’آپ سیدھے جہنم میں جائیں گے‘
’تمہاری جنت میں تو جانے سے رہا۔‘
’لیکن ڈر ہے۔ آپ جہنم سے بھی نکال دیئے جائیں گے‘
’پھر تمہاری دنیا میں واپس آ جاؤں گا۔‘
تیس اکتوبر صبح کے ۵ بجے۔ پرانی عادت ہے۔ فریش ہونے کے بعد کچھ دیر تک ٹی وی پر خبریں سنتا ہوں۔ پھر اخبار کے آنے کا انتظار کرتا ہوں۔ اس وقت ٹی وی پر ایک چہرہ روشن ہے۔ مگر میری آنکھیں دھند میں اتر چکی ہیں۔ یادوں کی ہزار پرچھائیاں ہیں جو اس وقت میری آنکھوں کے آگے رقص کر رہی ہیں ….
شام ۳ بجے۔ لودھی روڈ کا شمسان گھاٹ۔ یہاں میڈیا اور راجندر یادو سے محبت کرنے والوں کی ایک بھیڑ جمع ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔ بھیڑ میں منو بھنڈاری بھی ہیں۔ یادو جی کی شریک حیات۔ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ تو رہا مگر منو جی نے یادو جی کی زندہ دلی، آزاد زندگی سے گھبرا کر اپنی الگ دنیا آباد کر لی۔ یہ دنیا اخباروں رسائل میں نظر آتی تھی۔ منو جی کی آپ بیتی میں اکثر یادو جی کی خبر لی جاتی تھی۔ مگر مجھے یاد ہے …. شاید ہی یادو جی نے کبھی منو جی کے خلاف کوئی لفظ بولا ہو۔ یہ رشتوں کے احترام کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ تھا جسے وہ کبھی توڑ نہیں پائے۔ میں نے پلٹ کر منو جی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں گزری ہوئی یادوں کا سیلاب آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔
شمسان گھاٹ میں ایک چبوترہ ہے۔ چبوترے پر سفید کپڑوں میں ایک سرد جسم کو آخری سفر پر بھیجنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ پجاری شلوک پڑھ رہا ہے۔ رچنا (یادو جی کی بیٹی) کے ہاتھوں میں ایک گھڑا ہے اور رچنا کے ساتھ، یادو جی کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا وہ نیپالی لڑکا کشن بھی ہے، اس وقت وہ بیٹے کا فرض انجام دے رہا ہے۔ عام طور پر آخری رسوم میں بیٹیوں کو شریک نہیں کیا جاتا— میں ارچنا کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وہ گھڑے کو لے کر چبوترے کے چاروں طرف گھوم رہی ہے۔ پجاری شلوک کا پاٹھ کر رہے ہیں۔ ارچنا رکتی ہے۔ اور گھڑے کو چبوترے پر توڑ دیتی ہے۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے آچاریہ سار تھی کہتے ہیں۔ گھڑے کو توڑے جانے کا مطلب ہے، اب یہ دنیاوی رشتہ اس لمحہ سے ختم ہو گیا۔
میں دیر تک شمسان میں رہا۔ چتا سے آگ کے شعلوں کے تیز ہونے تک…. وہاں موجود ہر کوئی رو رہا تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو زندگی بھر یادو جی کے معترض رہے مگر یہ یادو جی کی شخصیت کا ہی ایک پہلو تھا کہ میں نے انہیں کبھی کسی کے خلاف بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔
وہ سب کے دوست تھے اور یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ سب سے زیادہ کس کے قریب ہیں۔ کوئی بھی ان سے آسانی سے مل سکتا تھا۔ وہ کسی کو بھی اجنبی نہیں سمجھتے تھے۔ ہنس کے دفتر میں آنے والا اجنبی بھی ان کا دوست ہی ہوتا تھا۔ وہ زور سے ٹھہاکا لگا کر ہنستے تھے اورایسا بہت کم ہوتا جب ان کے چہرے پر تشویش یا الجھن کے بادل ہوتے تھے۔ کم از کم میں نے دلی آنے کے بعد تک کسی بھی ملاقات میں ان کے چہرے پر ایک شکن تک محسوس نہیں کی۔ وہ مجھے پیار سے کبھی شیطان کبھی جن کہتے تھے۔ میں ایک ہفتہ بھی نہیں ملتا تو ان کا فون آ جاتا۔ فون اٹھاتے ہی پہلا جملہ ہوتا۔ کہاں ہو شیطان۔ پھر دوسرا جملہ ہوتا۔ آ جاؤ— دلی کی اب تک کی زندگی میں اس زندہ دل چہرے کو دیکھتے ہوئے بس ایک ہی آواز اندر سے اٹھتی تھی— عشق نے شرح عشق کو بلندیوں سے ہمکنار کیا— یہ ان کی گفتگو کا کمال تھا کہ چھوٹی عمر سے بڑی عمر کی عورتوں تک سب ان سے عشق میں مبتلا تھیں اور ہر عشق ایک نئی کہانی کے دروازے کھول دیتا۔ پھر اخبار کے اخبار رنگ جاتے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سرخیاں۔ اور یہ کہنا مشکل تھا کہ ان خبروں کا مزہ کون لے رہا ہے۔ اخبار والے یا خود یادو جی۔ سونی سنگھ سے لے کر جیوتی کماری تک جو بھی ان سے ملا، کہانیوں کے آسمان روشن ہو گئے۔ ہندی کی خواتین افسانہ نگاروں میں وہ کشن کنہیا کی طرح مقبول تھے۔ اور یادو جی کی خوبی یہ تھی کہ وہ کچھ بھی چھپا کر رکھنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کہانیاں تھیں جوان کے ذکر کے ساتھ بنتی چلی جاتی تھیں۔ وہ ان کہانیوں پر دل کھول کر ہنسا کرتے اور مزے لیا کرتے۔ یادو جی اپنا جنم دن دھوم دھام سے منایا کرتے تھے۔ اس دن سب سے دلچسپ ہوتا تھا انہیں قریب سے دیکھنا۔ وہ گوپیوں کے درمیان ہوتے تھے۔ ان کے چاروں طرف رادھا اور گوپیاں ہوتی تھیں۔ انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ہوتی تھی کہ کون ان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ وہ جینا جانتے تھے۔ اور زندگی کو اپنی شرطوں پر جیتے تھے۔ شاید اسی لیے منو جی سے شادی کے بعد وہ اس بندھن کو زیادہ دنوں تک نبھا نہیں سکے۔ یہ محبت کی شادی تھی۔ آگرہ کا دل پھینک شاہزادہ اور ادب میں بلندیوں کے نئے آسمان کو چھونے والی منو بھنڈاری۔ اور یہ وہ دور تھا جب کملیشور، راجندر یادو اور موہن راکیش کی تکڑی، مشہور تھی۔ ان میں موہن راکیش پہلے چلے گئے۔ پھر کملیشور بھی چلے گئے۔ لیکن راجندر یادو اپنی بیباک طبیعت اور زندہ دل قہقہوں کے ساتھ ہندی ادب کی نہ صرف رہنمائی کرتے رہے بلکہ ایک ساتھ پانچ نسلوں کی رہبری کا سفر بھی ان کے نام ہی منسوب رہا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ہندی کہانی دھند میں کھو چکی تھی۔ ۸۰ کے آس پاس بڑے نام خاموش ہو گئے تھے۔ یہ راجندر یادو ہی تھے جنہوں نے پریم چند کے ہنس کو زندہ کیا۔ اور ہنس کی اشاعت نے نہ صرف اس خاموشی اور خلاء کو پر کیا بلکہ نئے افسانہ نگاروں کی ایک ایسی فوج تیار کی کہ اس کے بعد ہندی فکشن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور نئی نسل کے بے شمار ناموں تک یہ راجندر یادو اور ہنس کا ہی کرشمہ تھا کہ اس نے سوئے ہوئے ہندی ادب میں جان پھونکنے کا کام کیا تھا۔ ہنس کے ساتھ اکچھر پرکاشن کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ کچھ کتابیں شائع کی گئیں مگر جلد ہی یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی ہنس کو ایک ٹرسٹ کی شکل دے دی تھی۔ وہ ہنس کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ادئے پرکاش، شیو مورتی، سنجیو، اکھیلیش، ہندی کہانی کے افق پر جگمگاتے ان ستاروں کی تلاش میں راجندر یادو کا ہی حصہ تھا۔ ادب کا ایسا کمٹمنٹ ایسا جنون شاید آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ انہوں نے زندگی کا سکھ چین کھویا۔ رشتوں کی پرواہ نہیں کی۔ گھر ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی بے گھر رہے۔ منو جی شریک حیات تھیں اور ساتھ ہی ہندی فکشن کا ایک معتبر نام بھی۔ یہ رشتہ کسی طرح انیس سو پچانوے تک نبھایا گیا۔ پھر منو جی اپنی بیٹی کے ساتھ الگ ہو گئیں۔ یادو جی زندگی میں کبھی بھی ان رشتوں کے لیے جذباتی نہیں ہوئے مگر مجھے یاد ہے …. دوسال قبل ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر پائے۔ مگر یہی بیٹی، ارچنا یادو آخری سفر میں ایک بیٹے کا فریضہ انجام دے رہی تھی اور بقول ارچنا یادو، میرے ڈیڈی میرے آئیڈیل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک زندگی ان رشتوں کو سمجھنے کے لیے کم ہوتی ہے — آخری کچھ برسوں میں یادو جی منو جی کے قریب آ گئے تھے۔ رشتوں کا احساس زندہ ہو گیا تھا۔ مگر یادو جی کے ساتھ چلنے والی رومانی کہانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ بیٹی کی شادی کے موقع پر ہندوؤں میں کنیا دان کی رسم ہوتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ سماج کے زور دیئے جانے کے باوجود راجندر یادو اس رسم میں اس لیے شریک نہ ہوئے کہ ان کا کہنا تھا، کہ کنیا کا دان نہیں کیا جاتا۔ بیٹی تو آنکھوں کا تارہ ہوتی ہے۔ اوراسی کا دوسرا پہلو دیکھئے کہ یہی کنیا (رچنا یادو) آخری سفر میں بیٹے کا رول نبھاتی ہوئی اشکبار آنکھوں سے اپنے باپ کو الوداع کہہ رہی تھی۔
۸۴ سال کی کی زندگی ملی تھی راجندر یادو کو۔ اس لمبی زندگی میں جس طرح انہوں نے ادب کی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دلی آنے کے بعد میرا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے اردو اور مسلمانوں کے لیے ان کے اندر کے درد اور جذبے کو قریب سے محسوس کیا ہے۔ راجندر یادو نے باضابطہ اردو زبان کی تعلیم لی تھی اور انتقال سے قبل تک انہیں اردو پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی تھی۔ ان کے رسالہ ہنس میں اردو کو خصوصی طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔ وہ ساری زندگی اردو سے قریب رہے۔ جب نامور جی نے اردو کی مخالفت میں ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘مضمون ہنس میں لکھا تو اردو کی حمایت میں اس وقت کے تمام بڑے لکھاڑی ایک منچ پر آ گئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اردو اور پاکستانی تحریروں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پھر کہتے تھے، فلاح تحریر میرے رسالہ میں دے دو۔ ہنس میں میری تحریروں کو بھی وہ مسلسل شائع کرتے رہے۔ بلکہ جب راجندر یادو نے ایک خصوصی شمارہ اصغر وجاہت کے ساتھ مسلمانوں پر شائع کیا تو اس میں ایک بڑی ذمہ داری مجھے بھی سونپی گئی۔ بعد میں وہ حصہ کتابی شکل میں راج کمل پرکاشن سے شائع ہوا۔ وہ فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے۔ مجھے یاد ہے، جب نفرتیں ملک کی تقدیر بن گئی تھیں۔ انتخاب ہونے والا تھا، تو پریشانیوں کے باوجود وہ مسلسل میٹنگس کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہندی کے مشہور نقاد نامور جی اور ہندی کے تمام بڑے ادیب بھی شامل ہوتے۔ میں بھی ان محفلوں میں شریک رہا۔ مجھے اس وقت کا ان کا چہرہ اب تک یاد ہے۔ وہ کہا کرتے کہ فرقہ واریت کو روکنا ہے۔ یہ ہندستان میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہے۔ جس زمانے میں اسامہ بن لادن نے دہشت گردی کی نئی مثال قائم کی، انہوں نے ہنس میں ایک خطرناک اداریہ لکھا۔ اگر اسامہ دہشت گرد ہے تو پہلا دہشت گرد ہنومان جی تھے۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ نے اپنے کام کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔ ہنومان جی نے بھی لنکا میں آگ اسی ارادے سے لگائی۔ اسامہ امریکہ گیا تو ہنومان جی نے لنکا کا انتخاب کیا۔ دہشت گردی کی شروعات ہنومان جی سے ہوئی۔ اس اداریہ کا شائع ہونا تھا کہ ہندی ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے ان پر دنیا بھر کے مقدمے کر دیئے۔ ہنس کے دفتر میں ان پر حملہ بھی ہوا۔ مجھے یاد ہے۔ شاید دن کے بارہ بج رہے تھے۔ ان کا فون آیا۔ ذوقی، کہاں ہو۔ جہاں بھی ہو جلدی آ جاؤ۔ میں ہنس کے دفتر گیا تو چاروں طرف پولس ہی پولس تھی۔ لیکن اس پولس چھاؤنی میں بھی ایک آزاد بادشاہ اپنے قہقہے بکھیر رہا تھا۔
ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہوئی ہزاروں کہانیاں روشن ہیں۔ میں انہیں لکھنا بھی چاہتا ہوں مگر دل بوجھل اور الفاظ گم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے …. تم مجھے نہیں لکھ پاؤ گے ذوقی…. اور میں محسوس کرتا ہوں، راجندر یادو کی شخصیت کو الفاظ میں قید کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ خود کو کبھی کسی زنجیر، کسی قید میں نہیں دیکھ سکے — وہ زندگی میں ہر طرح کی زنجیر اور قیود سے آزاد تھے۔ وہ سچ بولتے تھے اور یہ سچ سماج اور معاشرے کے لیے ایک چیلنج بن جاتا تھا۔ انہوں نے عورتوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو ہنس کے صفحات استری و مرش، کے نام پر جگمگا اٹھے۔ انہوں نے دلت ومرش کے نام پر دلت لیکھکوں کی ٹیم بنائی۔ ہنس کی طرف سے زندگی بھر وہ مسلمانوں کی جنگ لڑتے رہے۔ اور مسلمانوں پر ہنس کا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا۔ اس شمارہ میں اصغر وجاہت کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ وہ فرقہ پرستی اور فاشزم کے خلاف تھے۔ ان کے کئی چہرے نہیں تھے، ان کا ایک ہی چہرہ تھا، جو بیباک بھی تھا اور سچ بولنے سے گھبرا تا نہیں تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ تنہا تھے۔ ہنس کی اشاعت کے بعد وہ زیادہ تر میور وہار، ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ میں رہے۔ دوبرس قبل ان کی بیٹی رچنا نے انہیں ایک فلیٹ خرید کر تحفہ میں دیا تھا۔ یہ بھی ایک بیٹی کی محبت تھی، اس بیٹی کی جو اپنے باپ کو اپنا آئیڈیل سمجھتی تھی۔
میور وہار کا ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ…. یہاں میں ہزاروں بار یادو جی سے ملا ہوں۔ چلتے چلتے …. میں وہ چہرہ دکھانا چاہتا ہوں، وہ چہرہ جو ایک لی جینڈ، ایک عہد ساز شخصیت کا تھا، لیکن وہ چہرہ کتنا تنہا تھا…. کتنا اکیلا…. ماضی کی ریل میری آنکھوں کے آگے دوڑ رہی ہے۔
٭٭٭
کالج کے دنوں میں عصمت چغتائی کا تحریر کردہ ایک خاکہ پڑھا تھا۔ دوزخی۔ عصمت نے یہ خاکہ اپنے بھائی کی یاد میں لکھا تھا۔ میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔ کیا سچ مچ دوزخی اتنے خوش قسمت ہوتے ہیں —؟ اتنی بڑی تقدیر والے کہ انہیں عصمت جیسی بہن مل جاتی ہے — دلی آنے سے قبل سوچتا تھا، یہ دوزخی کیسے ہوتے ہوں گے …. کیا دلی کی بھیڑ بھاڑ والی زندگی میں ایسے دوزخیوں سے ملاقات ممکن ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دلی آنے کے بعد سب سے پہلے جس شخصیت سے ملنے کی آرزو تھی، وہ تھے راجندر یادو— آ رہ جیسے چھوٹے سے شہر میں ان لوگوں کو لے کر کتنی کتنی باتیں ہوا کرتی تھیں، کملیشور، یشپال، اگے، موہن راکیش، نامور جی، اور راجندر یادو—راجندر یادو کا نام آتے ہی احترام کے ساتھ ایک سے بڑھ ایک واقعات کے دروازے اس لیے بھی کھل جاتے کہ ان کی شخصیت شروع سے ہی ہمہ جہت اور متنازعہ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ نیند اور خواب میں بھی یہ چہرہ طلسم ہو شربا کی کہانیوں کی طرح مجھے چونکا دیا کرتا تھا۔ اور اس نام کے ساتھ چپکے سے ایک نام جڑ جاتا…. دوزخی کہیں کا….
دلی آنے کے بعد ماہنامہ ہنس نکلنے کے ایک سال بعد یادو جی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ یاد ہے تب بھی ان کو گھیرے ہوئے کافی لوگ بیٹھے تھے۔ میں ہندی کے لیے ابھی تک اجنبی تھا۔ لیکن اردو میں میری شناخت بن چکی تھی۔ پہلی ملاقات میں کچھ رسمی مکالمہ کے علاوہ میں زیادہ تر خاموش ہی رہا۔ میری آنکھیں بغور ان کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ گورا چٹا، رعب دار کافی بڑا چہرہ۔ چوڑی، چمکتی پیشانی سے ذہانت کی کرنیں نکلتی ہوئی— آنکھوں پر کالا چشمہ— باتوں میں بیباکی اور ذہانت۔ چہرے پر جلال۔ درمیان میں چبھتی ہوئی باتیں اور ٹھہاکوں پر ٹھہاکا—یہاں اجنبیت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پہلی ملاقات کا جادو میرے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
یہ آدمی….
یہ آدمی دوزخی نہیں ہو سکتا۔ ایسی چمک، ایسی ذہانت تو مجھے کارل مارکس کے چہرے پر بھی نظر نہیں آئی تھی۔ وہاں تو ’فلسفی داڑھیوں‘ کا ایک جنگل آباد تھا، اور یہاں سفید چمکتے چہرے میں مجھے مردولا گرگ کے بے شمار چتکوبرے دکھائی دے رہے تھے۔ پتہ نہیں کیوں؟
آہستہ آہستہ ہنس اور یادو جی سے ملاقاتوں کے سلسلے طویل ہونے لگے۔ مجھے کبھی کبھی وہ دوزخی نہیں، جنتی دکھائی دیتے تھے۔ جنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں حوریں ملیں گی، یعنی انتہائی حسین عورتیں۔ لیکن ہمارے یادو جی کی جنت کا انداز ہی مختلف تھا، وہ عورتوں کے پاس نہیں جاتے، مینکائیں خود ان کے پاس آتی تھیں۔ وہ شری کرشن کی مرلی کی طرح اپنا بسنتی راگ چھیڑتے اور مدھو بن کی رادھاؤں میں ہلچل مچ جاتی— استری ومرش(نسائی ادب) شروع سے ہی ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ عورت یعنی اس کائنات کی سب سے حسین مخلوق۔ وہ دوسرے تخلیق کاروں یا نقادوں کی طرح ترچھی نظر سے چوری چوری عورتوں کو دیکھنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ عورت میں زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے لیے انہیں سارتر یا سیموند بووار کی ضرورت نہیں تھی۔ چاہے منو جی کا تنازعہ رہا ہو یا سولہ سال کی لڑکی کو بھابھی کہنے کا معاملہ۔ یا پھر صرف لڑکی ہونے کے نام پر تخلیقات شائع کرنے کا الزام ہو— میتری پشپا کو ادبی دنیا میں چمکانے کا الزام ہو یا پھر اپنی کہانی ’حاصل‘ میں دفتر میں آئی ہوئی لڑکی سے فلسفۂ عشق تک رسائی کا الزام ہو— وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو کبھی نہیں گھبرائے — جو اپنی ذلت، بدنامی اور رسوائی کو بھی اپنے ’ہونے، سونے اور کھونے‘ کا ایک عام راستہ مانتے تھے۔ اس معاملے میں وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح تھے۔ ہم ہیں، اس لیے یہ ہو گا— بلے سے بال لگے گی تو کھڑکی کا شیشہ ٹوٹے گا— مرد ہیں تو عورت میں ہی دلچسپی ہو گی— شرافت کے بیجا ڈھونگ سے انہیں نفرت تھی۔ اور تنازعات میں گھرے رہنا ان کی سب سے بڑی مضبوطی۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ کا راز۔
اصل میں کبھی کبھی خود مجھے ان سے جلن ہوتی تھی۔ وہ ہر بار مجھے جوانوں سے بڑھ کر جوان لگتے۔ چہرے پر تھکان نام کو نہیں۔ شاید اس لیے وہ الفاظ کے تیر پر تیر چھوڑے جاتے۔ اور الزامات کی پرواہ نہیں کرتے۔ میں نے انہیں ایک ایسے جہادی کی شکل میں دیکھا اور محسوس کیا ہے جسے پرواہ نہیں ہے کہ سامنے کون ہے — ہنومان جی کو پہلا دہشت گرد بنانے کا معاملہ ہو یا اردو رسم الخط بدلنے کا معاملہ ہو۔ وہ اپنے سخت رویے سے کبھی پریشان نہیں ہوتے تھے۔
ہزاروں واقعات کی شمعیں روشن ہیں۔ ایک ملاقات میں، میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ میں آپ پر لکھنا چاہتا ہوں۔ ‘
تیز ٹھہاکا گونجا— ’تم مجھ پر نہیں لکھ سکتے ذوقی‘
پوچھا۔ ’کیوں؟‘
جواب ملا۔ ’کتنا جانتے ہو مجھے؟ جتنا جانتے ہو وہ مجھے جاننے کا ایک حصہ بھی نہیں ہے۔ ‘
میں چاہتا تو اس پر بہت کچھ بول سکتا تھا۔ لیکن سچائی یہی تھی کہ میں کتنا جانتا تھا۔ تنازعہ سے الگ کا بھی ایک چہرہ رہا ہو گا۔ میں اس چہرے کو کتنا پہچانتا تھا۔ اپنے پروگرام ’کتابوں کے رنگ‘ کے پہلے ہی اے پی سوڈ میں منو جی کی کتاب ’نایک، کھلنایک، ودوشک‘ پر بولتے ہوئے وہ زور سے ہنس پڑے تھے — یہ تینوں میں ہی ہوں۔ نایک (ہیرو) بھی، کھلنایک (ولین) اور ودوشک (مسخرہ) بھی۔ پہلے میں نایک تھا۔ ایک سوپن نایک (خیالی ہیرو)۔ پھر کھلنایک بنا اور پھر ودوشک۔ یہ زمانہ تو ودوشک کا ہی ہے۔ آپ کو بار بار الگ الگ ڈھونگ بھرنا ہے۔ گھر سے باہر اور سیاست سے سماج تک۔ جو جتنا بڑا ودوشک ہو گا وہ اتنا ہی بڑا نایک ہو گا۔ عام زندگی سے سیاست تک ان ودوشکوں کی ہی حکومت ہے۔ مگر ہوتا کیا ہے۔ ادب کے ودوشک اگر سوانگ بھرتے ہیں تو صورت حال مشکل ہو جاتی ہے — مشکلیں یہاں بھی پیدا ہوئیں۔ ہندی ادب میں ہونے والا کوئی بھی حادثہ سیدھے یادو جی سے وابستہ کر دیا جاتا۔ استری ومرش— ذمہ دار یادو جی— دلت ومرش— ذمہ دار یادو جی— حاشیے پر مسلمان— ذمہ دار یادو جی۔ ہندی ادب زوال کی طرف کیوں؟ یادو جی سے پوچھئے جیسے ادب پر قدرتی آفات تک سب میں یادو جی کا ہی ہاتھ ہے۔ زلزلہ کیوں ہوا۔ بارش کیوں ہوئی، فساد کی وجہ کیا ہے؟ کون سی حکومت بنے گی۔ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، سماج کدھر جائے گا۔ یادو جی کی زندگی تک جیسے ہر واقعہ یا حادثہ کے پیچھے صرف اور صرف یادو جی تھے۔
برسوں کی ان ملاقاتوں میں کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جنہیں ابھی کھولنا نہیں چاہتا۔ ابھی لکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن لکھنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ ہاں۔ اگر کبھی کبھی کوئی ایک بات چپکے سے ڈس جاتی ہے تو بس وہی۔
’ذوقی تم مجھ پر نہیں لکھ سکتے۔ کتنا جانتے ہو مجھے؟‘
لیکن شاید میں نے دوسروں سے کہیں زیادہ یادو جی کے اندر کے آدمی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آدمی بے نیاز ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر اندر سے بے حد جذباتی ہے۔ مارخیز کے ناول ’اداسی کے سو سال‘ کی طرح میں اس لمحے کو فراموش نہیں کر سکتا— جہاں میں نے راجندر یادو کی شخصیت کا وہ پہلو دیکھا تھا جسے بیان نہ کروں تو شاید یہ مضمون ہی مکمل نہ ہو— ایک دفعہ شاید پہلی بار یادو جی سے ملنے ان کے ہندستان ٹائمس اپارٹمنٹ گیا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کی ایک ترچھی کرسی پر صبح نو بجے بریڈ میں آملیٹ لگاتے ہوئے وہ موجود تھے۔ یکایک مجھے روسی ناول نگار گوگول کے ’ڈیڈ سول‘ کی یاد آ گئی۔ گھپ اندھیرا، صبح کے آنچل میں سمٹی ہوئی ویرانی۔ سو سال کی اداسی اور ویرانی سمٹ کر صرف ایک چہرے میں مقید ہو گئی تھی۔
میں نے ناشتہ میں ساتھ دیا۔ پھر آواز آئی۔
’اب یہاں کوئی نہیں ہو گا۔ پانی دینے والا بھی نہیں۔ اب میں ایک گھنٹہ آرام کروں گا۔ تمہارا کیا پروگرام ہے ذوقی؟‘
میں نے آہستہ سے کہا۔ ’میں آپ کا انتظار کروں گا۔‘
