غزلیں ۔۔۔ فریاد آزر

جہاں کے واسطے   سامانِ عبرت کر رہے ہیں

ہم   اپنے نفس کی ایسی   اطاعت کر رہے ہیں

 

کسی کو ایک ہی   سجد ہ میں جنت مل گئی ہے

مگر کچھ لوگ صدیوں سے عبادت کر رہے ہیں

 

ابھی فرصت نہیں مرنے کی تیاری کی ہم کو

ابھی ہم   لوگ جینے   کی حماقت کر رہے ہیں

 

حقیقت   اس   قدر   سنگین   ہوتی جا رہی ہے

نگاہوں سے سنہرے خواب ہجرت کر رہے ہیں

 

نہیں مرغوب   مردہ   بھائیوں   کا گوشت کھانا

تو ہم   پھر کس لئے   غیبت پہ غیبت کر رہے ہیں

 

بھروسا   اٹھ گیا جنت سے کیا اہلِ زمیں کا

اسی   دنیا میں ہی تعمیر جنت کر رہے ہیں

 

ہمارے   صبر   کا   انداز   بدلا جا   رہا ہے

تو   کیا   ہم اپنے قاتل کی حمایت کر رہے ہیں

 

بزرگوں   کی   کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزرؔ

سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں

٭٭٭

 

 

نہ ہو گر خوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہو جنت کا

بھرم کھل جائے پھر ہم جیسے لوگوں کی عبادت کا

 

ملا تھاکل جسے رتبہ جہاں کی بادشاہت کا

تماشہ بن چکا ہے آ ج وہ خود اپنی عبرت کا

 

خدا کو اتنے چہروں میں کیا تقسیم بندوں نے

نظر آتا نہیں اب کوئی بھی امکان وحدت کا

 

جہاں روحانیت اپنی حدوں کو ختم کرتی ہے

وہیں   آغاز ہوتا ہے بدن کی لازمیت کا

 

سبھی جذبات تھے ایوانِ بالا تک پہنچنے کے

خلافت مل گئی تو پھر نہ پوچھا حال امت کا

 

تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے

اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا

 

عجب خود دار تھا کچھ مانگنے میں شرم آتی تھی

لہٰذا وہ چرا لاتا تھا ہر ساماں ضرورت کا

 

مرے اشعارِ بے معیار جیسے بھی ہیں اچھے ہیں

نہیں محتاج میں آزرؔ فصاحت کا، بلاغت کا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے