وڈے زمیندار کی حویلی تک جانے والی پتلی سڑک اس وقت ایک میلے کا سا منظر پیش کر رہی تھی۔ لوگوں کا ایک اژدحام تھا جو امڈا چلا آ رہا تھا۔ قریب و دور کے دیہات سے بسوں اور ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے گئے عوام جن میں بچے بوڑھے جوان اور مرد عورتیں سب شامل تھے ایک سمندر کی شکل میں حویلی کی جانب رواں دواں تھے۔ دونوں اطراف سے گھنے درختوں میں گھرا تمام راستہ رنگ برنگی جھنڈیوں سے مزیّن تھا۔ جگہ جگہ منچلے ڈھول باجے کی دھن پر دھمال اور لڈیاں ڈال رہے تھے۔ شور و غل اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
وڈا زمیندار بغیر چھت کی جیپ میں سوار سر پر روایتی اونچی پگڑی پہنے ہاتھ ہلا ہلا کر اور تالیاں بجا بجا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ جیپ کے پیچھے آنے والی مرسڈیز میں اس کی بیوی اور جواں سال بچے سوار تھے۔ ان دونوں گاڑیوں کے آگے اور پیچھے کئی گاڑیاں تھیں جن میں اس کے حفاظتی دستے کے علاوہ قرب و جوار کے نامی گرامی زمیندار اور اس کے خیرخواہ شامل تھے۔ گاڑیوں کا یہ کارواں جلوس کے درمیان میں سے راستہ بناتے ہوئے آہستہ روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔
اب حویلی کلو میٹر بھر ہی کے فاصلے پر تھی جس کا اندازہ ہجوم کی دم بہ دم بڑھتی ہوئی رفتار سے لگایا جا سکتا تھا.حویلی کی دائیں جانب کھلے میدان میں لگی درجنوں دیگوں سے بریانی کی خوشبو ہجوم تک پہنچنا شروع ہو گئ تھی۔
آج کا دن وڈے زمیندار کی زندگی کا خوش قسمت ترین دن تھا۔ آج پنچایت نے اس کے حق میں فیصلہ دے کر نہ صرف یہ کہ ایمانداری اور سچائی کا ڈھول پیٹنے والوں کا منہ بند کر دیا تھا بلکہ اس کی سال بھر سے سولی پر لٹکی زندگی میں سکون بحال کر دیا تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد اس کی مسند پر بیٹھ کر گزشتہ تیس برسوں میں وہ اس قدر ذلیل و خوار نہیں ہوا تھا جس قد رپچھلے ڈیڑھ برس کے دوران ہوا تھا اور وہ بھی چند سر پھرے نوجوانوں کے ہاتھوں جو تھے تو مزارعوں اور کمی کمین کی اولاد لیکن شہروں میں جا کر کالجوں یونیورسٹیوں سے دو ٹکے کی ڈگریاں لے کر جامے سے باہر ہو گئے تھے۔
اس سارے کئے دھرے کے پیچھے امجد گورے کا ہاتھ تھا ورنہ جاہل اور جدی پشتی مزارعے ایسی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تھے کہ وڈے زمیندار کے سامنے کھڑے بھی ہو سکتے۔ اور جن ڈگریوں کے بل بوتے پر یہ لوگ وڈے زمیندار کے منہ لگ رہے تھے وہ بھی اس کے قرضوں کی خیرات تھی جو ان کے والدین نے زمینیں گروی رکھوا کر ان کی تعلیم کے لئے حاصل کئے تھے۔
وڈا زمیندار قرض دینے میں بڑا کشادہ دل مشہور تھا۔ اس کے در سے کوئی قرض خواہ خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا چاہے وہ اس کے اپنے گاؤں کا ہوتا یا کسی دوسرے گاؤں کا۔ اور وہ قرضے بھی بغیر سود کے دیتا تھا۔ وہ سود کو حرام سمجھتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اپنے گاؤں سمیت آس پاس کے بے شمار دیہاتوں کا ہر تیسرا چوتھا شخص اس کا قرض دار تھا۔ ہاں البتہ ادائیگی کے لئے قرضے کی مالیت سے دس گنا زیادہ ضمانت حاصل کرتا تھا وہ چاہے ڈھور ڈنگر ہوتا، زیورات ہوتے یا زمین کا کوئی ٹکڑا ہوتا اور یہ سب کچھ سالہا سال سے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہا تھا کہ حالات نے اچانک پینترا بدلا۔
کوئی ڈیڑھ برس پہلے اختر بھولا وڈے زمیندارکی خدمت میں حاضر ہوا اور قرض کی واپسی کے لئے سال بھر بڑھانے کی مِنّت کی۔ اختر نے زمین کا جو ٹکڑا گروی رکھا ہوا تھا وہ کئی پیڑیوں سے ہوتا ہوا اس تک پہنچا تھا اور وہ اسے کسی صورت کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اختر بھولے کا بیٹا امجد گورا ڈگری تو حاصل کر چکا تھا لیکن ابھی اسے نوکری نہیں ملی تھی۔ وڈے زمیندار کی دی ہوئی مدت یونہی گزر گئی تو اختر بھولے کو زمین کے لالے پڑ گئے لیکن وڈا زمیندار نہ مانا اور گروی زمین ساتھ والے گاؤں کے چودھری حکم داد کے ہاتھ فروخت کر دی۔
اختر بھولا اپنے پُرکھوں کی زمین کھونے کا غم برداشت نہ کر سکا اور مہینہ بھر کے لئے بستر سے لگ کر اگلے جہاں کوچ کر گیا۔
بس یہی سے وڈے زمیندار کا ستارہ گردش میں آ گیا اور وہ جس کے سامنے کوئی سر اٹھا کر بات کرنے کا تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا سینہ تان کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اور لوگوں کے رویوں میں اس انقلابی تبدیلی کا ذمہ دار امجد گورا تھا۔ گھر گھر جا کر جانے اس نے لوگوں پر کیا جادو کیا کہ وہ سب وڈے زمیندار پر انگلیاں اٹھانے لگے۔ جس جس کی زمین قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وڈے زمیندار نے بیچ دی تھی وہ زمین یا اس کی قیمت کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگا۔
امجد گورا جو کالج کے دنوں میں سٹوڈنٹس یونین کا لیڈر رہ چکا تھا اور فر فر انگریزی بولنے کی وجہ سے گورا مشہور ہو گیا تھا، نہ صرف گاؤں گاؤں جانا پہچانا جانے لگا بلکہ اس کی شہرت شہروں تک پہنچ گئی۔ جس قدر امجد گورا مقبول ہوتا گیا اسی قدر وڈے زمیندارکی مٹی پلید ہوتی گئی۔ میڈیا والوں نے گاؤں کا رستہ کیا دیکھا کہ وڈے زمیندار کی زندگی عذاب ہو گئی۔ اس کی گزشتہ تیس برسوں کی کارستانیوں کے پول کھلنے لگے۔ برسہا برس سے بند فائلیں جو اس کے کرتوتوں کے ساتھ ساتھ انتقال اراضی کی بد عنوانیوں سے اٹی پڑی تھیں ایک ایک کر کے منظرِ عام پر آنے لگیں۔ بکاؤ پٹواریوں کے گوشوارے اخباروں کی زینت بننے لگے۔
وڈا زمیندار عیاش نہیں تھا لیکن دولت اوراقتدار کا دیوانہ تھا اور ان دونوں کے حصول کے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈا بلا جھجک استعمال کرتا تھا۔ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ایک تو بیشتر لوگ اس کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور دوسرا اس کے ہاتھ بڑے لمبے تھے اور ملک کی کئی سیاسی شخصیات کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ کئی سالوں سے پنچایت کا سرپنچ بھی تھا۔ یاروں دوستوں، بزنس پارٹنرز اور کاروباری و قانونی معاملات چلانے کے لئے ملازمین کی صورت میں اس نے غنڈوں بدمعاشوں کی ایک کھیپ بھی پال رکھی تھی جو اس کے ایک اشارے پر جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔
امجد گورے کی قیادت میں اودھم مچانے والے ٹولے کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ وڈا زمیندار نہ صرف برسوں سے اور دھوکہ دہی سے ہضم کی ہوئی زمینیں اصل مالکان کو واپس کرے بلکہ ان زمینوں سے اب تک موصول ہونے والی آمدنی جس سے اصل مالکان محروم رہے، وہ بھی ادا کرے۔
پہلے تو کافی عرصے تک یہ مطالبہ محض ایک مذاق سمجھا گیا اور دولت اور طاقت کے نشے میں چور وڈے زمیندار نے اس پر کان نہیں دھرا لیکن پھر جب مطالبے نے ایک با قاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر لی اور امجد گورا یہ سارا معاملہ عدالت لے جانے کی تیاری کرنے لگا تو وڈے زمیندار کو اچانک حالات کی سنگینی کا احساس ہو گیا۔ قانونی کاروائی ایک ایسا معاملہ تھا جو اس کے لئے دلدل ثابت ہو سکتا تھا۔ اسے فکر لاحق ہو گئی۔
بڑے غور و فکر اور باہمی صلاح مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اب امجد گورے کا راستہ روکنا ضروری ہو گیا ہے لیکن پسِ پردہ رہ کر تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ وڈا زمیندار ڈر گیا ہے یا اس کے دل میں چور ہے۔ یوں امجد گورے کے خلاف باقائدہ ایک محاذ کھول دیا گیا۔
سب سے پہلے تو اس نے چن چن کر اپنے مخالفین کو یا تو اونے پونے خرید لیا اور یا جو بکے نہیں ان کو ڈرا دھمکا کر امجد کی حمایت سے دستبردار کروا لیا۔ چند ایسے سر پھروں سے بھی اس کا واسطہ پڑا جو نہ بکاؤ تھے اور نہ ہی ڈرنے والے تھے۔ ایسے ہٹ دھرموں میں سے ایک کو مروا کر اسے ذاتی دشمنی کا رنگ دے دیا گیا۔ آخر پولیس میں بھی تو اس کے تنخواہ دار تھے۔ قریب تھا کہ وہ امجد گورا گروپ پر حاوی ہو جاتا کہ حالات نے ایک نیا موڑ لیا اور اوپر تلے دو ایسی خبریں آئیں کہ جن کی وجہ سے اس کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔
پہلی خبریہ تھی کہ ملک کے چند با اثر وکلاء نے امجد گورے کو اپنی خدمات مفت میں آفر کر دیں۔ یہ ایک انتہائی پریشان کن خبر تھی جس کا فی الفور توڑ ضروری تھا۔ وڈا زمیندار ابھی اس نئی افتاد سے نبٹنے کی تدبیر ہی کر رہا تھا کہ میڈیا نے ایک اور ایسی دھماکہ خیز خبر دی کہ اس کی راتوں کی نیندیں ہی حرام کر دیں۔ خبر یہ تھی کہ وڈے زمیندار کی محل نما حویلی کے تہہ خانے کی الماریاں ڈالروں سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک ایسا راز تھا جواس نے اپنے فرشتوں سے بھی چھپا رکھا تھا۔ یہ بات اچانک باہر کیسے پہنچی اس کا سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی اب اس کے پاس اتنا وقت تھا کہ اس کی ٹوہ میں لگ جاتا۔ البتہ کاکا کرمو جو اس کا موروثی نوکر تھا اور جس کے ہاتھوں میں وہ پلا بڑھا تھا، اس کے مشورے پر اس نے اپنی محل نما حویلی میں جدید طرز کا سکیورٹی سسٹم لگوایا اور نوکروں کی فوج ظفر موج کی چھٹی کر دی۔
اب سب سے اہم مرحلہ قانون کی گرفت سے بچنا تھا۔ دوستوں، مشیروں اور قانون کے ماہرین وغیرہ سے مشاورت کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ قانونی محاذ آرائی سے بچاؤ کا اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ کہ وہ خود اپنے آپ کو محاسبے کے لئے پیش کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مقدمہ دہی طرز زندگی اور رسم و رواج کے مطابق عدالت میں نہیں بلکہ پنچایت میں ہو۔ اسے اس بات کا بھی پوری طرح سے احساس تھا کہ امجد گورا گروپ کو اس پر راضی کرنا اگرنا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گا۔ لیکن اس کا یہ مسئلہ خلاف توقع چند کروڑ میں حل ہو گیا اور وہ امجد کے دو قریبی ساتھیوں کو خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس طرف سے مطمئن ہو کر وڈے زمیندار نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو پنچایت کے سامنے محاسبے کے لئے پیش کر دیا بلکہ سرپنچ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کر دیا۔
توقع کے عین مطابق امجد گورا گروپ نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور خوب ہنگامہ کیا۔ میڈیا نے بھی اس کا خوب ساتھ دیا لیکن آخر میں جب اس کے اپنے گروہ میں دراڑ پڑ گئی اور وڈے ذمیندار کی حمایت اور مخالفت میں دو گروپ بن گئے تو امجد گورے کو وڈے زمیندار کی شرط کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔
دونوں گروپوں کی باہمی مفاہمت اور رضا مندی سے پنچوں کا انتخاب ہوا اور دونوں کے اس عہد نامے کے ساتھ کہ پنچایت کا فیصلہ بلا تردّد سب کو منظور ہو گا، مقدمے کا آغاز ہوا۔
پنچایت بیٹھی اور تین دن تک مسلسل بحث ہوتی رہی۔ دونوں پارٹیاں اور ان کے حمایتی خوب بڑھ چڑھ کر بولے بلکہ چینخے چلائے۔ پنچوں نے بھی سب کو خوب کھل کر بولنے کا موقع دیا۔ پنچایت کی ساکھ بھی تو رکھنا تھی۔ دونوں گروپوں کے حامیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد تماش بینوں کی بھی تینوں دن موجود رہی۔ میڈیا نے الگ سے میلہ لگائے رکھا۔
فیصلہ ہوا اور اکثریت کی توقع کے عین مطابق وڈے زمیندار کے حق میں ہوا۔
وڈے زمیندار کو اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ اس نے عوام و خواص کو دعوت عام دے رکھی تھی۔
آج کا یہ ہنگامہ اسی سلسلے کی آخری کڑی تھا۔
حویلی کی جانب بڑھتا ہوا ہجوم اب سڑک کا آخری موڑ مڑ چکا تھا۔ چند سو گز کے فاصلے پر سڑک کے بائیں جانب گھنے قد آور درختوں کی اوڑ میں وڈے زمیندار کی شاندار حویلی غرور سے سر اٹھائے کھڑی تھی۔ لیکن ہجوم کا رخ ناک کی سیدھ میں اختتام پزیر ہونے والی سڑک کے اس طرف کھلے میدان کی جانب ہو گیا تھا جہاں بریانی کی درجنوں دیگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ لوگوں کی اکثریت صبح ناشتہ کر کے گھر سے نکلی تھی اور اب سہ پہر ہو چکی تھی۔ سب کا بھوک سے برا حال تھا۔ بریانی کی دیگوں پر نظر پڑتے ہی کسی سے صبر نہ ہو سکا اور لوگ دوڑ پڑے۔ ایک بھگدڑ مچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دائیں طرف کا کھلا میدان دھول کے غبار میں گم ہو گیا۔ البتہ گاڑیوں کے جلوس کے لئے حویلی کی جانب جانے والا راستہ کھل گیا۔ وڈا زمیندار بھی تھک چکا تھا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے جیسے سکھ کا سانس لیا لیکن۔۔ ۔۔ یہ اس کا آخری سکھ کا سانس تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ وہ گھبرا کر ایک دم سے اٹھا اور ہجوم کی جانب دیکھا لیکن وہاں تو دھول ہی دھول تھی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو اس نے اپنے آگے والی گاڑیوں کی طرف دیکھا لیکن ان سب کی نظریں تو کسی اورسمت میں تھیں۔ ڈوبتے دل کے ساتھ اس نے اپنی حویلی کی طرف دیکھا تو اس میں سے گاڑھے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ حویلی میں دھماکہ۔۔ ۔۔؟ اس کے بدن میں جیسے پارہ بھر گیا اور وہ ایک ہی جست میں جیپ سے نیچے تھا۔ اس کا پاؤں کہیں اٹکا اور وہ منہ کے بل زمیں پر آ رہا۔ اس کے سر پر رکھی طرح دار اونچی پگڑی دور زمین پر گری اور خاک میں اٹ گئی۔ اس کے دونوں گھٹنے سڑک سے رگڑ کھا کر زخمی ہو گئے۔ ماتھے سے بھی خون بہنے لگا۔ اس کا باڈی گارڈ اسے سہارا دینے کے لئے آگے بڑھا لیکن اس کے بوڑھے جسم میں جانے کہاں سے اتنی پھرتی آ گئی کہ وہ اٹھا اور حویلی کی طرف دوڑ پڑا۔ اس کے باڈی گارڈ بھی اس کے پیچھے دوڑے۔
جتنی دیر میں یہ لوگ حویلی کے قریب پہنچے، اس میں سے شعلے بلند ہونا شروع ہو گئے تھے اور آگ کی تپش ان سب تک پہنچ چکی تھی بلکہ ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔
ارے کوئی زمیندار جی کو روکو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پیچھے سے کوئی چیخا
لیکن وڈا زمیندار ایک ہزیانی کیفیت میں چیختے ہوئے دیوانہ وار بھاگ رہا تھا میری دولت۔۔ ۔۔ ۔ میرے ڈالر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ارے کوئی بچاؤ۔۔ ۔۔ میں برباد ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔ میرے ڈالر۔۔ ۔۔ ۔ میرے ڈالر۔۔ ۔۔ اور اب اس کے حلق سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں۔ وہ چیختا جا رہا تھا اور بھاگا جا رہا تھا۔
اور پھر اس سے پہلے کہ اس کا باڈی گارڈ اس تک پہنچتا۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ حویلی کے باہر ہی سے واک آؤٹ تہ خانے (walk-out basement) کی جانب اترنے والی سیڑھیاں اتر چکا تھا۔
قریب ترین فائر سٹیشن بیس کلو میٹر کے فاصلے پر تھا اوپر سے لوگوں کا ہجوم بے کراں، جب تک فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں، پوری حویلی جل کر خاکستر ہو چکی تھی۔
اگلے دن وڈے زمیندار کی بھسم شدہ لاش تہ خانے کی چوکھٹ پر ملی۔ پھر شام ہونے سے پہلے اس کی تدفین بھی ہو چکی تھی۔ اسی دن کے اختتام تک چاچا کرمو تہ خانے میں آگ لگانے کے الزام میں گرفتار ہو چکا تھا۔
٭٭٭