غزلیں ۔۔۔ اشرف نقوی

اُلجھے ہوئے لفظوں کے معانی کی طرح ہوں

میں شہرِ محبت میں کہانی کی طرح ہوں

 

اُتری ہے کوئی شام مضافاتِ بدن میں

دوچار گھڑی لمحہء فانی کی طرح ہوں

 

دریا میں بہاؤ ہے مِرا آب کی صورت

صحرا میں سرابوں کی روانی کی طرح ہوں

 

تجھ کو بھی کوئی کام نہیں حُسنِ عمل سے

اور میں بھی تِری شعلہ بیانی کی طرح ہوں

 

سہما ہوا رہتا ہوں سدا ذات میں اپنی

خوشبو میں مگر رات کی رانی کی طرح ہوں

 

اشرف ہو کسی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو

نمکین کسی بحر کے پانی کی طرح ہوں

٭٭٭

 

چراغ جان کے یونہی جلا لیا گیا تھا

ہمیں بھی طاق کی زینت بنا لیا گیا تھا

 

تمہارے لمس سے محظوظ کس طرح ہوتے

کہ ہم کو خواب سے باہر بلا لیا گیا تھا

 

اِسی لیے تو ابھی تک میں نامکمل ہوں

ادھُورا چاک سے مجھ کو اُٹھا لیا گیا تھا

 

اُتر ہی جاتے کسی ساحلِ مراد پہ ہم

ہمیں ہوا کے بھنور میں پھنسا لیا گیا تھا

 

تھے صرف ہم ہی جو رکھتے تھے دل بھی ، دُنیا بھی

سو آگ پانی کو باہم ملا لیا گیا تھا

 

ابھی تلک ہیں اُسی کے اثر میں ہم اشرف

جو نغمہ وصل کا خلوت میں گا لیا گیا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے