اس نے اردو مزاح کو اس مشکل مقام پر پہنچا دیا ہے جس سے آگے لے جانا کسی دوسرے مزاح نگار تو کیا اس کے اپنے بس میں بھی نہیں۔ میرا دوست مسٹر انوتو تو یہاں تک کہتا ہے کہ یہ کتابیں اس کی اپنی لکھی ہوئی ہی نہیں ہیں جس کا جواز اس کے پاس یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں ملزم مصنف نے خود لکھی ہیں تو ایسی دو تین کتابیں اور لکھ کے دکھائے۔
اس نے بعض شعراء کے متعدد اشعار اور مصرعوں کو ہلکے سے رد و بدل سے اپنی تحریروں میں یوں استعمال کیا ہے کہ اب وہ اشعار اور مصرعے اصل شعرا کے معلوم ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ بعض مصرعوں کو تو جوں کا توں قبضے میں لے لیا ہے۔
ایک مثال دیکھئے۔
بینک میں لکھتے سب انگریزی میں تھے، گفتگو اردو میں، لیکن گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں ہی دیتا:
زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
یہ مصرع جب بھی سنیں گے آتش یاد آئے نہ آئے، مشتاق یوسفی ضرور یاد آئے گا یعنی چوری اور دماغ زوری۔
اس نے اردو زبان کے محاورات، ضرب الامثال اور روز مروں کو اس مہارت سے بگاڑا ہے کہ اب وہ اپنی اصلی شکل میں مزا ہی نہیں دیتے۔
اس نے بعض نامور لکھنے والوں کے اسالیب کو نہایت چالاکی سے گھلا ملا کر ایک ملغوبہ تیار کیا اور اسے کئی آتشہ کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔
اس نے قارئین کو اپنی تحریروں کے ذریعے ایسا نشہ فراہم کیا ہے کہ جو بندہ ان کو سمجھ کے پڑھ یا پڑھ کر سمجھ لیتا ہے اس کا کسی اور مزاحیہ تحریر میں دل ہی نہیں لگتا۔
لوگ اس کی کتابیں اتنی بے دردی سے خرید اور بیچ رہے ہیں جس سے کئی دوسرے لکھنے والوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔
٭٭٭