انٹر نیٹ فورم گزرگاہِ خیال میں محسن نقوی کا پوسٹ کیا ہوا مضمون، اور اس پر رد عمل اور محسن نقوی کے جوابات
______________________________________________________________
فی زمانہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس پر اور دوسری زبانوں کا اثر نہ پایا جاتا ہو۔ رہی ہماری زبان ِ اردو تو وہ تو بنی ہی ہے زبانوں کے امتزاج سے۔
اردو اصلاً برِّ صغیر کی زبان ہے۔ اس کی جڑیں سنسکرت سے ہوتی ہوئی ازمنہ قدیم کی اُس اُمُّ اللسان سے جا ملتی ہیں جو روسی علاقہ کی وادیِ یورَل اور قازقستان،ابقازیہ اور اوسیشیا کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ ماہرین علمِ لسانیات نے اس اُمُّ اللسان کو پروٹو اِنڈو یوروپین کا نام دیا ہے۔ اس کا مخففPIE ہے اور یہی عام طور سے مستعمل ہے۔
دوسری طرف وہ ہزار برس کا عرصہ جس میں برِّ صغیر پر مختلف مسلمان قبیلوں کا اثر و نفوذ رہا اس دوران میں اردو زبان پر عربی ،فارسی اور تُرکی زبانوں کا بھی اثر ہوا۔ فارسی اور ترکی کا اثر تو یوں رہا کہ سنسکرت اور فارسی کے شجرے دوچار صدیاں اوپر جا کر مل جاتے ہیں ۔ عربی کا اثر یوں ہوا کہ اردو کی ابتدائی بول چال کو برِّ صغیر میں عام کرنے والے مسلمان رہے۔ لیکن بعد میں ہندوستان کے عوام کے ہر طبقہ میں یہ زبان عام ہو گئی۔ کُچھ پر جوش لکھنے والے تو یہاں تک پہونچ گئے کہ وہ آج اردو کو مشرف بہ اسلام کر کے خالصۃً مسلمانو ں کی کیا بلکہ ایک اسلامی زبان قرار دے دینا چاہتے ہیں ۔ ہم بار بار ایسے اہل علم لوگوں سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ بھائیو اور بہنو: مذہب انسانوں کا ہوتا ہے،زبانوں کا نہیں ۔ زبان کا مقام تو ایک ماں کا جیسا ہے۔ ماں کی گود اپنے ہر بچے کے لئے ہمیشہ وا رہتی ہے۔ جس نے زبان کو اپنا لیا، زبان اسی کی ہو گئی۔ اورجیسے کہ کسی کثیر الاولاد ماں کا کوئی ایک بچہ ماں کی مامتا پر بلا شرکتِ غیرے قبضہ نہیں کر سکتا اُسی طرح سے کوئی ایک ملک، انسانوں کا گروہ، یا کوئی ایک قوم یا قبیلہ، کسی زبان کو زبردستی اپنی کہہ کر دنیا کے باقی لوگوں کو اس زبان کی قبولیت سے بے دخل نہیں کر سکتا۔ اور کسی بھی زبان کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ ہر قوم اور قبیلہ اور ہر علاقے کے لوگ وہ زبان بولتے ہوں اور اس کو اپنی زبان سمجھ کر بولتے ہوں ۔
خیر بہر حال، اس مختصر تمہید کے بعد ہم یہاں یہ موضوع لے کر چل رہے ہیں کہ ہماری زبان ہر اور دوسری زبانوں کا اثر کہاں کہاں اورکس حد تک ہے۔ اب اس مضمون کی شہ سُرخی ہو کو ملاحظہ فرمائیے۔ محاورہ اور ضرب المثل، یہ دونوں اصطلاحیں عربی کی ہیں ۔ عربی کا مادّہ ہے: ح۔و۔ر۔ اس مادہ سے بہت سے الفاظ بنتے ہیں ۔ چند کا بیان ہم یہاں کرتے ہیں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں ۔ (۱)تحویر کے معنیٰ ہیں کسی چیز کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونا۔(۲) محور اُس کیل کو کہتے ہیں جو چکّی کے نیچے والے پاٹ کے بیچ گڑی ہوتی ہے اور اوپر والا پاٹ اُسی کے گِرد گھومتا ہے۔(۳) حِوار ، ح پر زیر کےساتھ، کے معنیٰ ہیں کسی مسئلہ پر بحث، مکالمہ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اصطلاح کسی ڈرامہ کی اسکرپٹ یا منظر نامہ کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔(۴) محاورہ،م پر پیش کے ساتھ، کے معنیٰ ہیں بات چیت، بول چال اور گفتگو۔
خصوصیت سے یہ چار الفاظ جو کہ مجرّد سے اضافوں کے ساتھ بنے ہیں ، یہاں ان کا انتخاب ہم نے اس لئے کیا ہے کہ لفظِ محاورہ جیسے کہ اردو زبان میں مستعمل ہے اس میں یہ چاروں معنیٰ سموئے ہوئے ہیں ۔ زبان کا محاورہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ ہر زبان کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں اور اس زبان کی نثر اور نظم اور روز مرہ کی بول چال انہی اصولوں کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ یعنی وہ اصول زبان و بیان کو آگے بڑھانے میں چکی کی کیل کا مقام رکھتے ہیں۔
عربی کا ایک اور مادّہ ہے م۔ث۔ل۔ اس کا مطلب ہے کسی دو ایسی اشیاء کا آپس میں تقابل کر کے کسی ایک کو دوسری جیسا ظاہر کرنا جہاں کسیایک صفت کو بہت زیادہ بڑھا کر بیان کرنا مقصود ہو یہ کسی ایک صفت کو تنقیص کے لئے لا نا ہو۔ جیسے کہ: فلاں شخص شیر کی طرح بہادر ہے۔ یہاں شخصِ مذکور کی دلیری کو اُجاگر کرنا ہے اس لئے اس کو شیر کے مقابل لا یا گیا۔ یا یہ کہنا کہ: یہ گھر تو گھُورے کی طرح گندہ ہے۔ یہاں گھر کی گندگی کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا مقابلہ گُھورے سے کیا گیا۔ تیسرا عربی کا مادّہ جو ہماری اس گفتگو سے متعلق ہے وہ ہے ض۔ر۔ب۔ اس لفظ کے اصل معنیٰ تو ہیں مارنا، پیٹنا۔ وہ چاہے ڈنڈے سے ہو یا تلوار سے۔ لیکن جب اس لفظ کو دوسرے لفظ مثل کے ساتھ لایا گیا تو اس کے معنیٰ ہو گئے مثال دینا۔ یہ محاورہ قرآن سے آیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
| أَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَیِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ |
| تُؤْتِی أُكُلَہَا كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا ۗ وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَكَّرُونَ |
ترجمہ:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کیسے مثال دی ہے۔ کلمۂ طیبہ کی مثال اُس پاک درخت کیسی ہے جس کی جڑیں مضبوطی سے جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل لاتا ہے۔ اور اللہ تو مثالیں دیتا ہی ہے تاکہ لوگ اس کا ذکر کرتے رہیں ۔
یہاں ہم مذہب اور عقیدہ سے قطعِ نظر کرتے ہوئے صرف عربی متن کا لسانی تجزیہ کرتے ہیں ۔ قرآن نے پاک کلمہ کی مثال ایک ایسے مضبوط درخت سے دی جسکی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی اسےہلا نہیں سکتا اور وہ ہر موسم میں پھولتا ہے۔ بس کلام کوئی بھی ہو اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مضبوط دلیلوں پر قائم ہو اور ہر زمین و ہر زمان میں ہرسننے اور پڑھنے والا اس کلام سے استفادہ کر سکے۔اس سے فعل تو ہم نے اردو میں اپنا بنایا یعنی مثال دینا لیکن اسم قرآن کی آیت سے پورا کا پورا لے لیا یعنی ضرب ا لمثل۔ اس کا بدل ہماری پراکرت میں کہاوت ہے اور انگریزی میں proverb ہے۔اس کے بر عکس محاورہ کا انگریزی بدل idiom ہے۔
