مشتاق احمد یوسفی کے غالب سے ذہنی روابط ۔۔۔ ڈاکٹر محمد یار گوندل

خاندانی حالات، علمی پس منظر اور وسیع مطالعہ ایسے بنیادی عناصر ہیں جو نہ صرف شخصیت کی تعمیرو تشکیل کرتے ہیں بلکہ اس کے فن کو بھی نکھار بخشتے ہیں۔ بلاشبہ ان تمام امور کا اطلاق مشتاق احمد یوسفی کی شخصیت اور فن پر ہوتا ہے۔ ناقدین نے ان کی شخصیت کو باغ و بہار بتایا ہے۔ باغ و بہار وہی شخصیت ہو سکتی ہے جو اپنے آپ سے اور زندگی سے کچھ حد تک آگاہ ہو چکی ہو۔ علم اور وسیع مطالعہ کی کھاد سے ہی شخصیت نکھرتی ہے، آگاہی کے عذاب سے دوچار ہوتی ہے اور اسی مزاج کا عکس اس کی زندگی اور تحریروں میں نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں سوانحی مواد کی فراہمی پر بات کرتے ہوئے صدیق جاوید لکھتے ہیں:

’’۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ دنیا کا ہر بڑا شاعر اور فلسفی مطالعہ کی دولت سے امیر ہوا، ملٹن، گوئٹے، ورڈورتھ، کالرج، ٹی ایس ایلیٹ، فیضی، بیدل، خیام، امیر خسرو اور غالب وغیرہ کے سوانح اس امر کے شاید ہیں۔ ‘‘(۱)

یوں دیکھا جائے تو مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں میں غالب کے فن کا اثر نظر آتا ہے اور مطالعۂ غالب کی بنا پر ان کی تحریروں میں نکھار آ گیا ہے۔ پروفیسر نظیر صدیقی نے کہا تھا کہ:

’’ آپ مشتاق احمد یوسفی کے مضامین کو ضرور پڑھتے ہوں گے۔ ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مرحوم نے فرمایا ’’ اگر رشید احمد صدیقی کی کمزوریوں کو ان کی خوبیوں میں سے گھٹا دیں تو حاصل تفریق مشتاق احمد یوسفی رہیں گے‘‘ (۲)راقم کی رائے میں اگر نظیر صدیقی کے مذکورہ بالا بیان کو اسما کی تبدیلی کر کے یوں پڑھا جائے تو زیادہ موزوں رہے گا کہ آپ نے مشتاق احمد یوسفی کے مضامین تو ضرور پڑھے ہوں گے۔ ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مرحوم نے فرمایا ’’ اگر رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کی خوبیوں کو جمع کیا جائے تو حاصل جمع غالب رہیں گے۔‘‘ مطلب یہ کہ رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی دونوں کے ہاں غالب کے فکرو فن کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہر ممتاز ادیب یا شاعر کو پڑھتے وقت اس کی انفرادیت کے باوجود کئی ادیب یا شاعر ایسے ذہن میں آتے ہیں جواس کی تخلیقات میں جلی یا خفی اثرات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مشتاق احمد یوسفی کا مطالعہ کرتے وقت غالب ضرور یاد آتے ہیں اور قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے فن میں غالبیات رچی بسی ہوئی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ غالب کے اثرات پہلے (تقدم زمانی کے اعتبار سے ) رشید احمد صدیقی کے فن پر اور بعد میں غالب اور رشید احمد صدیقی دونوں کے اثرات مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یوں اثرات کے حوالے سے ان کی مثلث بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

اردو ادب میں غالب ایسی عبقری شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف اردو شاعری ہی کو اوج کمال اور نئی جہتیں عطا کیں بلکہ اُردو نثر کے لیے بھی لفظیات کا ایسا گنجینۂ وافر چھوڑ گئے ہیں کہ آنے والے نثر نگاروں نے اپنے گلستان نثر کی آراستگی کے لیے اسی چمنِ غالب سے گل چینی کی۔ یوں تو اردو کے سبھی نثر نگاروں کے ہاں غالب کے اثرات جلی یا خفی پائے جاتے ہیں لیکن اس خُصُوص میں مشتاق احمد یوسفی سر فہرست ہیں۔ مشتاق احمدیوسفی نے غالب کا بلا استیعاب مطالعہ کیا ہے جو ان کی خوب صورت نثر میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اردو اسالیبِ نثر کے ارتقا میں غالب ایک مجتہد اور نابغہ روز گار ہستی ہیں۔

بقول طارق سعید:

’’یہ غالب ہی ہے جس نے بیانیہ اسلوب، توضیحی اسلوب، انانیتی اسلوب، تاثراتی و شگفتہ اسلوب، طنزیہ اور ظرافت آمیز اسلوب، خطیبانہ اسلوب، بنیادی اسلوب اور امتزاجی اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے، پروان چڑھا کر ان کی آب یا ری اپنے خون جگر سے کی اور باغ اردو میں ان کے جاوداں پھول کھلائے‘‘ (۳)

غالب کا اسلوب نثر ایسا ہشت پہلو اور اپنے اندر ایسی بو قلمونی سموئے ہوئے ہے کہ اس سے اردو کا کوئی نثر نگار اپنا دامن بچا کر شہرت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتا۔ غالب کے اثرات ہر با شعور ادیب پر شعوری اور لاشعوری دونوں طور پر موجود ہیں۔ بقول طارق سعید:

’’ اسالیب نثر اردو کے ارتقاء میں غالب کا حصہ سب سے اہم ہے اور ریاضی کے حساب کے مطابق غالب ۷۰ فی صد اسالیب کا موجد یا امام ہے۔ بقیہ ۳۰ فیصد میں تمام دوسرے مجتہد فنکار شامل ہیں ‘‘۔ (۴)

یہاں ایک اور امر واضح کرتا جاؤں کہ اردو نثر نگاروں کا غالب سے متاثر ہونا عیب نہیں، ہنر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالب نے اپنے فکر کی پیش کش کے لیے لفظوں کے انتخاب کو اس درجۂ کمال تک پہنچا دیا ہے کہ تا حال اس پر اضافہ ممکن نہیں یا تا وقتیکہ کسی نئے عندلیب گلشن نا آفریدہ کی آمد نہ ہو۔

کیونکہ غالب کا فکر و فن انسانی فطرت اور معاشرتی رویوں کا بہترین عکاس ہے اور الفاظ و تراکیب کا استعمال اس پر مستزاد۔ اسی حوالے سے غالب کے خطوط پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹرسہیل احمد خاں لکھتے ہیں:

’’ ہماری مزاح نگاری کے کتنے شیوہ ہائے رنگا رنگ ان خطوں سے ابھرے۔ رشید احمد صدیقی سے مشتاق احمد یوسفی تک ذکاوت (Wit) سے کام لینے والے ادیبوں کے ہاں ان خطوں کے کیا اثرات کار فرما ہیں۔ ‘‘(۵)

اردو کا کوئی بھی با شعور فن کار کبھی بھی غالب کے اثرات سے پہلو تہی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس حوالے سے اردو نثر میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کے غالب سے ذہنی روابط کچھ زیادہ ہی ہیں۔ بقول ڈاکٹر انور سدید:

’’ غالب کی تخلیقی کھٹا لی سے کوئی مرکب بن کر نکلتا ہے تو اسے نئے معنی ہی نہیں ملتے بلکہ اسے زندگی کا تحرک بھی مل جاتا ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ ’’میر اور مومن بھی لفظوں پر قدرت رکھتے ہیں لیکن غالب انہیں فاتحانہ انداز میں برتتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن لفظوں کو برت رہا ہے وہ اسی کے لیے بنے ہیں۔ ‘‘(۶)

غالب سے یوسفی کی محبت اور ذہنی روابط کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی چاروں تخلیقات کے اکثر ذیلی عنوانات بھی غالب کے اشعار کے مصرعوں سے اخذ کیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی پہلی کتاب ’’چراغ تلے ‘‘ سے لے کر آخری کتاب ’’ آب گم ‘‘ تک پہنچتے پہنچتے یہ رنگ بہت چوکھا ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں مشتاق احمد یوسفی نے غالب کے آثارِ نظم و نثر کو ہر زاویے سے استعمال کیا ہے۔ غالب کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثر ( خطوط غالب) کو بھی موقع و محل کے مطابق استعمال کیا ہے۔ کہیں خطوط کے اقتباسات من وعن دیئے ہیں۔ کہیں غالب کی مخصوص لفظیات کو استعمال کیا ہے، جس طرح منٹو اور فیض نے غالب کی لفظیات اور تراکیب کو اپنی تخلیقات میں برتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں:

’’یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ منٹو ہوں یا فیض ان سب نے اپنے عنوانات، موضوعات اور تراکیب تک میں غالب کے چراغ سے چراغ جلائے ہیں۔ ‘‘(۷)َ۔۔ اس ضمن میں یوسفی نے مزاح کے معروف حربے ’’تحریف Parody ‘‘سے زیادہ کام لیا ہے۔ پیروڈی یاتحریف کی اہم شرط یہ ہے کہ کسی اہم فن پارہ کی ہونی چاہیے اور اتنے سلیقے سے کی جائے کہ خود بھی فن پارہ بن جائے۔ جس تحریر کی تحریف کی جائے، اس کا زبان زد عام ہونا ضروری ہے تا کہ دونوں عبارتوں اور ان کے مفاہیم کے فرق کو سمجھ کر خط اٹھایا جا سکے۔ (ص ۴۰ ورک)

اس ضمن میں یوسفی نے مزاح کے معروف حربے ’’ تحریف‘‘ سے زیادہ کام لیا ہے اور غالب کے اکثر اشعار اور مصرعوں کو تحریف کے حربے کے ذریعے استعمال کر کے اپنی تحریر کو چار چاند لگائے ہیں۔ اس میں لطف یہ کہ قاری ایک طرف غالب کے اشعار سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے جو مضمون اور موضوع کے سیاق و سباق کے حوالے سے انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان اشعار میں اپنی تیکھی اور چبھتی ہوئی تحریف نگاری کے ذریعے قاری کو اچانک حیرت ناک و ہیبت ناک مزاح کی ترنگ کا سامان بھی مہیا کر دیتا ہے۔ اسی لیے پروفیسر کلیم الدین احمد کو کہنا پڑا کہ:

’’ اگر اُردو انشا پرداز یہ چاہتے ہیں کہ وہ میدان ظرافت میں آگے بڑھیں، اگر ان کی خواہش ہے کہ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ہنستی بولتی تصویریں مرتب کر سکیں، اگر ان کی تمنا ہے کہ وہ ظرافت کے ایسے نمونے پیش کریں جنہیں فنا نہ ہو تو پھر وہ اپنی راتیں اور اپنے دن غالب کے مطالعے میں صرف کریں۔ ‘‘(۸)

مشتاق احمد یوسفی نے طنزو مزاح کے حربوں میں جس حربے کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے وہ تحریف نگاری ہے۔ پیروڈی یا تحریف کی اہم شرط یہ ہے کہ یہ کسی معروف بیان، تحریر یا فن پارے کی ہو اور ایسے سلیقے سے کی جائے کہ خود بھی فن پارہ بن جائے۔ بقول ڈاکٹر اشفاق احمد ورک:

’’جس تحریر کی تحریف کی جائے، اس کا زبان زد عام ہونا ضروری ہے تاکہ دونوں عبارتوں اور ان کے مفاہیم کے فرق کو سمجھ کر حظ اٹھایا جا سکے۔ ‘‘(۹)

غالب کا تخلیقی سرمایہ بھی زبان زد عام ہے اسی لیے یوسفی نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے اس سرمائے کو اپنی تخلیقات میں خوب برتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ:

’’ تحریف کا قیمتی عنصر اس کی اپنی ہیئت ہے، جتنی کامیاب اس کی ہیئت ہو گی اور جتنی کامیابی سے یہ اصل اور نقل میں ہم آہنگی اور تضاد کو نمایاں کر سکے گی۔ اتنا ہی یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گی ‘‘(۱۰)

یوں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کی تحریر میں زبان و بیان کا جو حسن ہے اس کو دوبالا کرنے میں غالب کے فکر و فن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ذیل میں مشتاق احمد یوسفی کی چاروں تخلیقات کی تاریخی ترتیب کے حوالے سے غالب سے ذہنی روابط کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی کتاب چراغ تلے (۱۱) سے مثالیں جن کی تعداد تیس(۳۰) ہے، پیشِ خدمت ہیں۔

سو پشت سے پیشہ آبا، سپہ گری کے سوا سب کچھ رہا ہے۔ ص ۱۰

تصانیف: چند تصویر بتاں، چند مضامین و خطوط ص ۱۲

میری رائے میں جس شخص کو پہلا پتھر پھینکتے وقت اپنا سر یاد نہیں رہتا ص ۱۴

’’پڑیے گر بیمار ‘‘ (مضمون ) تو کوئی نہ ہو تیمار دار؟۔۔ ۔۔ مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو۔ ص۱۶

غالب کے طرف دار یہ کہیں کہ۔۔ ۔۔ دردِ لا دوا کی لذت ص ۱۶، ۱۷

’’تقریب بہر ملاقات ‘‘ کے سوا کچھ نہ تھی ص ۱۸

علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی ص ۱۸

اگر اس غول میں آپ کو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آئیں تو میری خستگی کی داد دینے کی کوشش نہ کیجیے۔ ص۱۹

قوتِ برداشت اتنی بڑھ گئی تھی کہ کڑوی سے کڑوی گولیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔ ص ۳۹

پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے کہص ۷۰

جو سن نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے، جو ہم نہ ہوتے تو غم نہ ہوتا ص ۷۳

موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال ص ۷۴

ہم داد کے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب ص ۸۱

جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع ہے وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلیں۔ ص ۸۱

تلخیِ کام و دہن۔ ص ۸۳

اگر آپ کو کوئی کھانا بے حد مرغوب ہے جو چھڑائے نہیں چھوٹتا تو تازہ واردانِ بساط مطبخ اس مشکل کو فوراً آسان کر دیں گے۔ ص ۸۸

کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے !ص ۹۰

چند لمحوں بعد مرزا اپنے نقشِ فریادی کو سینے سے چمٹائے میرے پاس آئے۔ ص ۹۹ چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گلِ نغمہ سمجھتا ہوں، نہ پردۂ ساز اور نہ اپنی شکست کی آواز ص ۱۰۳

ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے ص ۱۰۵

کرکٹ در اصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتا ہے۔ ص ۱۱۶

غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ ص ۱۱۷

بات کرنے پر دشمنوں کی زبان کٹتی ہے ص ۱۲۲

شام کو عموماً اتنی اوس پڑتی ہے کہ آپ اوک سے پانی پی سکتے ہیں۔ ص ۱۵۰

مرزا غالب کے قویٰ مضمحل ہوئے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تن درستی نام ہے عناصر میں اعتدال کا! ص ۱۵۱

کاغذی ہے پیراہن (مضمون) ص ۱۵۶

آئے ہے جز میں نظر کل کا تماشا ہم کو !ص ۱۵۶

وہ اک دہن کہ بظاہر دہانے سے کم ہے۔ ص ۱۵۹

عید نظارہ ہے تصویر کا عریاں ہونا ص ۱۶۴

زوالِ آدم سے لے کر اس وقت تک واماندگی شوق یہ پناہیں تراشتی رہی ہے۔ ص ۱۶۴

اب ذیل میں دوسری کتاب ’ خاکم بدہن ‘ میں شامل غالبیات کے عناصر کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ (۱۲)جن کی تعداد بائیس (۲۲) ہے۔

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد (دیباچہ)ص ۷

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا (دیباچہ )ص ۹

ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانوں (دیباچہ) ص ۱۲

چنانچہ جگرِ لخت لخت کو پھر جمع کیا (دیباچہ) ص ۱۵

کتابیں رکھنے کے گناہ گار ضرور تھے۔ طوعاً و کرہاً بیچ بھی لیتے تھے۔ لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر ص ۲۷

اگر اس وقت ہمارے دُم ہوتی تو ایسی ہلتی کہ پھر نہ تھمتی ص۴۴

(کتا) جوان تھا تو راہ چلتوں کا پنجے جھاڑ کر ایسا پیچھا کرتا کہ وہ گھگھیا کر قریب ترین گھر میں گھس جاتے اور بے آبرو ہو کر نکالے جاتے۔ ص ۵۶

نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا ص ۷۷

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ص ۸۷

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ( مضمون) ص ۱۱۷

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی اور دن؟ ص ۱۲۲

چہرہ فروغِ مے سے گلستان کیے ہوئے ص ۱۵۴

صاحب ! جلوہ گری میں کوئٹہ سے کم نہیں

وہی نقشہ ہے ولے اِس قدر آباد نہیں ‘‘ ص ۱۶۱

تمام رات ہماری یہ دُہری ڈیوٹی رہی کہ دامِ شنیدن بجھائے بیٹھے رہیں ص ۱۶۹

وہ اِک گُنہ جو بظاہر گناہ سے کم ہے۔ ص ۱۷۶

آبروے شیوہ اہلِ نظر گئی ص ۱۷۸

دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے ص ۱۷۸

مرزا کا ذکر، اور پھر بیاں اپنا ص۱۸۶

چند تصویرِ بتاں ( مضمون) ص ۱۸۹

حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی ص ۱۹۲

وہ جاتی تھی کہ ہم نکلے ص ۱۹۹

اسد اللہ خاں قیامت ہے !ص ۲۱۲

تیسری کتاب ’’ زر گزشت ‘‘ میں خاکم بدہن کی نسبت غالبیاتی عنصر زیادہ ہے (۱۳)جن کی تعداد اٹھائیس (۲۸) ہے۔

پکڑے جاتے ہیں بزرگوں کے کیے پر ناحق ص ۱۲

شہروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ص ۱۲

حُسن خود بین و خود آرا جب ۴۳ نمبر کے مشمولات کا ۳۴ نمبر کے سوئٹر میں خلاصہ کر کے آئینہ دیکھتا ہے تو حیا کی سرخی رخساروں پر دوڑ جاتی ہے ص ۱۹

یہ موقع اس کے دامن کو ظریفانہ کھیچنے کا نہیں تھا ص ۲۷

ہم نے تا دم تقریر و تقرر ص ۲۷

بقول غالب، پیشہ میں عیب نہیں۔ ص ۳۹

پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ ص ۴۰

ایک تیر تو نے مارا جگر میں کہ ہائے ہائے۔ ص ۵۶

یہاں ان کے طرہ پُر پیچ و خم کے سارے پیچ و خم ایک ایک کر کے نکالے جاتے۔ ص ۶۸

نشاط سے کس روسیاہ کو غرض تھی ص ۶۹

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں ص ۷۶

قیس تو قیس لیلیٰ بھی تصویر کے پردے میں سے عریاں نکلتی ص ۷۶

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے! ص ۱۱۷

گو دانت کو جنبش نہیں۔۔ ۔۔ ص ۱۳۵

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ص ۱۳۵

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ گھر بگڑے ص ۱۴۰

نا کردہ گناہوں کی اسِ ناگفتی فہرست ص ۱۴۰

رہ گیا، تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری، ہائے ہائے ص ۱۴۰

ہم بیٹھے انتظارِ ساغر کھینچتے رہے ص ۱۴۱

وہ اک نگہِ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے ص ۱۶۰

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو (عنوان) ص ۱۷۹

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِترانا (عنوان) ص ۱۷۹

سینۂ ہمشیر سے باہر ہے دَم ہمشیر کا ص ۲۰۷

واقعہ سخت تھا پر اہل و عیال کی جان بھی عزیز تھی ص ۲۲۴

ہے خبر گرم ان کے جانے کی ص ۲۴۶

مجموعۂ اغلاط ہے دنیا مرے آگے ص ۲۵۳

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا ص ۲۵۷

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔ وہ کافر تھا، گنہگار نہیں ص ۲۶۰

اور اب آخر میں ’’ آب گم‘‘ (۱۴)سے مثالیں جو نہ صرف مشتاق احمدیوسفی کی شاہکار تصنیف ہے بلکہ اس میں غالیباتی عنصر دیگر سبھی تصانیف سے زیادہ ہے اور اس کی تعداد ۷۶ ہے۔ ’’آب گم‘‘ کا پہلا حصہ ’’حویلی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں جو کردار تخلیق کیا گیا ہے اس کا نام ’’قبلہ‘‘ ہے۔ اس کردار کے سوانح غالب کے سوانح سے ناقابل یقین حد تک ملتے ہیں۔ غالب کی طرح قبلہ بھی اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے ہیں، سپاہی بچہ ہونے پر ناز ہے، مزاج کی کیفیت، ایام اسیری کی روداد، جوئیں پڑنا، بیماری اور موت کے متعلق پیش گوئیاں وغیرہ، قبلہ کے ایسے حالات ہیں جو حالات غالب کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ غالب کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کی انا ہے۔ قبلہ میں بھی بلا کی ضداور انا پائی جاتی ہے۔ گو یہ الگ بات ہے کہ غالب عیار طبع خریدار دیکھ کر اپنی انا میں لچک بھی پیدا کر لیا کرتے تھے۔ اب مثالیں ملاحظہ ہوں:

یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے، سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے ص۱۵

کچھ اندیشۂ ہائے دور دراز بھی ستانے لگے ص۱۹ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں ص۱۹

شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے۔ ص۲۰

یہ نہ ادعا ہے، نہ اعتذار، فقط گزارش احوال واقعی ہے۔ ص۲۲

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد ص۲۷

سیر بھر اصلی گھی ص ۴۴

بے آبرو ہوتے ہوئے گاہک کو ص ۴۵

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ص ۴۵

ننگِ خلائق، ننگ اِسلاف ص ۵۱

ماورا ء النہری اور خیبر کے اس پار سے ص ۵۲

جانگسل ص ۵۳

ہوں لائقِ تقریر پہ الزام غلط ہے ص۵۷

میں سپاہی بچہ ہوں۔۔ ۔۔ دوکان داری میرے لیے کبھی ذریعۂ عزت نہیں رہی۔ ص ۶۰

ایام اسیری اور جوں کا ’’ بلڈ ٹیسٹ ‘‘ ص ۶۰

کو کبھی جیل نہیں کہتا۔ زنداں کہتا ہے ص ۶۴

’’منفعل ‘‘ ہو گئے قویٰ غالب اب عناصر میں ’’ ابتذال کہاں ص ۷۰

واماندگیِ زیست نے ماضی میں اپنی پناہیں تراش لیں ص ۷۰

گویا البم کھل گیا ص ۷۰

مردم نا شناس ص ۷۰

بی بی مصلے پر ایسی بیٹھیں کہ دنیا میں ہی جنت مل گئی۔ قبلہ کو نماز پڑھتے کسی نے نہیں دیکھا۔ ص ۷۴

اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز ص ۸۳

خواب نیم روز ص ۸۴

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ص ۸۷

جو اس عالمَ آب و گل میں بآسانی دستیاب ص ۸۷

جیسے گھوڑے کے بغیر ان کے سارے کام بند ہیں ص ۹۰

گویم مہمل و گر نہ گوہم مہمل ص ۹۰

بر سبیلِ تضحیک ص ۹۳

دم واپسیں لبوں پر مسکراہٹ ص ۹۳

مئے مرد افگن ص ۹۷

انگبیں کے بحکم ربِ الناس بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس ص ۱۱۳

عالم تمام حلقۂ دامِ عیال ہے ص ۱۱۷

جیسے ہی گھوڑا آ رہا ہے ! کا غلغلہ بلند ہوتا تو جس کو دین و دل یا کچھ اور بھی عزیز ہوتا راستہ چھوڑ کر تماشا دیکھنے دور کھڑا ہو جاتا۔ ص ۱۲۳

اچانک تھیٹر کی یاد آئے تو گھوڑے کو اسپ، گویے کو رامش گر اور خود کو روسیاہ کہنے لگتا۔ ص ۱۲۵

کچھ اور چاہیے وسعت مرے میاں کے لیے ص ۱۳۵

ہر سال یکم جنوری کو اپنا قطعہ تاریخِ وفات کہہ کر رکھ لیتے جو بارہ تیرہ سال سے شرمندۂ تعبیر ہونے سے محروم تھا ص ۱۳۶

تاہم حق مغفرت کرے، عجب پابندِ محاورہ و روزمرہ مرد تھا ص ۱۳۷

اپنی جوانی کا ذکر آتے ہی تڑپ اٹھتے ’’اک تیر تو نے مارا جگر میں کہ ہائے ہائے‘‘ ص ۱۳۸

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ص ۱۵۱

انتظارِ صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا ص ۱۶۷

کہ بنے دوست ناصح (عنوان) ص۱۶۷

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو ص ۱۷۶

۔۔ ۔۔ قصور اپنا نکل آیا ص۱۷۷

اس قطع تعلق کے باوجود، اسے کم از کم حجامت کے لیے آنے کی تو اجازت دی جائے ص ۱۹۳

اندیشہ ہائے فریب ص ۱۹۶

کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی ص ۲۰۵

نہ ہوئی غالب اگر عمر طبعی نہ سہی ص۲۱۵

مگر ایک پشتو گیت ان کا فیورٹ تھا جس کا روز ابر و شب ماہتاب میں خون کرتے تھے۔ ص ۲۱۵

زیست مہمل ہے اسے اور بھی مہمل نہ بنا ص ۲۱۵

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے سرپہ ہے ص ۲۱۹

اک عمر سے ہوں لذتِ نسیاں سے بھی محروم۔ ص ۲۳۹

کمروں کی تعمیر میں خرابی کی ایک سے زیادہ صورتیں مضمر تھیں ص ۲۴۲

خواب نیم روز ص ۲۶۱

کون بھَڑوا کہتا ہے کہ بشیر لا ولد ہے۔ ص۲۹۳

پھر انہوں نے دوڑ دوڑ کر اپنا دفترِ لخت لخت اس طرح جمع کیا جس طرح لونڈے پتنگ لوٹتے ہیں۔ ص ۳۰۰

نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں ’’شمار‘‘ ہوتا۔ ص۳۰۳

وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے ص۳۰۶

غالب کی خواہش کہ ’’ گلیوں میں میری لاش کو کھینچے پھرو کہ میں۔۔ ۔۔ ۔ غالب نے کیسی ظالم بات کہی ہے۔ حیف کافر مُردن و آدخ مسلمان زیستن۔ یعنی پروردگار ! مجھے کافروں کی طرح مرنے اور مسلمانوں کی طرح جینے سے بچا۔ سب کچھ سات لفظوں کے ایک مصرع میں سمو دیا۔ ص ۳۱۰

شعرا بطور استعارہ یعنی ناکردہ وصل کی حسرت کے الزام میں خود کو معشوق کے ہاتھوں قتل کروانے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ ص ۳۱۲

اے مرگِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے؟ص ۳۲۲

عیش و غم درد دل نمی استد، خوشا آزادگی بادہ و خو نابہ یکسانست در غربالِ ما

( غالب کہتا ہے، عیش اور غم دونوں ہمارے دل میں نہیں ٹھہر پاتے۔ ہماری آزاد منشی کے کیا کہنے۔ ہماری چھلنی کے لیے شراب اور خون دونوں برابر ہیں یعنی دونوں چھن کر نکل جاتے ہیں۔ ص ۳۲۶

بیدلی ہائے تمنا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق ص۳۲۶

صد رفیق وصد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ داورا ! نمی زیبد بال وپر بمن تنہا

یعنی میرے سب رفیق اور سب ہمدم پر شکستہ اور دل تنگ ہیں۔ اے خدائے عادل ! مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ تنہا مِرے ہی بال و پر ہوتے۔ ص۳۲۷

دیکھیں کیا گزرے ہے خدشے پہ خطر ہونے تک ص۳۳۰

پر طبیعت ادھر نہیں آتی ص۳۳۲

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ص۳۴۶

خس خانہ و برفاب ص ۳۵۵

گنجینہ معنی کا طلسم دکھاتا ہوں ص۳۶۰

جس کو ہو دین و دل عزیز میرے گلے میں آئے کیوں ص ۳۶۱

اب ایسے استاد کہاں سے لائیں ص۳۶۳

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام ایک عقدِ نا گہانی اور ہے ص۳۸۵

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہاں میں غالب جو جاگنے کو ملا دیوے آ کے خواب کے ساتھ ص ۳۸۸

خود بین و خود آرا خواتین ص۳۹۱

تیرے کوچے سے ہم نکلے ص۳۹۶

سگِ مردم گزیدہ ص۴۰۲

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ یہ بے ننگ و نام ہے ‘‘ ! ص۴۰۳

 

مذکورہ بالا مثالوں سے اِس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے فن میں ’’غالبیات‘‘کس حد تک رچا بسا ہوا ہے۔ یوسفی نے اپنی اولیں تخلیق ’’چراغ تلے ‘‘ میں اپنی پسند کے بارے میں برملا کہا ہے کہ میری پسند ’’غالب، ہاکس بے اور بھنڈی‘‘ ہے۔ ظاہر ہے پسندیدہ شخصیت کے اثرات بھی پسند کرنے والے دل و دماغ پر بھی مرتسم ہوتے ہیں۔ مزاح کے حربوں میں تحریف نگاری ایسا ہتھیار ہے جس میں جمع خرچ تو دوسروں کا ہوتا ہے لیکن تحریف نگار اپنی ہنر مندی سے جِلا اپنے فن کو بخشتا ہے۔ اِس ضمن میں یقیناً مشتاق احمد یوسفی ایک کامیاب ترین تحریف نگار ٹھہرتے ہیں۔

***

حواشی

 

۱۔ صدیق جاوید، اقبال کی مذکور کتابیں، مشمولہ ماہنامہ ’’کتاب‘‘ لاہور، اقبال نمبر، شمارہ نومبر۱۹۷۳ء ص۳۷

۲۔ نظیر صدیقی، میرے خیال میں، بزم اردو مشرقی پاکستان، ڈھاکا، ۱۹۶۸ء،ص ۳۶۵

۳۔ طارق سعید، اسلوب اور اسلوبیات، لاہور: نگارشات پبلشرز، ۱۹۹۸ء،ص ۳۸۱

۴۔ ایضاً ص ۳۸۴

۵۔ سہیل احمد خاں، مجموعۂ سہیل احمد خاں، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۹ء،ص ۲۵۹، ۶۰

۶۔ انور سدید، غالب کا جہاں اور، کاروانِ ادب، ملتان ۱۹۸۶ء،ص ۴۱

۷۔ پروفیسر محمد حسن، ’’ غالب صدیوں کے آئینے میں ‘‘ مشمولہ جہات غالب (مرتب) ڈاکٹر عقیل احمد، شاہد پبلی کیشنز، لاہور، ص ۱۳

۸۔ پروفیسر کلیم الدین احمد، اردو ادب میں طنزو ظرافت، مشمولہ، ’’نقوش ‘‘ طنزو مزاح نمبر، جنوری، فروری ۱۹۵۸ء ص۔ ۶۳

۹۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، اردو نثر میں طنز و مزاح بیت الحکمت، لاہور، ۲۰۰۴ء ص۔ ۴۰

۱۰۔ ڈاکٹر وزیر آغا ’’ پطرس کی تحریف نگاری، مشمولہ ’’ نقوش ‘‘۔ پطرس نمبر، مئی ۱۹۵۹ء ص ۱۵۸

۱۱۔ مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے، مکتبہ دانیال، کراچی، اشاعت چودھویں بار

۱۲۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ خاکم بدہن، مکتبہ دانیال، کراچی، اشاعت چودھویں بار، ۲۰۰۰ء

۱۳۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ زرگزشت، جہانگیر بُکس، لاہور، س۔ ن۔

۱۴۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ آب گم، جہانگیر بُکس، لاہور، س۔ ن۔

 

کتابیات

اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر، اردو نثر میں طنز و مزاح، لاہور: بیت الحکمت، ۲۰۰۴ء

انور سدید، غالب کا جہاں اور، کاروان ادب، ملتان، ۱۹۸۶ء

سہیل احمد خاں، مجموعۂ سہیل احمد خاں، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء طارق سعید، اسلوب اور اسلوبیات، لاہور: نگارشات پبلشرز، ۱۹۹۸ء عقیل احمد، ڈاکٹر (مرتب) جہات غالب، لاہور: شاہد پبلی کیشنز، س۔ ن

نظیر صدیقی، میرے خیال میں، ڈھاکا: بزم اردو مشرقی پاکستان، ۱۹۶۸ء

یوسفی، مشتاق احمد، چراغ تلے، کراچی: مکتبہ دانیال، اشاعت چودھویں بار

یوسفی، مشتاق احمد، خاکم بدہن، کراچی: مکتبہ دانیال، اشاعت چودھویں بار۲۰۰۰ء

یوسفی، مشتاق احمد، زرگزشت، لاہور: جہانگیربکس، س۔ ن

یوسفی، مشتاق احمد، آب گم، لاہور: جہانگیربکس، س۔ ن

 

رسائل

نقوش، طنز و مزاح نمبر، جنوری، فروری، ۱۹۵۸ء

نقوش، پطرس نمبر، مئی، ۱۹۵۹ء

ماہنامہ کتاب، لاہور، اقبال نمبر، شمارہ نومبر، ۱۹۷۳ء

(ماخذ: مجلہ ’خیاباں‘

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے