وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ اور اس رنگ کے چار موسم ہیں جو عہد کے پرزم میں اپنی اپنی کرنیں چبھوتے ہیں۔ ہر موسم کی شبِ طویل کی کتھائیں مختلف ہیں۔ ان موسموں کو بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے عنوان دے کر ہم نور محمد قریشی کی دنیائے ادب کراچی کے اشاعتی پلیٹ فارم سے چھپنے والی کتاب ’’آٹھ مارچ‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہر موسم تخلیقی اعتبار سے مقدس، اخلاقی حدود و قیود میں معتبر اور تمدنی لحاظ سے اساس کا درجہ رکھتے ہیں۔ ارتقائے کائنات کے پر پیچ سفر میں اس وجودِ کائنات کو کہیں بھی سستانے کی فراغت میسر نہیں آئی اور نور محمد قریشی، جو کہنہ مشق شاعر اور فطرت شناس مصور ہے، نے اپنا موضوعِ اظہار بنایا۔ اُسے یہ رعایت حاصل رہی کہ اس کے پاس مصور کی انعکاس شناس آنکھ اور شاعر کا محوِ پرواز توانا تخیل موجود تھا۔ اس کا دیکھنا عام انسان سے الگ تھا تو اسے فکرو تخیل کی بھٹی میں کندن کر کے لمحہ بیاں سے روشناس کرانا بھی مختلف۔ حسنِ بیانِ مدعا کی لطافتوں اور تنوع کی رعنائیوں کو ہم اس کی کتاب ’’۸ مارچ‘‘ کے سرورق پر دیکھ سکتے ہیں جسے اس نے خود تصویر کر رکھا ہے۔ حیاتِ ارتقاء کے چار مقدس و معتبر موسموں کو دکھاتے ہوئے اس نے کسی ایک چہرے پر تاریکیاں پینٹ کر دی ہیں اور جہاں پہچان کا بڑا ابہام پیدا کر دیا ہے وہاں اس نے یہ بھی عیاں کر دیا ہے کہ طنابِ عصر کسی بھی موسم پر اپنے مظالم کا اندھیرا مسلط کر کے اُسے عبرت بنا سکتا ہے۔
نور محمد قریشی کا اندازِ فکر پختہ ہے۔ شاعری خواب گر ہوتی ہے مگر اس کے ہاں شاعری حقیقی کینوس پر قدرتی رنگوں کی بساط کا نام ہے۔ وہ کسی بھی ماورائی یا طلسماتی فضا میں معلق نہیں ہے بلکہ اس کے دونوں پاؤں زمینی حقائق کی دلدلی مٹی پر جمے ہیں جبکہ خواہش کو انگلیوں کی پوروں پر چسپاں کر کے آسمان کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں نے اس کی غزل نہیں پڑھی مگر ’’۸مارچ‘‘ میں شامل نظم اور ہائیکو اس کی فنی مہارت اور اسلوبِ سخن کی دلالت کرتی ہیں۔ وہ اپنا مدعا پورے مفاہیم کے ساتھ آشکار کرنے کی غیر معمولی قدرت رکھتا ہے۔ اس نے بڑی بہادری سے معاشرتی نقابیں کھینچ کر عورت کی شخصیت، معاشرتی حیثیت اور عہد در عہد مرد کے حاکمانہ مزاج کے باعث پیدا ہونے والی نا انصافیوں کے افسانوی احوال رقم کیے ہیں۔ صدیوں سے عورت کو عاشق کا مقام حاصل رہا ہے جسے عہدِ نو کی بے ثباتی نے معشوقانہ کرتے ہوئے مرد کو عاشق کا رتبہ دے دیا ہے جو فطرت کے بر عکس ہے۔ نور محمد قریشی کی دم بہ دم بدلتی ہوئی تحریر کے مزاج میں یہی نوحہ کارفرما ہے۔
وہ نہ صرف قادر الکلام شاعر ہے بلکہ حقائق شناس ادیب بھی ہے۔ اس نے نظم کی بیساکھی پر جھولتے ہوئے افسانے کے تمام تر خال و خد اور کرداروں کے خارجی اور داخلی دکھ سینچ رکھے ہیں۔ ’’سل‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی ایک نظم ملاحظہ ہو جس میں ایک طویل افسانے کا مکمل متن مضمر ہے۔ …ماں / میں اکیلی نہیں جاؤں گی / تو بھی میرے ساتھ چل / تو ہوتی ہے ساتھ تو مجھ کو / برتن دھونے پڑتے ہیں / تنہا جب بھی جاتی ہوں / صاحب کمرے میں مجھ سے / سل پر مرچیں پسواتا ہے۔ (ص:۴۵)
نور محمد قریشی کی پروازِ فکر لفظوں کے سینے میں توانا دل دھڑکا سکتی ہے۔ وہ لگن اور یکسوئی سے عہدِ بے کار کے اعضائے معطل کی جراحی کرتا ہے اور اس کی انگلیاں نشتر سے کھیلتے ہوئے وسوسوں اور اندیشوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ وہ پورے انہماک سے معاشرے کا بدن چیرتا ہے اور اپنی نظم ’’خالی پیٹ‘‘ میں کہتا ہے…پھولے پیٹ والوں نے / خالی پیٹ لڑکی کا / چند دنوں میں پیٹ بھرا / پیٹ بھری اس لڑکی نے / پھر اِک خالی پیٹ جنا۔ (ص: ۴۸)
شاعر مبلغ یا ناصح نہیں ہوتا۔ نور محمد قریشی بھی مبلغ اور اصلاح کار نہیں ہے مگر وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر خشمگیں نظروں سے ان رسم و رواج کو دیکھ رہا ہے جو عورت کے نرم وجود اور کمزور مقام پر قہقہہ بار ہیں۔ اسے شکوہ ہے کہ مردوں کا یہ یک مزاجی تسلط بیٹے کے راحتوں، بناؤ اور سفلی عیاشیوں کیلئے زندگی بھر کی جمع پونجی لٹاتا ہے مگر اتنا ہی سرمایہ اور مہلتیں بیٹی کی دیواروں میں چنوانے پر صرف کر دیتا ہے۔ وہ اس نا انصافی کو قبول کرنے پر چنداں تیار نہیں ہے۔ وہ بیٹی کو زندہ درگور ہوتا، بھیانک اور سفاک اندازِ غیرت کے لہو میں نہاتا، جہیز کے نام پر جذبوں کی مسند پر تڑپتا اور خواہش کے اظہار کی پاداش میں دریا برد ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اس نفیس مخلوق کو جنسی سلیب پر رقص کرتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ وہ کاروکاری، وٹہ سٹہ، ونی قرآن سے شادی جیسی رسموں سے لتھڑے ہوئے مقتلوں کا باغی ہے۔ وہ ورکنگ ویمن کے دکھ کو ا تھاہ گہرائی سے محسوس کرتے ہوئے اس کی حماقتوں اور بلند قامتی کی خواہش کو نظر انداز بھی نہیں کرتا۔ وہ اس اضطراب کو پہچانتا ہے جو فطری عاشق کے دل میں ہلکورے لیتا ہے مگر اس کے وجود پر خود ساختہ معشوقیت کی اترن پہنا دی گئی ہے۔ شاید اسی لیے وہ ’’لہر‘‘ (ص:۸۲) کو قرطاسِ خبر پر سجاتا ہے۔
وہ عورت اور مرد کے اشتراکی نظامِ قدرت کو بہ نظرِ احتیاط دیکھتے ہوئے عورت کی بے بسی اور بے کسی پر کڑھتا ہے۔ یہ کتنا بڑا دکھ ہے کہ وہ اَنا، مرضی، آنکھوں، خواب اور محبت جیسے نَے رنگ استعاروں سے بھی ڈرتی ہے۔ (’’محبت‘‘ ص:۹۳)۔ اس دکھ کو نور محمد قریشی محسوس کیے بنا نہیں رہ سکا کہ عورت گھر میں رہنے اور گھر کی مالکن ہونے کے باوجود دستک پر سہمے سہمے انداز میں اپنے وجود کی نفی کرتے ہوئے جواب دیتی ہے کہ ’’گھر میں کوئی نہیں ہے۔‘‘ اور یہی اُس کی شاعری کا مضبوط افسانوی رنگ ہے۔ (’’بے وجود‘‘ ص:۱۰۰)۔ اس سنگلاخ دھرتی پر طاری معاشرتی جمود نے عورت سے اس کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ بھی چھین رکھا ہے۔ جس شخص کو وہ اپنا تمام تر وجود سونپنے جاتی ہے، وہ اس کی مرضی کا ہو، نہ ہو، یہ اس کے اختیار سے باہر ہے۔ ایک طویل نثریے ’’بیاہ‘‘ (ص:۱۰۸) میں وہ عورت کے Social Status پر پڑا ہوا رنگین پردہ بڑی دیدہ دلیری سے کھینچ لیتا ہے۔ اس کا حساس ذہن آخر چیخ اُٹھتا ہے اور ’’جنگل‘‘ (ص:۱۵۴) میں وہ کرب سے ہونٹ بھینچ کر کہتا ہے… آج کی عورت / بھول رہی ہے / یہ بستی انسانی ہے / کس کس سے بچ پائے گی / آخر ڈس لی جائے گی۔
نور محمد قریشی اس غیر منصفانہ رویے پر بھی نالاں اور شاکی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ موجود کا مرد جو اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی پابندیاں ظالمانہ انداز میں بیٹی، بہن اور بیوی پر نافذ کرتا ہے وہ اپنے بھائی اور بیٹے پر عائد نہیں کرتا۔ مرد کی لگام ڈھیلی چھوڑنے کیلئے وہ فیشن، آزادیِ انساں اور عہدی ارتقاء کا سہارا لیتا ہے۔ وہ منافقانہ رویوں سے معمور شخص مغرب کی گوری چمڑی والی اجنبی عورت کو لائقِ احترام اور بلند قامت کیوں قرار دیتا ہے؟ وہ جب مشرقی اور مغربی عورت کے مقام کو ترازو میں رکھ کر موازنہ کرتا ہے تو پھر چیخ اُٹھتا ہے اور اپنی نظم ’’باہر کی عورت‘‘ (ص: ۱۷۰) میں نہایت بلاغت اور سچائی سے تجزیہ بیان کر دیتا ہے۔ بلاشبہ وہ بیمار معاشرے کا حساس اور سفاک جراح ہے جس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی ہیں، لہجہ بھرایا ہوا ہے مگر انگلیوں کی تابِ نشتر و رَفو میں کوئی لرزش دیکھنے میں نہیں آتی۔
’’انتقام‘‘ (ص:۱۷۹) میں نور محمد قریشی بڑی خوبصورتی سے اس جفا کش اور مظلوم نوعِ مخلوق کی چالاکی بھی طشت از بام کرتا ہے … دیکھتی ہوں / کیسے بنتے ہیں / سمدھی اور داماد مرے / نہ بھی رویا / تب بھی اس کو / دودھ پلا ہی دوں گی میں۔ اور پھر ’’نائیکہ‘‘ (ص:۱۹۶) میں وہ عورت کا حرافہ پن اور مرد کی خوش فہمیوں کا گریباں چاک کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لفظ لفظ نوحہ خواں نظم ’’انجان‘‘ (ص:۲۱۰) ملاحظہ ہو… چھوڑ کر میں اُسے / جی سکوں گا نہیں / جانتا ہوں مگر / چھوڑ آیا ہوں میں / اس کے گھر جو اُسے / جانتا بھی نہیں۔ ہائے! میں شاعری پڑھنے والا ایک نو آموز طالب علم … کیا کہوں ؟ نور محمد کو اُس کی نظم کی خوش بیانی پر مالا پہناؤں یا دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ پیٹوں، اُس دکھ پر جو اُس کی نظم ’’رسی‘‘ (ص:۲۷۶) میں آشکار ہے… برسوں پہلے / جس پیپل پر / رسی ڈال کے جھولا جھولا / آج اسی شاخ پہ دیکھو / میری بیٹی / تیرا بیٹا / گلے میں رسی ڈال کے اپنے / جھول رہے ہیں۔
وہ (ص:۳۰۶)، زلزلے کے بعد (ص:۳۱۴)، دھوپ چھاؤں (ص:۳۲۰)، روٹی (ص:۳۲۲)، لے پالک (۳۷۱) اور نرس (ص:۳۷۹) ایسی نظمیں ہیں جنہیں پڑھ کر انسانی ذہن مبہوت رہ جاتا ہے۔ نور محمد قریشی ایک بالغ نظر اور صاحبِ آرا تشخیص کار ہے۔ وہ اپنی نظم ’’ہائے‘‘ (ص:۳۷۶) میں غربت کی کوکھ سے بلند ہونے والے رشک کے شعلوں کو لفظی پیراہن دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس معاشرے کے دوغلے کردار نے مختاراں مائی کو انصاف کے نام پراتنا نوازا ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کو ترستی ہوئی عورتیں مختاراں مائی بننے اور اس کی طرح روندے جانے کی دعائیں کرتی ہیں۔ وہ عورت کے نام پر منائے جانے والے عالمی دن میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور کراہنے لگتا ہے۔ اس کی نظموں میں جہاں افسانے کا غم بار متن موجود ہے وہاں ایک تحیر آمیز چٹکی بھی مضمر ہے جو قاری کو چو نک کر کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ بلاشبہ قدرتی اظہار کار ہے اور کسی واہمے کا شکار نہیں ہے۔ اسے جس طرح اپنی ہویت کا یقین ہے اسی طرح اسے معاشرے کی ناسپاسیوں کا کامل ادراک ہے۔ اس نے خواب گیں منافقت سے کام نہیں لیا۔ خون آلود سیج پر بوسوں کی دیوانگی محوِ رقص نہیں کی۔ وہ خار زاروں میں پھول زخمانے کی رومانی وارداتوں کا قائل بھی نہیں ہے بلکہ شاعر اور مصور کے درمیاں ’’کچھ ہے‘‘ کا مظہر ہے۔ اس کا اندازِ جستجو با معانی ہے۔ اس کی پرکھ فطری اور منطقی نتائج کی حامل ہے اور لہجے کی کھنک میں وقار اور اَنا کے جاوید عناصر موجود ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے اس سے قبل اتنے مختصر اور زود اَثر افسانے کم از کم اُردو ادب میں نہیں پڑھے اور عورت کے نام پر عالمی دن منانے والی قوتوں کے کے منہ پر اتنے زور دار طمانچے کی صدا کسی دشت و بلد میں نہیں سنی۔
ہائے کاش! اُس کی صدا اپنے مقام پر پہنچ کر انقلابی تغیر کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
٭٭٭