ٹچ اسکرین میں مقید فطرت
___________________________________________________________
فون کی سکرین پر
پوریں گھماتے
کھڑکی میں رکھا دیا دیکھتی ہوں
جھینگروں کی آواز کانوں میں
رات کی موسیقی بکھیر رہی ہے
ہوا میں نیم خنک اداسی پھیلی ہے
بارہ بارہ گھنٹے کے
عادل دن رات
کاتک کا مہینہ پت جھڑ کا موسم
پورا چاند کھڑکی سے راہ تک رہا ہے
مگر موسموں کو کنکریٹ کی دیواروں سے
اندر آنے کا اذن نہیں ملتا
فلک بوس پہاڑوں کے بیچ
محو استراحت وادیوں
جھاگ اڑاتے شوریدہ سر دریا کنارے
ہوٹل ہی ہوٹل ہیں
سیاحوں کی بھیڑ
اپنے شہروں میں پرانے درختوں کی جگہ
فلائی اوورز کے ستون دیکھتی اکتائی ہوئی
باڑھ کی مانند اُدھر چلی جا رہی ہے
درخت پودے چشمے
سہم کر سکڑ رہے ہیں
وادیاں سمٹ رہی ہیں
سیمنٹ سریے کے جنگل میں
چمچماتی پریوں جیسی گاڑیاں
بے ہنگم ازدحام کے جلو میں
رواں ہیں
ہماری پروفائل گیلری بھری ہوئی ہے
نایاب جانوروں زرد پتوں پھولوں
برف زاروں کی رنگیں تصویروں سے
حسن فطرت سکڑ کر
چھ انچ اسکرین میں سمٹ گیا ہے
اور ہم مطمئن ہیں اپنے کور پر
کسی دور افتادہ جنگل کا فوٹو لگا کر
٭٭٭
اوور ایج گرل Over Age Girl
___________________________________________________________
چاندی کے گہنے پہنے
موم سی نازک کومل گڑیا
کانچ کی ڈبیا میں خواب سجا کر
جانے کہاں چھپا بیٹھی ہے
گھر دفتر کی چکی میں پستے
اُونچی نیچی باتیں سہتے
رنگ برنگے سپنے بھاگے
کاغذ کی ناؤ بنانے والی
کاغذ سے ہلکی ہو بیٹھی ہے
٭٭٭
سبین علی کی دونوں نظموں کے موضوعات آج کے تلخ حقائق ہیں۔
دونوں ہی خوب ہیں۔
کاغذ کی ناؤ بنانے والی
کاغذ سے ہلکی ہو بیٹھی ہے
بہت خوب!
اور ہم مطئن ہیں اپنے کور پر
جنگل کا فوٹو لگا کر
زبردست!