مقابلے پہ مرے خود مرے سِوا کوئی ہے؟
نبرد ِ ذات سے بڑھ کر بھی معرکہ کوئی ہے؟
کوئی تو ہے مجھے میرے خلاف کرتا ہُوا
سوال یہ ہے وہ میں ہوں کہ دوسرا کوئی ہے
تماشا ختم ہُوا تو کوئی نہ ہوگا یہاں
یہ لوگ دیکھنے والے ہیں، سوچتا کوئی ہے؟
سنا یہ ہے کہ ہے سب کے لیے کوئی نہ کوئی
تو یعنی میرے لیے بھی ہے کوئی،کیا کوئی ہے؟
وہ مجھ بہار سے گزرا تو کھِل اٹھا کیسا
کوئی بتائے کہ ایسا ہرا بھرا کوئی ہے؟
طبیب ِ عشق ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے بتا
مریض ہوں گے، مگر مجھ سا مبتلا کوئی ہے؟
کبھی کہا تو نہیں ہے کہ مجھ سا کوئی نہیں
اگر کہوں بھی تو اِس میں مبالغہ کوئی ہے؟
مرے سکوت میں شامل، میرے سخن میں شریک
حسیں بہت ہیں، مگر اس مزاج کا کوئی ہے؟
جسے توجہ سے وحشت ہو، دلبری سے گریز
تمام شہر میں مجھ ایسا سرپھرا کوئی ہے؟
سخن بغیر کبھی ہو سکا کوئی موجود؟
کوئی امام، پیمبر، ولی، خدا، کوئی ہے؟
وہ میرا یار ِ جنوں خیز کیوں کرے نہ غرور؟
کسی حسین کا اُس سے مقابلہ کوئی ہے؟
ترا خیال تھا کوئی مجھے بچا لے گا
یہ دیکھ ڈوب رہا ہوں میں، چل دکھا، کوئی ہے؟
یہ ہم ہی ہیں، کہ کسی کے اگر ہوئے، تو ہوئے
تمہارا کیا ہے، کوئی ہوگا، کوئی تھا، کوئی ہے
یہ دور وہ ہے کہ جس میں کسی کا کوئی نہیں
کسی کا کوئی نہیں ہے، بتا ترا کوئی ہے؟
جنوں کے ذکر پہ یاد آگیا مجھے عرفان
کہاں چلا گیا، اُس کا اتا پتا کوئی ہے؟
٭٭٭
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آگیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآل ِ عشق ِ انا گیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آگیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزار ِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
٭٭٭