گمان و وہم نہیں ہیں ، مرا یقیں ہیں اب
مرے قدم ، مرے احساس کی زمیں ہیں اب
میں جام اُٹھا کے یہی سو چتا رہا اکثر
نشہ بھی لے گئے وہ لوگ جو نہیں ہیں اب
کبھی جو ساتھ تھے میرے ، مری رگِ جاں تھے
دلوں کو چھوڑ کے محلوں میں جاگزیں ہیں اب
ہمیں نہ پا سکا آسیبِ ظلمتِ دوراں
ہر ایک خالی مکاں میں ہمیں مکیں ہیں اب
کچھ ایسی چرب زبانی سے جہل چھُپتا ہے
یہ لوگ اپنے لیے مارِ آستیں ہیں اب
فرید و نشو و پپن کے ساتھ ہے عمران
پتا تو دے گئے ہوتے ، جہاں کہیں ہیں اب
چلو متینؔ وہیں جا کے پھر انھیں ڈھونڈھیں
وہ صورتیں جو زمین بن کے دل نشیں ہیں اب
٭٭٭
وہ شخص کیا ہوا وہ اُس کا گھر کہاں ہو گا
اب اس دیار میں ، مجھ سے بسر کہاں ہو گا
میں جس کے سائے میں جا بیٹھتا تھا دن دن بھر
کوئی بتائے کہ اب وہ شجر کہاں ہو گا
نظر جھُکا کے چرا لے گیا جو ہوش و خرد
پھر اس کا سامنا اب عمر بھر کہاں ہو گا
ورق ورق ہیں کتابوں کے سینے شق پھر بھی
اس انتشار میں عرض ہنر کہاں ہو گا
چراغِ راہ وہی ہے ، گلی کا موڑ وہی
وہ میرا یار، وہ آشفتہ سر کہاں ہو گا
مٹی مٹی تری تحریر چوم لیتا ہوں
ان آنسوؤں کا مقدر مگر کہاں ہو گا
سفید خون میں سُرخی ملا کے جی لیں گے
علاج اس کے سوا چارہ گر کہاں ہو گا
یہ کیسی بے گھری اب ساتھ ہو گئی میرے
وہ کھڑکیاں کہاں ہوں گی وہ در کہاں ہو گا
عروجِ فن پہ کمندِ زیاں جو پھینک سکے
ہمارے ایسا بھی صاحب نظر کہاں ہو گا
متین بے سر و سامانیاں ہی ساتھ رکھو
شعورِ عجز ہنر در بدر کہاں ہو گا
٭٭٭
________________________________________________
ایک بھیگی غزل مغنی تبسم کے نام
________________________________________________
بہت رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا آخر
جو یادوں کے جھروکوں کو بھی شاید دھو گیا آخر
نہ ماتم ہے ، نہ سناٹا عجب سرگوشیاں سی ہیں
مری چوکھٹ پہ سر رکھ کر وہ لڑکا سو گیا آخر
میں خود اشکوں کے دریاؤں کی پہنائی کا حاصل تھا
مگر وہ ایک قطرہ بارِ ہستی دھو گیا آخر
مجھے بھیگی ہوئی آنکھوں میں رہنے کا سلیقہ ہے
میں گیلے کاغذوں میں لفظ سارے بو گیا آخر
وہ رستہ جو تری تربت سے ہو کر مجھ تلک آیا
وہ رستہ وقت کی پہنائیوں میں کھو گیا آخر
متین اقبال آنکھیں پونچھ لو، تکیہ چھپا رکھو
وہ دیکھو اپنے آنگن میں سویرا ہو گیا آخر
٭٭٭