۲۰۱۳ کی برطانیہ کی ریکارڈ توڑ سردی اور تاریکی کے بعد اُس خوبصورت دن کو ’تھوڑی سی روشنی‘ اور آ گئی۔ پرویزؔ مظفر نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے جو تھوڑی سی روشنی ’روشن‘ کی ہے وہ تھوڑی بھی زیادہ ہے کیونکہ ناچیز نے کہا ہے ؎
نور کے ننھے سے شعلے سے بھی ظلمت ہو فرار
طاق روشن ہے وہی جس میں دیا رکھا ہے
دو سوچھتیس غزلوں ، ایک سو انسٹھ نظموں (یا نظمچیوں )، ایک نعت، ستائیس قطعات اورچھتیس ہائیکو کا چار سوچھتیس صفحات پر پھیلا ہوا یہ بھنڈار ’تھوڑی سی روشنی‘ نہیں ، روشنیوں کے کئی الاؤ ہیں۔ بے شک پرویزؔ مظفر، پروفیسر مظفرؔ حنفی کے بیٹے ہیں اور غزل میں اصلاح بھی انہیں سے لیتے ہیں تو لازم ہے کہ والد کے غزلیہ کلام کا کچھ نہ کچھ پرتو بیٹے کے کلام پر بھی ہو گا اور ہونا بھی چاہئے لیکن پرویزؔ نے جسم و دماغ، اعضاء و جوارح بے شک والد سے لئے ہیں تاہم ان کے ذہن میں سوچ اور ان کی آنکھ میں نظر تو اپنی ہی ہے۔ پرویزؔ نے اپنے والد سے الگ ہو کر اور کچھ آگے بڑھ کر دنیا کو دیکھا ہے اس لئے شاعری میں اپنا ایک الگ زاویۂ خیال اور اندازِ بیان اختیار کیا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اگر مظفرؔ حنفی کا کلام’ آگ‘ ہے (دیکھئے ’آگ مصروف ہے‘ وغیرہ وغیرہ) تو پرویزؔ مظفر کا کلام ’روشنی‘ ہے۔ لہٰذاجس طرح مظفرؔ حنفی کی طرز کا تتبع ناممکن ہے اسی طرح پرویزؔ مظفر کی پیروی (یا نقالی کہہ لیں ) بھی نا ممکن ہے۔ دونوں باپ بیٹے نے لوحِ تاریخ پر اپنا انفرادی مقام ’نار‘ و ’نور‘ سے کھدوا لیا ہے۔
پرویزؔ مظفر کی شاعری کے اس پہلے مجموعے کی پہلی غزل کے پہلے شعر سے ہی اس نوجوان کی اٹھان ظاہر ہوتی ہے ؎
دھوپ اسے کھانے دو پہلے
پھل کو پک جانے دو پہلے
اس کے بعد کون ہو گا جو آگے بڑھنے اور پڑھنے سے رک جائے۔ مَیں نے پہلے غزلیہ کلام میں سے ’چکھنا‘ شروع کیا تو ’جاسوسی دنیا‘ کی طرح کے ’تجسس‘ (سسپنس) نے نگاہوں کو جکڑ لیا اور میں پڑھتا ہی گیا تاکہ یہ دیکھوں کہ یہ ’ابنِ صفی‘ آگے کون کون سے خزانوں کی تلاش پر لے جا رہا ہے۔ اس ’طلسمِ ہوش ربا‘ کے ہر موڑ اور ہر قدم پر ایک نیا خیال، ایک چونکا دینے والا تجربہ، ایک جھنجھوڑ دینے والی بات، ایک ہولناک حقیقت، ایک مترنم آواز، ایک بلکتی ہوئی آہ، ایک چٹکی اور ایک گدگدی کا سامنا کرتے ہوئے کہیں یبوست (خشکی، بوریت) کا احساس نہیں ہوتا۔ پرویزؔ مظفر ایک ماہر سرجن کی طرح زندگی کے بے ہوش لاشے کو کبھی ٹیکوں (انجکشنز) سے، کبھی بجلی کے جھٹکوں سے، کبھی تھپتھپا کر، کبھی لوری گا کر اور کبھی گدگدا کر ہوش میں آنے اور گرد و پیش کی بدحالی اور ریشہ دوانی کا سامنا کرنے بلکہ نبرد آزما ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہر جگہ ایک نیا انداز، ایک نیا طریقۂ کار، ایک نئی تکنیک استعمال کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ’جادو گری‘ کا یہ ضخیم مجموعہ دیکھ کر مجھے بھی حوصلہ ہوا کہ بالآخر اپنے دو سو سے زائد غزلوں اور طویل نظموں کے ’لحیم شحیم‘ مجموعوں کو طبع کروا ہی لیا جائے۔ شکریہ پرویزؔ مظفر۔
چھوٹی چھوٹی آزاد نظموں کے حصے کو دیکھنے کا موڈ نہیں بن رہا تھا لیکن ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مضمون میں قارئین سے گذارش کی گئی ہے کہ’ وہ پرویزؔ کے فکر و فن سے آگاہی کے لئے اُن کی نظموں ، خصوصاً ’پہلی صدا‘، ’پامالی‘، ’زندگی نام ہے‘، ’محفوظ حصار میں ‘ اور ’کلچرل سیکریسی‘ کے زیرِ عنوان نظموں پر ایک نظر ضرور ڈالیں۔ ‘ چنانچہ مجھے ان نظموں پر نظر ڈالنے کے بعد باقی تمام ’نظمیں ‘ پڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ تب پتہ چلا کہ پرویزؔ مظفر نے نظموں میں اپنی انفرادیت خصوصیت سے قائم رکھی ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کی نظموں کی اصلاح ساقیؔ فاروقی کرتے ہیں ، ان نظموں میں ساقیؔ کی بے حجابانہ’ آزاد گوئی‘ کا دور دور تک نشان نہیں۔ پرویزؔ کی نظمیں ’ حدِ ادب ‘ کے اندر ہی رہتی ہیں۔ خوشی کی دوسری بات یہ ہے کہ اس ’پیرِ مغاں ‘ کی ’ہم مشربی‘ کے باوجود پرویزؔ دختِ رز کے رسیا نہیں بنے ؎
وھسکی سے پرہیز ہے ہم کو
’تھوڑی‘ تمباکو ’چلتی‘ ہے
پرویزؔ کی نظموں میں جو درد مجھے نظر آیا اس کا تجربہ فرزانہ خان نیناں ؔ کی نظموں سے شدت سے ہو چکا ہے۔ ’موتی‘ اور ’سیپیوں ‘ کے استعارے نیناں ؔ اور پرویزؔ کے ہاں مشترک ہیں لیکن دونوں نے اسے اپنے اپنے رنگ میں استعمال کیا ہے بغیر کسی توارد یا اکتساب کے۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ نیناں ؔ کی نظموں میں بَین اور بِین دونوں کی موسیقی بھری ہوئی ہے، جبکہ پرویزؔ کی سپاٹ نظموں میں نغمگی تو نہیں لیکن آخر میں سانپ کے پھن کی سی ہولناکی ضرور سر اٹھاتی ہے۔ قاری ایک جھرجھری لے کر سوچتا ہے کہ میں نے یہ کیا پڑھا ہے؟ یہ سچ تو پہلے سے ہی موجود تھا لیکن مجھے اس سے پہلے نظر کیوں نہیں آیا؟ کیا میری سانس بھی ’بارود میں لپٹی ہوئی ‘ نہیں ؟ (مختصر نظم ص۴۸) ؎
خواب کو خواب ہی
رہنے دے
جو انھیں حقیقت سے جوڑے گا
وہ زندگی کو توڑے گا (مختصر نظم ص۴۶)
نظموں سے یہ بھی پتہ چلا کہ پرویزؔ جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو ؎
لفظوں کی اس گہماگہمی میں
خیال بھی
مسکراتا ہوا نکل آتا ہے (قلم گنگناتا ہے)
اور پرویزؔ جب کسی تلخ تجربے سے گزرتے ہیں تو یوں سوچتے ہیں کہ ؎
برسوں بعد
جیسے زندگی میں
یہ اندھیرا ابھی کل ہی ہوا ہو (زندگی اور اندھیرا)
پرویزؔ کے ہاں قنوطیت کی فراوانی کے باوجود رجائیت بھی بلا کی ہے ؎
۔۔۔ سارے چھوٹے بڑے لڑنے کو
تیار تھے
۔۔۔۔ پھولوں نے دیوار کھڑی کر دی
محبت کی (نظم: جنگ کو تیار تھے ص ۳۰)
اب غزلوں کے بارے میں نثر میں مغز ماری کرنے کی بجائے میں وہ’ مشک‘ ہی کیوں نہ آپ کے سامنے پیش کر دوں جسے سونگھ کر آپ خود اندازہ کر لیں کہ کتنی تیز heady خوشبو ہے، یاوہ ’روشنی‘ ہی کیوں نہ پیش کر دوں جس سے آپ خود جانچ لیں کہ کتنی چندھیا دینے والی dazzling روشنی ہے، ’ تھوڑی سی‘ سہی، تیز ضرور ہے۔ تو لیجئے ؎
چن لینا لیکن کلیوں پر
لالی تو آنے دو پہلے
البم پر تتلی چپکانا
پر تو پھیلانے دو پہلے
خود گِر جائیں گے شاخوں سے
ہم کو مرجھانے دو پہلے
اندھیرے میں اسے شہرت ملی تابندہ ہونے سے
کہ یہ مردہ زیادہ قیمتی ہے زندہ ہونے سے
پشیماں ہے ہمارے خونِ ناحق پر تو ہم سے کیا
ہمیں کیا فائدہ ہو گا تِرے شرمندہ ہونے سے
زمانے کا مورّخ اس لئے تاریخ لکھتا ہے
کہ ہم سب باز آ جائیں یزید و ہندہ ہونے سے
اگرچہ مشہورِ عام نام ’ہندہ‘ ہے لیکن عربی میں اصل میں ’ہند‘ ہے یعنی پرویزؔ مظفر کا ہندوستان۔ عرب لوگ ملکوں کے نام پر بچیوں کے نام رکھتے تھے جو آج بھی مروج ہے۔ ’ہند‘، ’ترکیہ‘ وغیرہ نام آج بھی رکھے جاتے ہیں ؎
(باقی اشعار ’ میری پسند کے اشعار‘ کے تحت دئے جا رہے ہیں۔)
تو صاحبان! پرویزؔ مظفر کے کلام سے انتخاب کرتے کرتے میں خود ایک کتابچہ لکھ بیٹھا۔ لیکن کیا کروں جب تک حرف حرف پڑھ نہیں لیتا مجھ سے تبصرہ نہیں لکھا جاتا۔ پھر انتخابِ کلام میں کتنا ہی اختصار کروں میرے پسندیدہ اشعار میرا قلم مجھ سے لکھوا کے ہی رہتا ہے خواہ مضمون اتنا طویل ہو جائے کہ اہلِ ’مجلہ‘ اسے من و عن چھاپنے سے کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ میری اپنی بعض طویل نظموں کا یہی حال ہے کہ کسی رسالے میں پوری نہیں چھپ سکیں۔ مَیں اپنا دیوان طبع کراتے ہوئے ڈر رہا تھا کہ تین چار سو صفحات کون پڑھے گا۔ اب پرویزؔ مظفر کا ۴۶۴ صفحات کا مجموعہ دیکھا تو ہمت بندھی کہ میری طرح کا کوئی سرپھرا تو پڑھ ہی لے گا۔ الغرض پرویزؔ مظفر نے حقیقی زندگی کے بہت قریب ہو کر لکھا ہے اور جدید اور مروج لفظیات کے استعمال سے ہچکچائے بغیر اور روایت کو ترک کئے بغیر تازہ خیالات اور تلخ و ترش حقائق کو بہت خوبصورتی اور اختصار سے لباسِ شعر پہنایا ہے۔ نظمیں اور غزلیں تمام مختصر ہیں لیکن کثیر ہیں ، اس لئے مجموعے کی جسامت بڑھ گئی ہے۔
مختصراً پرویزؔ کی غزل میں جدت بھی ہے اور تازگی بھی۔
٭٭٭