مسلم نوازؔ
لگی جو آگ تو اٹھتا ہوا دھواں بولا
زمین بولی نہیں اور نہ آسماں بولا
ہر ایک شخص تھا اپنا بھری عدالت میں
مری رہائی کی خاطر کوئی کہاں بولا
گھنی تھی چھاؤں ذرا سا ٹھہر گیا تھا میں
مرے خلاف مرا میرِ کارواں بولا
سنائی جس کو محبت کی داستاں میں نے
فسانہ عشق کا میرا یہاں وہاں بولا
ڈبو دی میں نے ہی کشتی لپکتی لہروں میں
جو چیخ چیخ کے وہ بحرِ بیکراں بولا
شبِ اخیر یہ کس نے لگائی آگ نوازؔ
مکین کہہ نہ سکے کچھ، مگر مکاں بولا
٭٭٭
pasand aaya