یہ میرے لیے زندگی کے ناقابل فراموش لمحات میں سے ایک لمحہ تھا۔ بچپن میں ایک کتاب پڑھی تھی ’طلسم ہو شربا‘— قہقہہ لگانے والی آواز کی طرف دیکھنے والی شخصیت پتھر کی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں ہنس کون رہا تھا—؟ یہاں تو تین کمروں کے فلیٹ کے ایک اداس بستر پر ایک شخص سو رہا تھا۔ ایک عام انسان نہیں، ایک ایسا شخص جس کے ہر لفظ سے تنازعہ پھوٹ پڑتا تھا۔ جو اپنے عہد کا عظیم کھلنایک (ولین) تھا۔ وہ ایک گھنٹہ کے لیے سو گیا تھا۔ بے فکری کی نیند۔ مجھے یکایک ہی ان کے لفظ ایک بار پھر سے یاد آئے۔ لیکن شاید، یہاں اس ایک لمحہ میں میں نے تنازعات کا اصلی چہرہ دیکھ لیا تھا۔ یہ چہرہ کسی کھلنایک کا نہیں تھا۔ ایک معصوم اور بے حد کمزور بچے کا تھا۔ جسے اس کے اپنے گھر والے چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے باہر چلے گئے ہوں۔
میں نے اس ایک لمحے کو اپنے دل کے فریم میں فریز کر لیا ہے۔ یقیناً وہ میری بات پر ابھی بھی ہنسیں گے۔
’تو سونے سے کیا ہوتا ہے‘
اپنی منطق پر ٹھہاکا لگائیں گے۔ لیکن کاش! میں اپنے احساس اور جذبات سے اس ایک لمحے کی تصویر بنا سکتا۔ شاید اسی اداسی کو، وہ باہر کے ہنگاموں اور تنازعات سے دور کرتے تھے۔ ایسا شخص جنت کی اداسی کہاں تسلیم کرے گا۔ اسے تو ’باہر‘ کا جہنم چاہئے۔
دوزخی کہیں کا۔
ان کا سچ یہی تھا کہ وہ ساری زندگی تنہا رہے۔ اور اسی لیے اپنی ذات میں ایک بڑی دنیا کو آباد کر رکھا تھا۔ اس دنیا میں ہنگامے تھے، الزامات تھے، تنازعات تھے، مگر ان سے الگ اداسی کا ایک پیکر تھا۔ اور وہ تا عمر اسی پیکر کا حصہ رہے۔
٭٭٭
مجھے یہ مضون اچھا لگا۔ عصمت چغتائی کے دوزخی سے کچھ کچھ متاثر۔ آغاز و انجام کو آپس میں مربوط کرنے کی کوشش بھی خوب ہے۔ حقیقت پسندی سے ایک "انسان” کا خاکہ ہے نہ کہ فرشتہ کا۔
مزے کی بات یہ کہ یودوجی کی شخصیت کے دونوں پہلو کیسے اک دوجے کے متضاد نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ تضاد تو ہمیں ر سیک کی شخصت میں کم یا زیادہ ضرور نظر ہی آتا ہے۔
مشرّف عالم ذوقی صاحب ایک بہت پُر ذوق ادیب ہیں ۔
لیکن تھوڑا افسوس ہوا کہ اِس مضمون کا آغاز ہی مذہبی شناخت و فرق سے ہوتا ہے
اور پھر یہی اُسکی ساری اندرونی روح بھی لگا
انسان کے سرگرمیوں کے مختلف میدان ہیں ، ہر میدان کا اپنا موضوع ہوتا ہے ۔
ادَب میں ہمیشہ اِنسان ، ، اَوّل و آخر موضوع رہا ہے ، مذہب تو نہیں ۔ آپ نے یقیناً بڑا عالمی ، تاریخی ، ادب ، بشمول اُردو ادَب ، پڑھا ہو گا۔
پِچھلے کئی برسوں سے ہمارے ُردو ادب کو پڑھ کر لگتا ہے کہ ہمرے تخلیقی ذہن انہی دائروں کے راز کھولتے رہتے ہیں جِن میں بچپن میں ہمارے ماں باپ نے ہمیں بند کر دیا تھا۔ عالمی مُصنّف ، اِن دائروں سے کہیں دُور ، کہاں سے کہاں پہنچا ہوا ، ایک انتہائی آزاد بالغ فرد انسان نظر آتا ہے۔
آپ بطورمّصنّف مسلمان یا ہندو یا سِکھ ، عیسائی تو نہیں ، ایک سب سے اوپرکا انسان ہوتے ہیں۔
برسوں سے ہمارے ادب میں کوئی نئی اور گہری توڑ پھوڑ نظر نہیں آتی