نے گلِ نغمہ ہوں، نہ پردۂ ساز ۔۔۔ ستیہ پال آنند

کینیڈا میں میرے عزیز دوست اطہر رضوی (مرحوم) ہمیشہ میرا "دھرم بھرشٹ” کرنے کے درپے رہتے تھے ۔

ہر برس وہ اپنی غالب اکاڈمی کے زیر اہتمام ، دیوان غالب سے ایک مصرع طرح لے کر طرحی مشاعرہ برپا کیا کرتے تھے۔اپنی وفات سے کچھ برس پہلے وہ بضد ہوئے کہ میں بھی ایک مصرع طرح پر غزل کہوں، ورنہ ہماری دوستی ختم۔ غزل تو میں نے کہی  لیکن نظم کے انداز میں، یعنی قطعہ بند ۔۔ بوجوہ میں نے اسے اپنے کسی مجموعے میں شامل نہیں کیا۔ آج میرے کینڈا کے گھر میں مجھے یہ اپنے پرانے کاغذات میں نظر آئی تو میں نے اسے کمپیوٹر کے سپرد کر کے طبع کر لیا۔

 

مصرع طرح : نے گلِ نغمہ ہوں، نہ پردہ ء ساز۔

 

 

(ق)

 

"نے گل نغمہ ہوں، نہ پردۂ ساز”

استعارے کا خوب ہے اعجاز

تیرا ثانی نہیں، چچا غالبؔ

جو اٹھائے غزل کے سو سو ناز

 

(ق)

 

التجا ہے جناب ِ اطہر سے

بخشئے مجھ کو اب تو ، بندہ نواز

میں کہ دلدادۂ حقائقِ زیست

میں کہ نا واقف ِ حریم ِ ناز

نظم ہے میری خامہ فرسائی

نظم ہے میرا وصفِ خاص اعجاز

ہے غزل اک مرصع ساز کا فن

اور میں عقل و فہم کا غمّاز

نظم ، صحرائے فلسفہ کا سفر

اور غزل، ایک صِنف راز و نیاز

خشت در خشت قافیہ بندی

توڑ ڈالے نہ مجھ کو یہ تگ و تاز

غیر موزوں ہوں اس ہنر کے لیے

نطق ہے بند، گنگ ہے آواز

 

definitions (ق)

 

فلسفہ، حکمت و جنوں کی جنگ

فن ، مسلسل سعی، عمل، تگ و تاز

حسن، جذبات کا فریب نظر

عشق، اک شوق افترا پرداز

فکر، اک خواب سحرِ بیداری

شاعری، حسن و عشق کی غماز

علم، احساس کی شکست کا نام

عقل ، حجّت تراش، فتنہ طراز

 

(ق)

 

زندگی کی طویل راہوں پر

کیسے کیسے ملے نشیب و فراز

اب مگر بُجھ گیا ہے شعلۂ فکر

کاٹے کٹتی نہیں یہ عمر دراز

اب تو دھندلا گئے نقوش حیات

اب نہ دم ہے، نہ ہے کوئی دمساز

پاؤں لغزیدہ ، ہاتھ لرزیدہ

ڈھونڈیں اب خودکشی کی وجہِ جواز

 

(ق)

 

کیسا سرگم، کہا ں کی سُر بندی

اب کہاں وہ سخن ، کہاں وہ ساز

ہم ہیں ٹوٹے ہوئے ستار کے تار

"ہم ہیں اپنی شکست کی آواز”

 

(ق)

 

اے رعونت پسند کـر و بیاں

دیکھ اس مشت خاک کا اعجاز

کل کا جنّت بدر، غریبِ شہر

عرش پر پھر ہے مائل پرواز

 

(ق)

 

بے ارادہ سی کھوکھلی روحیں

کور آنکھیں ہیں، نطق بے آواز

گردش روز و شب ، جھنجھوڑ انہیں

بُت سے بیٹھے ہیں یہ مرے دمساز

 

(ق)

 

جسم ہے یا سجا ہوا تابوت

روح ہے یا کوئی شکستہ ساز

کر توجّہ، شگفتگیِ مزاج

توڑ ڈالے مجھے نہ یہ تگ و تاز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اعتراف جرم (ق)

 

تُرش، شیریں سا ایک جام پیا

صدق دل سے ہے اک گناہ کیا

کتنی آساں ہے قافیہ بندی

یہ غزل کہہ کے میں نے دیکھ لیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے