ہماری زندگی میں میڈیا کی جو مستحکم شناخت ہے، اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ ذہن انسانی سے لے کر بنی نوع انسان کی عملی اور روز مرہ زندگی میں میڈیا اپنی تمام تر آلۂ کار کے ساتھ موجود نظر آتی ہے۔ انسان نے اس سے اپنا رشتہ اس طرح لازم و ملزوم کر لیا ہے کہ موجودہ دور میں یہ تمام شعبہ ہائے زندگی پرمسلط ہو چکی ہے۔ میڈیا اور اس کے دیگر Resources سے ہم نے اپنا ایک ناگزیر سا تعلق قائم کر لیا ہے۔ ناول ’’شہر چپ ہے‘‘ اسی حقیقت کو عیاں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
انسانی ذہن کی ترقی اور میڈیا کے بڑھتے ہوئے Network سے آج تمام کائنات ہمارے کمرے تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ لیکن ایک طرف جہاں ہم میڈیا کے فیض سے کامیابی کے زینے طے کرتے جا رہے ہیں ، وہیں دوسری جانب اس کے غلط اثرات و مضمرات سے بچنا لا حاصل ہو گیا ہے۔ اس کا سب سے مہلک، مضر اثر ایک خاص عمر سے تعلق رکھنے والے انسانی ذہن پر پڑ رہا ہے۔ یہاں در اصل نوجوان طبقے کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ طبقہ عمر کی اس دہلیز پر ہوتا ہے، جن کے لیے صحیح اور غلط کی تمیز کے مابین اپنی راہ تلاش کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ذہن اچھائی کے پر خار طویل راستوں کے بجائے برائی کی چکا چوند دلفریب راہ پر چلنے کو ہمکتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بارہا ان سے ایسے عوامل سرزد ہوتے ہیں ، جو انہیں گمراہی کے اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں ۔ میڈیا سے متاثر نوجوان نسل کی انہی حالتوں کا بیان مشرف عالم ذوقی نے ناول ’’شہر چپ ہے‘‘ میں اپنے وسیع ویژن کا سہارا لے کر بیان کیا ہے۔
۱۹۸۲ء میں لکھا جا چکا یہ ناول مشرف عالم ذوقی کے ابتدائی ناولوں میں سے ایک ہے۔ ناول میں ایک سنجیدہ فنکار کے مانند انہوں نے معاشرے کے حالات کو قلم بند کیا ہے۔ ناول کا موضوع ’’شہر چپ ہے‘‘ غور و فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ ان جدید آلات سے متاثر ہو کر آ ج نوجوان نسل سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جس کا اندازہ انہیں آ پ نہیں ہوتا۔ اور ان کے زندگی میں ہونے والے نشیب و فراز سے ان کے اپنے بھی بیخبر رہتے ہیں ۔ یہ موجودہ دور کے معاشرے کا المیہ ہے۔ اس خاموش اور پر اسر ار فضا میں موجود بے حسی و اجنبیت کو ذوقی نے ناول میں موضوع بنایا ہے۔
ہمارے ادب میں مختلف انسانی حالتوں کے بیان کے لیے بہت سے تجربات ہوئے ہیں ۔ یہ جدیدیت، مابعد جدیدیت کے بدلتے ہوئے رجحانات کے طور پر ہمیں نظر آتے ہیں ۔ اس کے برعکس مشرف عالم ذوقی نے ان سے الگ ایک منفرد موضوع کے ساتھ ’’شہر چپ ہے‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ہماری زندگی میں شامل ہو چکے اس جعلساز دنیا کا بیان بھرپور انداز میں ناول نگار نے کیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ناول کا موضوع موجودہ دور کے نوجوان نسل کی شخصیت اور حالات پر کائنات میڈیا کے ذریعہ پڑنے والے اثرات کا بیان ہے۔
ذوقی نے ناول میں ایک ساتھ مختلف عمر کے نوجوان طبقے کے ذہن و عمل پر پڑنے والے اثر کو بیان کیا ہے۔ ایک طبقہ تتلی پکڑنے، مٹی کے گھروندے بنانے، گڑیا گڈی کے کھیل کھیلنے والے عمر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس طبقے کی نمائندگی مینا کرتی ہے۔ بارہ سال کی مینا جو اپنی معصوم اور چنچل شرارتوں سے گھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف اسکول میں اس کی سہیلیوں سے کی جانے والی باتیں بہ لحاظ عمر بالکل مخالف ہیں ۔ پاپا کے ذریعہ لائی جانے والی میگزین سے ایک پسندیدہ کہانی وہ اپنی سہیلیوں کو سناتی ہے۔ یہ کہانی اس کی جنسی خواہشوں کا برملا اظہار کرتی ہے۔ بارہ سالہ بچی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ اسکول کے بعد پارک میں بیٹھ کر اس کی ذہنی سوچ جس سمت پرواز کرتی ہے، وہ جن احساسات سے گزرتی ہے۔ اس کے دلی جذبات سے اس کی نفسیات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ انیل اور رگھوبیر اسے اغوا کرنے آئے ہیں ، بخوشی ان کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ اغوا شدہ مقام پر پہنچ کر اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے۔
’’مینا شرارت سے دونوں کی اڑی رنگت کو دیکھتے ہوئی بولی:
’’تم دو ہو اور میں ایک وقت میں دونوں سے پیار کیسے کرسکتی ہوں ۔ ‘‘۱؎
جس پیار کی چاہت کے لیے مینا اس حد تک گزر جاتی ہے، حقیقتاً اسے اس کا صحیح مفہوم بھی پتا نہیں ہوتا۔ بارہ سالہ کم عمر بچی کی یہ ذہنی سوچ میڈیا کے رد عمل کا اظہار ہے۔
دوسرے نوجوان طبقے کی نمائندگی ناول میں اینل اور رگھوبیر کرتے ہیں ۔ بائیس تئیس سالہ یہ دونوں جوان M.A. کی پڑھائی مکمل کر کے نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ ہر بار کوشش کا نتیجہ صفر ہوتا ہے، جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دن بہ دن مایوسی کی چادر مزید سیاہ ہوتی جاتی ہے۔ ساتھ ہی گھر کے ماحول سے بھی یہ متاثر ہوتے ہیں ۔ رگھوبیر کے یہاں تو شروع سے اندھیرا رہتا ہے۔ انیل کے گھر اس کی بہن کی صورت مایوسی دستک دیتی ہے۔ اپنے اپنے گھر سے ملی ہوئی اداسی کی یہ پرچھائیاں ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہیں ۔ اس طویل نا ا میدی اور زندگی کے زنگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے دونوں میڈیا کا سہارا لیتے ہیں ۔ ناول کا یہ اقتباس ان کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے:
’’رگھوبیر کا چڑچڑا پن روزبروز بڑھتا جا رہا تھا۔ اخبارات کی ایک جیسی اداس اور باسی خبروں پر اس کا تیکھا تبصرہ سننے سے تعلق رکھتا تھا۔
ان اخباروں میں روز گار کے اشتہار نہیں چھپتے۔ موت چھپتی ہے، ڈکیتی چھپتی ہے، قتل، رہزنی، ریپ کے واقعات چھپتے ہیں ۔ ان خبروں کو غور سے دیکھو انیل۔ ۔ اور ملک کے مستقبل یعنی اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کر لو۔
ایک نوجوان نے قطب مینار سے کود کر خود کشی کر لی۔
پولس کے تصادم میں کئی نوجوان مارے گئے۔
فسادات، ملک کا لہو لہان چہرہ، نا ا میدی کی فصلیں ، سرکاری غیر اطمینان بخش روییّے
اور اخباری سرخیوں میں نظر آنے والی موت…………
نوجوان پر لاٹھی چارج۔
فلم دیکھ کر دو نوجوان نے ایک لکھ پتی کی لڑکی کا اغوا کر لیا۔ گاڑی الٹ گئی۔ بس جلا دی گئی۔ خون۔ قتل۔ سو میں سے ننانوے خبریں بس اسی کی ہیں ۔ اب تم خود فیصلہ کرو۔ ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ اخبار سے روزگار کی تلاش کہاں تک درست ہے۔ ہمیں فیوچر کہا جاتا ہے۔ ۔ ۔ بھو ش، مستقبل کہا جاتا ہے۔ اور یہ مستقبل سڑے ہوئے ہوٹلوں میں محض چائے کی ایک پیالی کا قرضدار بن جاتا ہے۔ پاگلوں کی طرح کندھے پر جھولا ٹانگے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے۔ ‘‘
’’اور کیا راستہ ہے۔ ‘‘ انیل نے آہستہ سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو پڑھتے ہوئے کہا۔
’’ راستہ۔ ‘‘رگھوبیر کی آنکھوں میں چمک لہرائی’’راستہ ہے۔ ‘‘۲؎
روزانہ اخبار میں آنے والی خبروں سے ان کا ذہن متاثر ہوتا ہے اور دوست رگھوبیر کی صلاح سے یہ دونوں ایک معصوم زندگی کو قید کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں ۔ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے میڈیا سے متاثر ہو کر انیل اور رگھوبیر قید کرنے کی سازش کرتے ہیں ۔ اور مینا قید ہونے کی خواہش کرتی ہے۔ دونوں ہی طبقے اس کے مہلک انجام سے بے خبر سازشوں اور خواہشوں کے جال میں مصروف و مسرورہوتے ہیں ۔ مختلف ذہنی حالات میں میڈیا ہمیں کس طرح متاثر کر کے مہمیز کرتی ہے۔ ناول نگار ذوقی نے اس پر بخوبی روشنی ڈالی ہے۔
ناول میں مختلف کردار ہیں اور سبھی کردار اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں ۔ لیکن سب سے اہم کردار انیل کا ہے۔ اس کردار کے ذریعے ہی ناول کی پوری کہانی شروع سے آخر تک بیان ہوتی ہے۔ ناول کا ہر کردار اس کردار سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے۔ اس طرح ناول کا پلاٹ اس کردار کی مدد سے خوبصورتی کے ساتھ بیان ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
اغوا والے واقعہ کے بعد پوری کہانی کا منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس اہم موڑ کے بعد اگر ناول نگار چاہتا تو کہنہ روایات کی پیروی کرتے ہوئے انہیں مزید گمراہیوں میں دھکیل سکتا تھا۔ لیکن اس حادثے سے اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے والی طاقت انہیں اپنے فعل پر شرمندہ کرتے ہوئے نیکی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد انیل کی زندگی مکمل تبدیل ہو جاتی ہے اور رگھوبیر اچانک کہانی کے پس منظر میں خود کو روپوش کر لیتا ہے۔ اب کردار انیل کی ذات اور زندگی سے مایوسی کے بادل چھٹنے لگتے ہیں ۔ انورادھا کی صورت خوشیاں اس کی دہلیز پر دستک دیتی ہیں ۔ بہت جلد انیل مسٹر شاستری کا اعتماد حاصل کر لیتا ہے۔ اقتباس:
’’شاستری جی کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
’’میری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں بیٹا۔ تم نے کئی بار اپنی بیکاری کا ذکر کیا ہے۔ یہ بوڑھا تمہارے باپ جیسا ہے۔ اگر کچھ کہے تو مانو گے؟‘‘
کیا بات ہے انکل
انکل کا دل دھڑک رہا تھا۔
’’صرف اتنی بات کہ تم میرے پیسے سے کاروبار شروع کر دو۔ دیکھو انکار مت کرنا۔ ‘‘
’’جی‘‘
بیٹے انکار مت کرنا۔ شاستری جی کی آواز لڑکھڑا گئی تھی۔
’’انو کی آنکھوں میں تمہارے لیے جو خواب ہے سے میں نے پڑھ لیا ہے……… تم اس کا دل نہیں توڑو گے نا‘‘
انیل نے سر جھکال یا ’’مجھے آپ کی تمام باتیں منظور ہیں ۔ ‘‘۳؎
اور اس طرح انیل اپنی بیکاری سے نجات حاصل کر لیتا ہے لیکن کہانی کا ایک موڑ رگھوبیر کی صورت ابھی بھی تشنہ ہے۔ آخر کار ایک کامیاب پروفیسر کی حیثیت سے رگھوبیر کہانی کے آخر میں نظر آتا ہے۔ دوست انیل کو گزرے ہوئے حالات بیان کر کے اپنے جدوجہد کی داستان سناتا ہے۔ آٹھ سال کے اس طویل عرصے میں مینا بچپن کی نادانیوں سے آزاد ہو کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔ ایسے میں رگھوبیر کی آمد کے متعلق جان کر اسے وہی پرانا واقعہ یاد آ جاتا ہے اور کہانی رگھوبیر اور مینا کے خوشگوار بندھن پر ختم ہو جاتی ہے۔
ذوقی نے ناول میں حالات سے متاثر معاشرے کے ایک خاص طبقے کا بیان بھی کیا ہے۔ ناول کا ایک کردار سریش جو اچھوت کی بیماری کوڑھ کا شکار ہو جاتا ہے۔ میڈیا کا ایک اہم متحرک کا رکن کار ہے۔ خدمتِ خلق کو اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اسی ہمدردی کے تحت کوڑھ سے پریشان لوگوں کے لیے Camp لگاتا ہے۔ لیکن وہ ان سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے یہ دانے اس کے جسم میں پناہ گزیں ہو جاتے ہیں ۔ قدرت کے اس خطرناک انکشاف کو وہ برداشت نہیں کر پاتا اور خود کو دنیا کے اندھیروں میں گم کر لیتا ہے۔ مکیش اور رتو کے اس دردناک انجام پر ہمیں افسوس ہوتا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ناول کی کہانی میڈیا کی وسیع کائنات میں الجھے ہوئے جدید دور کے نوجوان طبقہ کا نفسیاتی مطالعہ ہے۔ یہ نوجوان ان آلہ کار سے کس طرح اثرات اخذ کرتے ہیں اور مختلف حالات میں کس طور پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ا س کا بیان اس ناول میں ہوا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں میڈیا سے حیرت انگیز طور پر متاثر انسانی ذہن و اعمال کا بیان نہایت ماہر آرٹسٹ کی طرح کیا ہے۔ ذوقی نے سلجھے ہوئے انداز سے ناول میں آسانی کے ساتھ انسانی نفسیات کی گرہیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔
مجموعی طور پر ذوقی نے ناول کی بنیاد ایک منفرد طرز پر رکھی ہے۔ ناول نگار نے ناول کی تعمیر کے لیے کسی کہنہ روایت کی پابندی تسلیم نہیں کی۔ ناول ’شہر چپ ہے‘ کو کامیابی کے ساتھ پیش کرنے والے فنکار مشرف عالم ذوقی کا یہ قول اپنے بارے میں درست ہے کہ:
’’بہت باریکی سے اپنے ادب کا مطالعہ کرتا ہوں تو لگتا ہے…… میں نے ادب جیا ہے…… میرے لئے لمحے، پل اور برس کی کوئی قید نہیں رہی۔ میں ہر لمحہ پورے وجود کے ساتھ ادب میں رہا ہوں …..اور جیتا رہا ہوں ۔ ‘‘۴؎
٭٭
حوالے
_______________________________
۱- ’’شہر چپ ہے‘‘ مشرف عالم ذوقی، ص-۴۹، عالمی میڈیا پرائیوٹ لمیٹیڈ، ۲۰۱۴
۲۔ ’’شہر چپ ہے‘‘ مشرف عالم ذوقی، ص۔ ۱۹، ۲۰۔ ، عالمی میڈیا پرایئیوٹ لمیٹیڈ، ۲۰۱۴
۳- ’’شہر چپ ہے‘‘ مشرف عالم ذوقی، ص-۱۲۱، عالمی میڈیا پرائیوٹ لمیٹیڈ، ۲۰۱۴
۴- ’’شہر چپ ہے‘‘ مشرف عالم ذوقی، ص-۷، عالمی میڈیا پرائیوٹ لمیٹیڈ، ۲۰۱۴
٭٭٭