نوٹ: مشرف عالم ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر کے مطالعہ کے دوران میں کئی اہم سوالوں سے گزری۔ ان کا جواب تلاش کرنا ضروری تھا۔ پہلے اس ناول کے بارے میں مختصر سی گفتگو کر لوں تو اس مکالمے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ نالۂ شب گیر … بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ان کے حل پیش کرتا ہے— conception سے perception کی جانب سفر کرتا ہے۔ ایک مفکر کی طرح، عظیم فلسفیوں کی طرح ذوقی صاحب نے بھی ایک مثالی انسان کا تصور دیا ہے …مگر سب سے بڑا اور ہلا دینے والا تجربہ یہ ہے کہ انسان کے اب تک کے تجربوں کے برخلاف اس عورت کو پیش کیا گیا ہے جو ایک عظیم عورت ہے ایک مفکرہے…آگ پہ پکی کندن کی طرح جس کے رستے میں رشتے ناطے حتی کہ ممتا کی بھی بیڑی بھی نہیں ..سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عورت مشرف عالم ذوقی کے ذہن کی پیداوار ہے یا اس نے ایسی کسی عظیم عورت کا مشاہدہ کیا —؟اور سوال تو یہ بھی ہے کہ کونسے عوامل ہیں جو مصنف کو مرد کے اس حد تک خلاف جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ؟ عورت جو ایک فلسفی کی طرح اس معاشرے میں زہر گھولتے حروف کی بدرو کو صاف کرنے جیسی اہم مہم انجام دیتی ہے… ایک ایسا کردار جو فطرت سے بھی جنگ پہ آمادہ ہے اور مالک سے سوال کرتی ہے اتنا کمزور کیوں بنا دیا عورت کو—؟ جسم سے بڑی بھوک کیوں بنا دی…؟اسی عورت کا اک دوسرا عکس صوفیہ ہے جو آخر اپنے خوف کو محبت بنا لیتی ہے …سوال تو یہ بھی ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے کیسے عورت کے من میں بیٹھ کر اس کے ہر خوف اور زخم کو کھوجا ہے اور بیان کرنے کی جرأت بھی کی ہے ..وہ مردانہ سماج کی ان عورتوں سے زیادہ عورت سے مخلص نظر آتے ہیں اور اس کی معاشی آزادی اور تعلیم میں اس کے زخموں کا مرہم بھی کھوجتے ہیں …ایک ایسا سماج تشکیل کرنے کی آرزو جہاں مرد کی مردانگی عورت کی نسوانیت سے بڑی نہیں … دعا ہے کہ یہ خواب تمام آنکھوں میں منتقل ہو جائے۔
نالۂ شب گیر نے زخم کھرچ دیئے — بچپن سے ہی مجھے مردانہ سماج کے یہ محاورے یاد رہے کہ عورتیں دی مت گت پچھے ..بزدلوں کو عورت ہونے کا طعنہ .. بچپن سے ہی عورت بہت سا زہر پیتی آئی ہے… صوفیہ میں بھی اک خوفزدہ عورت ہے جو رشتوں کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا ہے …یہ ناول اتنا بھرپور ہے کہ ایک مدت تک ذہن پہ حکومت کرے گا … اس ناول نے کہاں کہاں تازیانے نہیں مارے … ان خوابوں کو زندہ کیا کہ عورت اتنی خودمختار اور مضبوط کیوں ہو نہیں سکتی ہے …؟ اس ناول کو کہاں کہاں کن کن زاویوں سے دیکھوں …
میں نے کوشش کی ہے کہ اک بہت بڑے ناول پر بڑے سوال اٹھاؤں تاکہ اس کی تحقیق کا صحیح رخ متعین ہوسکے…میں نے یہ سوال اس لیے اٹھانا ضروری سمجھا کہ اس ناول کی روح کسی ایک مرد میں جاگی تو کیسے جاگی—؟ کسی نے ایسا سوچا تو کیسے سوچا…؟ ایک پل میں لگا کہ میں کسی ایسی چوٹی پہ کھڑی ہوں جس نے اس ناول کی روح کو جانا ہے… اور میرا دل چاہا کہ اس روح کو ہر مرد اور عورت کے اندر رکھ دوں …
میری دلی خواہش ہے کہ اس مکالمہ پر باتیں ہوں … ان سوالوں کو سوچا جائے… کیونکہ لفظ کی قوت سے میں آگاہ ہوں …اسی بات سے اک اور سوال میرے ذہن میں تھا۔ ذوقی صاحب نے بدلتے حالات اور زمانے کے ارتقا سے بلی کی علامت میں جس طاقت ور عورت کو دیکھا ہے، وہیں الفاظ کے ارتقا کا نظریہ بھی پیش کیا ہے؟ کیا یہ درست ہے؟ لفظ قتل بھی کرتے ہیں اور لفظ زندہ بھی کرتے ہیں — ادا کس نے کیا بس یہ اہم ہے… کن بھی تو اک لفظ ہی ہے…میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ہمیں اس مالک نے شودروں کی طرح پیروں سے پیدا کیا تھا—؟ کوئی جواب نہیں ملتا— پھر کہتی ہوں اچھا میرے رب میں نے تسلیم کیا جو تو نے مجھ سے میری نظر اور عقل سے پوشیدہ رکھا…
کچھ منتشر خیالات تھے جو نالۂ شب گیر کا مطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اب اس مکالمے میں، میں آپ کو شامل کر رہی ہوں۔
سیمیں کرن: آپ کے خیال میں مصنف کو بے شرم ہونا پڑتا ہے۔ وہ کسی جوکر کی طرح ہے کیا یہ انفرادی نظریہ ہے یا پھر اب اسے اجتماعی نظر میں دیکھتے ہیں ؟
مشرف عالم ذوقی: مصنف پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بیک وقت وہ کئی کردار نبھا تا ہے۔ وہ محبوب بھی ہوتا ہے اور ظالم بھی۔ وہ منصف بھی ہوتا ہے اور قاتل بھی۔ کئی بار کہانی اور واقعات کے تعلق سے اسے جلاد کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ تم نے پوچھا ہے یہ انفرادی نظریہ ہے یا اجتماعی نظریہ—؟ میرے خیال سے یہ نظریہ تمام لکھنے والوں پر صادق آتا ہے۔ کیونکہ محض شرافت کردار اور واقعات کے تعلق سے ایک دنیا کا تعاقب کرنے میں ناکام رہے گی۔ منٹو بیحد شریف تھا لیکن اس کی کہانیوں میں ہر طرح کے واقعات اور ہر طرح کے کردار تھے۔ طوائف بھی۔ دلّے بھی۔ سماج کے ٹھیکیدار بھی۔ ایک مکمل عریاں معاشرہ منٹو کے سامنے تھا— اور اسی لیے ناول کی شروعات میں ہی مجھے کہنا پڑا کہ میں ایک جو کر ہوں۔ یہ جوکر دوستو فکسی کی کہانی کا ریڈیو کلیس مین بھی ہے اور ایڈیٹ بھی۔ یہ جوکر مذاق مذاق میں زندگی کے فلسفوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جوکر کو دوسروں سے کہیں زیادہ یہ پتہ ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے۔ دوستو فکسی کے مشہور زمانہ ناول ایڈیٹ میں جب شہزادی ایڈیٹ کو لے کر اپنے دوستوں سے ملانے آتی ہے تو اس نئے ماحول میں ایڈیٹ کے جسم میں لرزہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ جاتا ہے۔ جب شہزادی کے دوست اس مسخرے پر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہزادی کہتی ہے، اس بھیڑ میں یہ شخص خالص سوناجیسا ہے۔ جہاں کوئی نمائش نہیں۔ یہی جوکر کا کمال ہے۔ وہ اپنے مذاق، اپنی طبیعت سے ایک مکمل معاشرے اور دنیا کو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آپ اس پر ہنس سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہائی کمال و ہشیاری سے اس نے آپ کو بے نقاب اور عریاں کر دیا ہے۔
سیمیں کرن۔ آپ نے اپنے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے یعنی کیا یہ محض تخیل ہے۔ ؟
مشرف عالم ذوقی: تم نے پوچھا کہ میں نے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا سیمیں کرن، تمہارے اس سوال پر حیران ہوں۔ تم خود ایک عورت ہو۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مرد اساس معاشرے کا جبر ہے کہ تم نے خود کو کبھی عظیم یا طاقتور نہیں سمجھا۔ کمزور ہی سمجھا۔ میں عورتوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتا کہ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ ظالم مرد نے کبھی عورت کو بلند یا طاقتور ہونے دیا ہی نہیں۔ تم نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں نالۂ شب گیر کے حوالہ سے مرد، عورت اور آزادی کے تعلق سے دو باتیں کرسکوں۔ آزادی… ذرا تصور کرو، اس لفظ میں کتنی زندگی اورسرشاری ہے۔ مگر افسوس، صدیوں سے آج تک مرد نے اس آزادی کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور عورت کے لیے اس لفظ کو ممنوعہ قرار دیا۔ حضرت نوحؑ سے آخری نبی حضرت محمدؐ تک عورت وہی کچکڑے کی گڑیا رہی، جس کا استعمال ہوتا رہا۔ قرآن میں کہا گیا— ’عورت تمہارے لئے کھیتیاں ہیں‘— لیکن ان ’کھیتیوں‘ نے صدیوں سے مردوں کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھ لیا تھا۔ عرب میں حضرت محمدؐ کے آنے تک عورت بازاروں میں بکنے والی چیز تھی۔ جس کے ہاتھ لگ جاتی، اُسی کی ملکیت ہو جاتی— صدیوں میں سانس لیتی عورت نے جب اپنی آزادی کے آسمان کی تمنا کی، تو سب سے پہلی جنگ اُسے مذہب سے ہی لڑنی پڑی— خود اسلام میں عورت کے نام پر اتنی ساری پابندیاں اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھیں، جنہیں آج کے مہذب ترین دور میں بھی عورت نبھائے جانے کے لئے مجبور ہے۔ مذہب کی حیثیت کیسی تلوار جیسی ہے، جو عورت کے سر پر صدیوں سے لٹک رہی ہے۔ عورت اس تلوار کے خلاف جاتی ہے، تو وہ سرکش، باغی تو کبھی بے حیا اور طوائف بھی ٹھہرا دی جاتی ہے۔
اسلام میں عورت کو جو بھی مقام عطا گیا ہے، شریعت کا فرمان جاری کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے مولویوں نے ہر بار مذہب کی حفاظت کی آڑ لے کر عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلسل ظلم، کئی کئی بیویوں کا رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاؤں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ کھیتی، بن گئی تھی___ مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلا سکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو زرخیز اور چاہے تو بنجر بنا سکتا تھا___ وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کا کوئی بھی استعمال کرسکتا تھا۔
مسلم معاشرے نے عورت کو وہیں اپنایا، جہاں وہ مجبور تھی، جہاں اُسے مارا پیٹا یا سزا دی جا سکتی تھی۔ جہاں مرد دو دو، تین تین، بلکہ چار چار عورتوں سے شادی کرسکتے تھے۔ جہاں مرد عورتوں کو ’حلال‘ کر کے جبراً ان کے مالک بن سکتے تھے— جہاں زنا یا عصمت دری میں ذہنی چوٹ سہنے کے باوجود سزا صرف اُن کے لئے ہی لکھی گئی تھی— جہاں ان کے سجنے سنورنے اور ان کے سنگار پر پابندی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب میں یہ عورت راحت وآرام کی سانس لے رہی تھی— یہ عورت ہر جگہ بندشوں میں گھری ہوئی تھی— عورت ہر جگہ قید میں تھی۔ تبھی تو سمون دبوار کو کہنا پڑا— ’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔‘
سمون دبوار کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سمون نے مردوں پر عورتوں کے لئے حاکمانہ، زمیندارانہ اور ظالمانہ رویہّ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ وہاں تقریب میں شامل مردوں نے سمون کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کی نابرابری اُن کے مذہب کا حصہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے اور مذہب کا قانون دنیا کے ہر قانون سے اوپر ہے۔
سمون نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی—کیونکہ برابری اور نابرابری جیسے معاملوں کے درمیان بار بار مذہب کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ ایم جی لیوس کا مشہور ناول ’دی میک…‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول کو لے کر نا اتفاقی کی فضا پیدا ہو گئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا___ مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی___ سچ تو یہی ہے، جیسا کہ سیمون دبوار نے کہا تھا___ ’’عورتیں پیدا نہیں ہوتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ ہر بار نئے مردانہ سماج میں نئے نئے طریقے سے ’ایجاد‘ کی جاتی رہی ہے۔‘‘
اب حجاب امتیاز علی کی ایک کہانی کی مثال لو 1936میں تحریر کی گئی۔ کیا عورت قوم سے خارج ہے؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعت کا نام ہے؟
’’اﷲ، کیا مشرق میں لڑکی صرف اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر دی جائے؟ کیا اُسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں دخل دینے کا اختیار نہیں ؟ کدھر ہے وہ ریفارمر، جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بہبودیِ قوم کا ترانہ بڑے زور شور سے گاتے ہیں ؟ اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں ؟ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، انہوں نے اپنی ماؤں کے لئے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لئے کیا کیا؟ اگر اُن کے احساس صرف مردوں کے دکھ درد تک ہی محدود ہیں، تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں ؟ پھر وہ کیوں اس نام سے جوڑے جاتے ہیں ؟ کیا وہ عورت کو قوم سے ’خارج‘ سمجھتے ہیں ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعتوں کا نام ہے۔‘‘___بیمار غم
ایک مثال کشور ناہید کی بھی ہے، جسے کہنا پڑا۔ ’پاکستان نے اپنے وجود کو عورت کے وجود کی طرح تقسیم ہوتے دیکھا۔ شکار ہمیشہ عورتیں رہیں۔‘
سیمیں کرن۔ تہمینہ درانی نے بھی اپنے ناول میں اسی آزادی کی بات کی تھی۔ میں نے اسی لیے آپ سے پوچھا کہ جو ناول آپ نے تخلیق کیا ہے، وہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔
مشرف عالم ذوقی:۔ تم نے صحیح کہا۔ دراصل نئے اسلامی معاشرے میں نوکر شاہی اور سیاست کا جو گھنونا کھیل شروع ہوا تھا، وہاں ’حاکم‘ صرف اور صرف مرد تھا۔ عورت نئی اسلامی جمہوریت میں، مذہب کا سہارا لے کر پاؤں کی جوتی بنا دی گئی تھی، درد بھرے انجام کو پہنچی عورتوں کی اسی کہانی کو لے کر تہمینہ درّانی نے اپنی آپ بیتی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست کے اہم ستون مصطفیٰ کھر نے سیاست اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے کہ آج کے مہذب سماج کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہمینہ کی آپ بیتی ’میرے آقا‘ نے پاکستان کے سیاسی ادبی حلقے میں ہنگامہ کھرا کر دیا۔ یہ عورت کے ظلم وستم کی داستاں تو تھی ہی۔ لیکن عورت اب بھی اپنے وجود کے لئے مرد کو نیچا دکھانے پر اتر آئی تھی۔ اب تہمینہ کے ناول مائی لارڈ سے ایک مثال دیکھو۔
’’میرے ابا جان، بھائی اور کچھ نزدیکی رشتہ داروں کے سوا مرد لوگ میرے لئے پرائے تھے اور شروعاتی لمحوں سے ہی مجھے مردوں سے دور رہنا سکھایا گیا تھا۔ میرے بچپن میں ایسی ہدایتوں کی فہرست بہت لمبی تھی کہ مجھے کیا کیا نہیں کرنا ہے اور اِن سب کا ہی مقصد میرے اور مردوں کی دنیا کے درمیان ایک غیر تجاوز دوری بنائے رکھنا تھا۔ جیسے کریم پاؤڈر یا نیل پالش کا استعمال مت کرو۔ لڑکوں کی طرف مت دیکھو، نئے زمانے کی سہیلیاں مت بناؤ اور ایسی کسی بھی لڑکی سے دوستی مت کرو، جس کا کوئی بڑا بھائی ہے۔ بغیر اجازت کسی دوست کے گھر مت جاؤ۔ کبھی فون مت اُٹھاؤ۔ ڈرائیور کے ساتھ کبھی اکیلی باہر مت جاؤ۔ نوکروں کے ساتھ کبھی باورچی خانہ میں کھڑی مت رہو۔‘‘
یہ کہانی کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آخر وہ کیسا نظام ہے، جہاں پیدائش کے بعد سے ہی ظلم و جبر سہتی ایک مسلمان عورت کبھی اپنی آزادی اور کبھی مذہب کے خوف سے گھبرا کرباغی بن جاتی ہے—
’جب ماں نے مصالحہ پیسنے کو کہا، تو میں نے گلی میں نکل کر اپنے ہم عمروں سے پوچھا—کیا یہ میری سگی ماں ہے؟ مجھے مرچیں پیسنے کو دیتی ہیں اور میری انگلیوں میں مرچ لگ جاتی ہے۔ آگے بڑھوں تو سات سال کی عمر… اب مجھے برقعہ پہنا دیا گیا۔ میں گر گر پڑتی تھی، مگر مسلمان گھرانوں کا رواج تھا— 13سال کی عمر کی ہوئی تب سارے رشتے کے بھائیوں سے ملنا بند۔ 15سال کی عمر کالج میں داخلے کے لئے بھوک ہڑتال۔ 19سال کی عمر یونیورسٹی میں داخلے کے لئے واویلا۔ 20سال کی عمر، شادی خود کرنے پر اصرار— 20سال کی عمر کیا آئی، شادی کیا ہوئی، سوچ میرا پہریدار ہو گیا۔‘
مجھے معاف کرنا سیمیں، یہی وہ عوامل تھے، جس نے مجھے نالۂ شب گیر لکھنے پر مجبور کیا۔ کشور ناہید سے تہمینہ درانی تک، غور کرو تو ایک سہمی ہوئی عورت ہے اور جابر مرد ہاتھوں میں ہنٹر لیے کھڑا ہے۔ آخر ایسا کب تک ہو گا؟ صدیوں سے آج تک اس مہذب سماج میں یہی کہانی دہرائی جاتی رہی ہے۔ ممکن ہے یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہو، ممکن ہے یہ تخیل ہو، مگر اب بہت ہو چکا۔ وہ عظیم عورت پیدا ہو چکی ہے۔ یا پیدا ہو رہی ہے۔ یا اسے پیدا ہونا ہی پڑے گا۔ مردوں کے لیے یہ خوفزدہ کرنے والی خبر ہے کہ صدیوں کے ظلم کے بعد اب ناہیدوں، نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔
سیمیں کرن: مردانہ طاقت جس کے ساتھ ایک دنیا، ایک معاشرہ، فطرت، مذہب سب کچھ شامل ہے، آخر کون سا ایسا محرک ہے کہ مردانہ انا پر پاؤں رکھ کر آپ نے عورت کو اتنا طاقتور بنا دیا۔ ؟
مشرف عالم ذوقی: مردانہ انا پہ پاؤں نے تمہارے اس سوال کو پہلے سوال سے الگ کر دیا ہے۔ میں مصنف بعد میں ہوں۔ پہلے ایک مرد ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ اکیلا مرد سماج اور معاشرے کے لیے بیکار ہے۔ اسے جنم دینے والی بھی ایک عورت ہے۔ جو ماں کہلاتی ہے۔ اور یہ عظیم درجہ ہے، جو ماں کو دیا گیا۔ ایک وہ بھی عورت ہے، جو اس کی زندگی میں نصف بہتر کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ اور زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نسل کو آگے بڑھاتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ صدیوں کے سفر میں مرد نے عورت سے وابستہ رشتوں کی عظمت سے بھی انکار کیا اور ایک ایسی انا پر اپنی سفاک سلطنت کی بنیاد ڈالی جہاں عورت، ماں، بہن بیٹی ہوتے ہوئے بھی محکوم تھی— کیا مرد خوفزدہ تھا؟ مرد زندگی کے کچھ ہی مقام پر بڑا یا مضبوط تھا، فطرت نے عورت کو زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔ وہ مرد کی دیکھ بھال، ایک گھر کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش میں بھی وقت دیتی تھی۔ دراصل اس نظام میں مرد نے ازل سے ہی عورت کی عظمت اور طاقت کو محسوس کر لیا تھا۔ اور اسی لیے فطرتاً معصوم، بے زبان اور جسم سے کمزور عورت پر اپنی مردانہ انا کا پاؤں رکھ کر اس نے یہ انداز اختیار کیا کہ عورت کبھی اٹھنے یا بلند ہونے کا تصور ہی نہ کرے۔ اور دیکھا جائے تو صدیوں میں یہی ہوتا رہا۔
ورجینا وُلف کی ایک کتاب تھی___ ’اے روم آف ونس آن‘۔ اُن سے جب عورت اور اصناف ادب پر بولنے کے لئے کہا گیا تو وہ ایسی کھری سچائیوں تک پہنچی، جہاں پہنچنا آسان نہیں تھا۔ ورجینیا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’میں عورتوں کی پوری اور مکمل آزادی کو پسند کرتی ہوں۔‘‘ لیکن ورجینیا کو بھی پتہ تھا کہ اس، مردوں کے سماج میں عورتوں کی کیا جگہ ہے؟ شاید اسی لئے اس نے سخت الفاظ میں اپنے وقت کے سماج کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہا—’’اب مجھے تھوڑا سخت لہجہ اپنانے دیجئے۔ کیا میں نے پیچھے لکھے الفاظ میں مردوں کے چیلنج کو آپ تک پہنچایا نہیں ؟ میں نے آپ کو بتایا کہ ’مسٹر آسکربراؤننگ‘ آپ کے بارے میں بہت ہلکی رائے رکھتے ہیں۔ میں نے اشارہ کیا تھا کہ کبھی نیپولین نے آپ کے بارے میں کیا سوچا تھا اور ابھی موسولنی کیا سوچتا ہے؟ اگر آپ میں سے کوئی افسانہ یا ادب لکھنا چاہے تو آپ کے فائدے کے لئے میں ایک ناقد کی صلاح اُتارلائی ہوں جو عورتوں کی تنقید حوصلہ منظور کرتے ہیں۔ میں نے پروفیسر ایمنس کا نام لیا ہے اور اُن کے اِس بیان کو اولیت دی ہے کہ عورتیں شعوری، اخلاقی اور جسمانی طور پر مردوں سے کمزور ہیں اور اب یہ آخری چیلنج کے ساتھ ہے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس کی طرف سے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس عورتوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ ’جب بچوں کا ’چاہنا‘ پوری طرح ختم ہو جائے گا تو عورتوں کی ضرورت بھی پوری طرح ختم ہو جائے گی۔
سمون دَبوبوآر نے ’دی سکنڈ سیکس‘ میں لکھا تھا—ایمانداری وہ نہیں ہے، جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ ’المیہ یہی ہے۔ اگر آپ حقیقت میں ایمانداری کا بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ پر تہمت اور لگام لگانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ شاید اِسی لئے ’بوبوآر‘ اس سچ کو اور بھی خطرناک طریقے سے کہنے کی کوشش کرتی ہیں … ’ایک مرد کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ’عورت‘ ایک طرح کی ذلت کی علامت ہے۔ دوسری طرف اپنے بارے میں یہ سن کر فخر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ تو مرد ہے… علم حیات کی سطح پر اس بات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ سوال یہ جاننے کا ہے کہ انسانی تہذیب نے ’انسان مادہ‘ کا کیا حال کر دیا ہے۔‘‘
سیمیں، مجھے اسی انسان ہونے سے شکایت تھی کہ اس نے انسان (مادہ) کا کیا حشر کر دیا ہے۔ اور اس کے لیے اس مردانہ انا کو کچلنا ضروری تھا، جس نے صدہا ہزار برسوں میں عورت کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایک مہذب دنیا میں، چاند سے مریخ تک کا سفر طئے کرتے ہوئے، نئی نئی دنیاؤں پر کمند ڈالتے ہوئے میں عورت کو، مرد کے کھلونے کے طور پر برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے مجھے ایک ایسے موضوع کی ضرورت تھی جہاں میں اس مرد کی تمام کمزوریوں کو بے نقاب کرسکوں، جس کے دم پر اس نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی ہے۔ ناہید نے قریب سے اس مرد کو دیکھا تو وہ ایک چوہا نظر آیا۔ معمولی گوشت کی جھلی، جس کے سہارے مرد اپنے وجود کی عمارت کو مضبوط اور پختہ تصور کرتا ہے۔ مگر ناہید کے لیے عورت ایک ایسی بلی کی علامت ہے، جو ارادہ کرے تو اس چوہے کا کام تمام کرسکتی ہے۔ مگر نہیں۔ وہ اس چوہے کا راز جان کر اس کو آزاد کرتی ہے۔ اور اپنے لیے بھی آزادی کی روش اختیار کرتی ہے۔
سیمیں کرن۔ عظیم انسان کو ایک عظیم عورت کے روپ میں دکھانا میرے محدود علم کے مطابق تو اک انوکھا تجربہ تھا۔ مگر کیا یہ عورت تخلیق کرتے کرتے کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ بہت جگہ آپ کی لڑائی فطرت سے ہے؟ یعنی کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ قابل عمل ہے؟
مشرف عالم ذوقی: میں فطرت کے خلاف گیا ہی نہیں۔ میری جنگ فطرت سے ہے نہیں۔ مرد عورت دونوں اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ آدم کو بھیجا گیا تو پسلی سے حوا بھی پیدا کی گئی۔ اور سیمیں، حقیقت یہ ہے کہ میں نے کسی عظیم عورت کی تخلیق نہیں کی۔ یہ وہی عام عورت ہے، جیسا کہ عام مرد۔ یہ عورت میری بیوی بھی ہوسکتی ہے۔ اور تم بھی۔ یہ مرد تھا جس نے اپنی سفاک آزادی میں اعلان کیا کہ خدا نے فطرتاً عورت کو کمزور پیدا کیا ہے۔ پھر مرد نے مذہب کا سہارا لیا۔ مذہب سے دلیلیں پیدا کیں کہ عورت کمتر ہے۔ عورت کے لیے گھٹن بھرے سامان پیدا کیے گئے۔ اسے داسی بنایا گیا۔ اس نے آزادی کی خواہش کی تو اسی مردانہ سماج اور معاشرے نے اسے برے ناموں سے یاد کیا۔
دراصل یہ بھی مرد کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ عورت کو معاشرہ اور مذہب کا ایسا خوف دکھاؤ کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی آزادی کا کوئی تصور بھی نہ کرسکے۔ میری جنگ فطرت سے نہیں، مردانہ فطرت سے ضرور ہے۔ غور کریں تو آج عورت اپنی شناخت کی جنگ لڑتی ہوئی نظر آئے گی۔
سیمیں کرن:اور اگر عورتیں اس نہج پر تیار ہونا شروع ہو جائیں تو کیا معاشرتی اور عائلی زندگی منہدم نہیں ہو جائے گی۔
مشرف عالم ذوقی:کیا معاشرتی زندگی میں توازن ہے؟ کیا مردوں نے اس زندگی کو منہدم نہیں کیا؟ تاریخ کے صفحات آتشیں پر نظر دوڑاؤ تو عورت کس کس عذاب سے دوچار نہیں ہوئی۔ وہ فروخت کی جاتی تھی۔ وہ داسی تھی۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا جسم بھی اس کا جسم نہیں تھا۔ اس کا گھر بھی اس کے لیے محفوظ قیام گاہ نہیں تھا۔ اس کی بولی لگتی تھی۔ وہ سرعام نیلام ہوتی تھی۔ اور آج بھی ایک مہذب دنیا میں وہ نیلام ہی تو ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی وہ بندش کا شکار ہے۔ گھر کی چہار دیواری میں قید۔ ہندوستان میں اس کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ سرعام سڑکوں پر خونی منقار والے گدھ اس کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ اور آئے دن وہ زنا بالجبر کی شکار ہوتی رہتی ہے۔ مہذب دنیا کی کتاب میں شرمندہ کرنے والے یہ صفحے بھی موجود ہیں کہ ایک لڑکی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ وہ دفتر میں محفوظ نہیں۔ سڑکوں پر محفوظ نہیں۔ کیا تم اسی کو زندہ معاشرے کا نام دیتی ہو؟ ہاں یہ صحیح ہے کہ صدیوں کے جبر و ظلم کے بعد، تعلیم یافتہ ہونے کے بعد عورت اپنے لیے بھی ترقی کے نئے نئے راستوں پر نظر دوڑا رہی ہے۔ آج وہ حکومت چلا سکتی ہے۔ عورت بہترین پائلٹ ہے۔ وہ ہوائی جہاز اڑا سکتی ہے۔ وہ کشتی لڑ سکتی ہے۔ وہ سرکاری محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر ہے۔ صدیوں پہلے مرد نے اس کی آواز چھین لی تھی۔ آج کی نئی تہذیب میں اس نے بولنا سیکھ لیا ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے عورتوں کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔ سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے— یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک ردّ کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبر و ظلم کے بعد آج/ اگر عورت کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے تو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت اب مرد اور مرد کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے—اور اب آپ اُسے روک نہیں سکتے۔
سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اُسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا— عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں — کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ کو لے کر لکھی تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ— ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ میں رقیہ سخاوت حسین کی اس کہانی کا دلدادہ تھا اور بچپن سے کسی بھی روتی گاتی مجبور وبے بس عورت کو دیکھ پانا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا—میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کرسکا۔ بادشاہوں یا راجے مہاراجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اُسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کرسکیں —کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔ خواہ انہو ں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو میں لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کرسکتا تھا— ایسا نہیں ہے کہ نالۂ شب گیر لکھ کر میں ان لوگوں کی مخالفت کر رہا ہوں جو عورت کی حمایت میں صفحے در صفحے سیاہ کرتے رہے ہوں۔
اس مہذب دنیا میں جب مرد، عورت کہتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ فطرت کے قانون کو توڑ کر عورت دھجیاں بکھیر رہا ہو۔ اسے کمتر گردان رہا ہے۔ معاشرے میں توازن کے لیے ضروری ہے کہ ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں۔ اور میں نے اس ناول میں یہی کیا ہے۔ یہ ایک قرض تھا مجھ پر اور میں نے اس قرض کی ادائیگی کی کوشش کی ہے۔ میری ماں بھی ایک عورت تھی۔ میری بیوی بھی ایک عورت ہے۔ میں نے ان دونوں کو مضبوط دیکھا ہے۔ عورت کی مضبوطی اور آزادی سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑے گی۔
سیمیں کرن:آپ مرض کو پکڑتے پکڑتے اس کی جڑ تک چلے گئے… یہ بات مکمل تو تھی مگر آدھی درست ضرور ہے کہ مرد کو آدھی قوت ان الفاظ نے دے رکھی ہے… مگر کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ رویے بھلے موجود تھے اور لفظ تو صرف ان کا اظہار بن کر آئے۔ ؟ اس ناول میں بیک وقت آپ الفاظ کی طاقت کا ادراک بھی کر رہے ہیں۔ لفظ جو اپنے وجود میں حیرت انگیز قوت رکھتے ہیں … صوفی ان الفاظ کی قوت سے آگاہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی قوت الکیمسٹ میں ہمیں مظاہر فطرت تک کو تابع کرنا سکھاتی ہیں۔ اور دوسری طرف اب لاشعوری سطح پر یہ انہیں بے جان سمجھتے ہیں کہ محض ان کو بدل دینے سے رویے بدلاؤ میں آئیں گے؟ آپ اس امر کی وضاحت کیجئے؟
