ہماری اردو میں انگریزی اس بُری طرح گُھسی ہوئی ہے کہ چاہیں بھی تو اُسے نکالا نہیں جا سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ دراصل حکم (زبان) تو اُسی کا چلتا ہے کہ جو بالا دست ہو۔ انگریز نے جو ترقی کی اُسے ہم بڑی خوشی سے اپناتے گئے ساتھ ساتھ اُس ترقی کے ساتھ در آنے والی نئی اصطلاحات بھی ہمارے روز مرہ میں شامل ہوتی گئیں۔
بہت سی نئی چیزیں ہم تک انگریزوں سے براہِ راست اور کچھ انگریزوں کی وساطت سے پہنچی ۔ سو اُن کے نام اور اُن سے متعلقہ اصطلاحات انگریزی میں ہی ہمارے ہاں رواج پا گئیں۔ اسی لئے ہمارے پاس فریج، کُولر، ہیٹر، واشنگ مشین ، جوسر، بلینڈرز اور اسی قسم کی بے شمار اشیا کے لئے کوئی اردو نام نہیں ہیں۔
اب بات یہاں تک آ گئی کہ ہمارے ہاں بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہو تو اُس کا نام انگریزی میں ہی رکھا جاتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ ایسی نوبت ہی شاذ ہی کبھی آتی ہے)۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انگریزی نام سے بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ اردو نام والی چیزوں کو ہمارے اپنے معاشرے میں ہی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
اردو وکی پیڈیا والوں نے کافی کوشش کی انگریزی اصطلاحات کی اردو کاری کی جائے اور اُنہوں نے اس سلسلے میں شبانہ روز مشقت کر کے کئی بھانت بھانت کی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں ۔ لیکن یہ تراکیب زیادہ تر عربی سے اخذ کردہ تھیں سو اردو دان طبقے کے لئیے بہت اجنبی اور مشکل ثابت ہوئیں اور اہلِ اردو میں اُنہیں کوئی خاص قبولِ عام نہیں ملا۔ یوں بھی جس کا نام بچپن میں پپو یا مُنّا پڑ جائے ۔ آپ لاکھ چاہیں لیکن لوگ اُسے صلاح الدین کہنے پر راضی نہیں ہوتے۔ تاہم ہم اردو وکی پیڈیا والوں کے کام کے معترف ہیں کہ جس نوعیت کا کام ان لوگوں نے کیا وہ بہت عرق ریزی اور پتہ مارنے والا کام ہے اور اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔
خیر ہم بات کیا کرنا چاہ رہے تھے اور بات کہاں نکل گئی۔ ہم تو بات کرنا چاہ رہے تھے گاڑی کی سیٹ بیلٹ کی، کہ جس کے لئے ہم نے عنوان میں نشست بند کی اصطلاح شامل کی ہے۔ سیٹ بیلٹ کو اردو میں بھی سیٹ بیلٹ ہی کہا جاتا ہے اور نشست بند کے نام سے کوئی اسے نہیں پہچانتا۔ اگر آپ کو زیادہ ہی اردو بولنے کا خبط ہے تو آپ اسے سیٹ پٹّہ کہہ سکتے ہیں ، شاید کہ لوگوں کے ذہن میں اُتر جائے آپ کی بات۔
بہرکیف تو ہم یہ بتا رہے تھے کہ ہمارے پاس ایک عدد گاڑی ہے کہ جس کے ہونے سے ہمارے روایت پسند ہونے کے ایسے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ جدّت کو پانی بھرنے کا موقع تک نہیں ملتا۔ کُہنہ روایت کی علمبردار ہماری اس گاڑی میں سیٹ بیلٹ کچھ اس قسم کے واقع ہوئے تھے کہ جیسے اڑیل گائے ہوتی ہے یعنی رسی پکڑ کر کھینچتے رہیے اور وہ ایک انچ نہیں ہلتی ۔ تاہم ہم یہ نہیں جانتے تھے۔ یعنی نہ تو ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ہماری گاڑی کی سیٹ بیلٹ ہمارے شانہ و شکم کے اطراف حمائل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ خود ہمیں کبھی اس افعیِ سُوت و آہن کو خود پر سوار کرنے کا خیال آیا۔