ایسے محاورے اور ایسی کہاوتیں کثرت سے ملیں گی جن کو اردو روزمرہ میں قرآن اور حدیث سے براہِ راست قبول کر لیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو خاص مسلمانوں کی زبان ہو گئی ہے۔ ایسے اثرات آپ کو اور دوسری زبانوں میں بھی ملیں گے۔مثلاً انگریزی زبان میں پورے پورے محاورے بائیبل سے لے لئے گئے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ انگریزی عیسائیوں یا یہودیوں کی زبان ہو گئی ہے۔
کچھ اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے:اللہ کا بول بالا۔ روز مرّہ کی کہاوت ہے۔ یہ بھی قرآن کی آیت کا ترجمہ ہے۔وَكَلِمَۃُ اللَّہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَاللَّہُعَزِیزٌ حَكِیمٌ اور اس کے علاوہ یہ روزمرہ کے محاورے جو ہم اُٹھتے بیٹھتے بولتے ہیں ، جیسے الحَمدُلِلّٰہ، اِنشاء اللہ، سُبحان اللہ،اللہُ غَنِی ،ماشا اللہ وغیرہ یہ سب قرآنی جملے ہیں ۔قرآن اور حدیث کے علاوہ بہت سے عربی کے محاورے ہیں جو پورے کے پورے اردو روز مرہ میں جگہ پا گئے ہیں ، یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ ہم یہاں صرف ایک اور مثال پر اکتفا کرتے ہیں ۔مَدَّ رِجلَہُ بِقدرِلحِافِہِ۔ ہم نے لحاف کو چادر میں بدل دیا اور محاورہ یوں ہو گیا: چادر دیکھ کے پانو پھیلاؤ۔
بالکل اسی طرح سے فارسی کے محاورے بھی اردو میں آ گئے ہیں ۔ عموماً ایسے محاورے پورے پورے فارسی ہی میں بولے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ سے یہ رواج رہا کہ اردو کی تعلیم کے ساتھ لوگ فارسی بھی برابر پڑھتے تھے۔ اور دوسرے یہ کہ اٹھارویں صدی کے نصف تک دہلی میں حکومت کی زبان فارسی ہی رہی تھی۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مُردہ شود۔من تُرا حاجی بگوئم تو مراحاجی بگو۔آمدن با ارادت و رفتن با اجازت۔
خالص اردو کے محاورے وہ ہیں جو کلچر اور جغرافیائی حدود کے سہارے سے بنے ہیں ۔مثلاً:دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔دو ملاؤں میں مرغی حرام۔سوت نہ کپاس کوری سے لَٹّھم لَٹّھا۔نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچیں گی۔
سب سے زیادہ دلچسپ وہ محاورے ہیں جو بغیر کسی لفظی تبدیلی کے اپنے استعمال کی وجہسے مختلف معنیٰ دیتے ہیں یا ذرا سی لفظی تبدیلی سے انکے معنیٰ بدل جاتے ہیں اساتذہنے ان محاوروں سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر غالب کا ایک شعر دیکھتے چلئے:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
غالب نے اس شعر میں تین محاورے استعمال کئے ہیں اور تینوں ﴿بنانا﴾ کے فعل سے بنائے گئے ہیں ۔
ا۔سنائے نہ بنے ۔ دوسرے کو بات سنانا یعنی سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔
۲۔ بنے بات۔ کام ہو جانا، کامیابی حاصل کرنا۔
۳۔ بات بنانا۔ منھ سے بات نہیں نکل رہی ہے، عزت کے ساتھ مفہوم ادا نہیں ہو پا رہا ہے، کچھ چھپانا ہے کچھ بتانا ہے، جو چھپانا ہے وہ ظاہر ہوا جا رہا ہے، جو ظاہر کرنا ہے اس کے لئے منھ میں ا لفاظ نہیں آ رہے ہیں یا ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ ﴿بات بننا ﴾ اور﴿ بات بنانا﴾ میں بہت لطیف فرق ہے۔ باعتبارِ گرامر یہ صرف فعلِ لازم اور فعل متعدی کا فرق ہے مگر دیکھئے کہ اس فرق سے محاورہ کہاں سے کہاں سے لے جاتا ہے۔
یہ اُردو کا لفظ ﴿ بنانا﴾عربی کے مادہ ب۔ن۔ی۔ سےمشتق ہے۔ عربی کے اس لفظ کے معنی وہی ہیں جو انگریزی کے الفاظ To build اورTo construct سے ادا ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی والے بھی اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی کسی زبان کا لفظ ہو۔
اردو/ہندی دونوں زبانیں پروٹو۔انڈو۔یوروپین (PROTO۔INDO۔EUROPEAN) لسانی خاندان سے متعلق ہیں ۔ عربی اس کے بر عکس ایک سامی(SEMITIC) زبان ہے۔ محققین نے تقریباً ۱۲۰۰ پروٹو۔انڈو۔یوروپین لسانی مادّے دریافت کئے ہیں ۔ یہ فہرست شائع بھی ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی مادہ لفظِ بنانا کے لئے نہیں ملتا۔ سنسکرت کا ہم معنیٰ مادہ ﴿بھو﴾ (B۔H۔U) ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں (ہونا)۔ اسی سے انگریزی کا لفظ BUILD بھی ہے اور جرمن زبان کا لفظ BAU بھی ہے۔ اردو/ہندی کا لفظ ﴿بَھوَن﴾ بمعنیٰ محل بھی اسی مادہ سے بنا ہے۔
ایک اور بہت ہی دلچسپ استعمال اس لفظ کا وہاں ہوتا ہے جہاں ہم نوبیاہتا جوڑے کو دعا دیتے ہیں :
بنا اور بنی کی یہ جوڑی ہمیشہ بنی رہے
٭٭٭
الف خان
______________________________________________________________
محترمی محسن نقوی صاحب ۔ لسانیات واقعی ایک تفریح بھی ہے اور تعلیم بھی ۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اردو کے کسی اخبار، رسالے یا کتاب سے عربی اور فارسی کے سارے الفاظ حذف کریں، تو باقی ماندہ سب کچھ لا یعنی ہو جائے گا۔ اردو کا ویزا لے کر روانہ ہونے کے ساتھ عربی کے اکثر الفاظ اپنا اصلی مفہوم جہاز میں چھوڑ آتے ہیں ۔ حضرت یوسف کے بھائی کہتے ہیں کہ ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں (انا لہ لناصحو ن ) ۔ اردو مین نصیحت اور ناصح کے معنی کچھ اور ہیں ۔ اسی طرح کے کئی الفاظ ذہن میں ہیں، لیکن ایک مثال پر اکتفا کرتا ہو ں
بننا، بنانا اور بن جانا کا مادہ عربی کے ب ۔ ن ۔ ی کو ماننے میں مجھے تامل ہے ۔ ایک اور اختلاف رائے کی جسارت کیلیے معذرت خواہ ہوں ۔ وہ یہ کہ ٧٥ سال پہلے میرے استاد نے مندرجہ ذیل ضرب الامثال سکھاے تھے جن کو آپ نے محاوروں کی فہرست میں شامل کیا ہے
تا تریاق از عراق آید ، مار گزیدہ مردہ باشد
من ترا حاجی بگویم ، تو مرا ملا بگو
آمدن بہ ارادت ، رفتن بہ اجازت
محاورہ کے بارے میں میرا خیال یہ تھا، کہ محاورہ الفاظ کی وہ ترتیب ہے جو اہل زبان استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً گاؤں کے چھوٹے بچے بھی "ماں باپ ” کہیں گے، باپ ماں نہیں ۔اسی طرح "مرچ مسالہ ” محاورہ ہے مسالہ مرچ” کوئی نہیں بولے گا ۔ یہی مثال خیر خیریت کی ہے ۔
گھر پہ خیریت خیر ہے بھی ایک اجنبی ترکیب ہو گی
بہر حال، رموز مملکت خویش خسرواں دانند ۔
نیاز مند
الف خان
محسن نقوی
______________________________________________________________
جناب الف خاں صاحب۔ متشکّر ہوں کہ آپ نے مضمون توجہ سے پڑھا اور اُس پر بامعنی اور پُر مغز تبصرہ بھی لکھا۔میں آپ سے اس بارے میں متفق ہوں کہ لسانیات ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔ بس پڑھتے چلے جائیے، علمیت میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور تفنن طبع کا سامان بھی۔ فارسی کی کہاوتیں لکھتے وقت کچھ ابہام ہو گیا ہے۔ یقیناً یہ سب کہاوتیں یعنی ضرب الامثال ہیں محاورے نہیں ہیں ۔ آپ کے استاد کی بات درست ہے۔ محاورے کی تعریف ہم نے مضمون میں بیان کر دی ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مفہوم بھی وہی ہے۔ آپ نے جو مثالیں دی ہیں وہ دلچسپ اور پُر معنیٰ ہیں ۔ اسی بنیاد پر ہم خدا حافظ کے محاورہ کے مقابلہ پر انہی معنیٰ میں اللہ حافظ کی فصاحت پر معترض ہیں ۔ کیونکہ معنیٰ بدل جاتے ہیں ۔ عربی کے لفظ نصیحت کا مادّہ ن۔ص۔ح ہے۔اس کے تین مختلف معنیٰ ہیں :پہلا۔ کوئی کام خلوصِ دل سے کرنا یعنی انگریزی میں SINCERITYدوسرا۔ ایسا کام جس سے ایک اچھی مثال قائم ہو جائےتیسرا۔ پھٹے ہوئےلباس سی ک ے دینے کو نصاحۃ الثوب کہتے ہیں ۔یہ تشریح مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں کی ہے۔یہ سب مفاہیم قرآن کی آیت ۶۶:۸ میں آ کر واضح ہو جاتے ہیں :
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا……….ہمارے عزیز ناول نگار جناب ڈپٹی نذیر احمد صاحب، جو کہ اردو ناول کے بابا آدم مانے جاتے ہیں ، انہوں نے اپنے مشہور ناول کا نام رکھا (توبۃ النصوح) اور اس میں بھی التزام یہ رکھا کہ اپنے ہیرو کا نام نصوح رکھ دیا ۔یوں اس لفظ کے معنیٰ میں ایک اضافہ کر دیا کہا ُس سے ایک اسمِ معرفہ یعنی PROPER NOUN تخلیق کر دیا۔ خیر یہ تو نذیر احمد کا جینئس تھا۔ سورۂ یوسف کی آیت میں ناصحون کا لفظ پُر خلوص خیر خواہ کے معنیٰ میں آیا ہے۔ اور اردو میں یہ لفظ انہی معنیٰ میں آتا ہے۔ غالب نے اپنے شعر میں یہ لفظ لا کر اور وضاحت کر دی:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غم گُسار ہوتا
بات تو یہی ہے کہ نصیحت دینا سچے دوست کی علامت ہے مگر یہاں تو ضرورت چارہ سازی اور غم بٹانے کی تھی۔ خیر یہ تو غالب کی نکتہ سنجی اور باریک بینی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لفظ بنانا کا مادّہ کہیں اور ہو۔ بہر حال میری ناقص رائے تو یہی ہے۔ اگر آپ کو کہیں کچھ اور مل جائے تو فورم میں ضرور پوسٹ کیجئے ۔میری معلومات میں اضافہ ہو گا اور دوسرےقارئین بھی مستفید ہوں گے۔ ایک بار پھر آپ کے تبصرہ کے لئے تہہِ دل سے ممنون ہوں ۔ شکریہ۔
مخلص۔ سیدمحسن نقوی
عابدہ رحمانی
______________________________________________________________
جناب محسن نقوی صاحب
السلام علیکم
آپ کا یہ مضمون از حد معلوماتی۔ اور دلچسپ ہے۔میرے لئے یہ ایک انکشاف ہے کہ اردو کا ماخذ پروٹو انڈین یوروپین زبانیں ہیں۔یوروپ میں تو کہا جاتا ہے کہ وہاں کی ساری زبانیں لیٹن Latin سے ماخوذ ہیں ۔۔میری معلومات کے مطابق اردو ہندی، عربی ،فارسی اور ترکی زبان کا مجموعہ ہے اور یہ اردو پر صادق بھی آتا ہے ۔آپ نے خود قرآنی آیات اور عربی,فارسی استعاروں سے اسے جوڑا ہے ۔پھر عربی رسم الخط اسے ان زبانوں کی قطار میں لا کھڑا کرتا ہے ۔۔ترکی کا رسم الخط مصطفے کمال نے رو من کر دیا ۔۔انگریزوں کے زمانے میں ہندوستانی فوجی اردو اور اپنی زبانوں کے خطوط رومن میں لکھتے تھے۔میرے والد اور ماموں جو برطانوی فوج میں تھے ان کے اس زمانے کے اب بھی ایسے خطوط موجود ہیں کہ انہوں نے پشتو خطوط رومن میں لکھے ہوئے ہیں ۔پاکستان میں بولنے والی تمام زبانیں عربی رسم الخط میں ہیں ۔پشتو اور سندھی میں حروف تہجی اردو سے زیادہ ہیں پنجابی، بھارت میں گورمکھی کہلاتی ہے اور اسی میں لکھی جاتی ہے۔پاکستان کی پنجابی اردو میں لکھی جاتی ہے۔ اور یہی حال بلوچی زبان کاہے۔بہر کیف اردو کو ہم نے تو مسلمان اور ہندو نہیں بنایا بلکہ متعصب ہندوؤں نے اردو کا دیوناگری اسکرپٹ کر کے اس پر کلہاڑی پھیر دی اور اگر وہ اردو بولتے بھی ہیں تو اسے ہندی یا ہندوستانی کہتے ہیں ۔سوائے چند کے یا مسلمانوں کے۔آپ کا ایک محاورہ عموماً اس طرح پڑھا اور سنا ہے ” سوت نہ کپاس جولاہے سے لٹھم لٹھا۔اسی طرح ہمارے علم میں اضافہ کرتے رہئیے بے حد شکریہ
عابدہ۔
محسن نقوی
______________________________________________________________
ڈیر عابدہ رحمانی۔آپ کے مراسلہ اور مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ یہ بات کہ کون سی زبان کا ماخذ کیا ہے۔ اس کا فیصلہ بنیادی طور سے اُن آوازوں (صوتیات) اور اُن آوازوں کی آپس میں جو رشتہ داری کا میکینزم ہے اُس سے ہوتا ہے۔ اس کو علمِ لسانیات کی اصطلاح میں phonology کہتے ہیں ۔اور پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ صوتیات کی تنظیم سے بننے والے الفاظ سے زبان کے محاورے کیسے بنتے ہیں ۔
صوتی اکائیوں سے مل کر الفاظ بننے کے نظام کو علم لسانیات کی اصطلاح میں morphology کہتے ہیں ۔ پھر یہ دیکھا جاتا ہے الفاظ کو جوڑ کر با معنیٰ جملے کیسے بنتے ہیں ۔ اس کو زبان کی گرامر کہتے ہیں ۔ یہ ہے زبانوں کی تنظیم اور پہچان کا شجرہ۔ طرزِ تحریر بہت بعد میں آتا ہے۔ در اصل کوئی بھی زبان کسی بھی طرزِ تحریر میں لکھی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے بولنا تو اپنی خلقت کے ساتھ سیکھا تھا یا وہ اس کو اپنی خلقت کے ساتھ لے کر آیا تھا، لیکن طرزِ تحریر ہزاروں برس بعد تجربات اور مشاہدات سے ایجاد ہوا۔ یہ بات ہر زبان کے ساتھدرست ہے۔ ہندوستان سے اردو کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ کچھ بھی نہ ہوا تو بمبئی کی فلم انڈسٹری اردو کو قائم رکھے گی۔ ہندی دیوناگری میں اردو لکھی جا رہی ہے، ہمیں یقین ہے کہ کچھ دنوں میں دیو ناگری میں نئے حروف ایجاد ہو جائیں گے جو ز،ذ، ظ اور ض وغیرہ کی آوازوں کے لئے ہوں گے۔
حافظ محمود شیرانی (اختر شیرانی کے والد ماجد) نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے:پنجاب میں اردو۔اس کتاب مین یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اردو کا ماخذ عربی ہے۔ کیونکہ اس کا رسم الخط یعنی نستعلیق عربی نسخ سے ماخوذ ہے۔ بات اصل یہ ہے کہ نستعلیق ہم نے فارسی سے مستعارلیا ہے۔ اور فارسی نے اس کو عربی سےلیاتھا۔ بہر حال علمائے لسانیات کی تحقیق جو کہ واضح شواہد رکھتی ہے، یہی ہے کہ اردو کی بنیاد، یعنی اس کا صوتی ساختیہ، خاص طور سےاس میں متحرک صوتیات(vowels)کا نظام پورا کا پورا کھڑی بولی کا ہے جو کہ سنسکرت کی بیٹی ہے۔ کھڑی بولی کے سب سے پہلے شاعر کبیر داس ہیں ۔ البتہ عربی کے امتزاج سے اردو میں بہت سی صوتیات نئی آ گئی ہیں جو کہ سنسکرت کی کسی شاخ میں نہیں ملتی ہیں ۔ سب سے زیادہ واضح مثال ز کی آواز ہے۔ ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں کہیں بھی ز کی آوا ز نہیں ہے۔ چاہے آپ نیپال چلے جائیں چاہے سری لنکا، یا آپ بنگال اور آسام کو دیکھ لیں یا بمبئی، پونا اور گوا کی زبانیں دیکھ لیں یا گجراتی اور سندھی کو دیکھیں ۔ اس کے علاوہ ذ،ظ، ض اور دوسری طرف ص اور ث وغیرہ۔ یہ خالص عربی کی صوتیات ہیں ۔ ان سب آوازوں کی وجہ سے اردو کا اپنا ایک انوکھا مزاج ہے اور اس کے الفاظ اور محاورات میں ایک خاص معنویت پیدا ہو گئی ہے۔خاص طور سے عربی کی شاعری نظام سے اردو نے بہت استفادہ کیا ہے۔
پروٹوانڈو یوروپین کا زمانہ آج سے دس ہزار سال قبل کا ہے۔ جس کو برونز ایج کہتے ہیں ۔ یہ تقریباً اُس وقت شروع ہوتی ہے جبکہ یوروپ کی آخری آئس ایج ( ازمنۂ جمادی) ختم ہوتی ہے۔ جب وہ عظیم برفانی دور ختم ہوا تو اُس علاقہ کے لوگ جو کہ پہاڑوں کی گپھاؤں میں رہا کرتے تھے، وہاں سے باہر نکلے۔ جمے ہوئے دریا بہنے لگے۔ اس کی وجہ سے زمین نے ایک انتہائی خوشگوار سانس لی اور زر خیزی نے تیزیسے ترقی کی۔ جنگل تو پہلے ہی سے موجود تھے، انسان نے کاشتکاری شروع کی۔ وہ جو جانوروں کا شکار کر کے اور گرمی کے صرف تین ماہ کے دوران پھل ترکاریاں اِکٹّھا کر کے زندگی گزارنے کے عادی تھے، خود طرح طرح کی فصلیں اگانے لگے۔ اُنہوں نے گھوڑوں کو سَدھایا۔ پھر پہیہ ایجاد کیا، دو پہیوں کو جوڑ کر گاڑیاں بنائیں اور چار کو جوڑ کر رتھ بنائے اور یوں دور دور کا سفر کرنے کے قابل ہو گئے۔
یوں وہ اپنے برفانی علاقے سے باہر نکلے اور ان کے تین بڑے بڑے گروہ مختلف علاقوں میں آ موجود ہوئے۔ ایک گروہ ہندوستان میں وارد ہوا۔ یہ زمانہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا ہے۔ اسسلسلہ سے سنسکرت وجود میں آئی، اور اسی سنسکرت کی بیٹیاں شور سینی اور پراکرت کی مختلف شاخیں بنیں ۔جن میں برج بھاشا، اودھی، بُندیلی اور کھڑی بولی ہیں ، دوسری طرف بنگالی ، آسامی، مراٹھی،وغیرہ ہیں ۔ ہندوستان کی پرانی زبانیں دراوِڑ خاندان سےتعلق رکھتی ہیں ۔ جب ہندوستاں کے شمالی علاقہ میں یوروپ کے برفانی علاقوں سے آنے والے آباد ہوئے (جِن کو آریائی کہا جاتا ہے)تو انہوں نے دھیرے دھیرے وہاں کے مقامی دراوڑ بولنے والوں کو جنوب اور جنوب مغرب کی طرف ڈھکیل دیا۔ لہٰذا اب دراوڑ زبانوں کے بولنے والے جنوبی ہندوستان اور سری لنکا تک جا پہونچے۔اِن زبانوں میں تامِل، تیلگو، ملیالم اور کنّڑا وغیرہ آتی ہیں ۔ حیدر آباد دکن کی بولی میں دراوڑ کے اثرات آج بھی ملتے ہیں ۔
آریائی قوموں کا دوسرا گروہ ایران اورافغانستان اور وسطی ایشیا کہ کچھ میدانی علاقوں پہونچا۔ وہاں اویستھا اور پہلوی زبانوں نے جنم لیا جس سے فارسی، داری اور ہندکو وغیرہ ایجاد ہوئیں ۔
ان کا تیسرا گروہ یوروپ کے میدانی علاقوں آباد ہوا۔ یوروپ کے علاقوں میں اُبھرنے والی زبانوں کے دو بڑے گروہ ہیں ۔ ایک جرمینِک، جس میں انگریزی،نارویجین، ڈینِش، ولندیزی اور جر من زبانیں ہیں ۔ دوسرے بڑے گروہ میں (جو کہ رومانسزبانوں کا گروہ کہلاتا ہے) دو قدیمی زبانیں ہیں ۔ ایک لاطینی اور دوسری یونانی۔لاطینی سے نکلنے والی زبانیں فرانسیسی، ہسپانوی اور باقی دوسری اطالوی زبانیں ہیں ۔ایک اور گروہ بالٹِک اور سلاوِک زبانوں کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی چھوٹے موٹے زبانوں کے گروہ ہیں ۔
ان زبانوں کی ترقی میں اُن علاقوں کی معاشرتی روایات ، معاشی حالات اور مذہبی روایات و رسوم کا بھی حصہ ہے جو وقتاً فوقتاً اُن جغرافیائی علاقوں میں رہے ہیں ۔ صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔ چونکہ شروع کے زمانہ میں یہ سب لوگ اُس علاقہ میں رہے تھے جہاں سخت سردی پڑتی تھی اور سب طرف برف ہی برف تھی، ان کے لئے آگ کی بڑی اہمیت تھی اور وہ سورج کو زندگی کا ماخذ سمجھتےتھے۔ اسلئے ان تمام قوموں میں سورج اور آگ کی پرستش عام تھی بلکہ آج بھی ہے۔ ہندوؤں میں آگ کا ہَوَن آج بھی ہوتا ہے اور وہ سورج کو دیوتا کہتے ہیں ۔ ایرانیوں کا پرانا مذہب آتش پرستی رہا ہے اور آج بھی دنیا میں ہر جگہ آتش پرست زر تُشتیان پائے جاتے ہیں ۔ سابق شاہِ ایرا ن بڑی شان سے اپنے آپ کو آریہ مہر کہلواتے تھے،یعنی آریاؤں کا آفتاب۔یوروپ میں مذہب کی اہمیت اب بہت کم ہو گئی ہے لیکن اگر آپ پیرس جائیں تو آپ کو محرابِ فتح (arc de triomphe ) میں جلتا ہوا الاؤ نظر آئے گا۔ وہ آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اس کو نیپولین نے اپنی فتح کے نشان کے طور پر بنوایا تھا۔
جواب بہت طویل ہو گیا لیکن بات ہی ایسی تھی کہ میں رُک نہیں سکتا تھا۔ چلتے چلتے اسی موضوع پر پنڈت دیا شنکر نسیم (مصنف مثنوی گلزارِ نسیم) کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
شمع نے آگ رکھی سر پہ قسم کھانے کو
بخدا میں نے جلایا نہیں پروانے کو
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں قسم کھانے کے لئے سر پر آگ رکھنے کی ریت عام تھی۔
شکریہ۔
مخلص۔ سید محسن نقوی
٭٭٭
اردو زبان بلا شبہ ایک لشکری زبان ھے جس جس میں تقریباً نوے فیصد کلمات ھندی عربی فارسی اور ترکی زبانوں کے ھیں ۔۔۔۔۔
اس میں شک نہیں کہ جب الفاظ اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں جاتے ھیں تو لا محالہ ان کے خد و خال میں ارتقائی تشکل و تبدل واقع ھوتا ھے ۔۔۔۔ جیسے آدتیہ وار یعنی سورج کا دن ارتقائی منازل طے کرتے کرتے محض اتوار رہ گیا اور اس کا معنی یہ قطعاً نہیں کہ اتوار کہنا غلط ھے ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اب یہ راسخ ھو چکا ھے اور اردو زبان کا حصہ ھے ۔۔۔۔