احمد شہریار
(نئے دوست اور عمدہ شاعر ابھیشیک شکلا کی نذر)
چلتا رہا دشتِ جاں میں دریا کا قصہ انہی سے
پلکوں کی تیر آفرینی، آنکھوں کی مشکیزگی سے
میں چاہتا ہوں فضائیں کوئی مرکب بنائیں
مجھ دیدۂ نم کے آنسو اور تجھ لبوں کی ہنسی سے
کب دو پلک سوئیں گے ہم اب صبح تک روئیں گے ہم
نیندوں کی آوارگی پر، خوابوں کی آشفتگی سے
اس بار دونوں ہی گم تھے، یعنی نہ میں تھا، نہ تم تھے
کہتا رہا شور گھر کا، افراد کی خامشی سے
کمرے سے باہر نکلنا رستوں کے ہمراہ چلنا
اُف میری تنہائیوں کا دم گھٹ رہا ہے ابھی سے
صحرا۔ سرابوں کے گھر میں ، پانی تو اب کیا ملے گا
جگمگ چمکتی ہوئی پیاس ملتی ہے دریا دلی سے
٭٭٭