مشرف عالم ذوقی: ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے صرف مرض کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی جڑ تک جانا ضروری سمجھا۔ اور اس لیے مرد کا نفسیاتی تجزیہ ضرور تھا۔ وہ کہاں مضبوط ہے اور کہاں کمزور۔ الفاظ میں طاقت ہے۔ بائبل میں کہا گیا، جب کچھ نہیں تھا، تب بھی لفظ تھے— لفظوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسی لیے ناول میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب ناہید لغات کے الفاظ کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ تمام کمزور الفاظ عورتوں سے منسوب ہیں۔ فاحشہ، رنڈی، کلنکی، بے غیرت… وہ ان خوفناک لفظوں میں اپنا ماضی دیکھتی ہے۔ اپنی ماں کو یاد کرتی ہے۔ ایک اجڑی اجڑی حویلی یاد آتی ہے جہاں عورتوں کے منہ میں زبان ہی نہیں تھی۔ وہ اس حویلی کو چھوڑ آئی تھی۔ اس حویلی میں، اس نے مردوں کے ایسے ایسے روپ دیکھے تھے کہ اسے مردوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ لیکن ناہید نے یہ بھی دیکھا کہ آخری عمر میں ماں کی ایک چیخ پر اس کا ظالم باپ ایک کمزور مرد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پہلی بار ناہید کی ماں بھی محسوس کرتی ہے کہ اگر شروع میں ہی یہ چیخ اس کا ساتھ دے دیتی تو آج یہ دور نہیں آتا— تم نے صحیح کہا کہ مرد کو آدھی قوت الفاظ نے دے رکھی ہے۔ الفاظ کی اہمیت کو جاننا ہو تو جارج آرویل کا ناول 1948 پڑھ لو۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ہندی میں ترجمہ کیا ہوا۔ ایک خوفناک ناول پڑھا تھا۔ لیسبن کی گھیرا بندی۔ وہاں لفظ ایک ذرا سی پروف کی غلطی کے ساتھ اس قدر خطرناک اور بھیانک ہو جاتا ہے کہ پوری انسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ناول نگار انسانی عمارت سے لفظ کی ایک چھوٹی سی اینٹ کھسکا دیتا ہے اور ایک ایسا نفسیاتی نکتہ سامنے آتا ہے جو مذہب کے عام اصولوں سے انکار کا حوصلہ رکھتا ہے۔
اسی لیے سیمیں، میں نے لفظوں کی اہمیت کو سامنے رکھا۔ ناہید لفظوں سے جنگ کرتی ہے۔ اور تم نے صحیح کہا کہ یہ رویے پہلے سے ہمارے سماج میں موجود تھے۔ مگر عورت سے اس کی چیخ، اس کے لفظ اس کی زبان چھن لی گئی تھی۔ اس پر مذہب، عقیدے، سماج اور معاشرے کا ایسا بوجھ رکھ دیا گیا تھا کہ اس کی آزادی مصلوب ہو گئی تھی۔ اور یہی تو صدیوں سے ہوتا رہا۔ اور آج بھی ہو رہا ہے۔ لیکن اسی سماج اور معاشرے میں، جس نے سن ۲۰۰۰ کے بعد ایک نئی کروٹ لی ہے، وہیں عورت کو اس کے ہونے کا احساس بھی دلا دیا ہے۔ تم نے صحیح کہا ہے کہ اس ناول میں، میں نے الفاظ کی طاقت کو بیان کیا ہے۔ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ لاشعوری سطح پر میں نے ان الفاظ کو بے جان تصور کیا—؟ اگر بے جان تصور کرتا تو ناہید معاشرے سے جنگ لڑتی ہوئی الفاظ کو بدلنے پر آمادہ ہی کب ہوتی۔ وہ مردانہ سماج کی تمام برائیوں کی ایک جڑ ان الفاظ کے ذخیرے میں بھی محسوس کر رہی تھی کہ یہ الفاظ بھی مردوں کی ہی دین تھے۔ لغات بھی مرد ہی تیار کرتے تھے۔ ناہید نے الفاظ بدلے تو اس رویہ کی مکمل تبدیلی تم ناول میں ہی دیکھ سکتی ہو۔ جب پبلشر ناہید اور کمال کو دفتر میں بلاتا ہے۔ اور اس کے اندر کا کمزور مرد زندہ ہو جاتا ہے۔
’شکریہ۔ میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جیسا کہ آپ نے لغات میں تبدیلی کے دوران محسوس کیا ہو گا۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو دوچند لوگ ہی کیوں محسوس کریں ؟ میں پچھلے دنوں جان گرے کی ایک کتاب ’مین آر فرام مارس اینڈ ویمن آر فرام وینس‘ پڑھ رہا تھا۔ سیکسوئیلیٹی کو ہی لیجئے۔ عورت زیادہ سخت ہو گئی ہے۔ بیڈ روم کا مرد ہار رہا ہے۔ باب ڈلن کا ایک گیت یاد آ رہا ہے… کیا تم کھانا پکا سکتے ہو، بیج بو سکتے ہو؟ پھول کھلا سکتے ہو… کیا تم میرے درد کو محسوس کرسکتے ہو—؟ اور نیا مرد کہتا ہے— ہاں … یہ نیا مرد آج شیف ہے۔ سب سے اچھا کھانا بناتا ہے۔ مساج پارلر میں آج اس کی ڈیمانڈ عورتوں سے زیادہ ہے۔ وہ جم جا کر باڈی بھی بنارہا ہے اورجسم میں لچک بھی پیدا کرہا ہے۔ وہ کانوں میں چھلے پہنتا ہے— وہ مونچھ اور داڑھی کٹا رہا ہے۔ اسے چکنا نظر آنا زیادہ پسند ہے۔ وہ نیا ما چومین ہے… وہ کچن بھی سنبھال رہا ہے اور گھر بھی— نرمل اساس کا لہجہ بدلا ہوا تھا… یہ نیا مرد وجود میں آ چکا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ ایک لچر سماج میں، ایک ختم ہوتی تہذیب میں، ایک کمزور ہوتی جمہوریت میں اور اس آئی ٹی انڈسٹری میں ہم نے نئی عورت اور نئے مرد کو تلاش کر لیا ہے۔ یہ ہماری ٹنڈ منڈ اور مغرب سے برآمد تہذیب، ملی جلی اکانومی اور پزا برگر کے ذائقہ سے برآمد ہوا ہے اور حقیقت ہے کہ اس وقت سب بدل چکا ہے… آئینہ کے سامنے لپسٹک لگاتا ہوا مرد اور فائیلوں میں گھری عورت— نرمل اساس آہستہ سے بولے— خوفناک…
کیا… ناہید چونک کر بولی…
’اور اب میری سمجھ میں آیا کہ ان سب کے پیچھے کون ہے—؟ مائی گاڈ… سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے تھا اور ہم کتنے بے خبر تھے۔
’ان سب کے پیچھے کون ہے؟‘ ناہید کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔
’عورت۔‘
نرمل اساس کا لہجہ اس وقت برف کی طرح سرد تھا—’ عورت، جس نے آئی ٹی انڈسٹری سے سائبرا سپیس تک قبضہ کر لیا۔ اور انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا۔ یعنی عورت…‘
بطور ناول نگار میرے لیے ان واقعات سے سرسری گزرنا آسان نہیں تھا— کیونکہ نئی صدی کی شروعات سے ہی ان تبدیلیوں کا بہت کچھ، اشارہ ملنے لگا تھا— اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نئی، تیز رفتار بدلتی ہوئی دنیا اگر نئی عورت کو ڈسکورکر رہی تھی تو یہاں نیا مرد بھی پیدا ہو رہا تھا— اور یہ حقیقت ہے کہ یہ نیا مرد اور یہ نئی عورت سائبر سے آئی ٹی انڈسٹری اور تمام گلیمر ورلڈ تک پھیل گئی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انڈسٹری کی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ تھی— فیس بک سے ٹوئٹر تک پرانے الفاظ غائب ہوتے چلے گئے تھے اور ان کی جگہ نئے الفاظ لے رہے تھے۔ ٹوئٹ کرنے والوں اور فیس بک کا استعمال کرنے والوں کے لیے لفظ و معنی کی اپنی دنیا آباد تھی اور ان میں بے شمار الفاظ ایسے تھے، جو لغات یا ڈکشنری میں نہیں تھے— اور یہ نسل اس نئی سوشل نیٹ ورکنگ کے سہارے رشتے، معیار اور زندگی کا اپنا راستہ تلاش کر رہی تھی یا ان کی نئی تعریفیں ڈھونڈھنے میں لگی تھی— کرن جوہر، راہل ملہوترہ جیسے ہزاروں نام جس نے ماچومین کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ کیا مرد کو اس نئی تہذیب میں لانے والی عورت ہے— ؟مرد سیلون جاتے ہیں — فیشئل اور پیڈیکیور کراتے ہیں — وہ اچھا نظر آنا چاہتے ہیں اورجیساکہ ایک سائیکوتھریپسٹ نے کہا تھا—’ ہندوستانی مردوں میں عورتوں کی صفات دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں —‘ لیکن ہوتی ہر جگہ ہے— ہر ملک میں —اور اس لیے مرد کے تصور میں ایک نئی عورت سامنے آ گئی تھی—
سامرسیٹ مام نے ایک جگہ لکھا تھا، لفظوں نے ندی کے بہاؤ کی طرح اپنا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ یہ وقت پرانے لفظوں کے زوال کا ہے۔ نئے لفظ نئی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہوں گے— سیمیں، دراصل ہم تہذیب کے اس پڑاؤ پر ہیں جہاں ایک تیز آندھی ہے۔ پرانے درخت گریں گے اور پرانی تہذیبی عمارت بھی مسمار ہو گی۔ عورت کا جاگنا ایک علامت ہے۔ ایک نئی تہذیب اس ’جاگی ہوئی عورت‘ کے سہارے ہمارے معاشرے میں داخل ہو رہی ہے۔ ابھی سناٹا ہے۔ لیکن یقین رکھو، انقلاب کی رفتار سست ضرور ہے لیکن انقلاب میں تاریخ کو بدلنے کی ہمت ہوتی ہے۔
سیمیں کرن: شکریہ ذوقی صاحب …میں سمجھتی ہوں کہ لاشعوری طور پہ لفظوں کو بے جان اس لیے متصور کیا کہ ہم ان کو کوئی بھی مفہوم دینے پر قادر ہیں … مگر لفظوں کے ان معنی و مفہوم کے پیچھے ایک طویل سفر ہے… جب کچھ نہیں تھا، تب بھی خلا میں ان لفظوں کا سفر جاری تھا۔ آپ نے ان لفظوں سے نالۂ شب گیر میں بڑا کام لیا۔ مرد ذات کے ساتھ عورت کی نفسیات تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بلا شبہ کسی بھی بڑے ناول کی کامیابی چھپی ہوتی ہے کہ وہ صحت مند سوالوں کو جنم دے۔ مکالمے کو جنم دے… بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں جن ممنوعہ سرحدوں کو چھوا وہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ عورت کے اس منصب پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ ہم لفظوں کی بدرو کی صفائی کرنا شروع کریں تو رویوں کی علامت بھی صاف ہونی شروع ہو جائے گی۔ آپ کا ایک بار پھر شکریہ۔
٭٭٭
بہت خوب۔۔۔میرا بھی شروع سے یہی ماننا تھا کہ عورت مادرِکائنات ہے جسے مرد نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا۔۔۔پھر جب عورت جاگی تو اس نے ایک نیا شعور دیا۔۔۔تاہم اس کی مؤچر وکالت کا فریضہ بھی مرد ہی نے اٹھایا جیسے یہ مذکورہ ناول یا زینی جارچوی کی کتاب مادرِ کائنات۔۔۔یوں جانے کی اب مرد عورت کے پیکر میں ڈھل رہا ہے،،،جب کہ عورت نسوانیت سے جان چھڑا کر مردوں سی دبنگ ہورہی ہے۔۔۔لیکن میرا اپنا مؤقف یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لازمی ضرورت ہیں۔۔۔یہ نفرت کی حد تک الگ ہوجائیں!نیک شگون قطعاً نہیں