غزلیں ۔۔۔ عالم خورشید

 

               عالم خورشید

 

لطف ہم کو آتا ہے اب فریب کھانے میں

آزمائے لوگوں کو روز آزمانے میں

 

دو گھڑی کے ساتھی کو ہم سفر سمجھتے ہیں

کس قدر پرانے ہیں ہم نئے زمانے میں

 

تیرے پاس آنے میں آدھی عمر گزری ہے

آدھی عمر گزرے گی تجھ سے دور جانے میں

 

احتیاط رکھنے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے

بھید ہم نے کھولے ہیں ، بھید کو چھپانے میں

 

زندگی تماشا ہے اور اس تماشے میں

کھیل ہم بگاڑیں گے، کھیل کو بنانے میں

 

کارواں کو ان کا بھی کچھ خیال آتا ہے

جو سفر میں پچھڑے ہیں راستہ بنانے میں

٭٭٭

 

 

 

تم جس کو ڈھونڈتے ہو یہ محفل نہیں ہے وہ

لوگوں کے اس ہجوم میں شامل نہیں ہے وہ

 

رستوں کے پیچ و خم نے کہیں اور لا دیا

جانا ہمیں جہاں ہے ،یہ منزل نہیں ہے وہ

 

دریا کے رخ کو موڑ کے آئے تو یہ کھلا

ساحل کے رنگ اور ہیں ، ساحل نہیں ہے وہ

 

نغمہ سرا ہے راہ کی دیوار ان دنوں

اب کے کسی کی راہ میں حائل نہیں ہے وہ

 

دنیا کی بھاگ دوڑ کا حاصل یہی تو ہے

حاصل ہر ایک چیز ہے، حاصل نہیں ہے وہ

 

عالمؔ دلِ اسیر کو سمجھاؤں کس طرح

کمبخت اعتبار کے قابل نہیں ہے وہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے