دل کو تڑپایا مرے اُس نے اشارہ کر کے
تھا میں تنہائی میں احباب سے پردہ کر کے
میں سمندر تھا تو ندیاں بھی ملا کرتی تھیں
اپنی اوقات نظر آئی ہے قطرہ کر کے
حالِ دل کون سنے کس کو یہاں ہے فرصت
مل گئی راحتِ دل آنکھ کو دریا کر کے
پاس جو کچھ تھا مرے اس کو گنوا کر دیکھا
خود کو پرکھا ہے یہاں اپنا خسارہ کر کے
کوئی آئے کہ نہ آئے یہ مجھے فکر نہیں
محوِ گفتار ہوں آئینے کو چہرہ کر کے
عیش و عشرت کے وہ لمحات کہاں سے لاؤں
ڈھل گئی عمر غریبی میں گزارہ کر کے
تیری یادوں کے سہارے ہی تو زندہ ہے نوازؔ
اس نے رکھا ہے ہر اک غم کو تازہ کر کے
٭٭٭