت اور تنقیدی بصیرت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان عظیم ہستیوں کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے اور لوحِ دل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہے۔ ان اہم تنقیدی مضامین میں یدِ بیضا کا معجزہ دکھایا گیا ہے۔ پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے بھی تیز ہے لیکن زمانہ جس قدر بھی ترقی کر لے ایسی ہستیاں پھر کبھی پید ا نہیں ہو سکتیں۔ یہ تحریریں ایک تبرک اور بیش بہا اثاثہ ہیں۔
بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طاہر نقوی نے اپنی تالیف ’’میں اور میرے افسانے ‘‘ میں اپنے بارے میں کچھ نہیں کہا بلکہ خود پس منظر میں رہتے ہوئے محض مشاہیر کی وقیع آرا پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہوئے یہ تالیف پیش کر دی ہے۔ ان تجزیاتی آرا میں ابد آشنا اسلوب کی حامل با کمال ہستیوں نے طاہر نقوی کے قدرتی۔ اخلاقی اور اسلوبیاتی اوصاف کے بارے میں جو مدلل اور افادیت سے لبریز گفتگو کی ہے۔ اس کا مطالعہ اسلوبیات کے طلبہ۔ اساتذہ اور قارئین کے لیے طاہر نقوی کے ادبی مقام اور مرتبے کے تعین کے سلسلے میں مشعل را ہ ہے۔ باطنِ ایام اور تخلیقات کے لا شعوری محرکات پر گہری نظر رکھنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ طاہر نقوی نے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی اپنے بارے میں جملہ حقائق کو من و عن بیان کر دیا ہے اور سبک نکتہ چینی کے عادی بے کمال حرف گیروں کو آئینہ بھی دکھا دیا ہے۔
٭٭٭
شعلہ آسیونی:شعلہ رنگ (شعری مجموعہ)، رب پبلشرز، کراچی، طبع اوّل، مارچ ۲۰۱۴۔ تبصر ہ نگار:غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
تحریکِ پاکستان کے ممتاز کا رکن شعلہ آسیونی(چودھری احرار محمد عثمانی) کا شعری مجموعہ حال ہی میں کراچی سے شائع ہو ا ہے۔ مسلسل آٹھ عشروں تک پرورشِ لوح و قلم کا فریضہ انجام دینے کے بعد شعلہ آسیونی نے بیس جولائی۱۹۹۶کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ شاعری میں وہ جگر مراد آبادی سے اصلاح لیتے تھے۔ حسرت موہانی اور بہزاد لکھنوی سے ان کے قریبی تعلقات رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان اساتذہ کا رنگ نمایا ں ہے۔ اپنے دور کے اس اہم شعری مجموعے (شعلہ رنگ ) کے بارے میں جن مشاہیر کی آرا کو اس میں شامل کیا گیا ہے ان میں یاور مہدی، پروفیسر سحر انصاری، سیّد شمس وارثی، رضیہ شعلہ آسیونی، رشید بٹ اور چودھری شاہ کار محمد شامل ہیں۔ موضوعات، مضامین اور اصناف شاعری کے اعتبار سے ’’شعلہ رنگ ‘‘میں دھنک رنگ منظر نامہ قارئین کو مسحور کر دیتا ہے۔ اس میں حمد باری تعالیٰ چھے، نعت رسول مقبول ﷺ تینتیس منقبت اور سلام تین، الف بائی ردیف میں ایک سو سترہ غزلیں، پانچ موضوعاتی نظمیں، دس قومی نظمیں، آٹھ قطعات، پانچ تہنیت و متفرقات اور ستائیس گیت شامل ہیں۔ اسلوب میں یہ تخلیقی تنوع شاعر کی زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سال ۱۹۷۵میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد ان کے فکر و نظر کی کی کایا پلٹ گئی اور تخلیقی عمل میں وہ حمد و نعت اور سلام و منقبت کی طرف اُنھوں نے زیادہ توجہ دی۔
شعلہ آسیونی کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں جذبوں کی صداقت جب فکر و خیال کی صورت میں قلب و نظر کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تویہ تزکیہ نفس اور اظہار و ابلاغ کے لیے خوب صورت الفاظ کی جستجو کرتی ہے۔ ان کے منفرد اسلوب میں جو زورِ بیان پایا جاتا ہے اس کو دیکھتے ہوئے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تخلیقی عمل کی حسن کاری نے سحر آفرینی کا رُوپ دھا ر لیا ہے۔ تخلیق کار کے تجربات، احساسات اور مشاہدات کی یہ ایسی داخلی لفظی مرقع نگاری ہے جو زبانِ حال سے تمام حقائق کی گرہ کشائی کی استعداد اسے متمتع ہے۔ معاشرتی زندگی کے ارتعاشات، نشیب و فراز اور تُند و تلخ حقائق کا جرأت مندانہ اظہار جہاں ان کی دُور اندیشی، بصیرت اور تدبر کا مظہر ہے وہاں یہ ان کی حق گوئی اور بے باکی کا بلند ترین معیار بھی سامنے لاتا ہے۔ شعلہ آسیونی کا نام حریتِ فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کی اور کبھی درِکسریٰ پر صدا نہ کی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشوں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں کو کیا معلوم کہ انسانی ہمدردی کے تقاضے کیا ہیں۔ شعلہ آسیونی کی شاعری انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کا پیغام دیتی ہے :
بیانِ غم کو غمِ داستان سمجھتے ہیں
کہ لوگ دِل کی حقیقت کہاں سمجھتے ہیں
درد کو جو فعال جانتے ہیں
دِل کو وہ کیوں نڈھال جانتے ہیں
اسد واحدی:سراب (افسانہ)، مقام اشاعت ، کراچی۔تبصرہ نگار: غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
حسن و رومان کی فضا میں اشہبِ قلم کی جولانیوں کی جو دل کش کیفیت اسد واحدی کے طویل افسانے ’’سراب ‘‘میں جلوہ گر ہے وہ پانی مثال آپ ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ’’زیبی‘‘ ہے جو اپنی محبت کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ وہ اپنے محبوب کو ٹُوٹ کر چاہتی ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آلامِ روزگار کی مسموم فضا میں اس کی شاخِ تمنا جھُلس جائے گی اور طوفان حوادث کے مہیب بگولوں میں نخلِ حیات کوسمے کی دیمک اس طرح کھا جائے گی کہ وہ ٹُوٹ پبھُوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ اس کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جائے گا لیکن مسلسل شکستِ دل سے جی کے اس زیاں میں اس کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جائے گا۔ زیبی کے پیمانِ وفا کو جس دل کش انداز میں اسدواحدی نے زیبِ قرطاس کیا ہے وہ اس کہانی کے زیب و زینت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ مصنف نے زیبِ داستاں کے لیے کوئی اضافی حکایت نہیں لکھی بل کہ پیار کرنے والوں کے دل کے سب افسانوں کو نہایت موثر اور حقیقت پسندانہ انداز میں انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ اس افسانے میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ یہ طویل افسانہ جو ایک سو بیس صفحات پر محیط ہے، تجسس سے لبریز ہے۔ زیبی کا کردار دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر سنگلاخ چٹانوں، جامدو ساکت بُتوں، چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں اور کوہساروں کے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔ زیبی اور ثمیر کی چاہت کا افسانہ جب المیہ صورت میں زیبی کی الم ناک موت پر منتج ہوتا ہے تو قاری تڑپ اُٹھتا ہے۔ بے اختیار اُس کے ذہن میں ماضی کی لوک داستانوں میں محبت کے تمام کردار گھومنے لگتے ہیں جن میں لیلیٰ، سوہنی، ہیر، جُگنی، سسی، شیریں اور شانتی شامل ہیں۔ ان سب میں زیبی اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس نے عابد کی بیوی بن کر بھی ثمیر سے اپنی بچپن کی محبت کو مرنے نہیں دیا بل کہ مسکراتے ہوئے اپنی موت کو گلے لگا لیا۔ پارے کو چٹکی میں پکڑنے کی سعیِ لا حاصل میں اس کا دِل پارہ پارہ ہو گیا اور اس کا وجود اس طر ح بکھرا کہ وہ رزقِ خاک بن گئی۔ بہاروں کے سوگ میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے والی زیبی دیکھے ہی دیکھتے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سُدھار گئی اور اس کو چاہنے والی دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ زیبی جیسے محبت کے المیہ کردار قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتے ہیں۔ اسد واحدی نے اس طویل افسانے میں محبت کی نفسیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انسانی جذبات و احساسات کی جس مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ اس افسانے کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کرتی ہے۔
٭٭
اسد واحدی :’’جہاں اندر جہاں ‘‘ (ناول)، رب پبلشرز، کراچی، طبع اول جولائی۲۰۱۲۔ تبصرہ نگار :غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
امریکہ میں مقیم اردو کے ممتاز پاکستانی ادیب اسد واحدی کا شمار اُردو زبان کے اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پہلی تصنیف’’سراب‘‘ایک ناولٹ ہے جسے قارئینِ ادب نے بہت پسند کیا۔ اس کے بعد انھوں نے تخلیق ادب اور بالخصوص اردو فکشن میں گہری دلچسپی لی۔ بنارس(بھارت )میں جنم لینے والے اس زیرک تخلیق کار کو اپنے گھر میں نہایت عمدہ علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کی شخصیت سازی میں ان کی والدہ، ماموں اور خاندان کے بزرگوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں اردو فکشن سے گہری دلچسپی تھی۔ اردو زبان کے جن نام ور ادیبوں سے اُنھیں ملنے کا موقع ملا ان میں اسرار الحق مجاز لکھنوی، مسعوداختر جمال، وامق جون پوری اور رام لعل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں اسد واحدی کے افسانوں کو ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا اور ان کے تین افسانے بنارس سے شائع ہونے والے ایک مقبول ادبی مجلے ’’راہی‘‘ کی زینت بنے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کے موضوع پر انھوں نے طویل افسانہ ’’یہ دھرتی یہ جیون ساگر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ اس طویل افسانے کا آغاز تو بنارس سے ہوا لیکن اس کی تکمیل پاکستان ہجرت کے بعد کراچی میں ہوئی۔ اسد واحدی نے اعلا تعلیم کے مدارج امریکہ میں مکمل کیے جہاں انھوں نے عالمی کلاسیک کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ سول سروس میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور امریکہ میں طویل قیام کے عرصے میں بھی قلم اور قرطاس سے معتبر ربط بر قرار رکھا ناول ’’جہاں اندر جہاں ‘‘ میں مصنف کے تجربات، مشاہدات، زندگی کے نشیب و فراز اور سوانحی عنصر کے امتزاج سے اُردو فکشن میں ایک منفرد انداز سامنے آیا ہے۔ زبان و بیان کی سادگی، سلاست اور روانی کے اعجاز سے یہ ناول ابلا غ کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اس ناول میں کردار نگاری، جزئیات نگاری، منظر نگاری، مکالمات اور حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری کا کرشمہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ عالم، روبی، نسرین، ایلس، نینسی، دانش اور بہت سے کردارایسے ہیں جو اس ناول کو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے مزین کر رہے ہیں۔ عالم اور روبی کی محبت کے مدار میں گھومنے والی یہ کہانی اس وقت المیہ کا روپ دھار لیتی ہے جب روبی کے گھر کے دروازے پر نا معلوم دہشت گرد عالم کی لاش پھینک جاتے ہیں۔ قتل کرنے سے پہلے عالم کو جس اذیت، عقوبت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے واضح نشانات لاش پر موجود تھے۔ عقوبت خانوں، سرنگوں اور نجی زندانوں میں مظلوم انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹوٹتے ہیں، ان لرزہ خیزسانحات کے بیان میں مصنف نے نہایت دردمندی سے کام لیا ہے۔ مصنف نے لا شعوری طور پر ابن الوقت، مفاد پرست، مارِ آستین اور جو فروش گندم نُما عناصر کے تکلیف دِہ روّیے پر گرفت کی ہے۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں ایک زیرک تخلیق کار یہ چاہتا ہے کہ وہ خُون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائے۔ اس مقصد کے لیے طویل اور صبر آزما جد و جہد درکار ہے۔ اس موثر کہانی کو مصنف نے اپنے دل کش اسلوب سے اس انداز میں الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے کہ یہ المیہ کہانی قاری کے شعور سے ہوتی ہوئی اس کے لا شعور کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ یہ محسو س کرتا ہے کہ یہ سب واقعات تو ہمارے گرد و نواح میں روز کا معمول ہیں۔ مجموعی اعتبارسے ’’جہاں اندر جہاں ‘‘تکنیک کے تنوع کا مظہر ایک معیاری ناول ہے۔ اس کی اشاعت سے اُردو فکشن کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔ اردو ناول کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ناول ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس میں بیان کیے گئے واقعات اور ان کے پس پردہ حقائق جو تہہ در تہہ نہاں ہوتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حقائق کی گرہ کشائی ممکن ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’جہاں اندر جہاں ‘‘کی مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ زندہ اور جان دار تخلیقات کا یہی تو امتیازی وصف ہوتا ہے۔
٭٭٭
ملک شاہ سوار علی ناصر، ضلع خوشاب دا لوک ادب، ادارہ پنجابی لکھاریاں ، شاہدرہ، لاہور، 2014، تبصرہ: غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
ایک دور افتادہ چھوٹے سے گاؤں اراڑہ (نلی)خوشاب، پنجاب، پاکستان میں لوک ادب کا ایک بہت بڑا محقق ملک شاہ سوار علی ناصر گزشتہ چار عشروں سے تنقید، تحقیق اور تخلیق ادب میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے میں مصروف ہے۔ ادبی حلقوں میں لوک ادب کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ لوک ادب نسل در نسل، سینہ بہ سینہ قارئین کو منتقل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ خزینہ دفینے میں بدل جائے اس کے تحفظ پر توجہ دے کر ملک شاہ سوار علی ناصر نے علم و ادب کے فروغ کی ایک احسن صورت تلاش کی ہے۔ اس کتاب کا انتساب بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ہے :
ترجمہ:’’ان چرواہوں کے نام جن کے سریلے ماہیے سُن کر پھُلاہی اور کہو کے درخت بھی جھُوم جھُوم کے گاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ‘‘
اس کتاب میں ضلع خوشاب میں پنجابی زبان کے لوک ادب اور اس کی تاریخ کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ پنجابی زبان و ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس زبان میں لوک ادب کی صورت میں قدیم اصناف شاعری کا گنج گراں مایہ موجود ہے۔ محقق نے جن پنجابی اصناف شعر پر توجہ دی ہے ان میں ماہیا، ڈوہڑہ، ہیمڑی، ٹپہ، چھلّا، لوری اور لوک گیت شامل ہیں ۔ محقق نے ان اصناف کی قدامت، ساخت اور ہئیت کے بارے میں بھی چشم کشا صداقتوں کی طر ف اشارہ کیا ہے۔ لوک ادب کی ان تمام اصناف کے نمونے بھی اس کتاب میں شامل ہیں ۔ پنجابی لوک ادب کی یہ اصناف شعر اس قدر موثر اور دلکش ہیں کہ یہ قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اُتر کر قاری کو مسحور کر دیتی ہیں ۔ پروفیسر اسیر عابد نے پنجابی داں طبقے کو دیوان غالب سے متعارف کرانے کی غرض سے اس کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا۔ دیوان غالب کے اس منظوم پنجابی ترجمے کی پُوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا خوشاب کے پنجابی لوک ادب کے ان ابد آشنا فن پاروں کا منظوم ترجمہ اردو اور انگریزی زبان میں پیش کرنے پر توجہ دی جاتی۔ ادارہ پنجابی لکھاریاں ، لاہور کے بانی الحاج میاں اقبال زخمی علم و ادب کا ایک آفتاب تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے لائق فرزند اس ادارے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ کتاب اسی تاریخی ادارے نے شائع کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب میں شامل پنجابی لوک ادب کے تراجم پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اس کتاب میں کئی نسلوں سے مقبول مصری اعوان کا قصہ بھی شامل ہے۔ ضلع خوشاب کے لوک ادب کا شاہ کار مصری اعوان کا قصہ ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو چُکا تھا۔ محقق نے اس قصے کو تحقیق کی روشنی میں زیب قرطاس کیا ہے۔ ضلع خوشاب کے دور اُفتادہ علاقوں ، دیہات، قصبات اور جھُگیوں میں پنجابی لوک ادب کی امانت اپنے سینے میں سنبھالے مویشیوں کے ریوڑ چرانے والے چرواہوں سے علم و ادب کے موتی سمیٹ کر قارئین ادب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر کے ملک شاہ سوار علی ناصر نے پا کستانی زبانوں کے ادب کے فروغ کی جو سعی کی ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔ وطن، اہلِ وطن اور پُوری انسانیت سے والہانہ محبت کرنے والے اس زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی دس وقیع تصانیف سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافہ کیا۔ مٹی کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ اس کی ایک ہی تمنا ہے کہ خدا کرے اس ارض پاک پر ایسی بہار آئے جو کبھی خزاں کی زد میں نہ آئے۔
آری تے آری اے
لوکاں نوں دھن پیارا، سانوں دھرتی پیاری اے
کُجھ روگ پُرانے نیں
وطن دی مٹی دے اساں قرض چُکانے نیں
٭٭٭
کتابی سلسلہ کولاژ3، کراچی، بابت اپریل2015 ۔۔۔ غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
کتابی سلسلہ کولاژ کراچی سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ اس مجلے کی ادارت کے فرائض مایہ ناز ادیب اقبال نظر انجام دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں تانیثیت کی علم بردار زیرک تخلیق کار محترمہ شاہدہ تبسم مجلہ کولاژ کی معاون مدیر ہیں ۔ چھے سو بہتر صفحات پر مشتمل اس ادبی مجلے میں مجلس ادارت نے مضامینِ نو کے انبار لگا کر اسے حقیقی معنوں میں علم و ادب کا خرمن بنا دیا ہے۔ ایک
زمانہ تھا جب اردو کے ضخیم ادبی مجلات کی ہر سُو دھوم مچی تھی۔ اردو ادب کی تاریخ میں فنون، اوراق، نقوش، اقدار، افکار، ساقی، نیا دور، زعفران، معیار اور کاروان کی علمی و ادبی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ ان مجلا ت کی پہچان ان کے ضخیم نمبر ہوا کرتے تھے اور ان کا ہر شمارہ اپنے مشمولات کی وجہ سے خاص شمارہ قرار پاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ یہ ضخیم مجلات رہے اور نہ ہی ان کے عظیم مدیر سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب کچھ بہہ گیا اور یہ بنیادی مآخذ تاریخ کے طوماروں میں دب گئے۔ کولاژ نے اردو مجلات کی درخشاں روایت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بار سبدِ گُل چیں میں جو گل ہائے رنگ رنگ ہیں ان کی مسحورکُن عطر بیزی قریۂ جاں کو معطر کر کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ آئیے اس دھنک رنگ منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالیں :
اپنے ادارتی کلمات میں اقبال نظر نے بھارت کے نامور ادیب گلزار(سمپورن سنگھ کالرا) کو مخاطب کر کے حالِ دل بیان کیا ہے۔ کولاژ کے اداریے کے بعد حمد و نعت کا حسین اور عقیدت سے معمور حصہ ہے۔ اس حصے میں سلیم کوثر کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری، ڈاکٹر باقر رضا اور جاوید نظر کی ایک ایک نعت شامل اشاعت ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری قلب و نظر کی گہرائیوں میں اُتر کر روح کو وجدانی کیفیت سے آشنا کرتی ہے۔ توحید اور رسالت کے حقیقی عشق سے لبریز یہ شاعری قلوب کو مہر و وفا کے ارفع معیار سے متمتع کرتی ہے :
یہ ابتدا جو ہوئی میری چشمِ نم سے ہوئی
بہت دنوں میں مِری دوستی حرم سے ہوئی
نگاہ دِل پہ ہے اور آنکھ رونے والی ہے
یہ وہ گھڑی ہے کہ بس نعت ہونے والی ہے
کولاژ کو موجودہ شمارہ ایک جام جہاں نما کے مانند ہے ، جس میں ادب اور فن کی حسین لفظی مرقع نگاری قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ اس میں موضوعات اور مضامین کا تنوع قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے۔ سبدِ گُل چیں میں جو گُل ہائے رنگ رنگ اپنی عطر بیزی سے مسحور کر رہے ہیں اُن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :
سب سے پہلے حصہ مضامین ہے جس میں اُنتیس وقیع مضامین شامل ہیں ۔ مطالعہ خصوصی کے تحت جلیل ہاشمی کی طویل نظم ’شمائیلہ ‘‘کولاژ کی زینت بنی ہے۔ غزلیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں سترہ غزل گو شعرا کا کلام شامل ہے جب کہ دوسرے حصے میں اُنیس شعرا کی غزلیات شائع کی گئی ہیں ۔ حصہ افسانہ میں اٹھائیس افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کو مجلے میں جگہ ملی ہے۔ کولاژ میں اس بار اکیس نظم گو شعرا کی نظمیں مجلے کے معیار اور وقار کو چار چاند لگا رہی ہیں ۔ گیت کا حصہ بھی اپنے حسن اور دل کشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس بار شہزاد نئیر، سید زاہد حیدر اور نصرت اقبال جمشید کے گیتوں سے محفل خوب سجی ہے۔ ڈگر سے ذرا ہٹ کر ایک اہم تحریر ہے جس میں سہیل مقبول کی گُل افشانی گفتار فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔ ممتاز ادیب ستیہ پال آنند کی شخصیت اور فن پر ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔ فن اور فن کار کے عنوان سے کولاژ کی موجودہ اشاعت میں بہت دلچسپ مضامین شائع ہوئے ہیں ۔ ثریا، موسیقی، شام چوراسی گھرانہ، طلعت محمود، جھلواڑ میں رقاصہ ککّی کا مقبرہ ایسے مضامین ہیں جن کے مطالعہ سے ادب، تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے۔ میورل اور رپورتاژ کی اپنی دل کشی ہے جو قاری کو ایک جہانِ تازہ کی جھلک دکھا رہی ہے۔ آرٹ کے حصے میں فرحان احمد جمالوی، عروسہ جمالوی اور نسیم نیشوفوز نے خوب رنگ جمایا ہے۔ تبصرے کے عنوان سے سات کتب پر تجزیاتی مطالعے شاملِ اشاعت ہیں ۔ کولاژ کا ایک اور منفرد حصہ ’’ایک کتاب دو تبصرے ‘‘ہے۔ اس میں اسد واحدی کے انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز ناول ’’جہاں اندر جہاں ‘‘پر عباس رضوی اور ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنی بے لاگ رائے پیش کی ہے۔ قارئین کے خطوط کے حصے میں بائیس مکاتیب حریتِ فکر کا اعلا ترین معیار پیش کر رہے ہیں ۔ محترمہ شاہدہ تبسم اور اقبال نظر پر مشتمل مجلسِ ادارت کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ کولاژ کے ’’مطالعہ ء عمومی ‘‘سے لگایا جا سکتا ہے۔ محترمہ شاہدہ تبسم نے غزل، نظم، افسانہ تنقید، تحقیق اور مضمون نگاری میں اپنے ، منفرد اسلوب سے دلوں کو مسخر کر لیا ہے۔ اقبال نظر کی تحریر درویش نامہ ایک سدا بہار کیفیت کی مظہر ہے۔ مطالعہ عمومی میں شامل اقبال نظر کی چار تحریریں گنجینہ ء معانی کا طلسم ہیں ۔ بادی النظر میں تو کولاژ کا یہ حصہ مطالعۂ عمومی ہے لیکن اسی حصے کو قارئینِ ادب نے ہمیشہ خصوصی توجہ اور دلچسپی کا مرکز سمجھا ہے۔ اس حصے میں شامل گُل ہائے رنگ رنگ مجلے کی عطر بیزی میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کولاژ کی صورت میں علم و ادب کی جو کہکشاں اُفق ادب کو منور کر ہی ہے اس میں علم و ادب کے پرانے آفتاب و ماہتاب اور جدید نیّرِ تاباں اپنی ضو فشانی سے نگاہوں کو خیرہ کر رہے ہیں ۔
عالمی شہرت یافتہ مصوروں کے نادر و نایاب فن پاروں کو بھی اس بار کولاژ کی زینت بنایا گیا ہے۔ ان تصویروں کے رنگ محوِ تکلم ہیں اور ان کی عنبر فشانی کا عالم ناظرین کو حیرتوں کی دُنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ رنگین تصاویر رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر قاری کے ذوقِ سلیم کی تسکین ہوتی ہے۔ مجموعی اعتبار سے مجلہ کو لاژ معاصر ادب کا ایک حسین گُل دستہ ہے جس کے مطالعہ سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مساعی کے ثمر بار ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں ۔ اس معیار کے ادبی مجلات کی اشاعت پاکستانی ادبیات کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ جدید ادب کے آئینہ داراس مجلے کی فی شمارہ قیمت چار سو روپے ہے۔ خط کتابت اور ای میل کا پتا درج ذیل ہے :
کولاژ پبلی کیشنز، کراچی۔ حفیظ پلازہ، سیکنڈ فلور، 57، دار الامان کو آپریٹو ہاؤسنگ سو سائٹی نزد بلوچ کالونی فلائی اوور، کراچی :75350، ای میل:collagepak@hotmail.com
٭٭٭
ادبی مجلہ ششماہی لیکھ، لاہور، جلد 11، شمارہ1، جنوری تا جون2015تبصرہ: غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
لاہور میں مقیم نوجوان دانش ور پروفیسر ڈاکٹر ناصر رانا اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستانِ علم و ادب ہیں ۔ ان کی ادارت میں لاہور سے دو ادبی مجلات ( ششماہی لیکھ اور سہ ماہی ادب معلی ) باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں ۔ ان رجحان سازعلمی و ادبی مجلات کی اشاعت سے قارئین ادب میں عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملی ہے۔ ایک زیرک ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹر ناصر رانا نے ان مجلات کے مشمولات کے ذریعے قارئین میں مثبت شعور و آگہی کے فروغ کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ ششماہی لیکھ میں تین زبانوں (پنجابی، اردو اور انگریزی ) میں نئے موضوعات پر لکھے گئے تحقیقی مقالات شامل ہوتے ہیں ۔ موضوعات کی جدت، ندرت اور تنوع کا مظہر ششماہی لیکھ ایک اہم تحقیقی مجلہ ہے جسے علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی ہے۔ اس شمارے میں پنجابی زبان میں لکھے گئے چھے تحقیقی مضامین، اردو زبان کے چھے تحقیقی مقالات اور انگریزی زبان کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ لیکھ کے تازہ شمارے میں پنجابی زبان میں لکھے گئے جو چھے تحقیقی مقالات شامل ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
انوار احمد اعجاز:غلام مصطفیٰ بسمل، سید محمد عبداللہ قادری:انشائے دل پسند، مصباح صدیقی :باقی صدیقی، ڈاکٹر دھرم سنگھ:بولنے دی جا نہیں ، ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد:پنجابی دی پہلی سوانی سفر نامہ نگار،
اعجاز: فیصل آباد دی پنجابی نظم وچ سوانیاں دا حصہ
اردو زبان میں جن موضوعات پر تحقیقی مقالات لیکھ کی زینت بنے ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں :
ڈاکٹر ریاض قدیر:اردو اور پنجابی کے محاوراتی اشتراکات، پروفیسر سلیم الرحمٰن:خنسا کے کچھ مرثیوں کا منظوم پنجابی ترجمہ، نذیر خالد:ظفر لاشاری اور ان کے ناول، پروفیسر یونس حسن:علامت اوراس کا سفر،
ڈاکٹر ام کلثوم:علامات کا بڑھتا ہوا رجحان، ڈاکٹر غلام شبیر رانا:مشل فوکو
انگریزی زبان میں لیکھ میں یہ اہم مضمون شامل اشاعت ہے۔
Peter J.Grainger: A Palatography Experiment to show the contrast between dental and Post-aleveolar stops in Punjabi
تحقیقی مجلہ لیکھ کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ انگریزی، پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے ادب کا ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ گلدستہ اپنی عطر بیزی سے قریۂ جاں کو معطر کر رہا ہے۔ ایک صاحب بصیرت ادیب اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ناصر رانانے اس مجلے کے ذریعے نہ صرف قومی تشخص کے فروغ پر توجہ دی ہے بل کہ عالمی کلاسیک اور جدید لسانیات سے متعارف کرانے کی بھی سعی کی ہے۔ تنقید و تحقیق کے تیزی سے بدلتے ہوئے معائر کے بارے میں حقیقی شعور پروان چڑھانے میں مجلہ لیکھ کا کردار تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خط کتابت کے لیے مجلہ لیکھ کا پتا درج ذیل ہے :
دی اکیڈمکس(رجسٹرڈ)391.N نیو مارکیٹ، سمن آباد، لاہور، ای میل ایڈریس:laikh@hotmail.com
٭٭٭
سہ ماہی بیلاگ، کراچی، جلد 10، شمارہ1، جنوری تا مارچ2015 تبصرہ: غلام شبّیر رانا
______________________________________________________________
کراچی میں مقیم مایہ ناز ادیب اور دانش ور عزیز جبران انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والا اردو کا رجحان ساز ادبی مجلہ ’’بیلاگ‘‘ بابت جنوری تا مارچ 2015شائع ہو گیا ہے۔ ابتدا میں حمد و نعت کا گلدستہ موجود ہے جس کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔ اس حصے میں عزیز جبران انصاری، ڈاکٹر قاسم جلال، ثریا بابر، ثبین سیف، عبدالحمید قیصر، وضاحت نسیم، نسیم احمد نسیم اور ڈاکٹر انیس الرحمٰن کے گُل ہائے عقیدت شامل ہیں ۔ بیلاگ کے اس شمارے میں عالمی شہرت کے حامل دانش ور پروفیسر علی حیدر ملک(مرحوم)کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔ جن ممتاز ادیبوں نے پروفیسر علی حیدر ملک کی رحلت پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے ان میں ابن عظیم فاطمی، عزیز جبران انصاری، تنویر پھول اور ظہیر خان شامل ہیں ۔ جوش ملیح آبادی کے بارے میں علی حیدر ملک کی ایک یادگار تحریر اس مجلے کی زینت بنی ہے۔ دیگر مضامین میں دیپک کنول کے افسانوں پر مسعود تنہا کا تجزیاتی مضمون بہت اہم ہے۔ ظہیر خان کی شگفتہ تحریر ’’بالقرضِ محال‘‘ خوب ہے۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے اپنے مضمون میں شہر یار کو خراج تحسین پیش
کیا ہے۔ سہ ماہی بیلاگ کے اس شمارے میں چار افسانے اور دو فکاہیے شامل ہیں ۔ سنہری بال (مترجم :معین کمالی)، آٹھواں دروازہ(رومانہ رومی)، حساب برابر (تہمینہ مختار)، ہیں کواکب کچھ :قسط اول(عزیز جبران انصاری) واحد (ثریا بابر )مصنفین کی گُل افشانیِ گفتار کا جادو قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ حصہ غزلیات میں جن نئے اور پرانے شعرا کا کلام اس مجلے میں شائع ہوا ہے ان میں سحر انصاری، جان کا شمیری، عار ف شفیق، پروفیسر زہیر کنجاہی، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، ثبین سیف، سعید ساجد، آفتاب خان، ریاض ندیم نیازی، احمد بشیر طاہر، رومانہ رومی، ثریا بابر، طارق رام پوری، خرم خرام، زیبا سعید اور مرزا عابد عباس شامل ہیں ۔ حصہ نظم میں جبار واصف، ڈاکٹر سید قاسم جلال، ثبین سیف، ملک الیاس کامل، قیوم علی طاہر اور شوکت جمال کی شاعری پڑھ کر جی خوش ہوا۔ ایک اور اہم تحقیقی مضمون ’’معروف اہلِ قلم کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات‘‘ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ صحتِ الفاظ پر ایک تحقیقی مضمون مجلے میں شامل کیا گیا ہے۔ ابن صفی کارنر میں ابن صفی کی ایک یادگار نظم شائع ہوئی ہے۔ زندہ تحریریں کے عنوان سے میر تقی میر اور صفی لکھنوی کا کلام شامل اشاعت ہے۔ رفتارِ ادب کے عنوان سے علم و ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریبات کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ خطوط کے حصے میں جان کا شمیری، پروفیسر زہیر کنجاہی، ثبین سیف، قاضی الطاف حسین باولیال، آفتاب خان، پروفیسر قیوم طاہر اور عارف شفیق کے خطوط شائع ہوئے ہیں ۔ جہان کتب میں نئی کتابوں اور ادبی مجلات کا تعارف شامل ہے۔ مجلے کا پہلا صفحہ (اداریہ)اور آخری صفحہ (الوداعیہ)گہری معنویت کے حامل ہیں ۔ یہ ادبی مجلہ ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ دھنک رنگ منظر نامہ لیے ایک جہانِ تازہ کا مظہر ہے۔ تخلیقات کی جدت، ندرت اور تنوع کے اعجاز سے یہ مجلہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ مجلسِ ادارت کی محنت لگن اور ذوقِ سلیم لائقِ صد رشک و تحسین ہے۔ بیلاگ کا ای میل ایڈریس :belagpak@yahoo.com خط کتابت کے لیے پتا درج ذیل ہے :
جبران اشاعت گھر 102 عائشہ منزل نزد مقدس مسجد اردو بازار، کراچی742005
٭٭٭
ادبی مجلہ ماہنامہ نیرنگ خیال، راول پنڈی، جلد91، شمارہ مارچ، 2015، تبصرہ: غلام شبیر رانا
______________________________________________________________
راول پنڈی پاکستان سے نامور ادیب سلطان رشک کی ادارت میں شائع ہونے والے تاریخی ادبی مجلے ’’نیرنگِ خیال‘‘ کا نیا شمارہ بابت مار چ، 2015شائع ہو گیا ہے۔ نیرنگِ خیال کی اس اشاعت میں ممتاز شاعر خورشید بیگ میلسوی کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ اور اقبال عظیم، مبشر سعید اور سید نصیر الدین شاہ گولڑہ شریف کی لکھی ہوئی نعتیں شاملِ اشاعت ہیں ۔ مقالات کے حصے میں نو انتہائی اہم اور مفید تحقیقی و تنقیدی مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اردو زبان کے کلاسیکی ادب اور جدید ادب پر محیط یہ مضامین فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرتے ہیں ۔ مضامین کے عنوان درج ذیل ہیں :
میر تقی میر، مجید امجد، شاعری کا فیض، اچھے شعر کی تعریف، نیم فحش ادب، اسیر بر ہان پوری کا شعری حافظہ، مر حبا کاظمی، احمد ہارون کی شاعری، حسین سحر کی شاعری۔
افسانوں اور طنزو مزاح کے حصے میں پانچ تحریریں شامل کی گئی ہیں ۔ حصہ شاعری میں سولہ شعرا کا کلام مجلے کی زینت بنا ہے۔ ان میں نئے اور پرانے سب تخلیق کار شامل ہیں ۔ چونسٹھ صفحات پر مشتمل نیرنگ خیال کا یہ شمارہ قابل مطالعہ مواد سے لبریز ہے۔ نیرنگ خیال نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گزشتہ نو عشروں سے یہ مجلہ اُفقِ ادب پر ضو فشاں ہے اور اس کی مسلسل اشاعت سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی اور قارئین کے دلوں میں روشنی کا سفر جاری رکھنے کا ولولہ پیدا ہوا۔ مجلسِ ادارت نے ہمیشہ نئے فنی تجربوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے اعجاز سے یکسانیت اور جمود کا خاتمہ ہوا اور تخلیق فن کے نئے امکانات تک رسائی کی صورت سامنے آئی۔ آشوبِ زیست کے جان لیوا مراحل سے گزرنے والی دکھی انسانیت کے مسائل کی ترجمانی نیرنگِ خیال کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ نیرنگِ خیال کا یہ شمارہ دلکش تحریروں کا حسین گل دستہ ہے۔ اس کی ترتیب و اشاعت میں مجلس ادارت نے جس محنت، لگن اور ذوقِ سلیم سے کام لیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔
٭٭٭