لیکن پھر ایک روز لب سڑک ایک سفید پوش شخص سے ملاقات ہوئی جس نے ہمارے سیٹ بیلٹ کے بارے میں خیالات تبدیل کرنے کا ڈول ڈالا۔ اور ٹھیک اُسی وقت ہم نے سفید پوشوں کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ موصوف نے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچہ تھماتے ہوئے ہمارا پروانۂ ڈرائیونگ (شکر ہے کہ ہم شاعری نہیں کر رہے کہ شاعری میں تو عربی اور ہندی الفاظ کے مابین اضافت بھی ناقدوں کو نہیں بھاتی چہ جائیکہ انگریزی اور اردو کا بے جوڑ رشتہ بنایا جائے۔) ضبط کر لیا۔ خیر ہمیں یاد آیا کہ اس قسم کے پرچوں کے لئے لوگ باگ چالان کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی یاد آیا کہ پروانۂ ڈرائیونگ کی بحالی کے لئے دامے درمے سُخنے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خیر یہ تو تھی سفید پوشوں سے پہلی ملاقات لیکن نوشتۂ دیوار یہ نہیں بتاتا تھا کہ:
ع- ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
خیر چالان ہونے کے بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ سیٹ بیلٹس سے ربط و ضبط استوار کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ تب جا کر ہمیں پتہ چلا کہ سیٹ بیلٹ تو قلتِ استعمال سے اتنی تنہائی پسند ہو گئی ہیں کہ اپنے خول سے باہر آنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ پھر ہم نے ٹیڑھی انگلی سے سیٹ بیلٹ نکالنے کی کوشش کی تو انگلی شانوں تک ٹیڑھی ہو گئی لیکن گھی یعنی سیٹ بیلٹ باہر نہیں نکلا۔ پھر جب ہم نے اس کام کے لئے چاروں ہاتھوں پیروں کی طاقت آزمائی تو سیٹ بیلٹ طوعاً و کرہاً اپنے خول سے برامد ہو گئی۔ ہم ابھی خوش ہونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ہمیں اندازہ ہوا کہ سیٹ بیلٹ جو کھینچنے پر باہر آ گئی ہے اب واپس اپنے خول میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ارادہ کیا اہلیت تک نہیں رکھتی۔ جب ہم نے یہ سیٹ بیلٹس مکینک کو دکھائی تو اُس نے ہاتھ جوڑ لیے اور ہم سے وعدہ کیا کہ نہ جانے کو ن سے بازار جب اُس کا جانا ہوگا تو وہ ہمارے لئے سیٹ بیلٹ کا جوڑا لے آئے گا۔ بات آئی گئی ہوئی اور ہم پھر سے اپنی دنیا میں کھو گئے۔
اگلی بار جب سفید پوشوں سے واسطہ پڑا تو ہم نے بڑے فخر سے کہا کہ بھائی سیٹ بیلٹ خراب ہے کیسے لگائیں۔ جواب ملا کہ سیٹ بیلٹ تو بنوانی چاہیے آپ کو سب کام چھوڑ کر ، کیو ں نہیں بنوائی! ہم نے اپنے چہرے میں مسکینیت کے سارے رنگ بھر کر بڑی لجاجت سے سفید پوش ہرکارے کے طرف دیکھا تو اُسے ترس آ گیا۔ کہنے لگا۔ ” ابھی تو خیر چالان ہو گا لیکن یہ لٹکی ہوئی سیٹ بیلٹ اُٹھا کر شانے اور سینے پر سجا لیا کرو”۔ ہم نے کہا "لیکن اس طرح تو سیفٹی کا اصل مقصد پورا نہیں ہو سکے گا”۔ اس پر سفید پوش نے ہمیں کچھ اس طرح گھورا کہ جیسے عزرائیل اپنے کلائنٹ کو گھورا کرتے ہیں۔ کہنے لگے "سیفٹی کو کون پوچھتا ہے!!!”
خیر اُن کے پڑھائے ہوئے سبق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک سیٹ بیلٹس نہیں بن سکیں اور ہم ٹریفک سارجنٹس کو دیکھ کر اپنے سیٹ بیلٹ اس طرح اپنے سینے پر پھیلاتے ہیں کہ جس طرح پہلے زمانے کی بہوئیں سُسر کو دیکھ کر بہ عجلت تمام گھونگٹ نکال لیا کرتی تھیں۔
ع – مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
٭٭٭