بجلیوں کا وہی نشانہ ہے
وہ شجر جس پہ آشیانہ ہے
کیوں بڑھائی گئی سزا میری ؟
کیا مرا جرم مسکرا نا ہے
شیخ کی پارسائی کی مانند
تیری نظروں کا تازیانہ ہے
میں سمجھ ہی نہ پایا آخر تک
اس کا انداز دوستانہ ہے
مسکرانے سے التفات گیا
اس سے بہتر تو روٹھ جانا ہے
پہلے قید قفس میں تھی بلبل
اب وہ پابند آب و دانہ ہے
چشم گریاں سے ہو گیا ظاہر
دل کا موسم بہت سہانا ہے
٭٭٭