نام کتاب حرف شوق
مصنف مختار مسعود
ناشر مکتبہ تعمیر انسانیت
صفحات 561
کسبِ کمال کرد و عزیز جہاں شود !
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اور مختار مسعود بھی خود شناسی اور جنوں کی یہ داستان مکمل کرنے کے بعد ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۷ کو اپنے اُنہی احباب کی طرح ’’حرف شوق ‘‘ بن گئے جن کی فرمائش پر اُنہوں نے علی گڑھ اور سر سید کی یہ تاریخ اپنے خزینہ ذہن سے صفحہ قرطاس پر منتقل کی تھی۔ پانچ سو ترسٹھ صفحات کی اپنی چوتھی اور گزشتہ تینوں کتابوں ’آواز دوست ‘، ’سفر نصیب‘ اور’ لوحِ اَیَّام‘ کی طرح حسبِ عادت ایک اور لازوال کتاب لکھ کر اُس کے شایع ہونے سے پہلے ہی، ۹۱ سال کی بھر پور، با معنی اور نہایت کار آمد زندگی گزار کر اپنے رَب کی رِضا کا حصہ بن گئے۔
علی گڑھ، سر سید اور ’اسٹریچی ہال ‘ کے طویل اور خصوصی پس منظر میں مسلم یونیورسٹی کی یہ کہانی انہوں نے قرآن کریم کی اِس مختصر سورۃ سے شروع کی ہے کہ ’’زمانے کی قسم !انسان گھاٹے میں ہے۔ سِوَائے اُن کے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمارا بچپن کساد بازاری کی نذر ہو گیا۔ لڑکپن سایہ تیغ میں گزرا۔ دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے تک ہم نوجوانی کی سرحد پار کر چکے تھے (اس) سرحد کے دوسری طرف خانہ جنگی نے ہمارا استقبال کیا۔۔ مسلمانوں نے بڑی قربانی دی۔ کچھ خوشی سے، کچھ لاچاری کے سبب۔ بین الاقوامی سیاست میں کمزور کو انصاف کب ملا ہے جو ہمیں ملتا! ‘‘ (حرف شوق ص ۱۴)
مختار مسعود میں بہت کچھ ایسا ہے جو اُنہیں اپنے جیسے دوسرے بڑوں سے الگ کر دیتا ہے۔ مثلاً یہی کہ نہ اُنہوں نے کسی اور کی کتاب کا پیش لفظ لکھا نہ کبھی کسی کو انٹرویو دیا۔ اِلّا اپنی زندگی کے اس پہلے اور آخری انٹرویو کے جو انہوں نے اپنے انتقال سے دو سال قبل ۲۲ مارچ ۲۰۱۵ کو نوائے وقت کو دیا تھا جسے اپریل ۲۰۱۷ میں ان کے انتقال کے بعد اخبار نے دوبارہ شایع کیا جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے: ’’۔۔ کسی بھی صحافی کو پچھلے بیس برس میں انٹرویو نہیں دیا۔ پچیس تیس سال ہو گئے (نہ انہوں نے کبھی کوئی) پیش لفظ لکھا نہ (خود ) اپنے اوپر کوئی رائے لکھی (البتہ) اس دوران (یہ ضرور ہوا کہ) ایک موصوف نے اپنے آپ ہی انٹرویو بنایا اور چھاپ دیا۔۔ ‘‘ (امر شاہد کی کتاب ’ صاحب آواز دوست مختار مسعود۔ ۲۰۱۷۔ ص۴۲۱)
اُن کے بچپن میں ایک بار علی گڑھ میں اُن کے والد کی فرمائش پر، جو مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں پروفیسر تھے، مولانا غلام رسول مہر نے مختار مسعود کے لیے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ! اس بچے کو بھی تصنیف و تحقیق کا شوق اور ہنر عطا کر دے ‘! (دیباچہ۔ حرف شوق) بارگاہ ایزدی سے یہ دعا اس درجہ مستجاب ہوئی کہ اگر انہوں نے اپنی ساری زندگی ’’آواز دوست‘‘ کے سوا اور کچھ نہ لکھا ہوتا تو بھی تصنیف و تحقیق، تخلیق و تنقید اور ادب و دانشوری کے میدان میں وہ اسی طرح اپنا جواب آپ ہوتے جیسے آج ہیں۔
’’حرف شوق‘‘ کے اختتامیہ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میری زندگی ایک ایسے انقلاب سے عبارت ہے جس میں میرے بچپن نے آنکھ کھولی اور میری جوانی نے ہوش سنبھالا۔ اس صبح انقلاب کو دیکھنے کے لیے زندہ ہونا ایک سعادت تھی۔ در اصل یہ ’خود شناسی اور جنوں کی داستان‘ تھی جو کبھی پرانی نہیں ہو سکتی بلکہ زمانہ اُسے بار بار دہراتا ہے، فرق صرف نام، مقام اور وقت کا ہوتا ہے۔ نام جو بدل سکتا ہے، مقام جو پیچھے رہ جاتا ہے، اور وقت جو کبھی تیزی اور کبھی آہستگی سے ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ اسی لیے میری یہ داستان ایسے موڑ پر پہنچ کر ختم ہوتی ہے جب میرے وہ ساتھی اپنا راستہ بدل چکے تھے جن کے ساتھ میں نے زندگی شروع کی تھی۔ ایک دن کم از کم دو نسلوں کے حائل ہو جانے کے بعد میں نے بچپن کے ایک ساتھی سے اپنے عہد (۱۹۴۷سے قبل کی ربع صدی) کے علی گڑھ (مسلم یونیورسٹی) کی سب سے اہم اور منفرد عمارت (اسٹریچی ہال) کا قصہ سنانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کتاب اسی وعدے کی تکمیل ہے۔ (لیکن) وہ دوست کہیں نظر نہیں آ رہا۔ غالباً میں نے لکھنے میں دیر کر دی یا اُسے جانے کی جلدی تھی۔ ! چند اَحباب جو یاد آ رہے ہیں وہ سب اس جہان سے کوچ کر چکے ہیں لیکن ایک مصنف کی حیثیت سے میرے لیے وہ اَب بھی زندہ ہیں۔ مگر یہ کسے معلوم تھا کہ آج جب کہانی اپنی تکمیل کو چھو چکی ہے تو وہ جو اس کے مرکزی کردار تھے، یوں سب کے لیے ’’حرف شوق‘‘ بن کے رہ جائیں گے۔ اُنہیں جانے کی جلدی تھی یا میرے رَب کی رِضا اسی میں تھی کہ اس کہانی کے منظر عام پر آنے سے پہلے وہ دنیا سے گزر جائیں۔۔ ۔ ‘‘ (حرف شوق ص ۵۶۳۔ ۵۶۴)
کتاب کی آخری چند سطریں ان کی ساٹھ برسوں کی رفیقہ حیات عذرا مسعود کی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’اس کتاب پر وہ ایک طویل عرصے سے کام کر رہے تھے۔ مختلف اَوقات میں اِس کے مندرجات کے بارے میں اُن کے خیالات بدلتے رہے۔ کبھی وہ اِسے محض پہلے دو مضامین تک محدود رکھنا چاہتے تھے اور کبھی بعد کے دو مضامین کا اِضافہ بھی گوارا کر لیتے۔ اب کہ حتمی رائے کے لیے وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ہم نے یہ چاروں مضامین شامل کتاب کر لیے ہیں کہ اُن کی شخصیت اور فن کی تفہیم کے لیے یہ مضامین بہت اہم ہیں۔ اگر انہیں مسعود کی (اس) آخری کتاب میں شامل نہ کیا (جاتا) تو قارئین اُن کی شخصیت کے اُن گوشوں سے (کبھی) آگاہ نہ ہو سکتے جن پر یہ مضامین روشنی بکھیر رہے ہیں۔
حرف شوق آموختم، واسوختم۔۔ آتش اَفسردہ۔ باز اَفروختم‘‘(حرف شوق ص ۵۶۴)
اللہ کا صد ہزار شکر کہ عذرا مسعود نے کتاب کے دونوں اولین اَبواب ’’ماضی کے ساتھ ایک نشست‘‘ جو بیشتر اسٹریچی ہال کے حوالے سے مسلم یونیورسٹی کے قیام کی تاریخ اور سر سید کے عزائم سے عبارت ہے، اور ’’سر سید احمد خان کون تھے ‘‘ کے ساتھ آخری دونوں ابو اب ’’باعث تحریر‘‘ اور ’’مرحوم کے نام ایک خط‘‘ بھی شامل کتاب کر لیے اور اِس طرح ’حرف شوق ‘ کو ’دو آتشہ‘ ہی نہیں ’چہار آتشہ‘ بنا دیا!
تیسرے باب کا باعث تحریر اُن کے ’صَدِیق مُکَرّم ‘ اور ہمارے بانوے سالہ جوان بزرگ محترم ریاض الرحمن خاں شروانی( مدیر ماہنامہ ’فکر نَو ‘حبیب منزل، میرس روڈ، علی گڑھ) کا ایک خط بنا جو انہوں نے عرصہ پہلے لاہور کے کسی رسالے کے مدیر کو لکھا تھا جس میں اِس حیرت کا اظہار تھا کہ ’’ زمانہ طالب علمی میں اُن کے دوست مختار مسعود کی کوئی سرگرمی اِس کی گواہی دیتی ہوئی ہوئی نظر نہیں آتی کہ آگے چل کر وہ ’اپنی توجہ اور توانائی کا وافر حصہ اردو نثر (کو’ جدید اور جاوداں ادبی شہپاروں ‘کی فراہمی) کی نذر کرنے والا ہے !اُس زمانے میں (بھول کے بھی) اُس نے اردو ادب میں (اپنی) عملی اور گہری دلچسپی کا کوئی ایسا تائیدی ثبوت بہم نہیں پہنچایا جو دوستوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا کہ یہ ساتھی کبھی اس پالے میں بھی زور آزمائی کے لیے اتر سکتا ہے ‘‘۔ (حرف شوق ص ۳۸۰)
مختار مسعود لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات غلط اندازے کی نہیں بلکہ عدم شہادت کی ہے۔ واقعات کی فہرست بنانا سوانح نگار اور مؤرخ کے لیے بہت آسان ہوتا ہے مگر توقعات و امکانات کی مکمل فہرست کاتب تقدیر کے سوا اور کون بنا سکتا ہے۔ ریاض الرحمٰن کی رائے پڑھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ وہ ارادہ جسے میں صیغہ راز میں رکھنا چاہتا تھا، قریبی دوستوں پر بھی نہ کھلا۔ سچ یہ ہے کہ میں ’حجابی فرقے‘ سے تعلق رکھتا ہوں جو اپنے خیالات۔۔ ترجیحات اور خواہشات کو سات پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں موقع بہ موقع ایک سے لے کر چھے تک پردے اُٹھتے اور گرتے رہتے ہیں (لیکن ) ساتواں پردہ کبھی نہیں اُٹھتا۔ جس منظر کی تاب آدمی خود نہ لا سکتا ہو وہ دوسروں کو کیونکر دکھائے؟۔۔ ریاض الرحمن کا خط پڑھنے کے بعد میں اُن اسباب کی کھوج میں نکلا۔۔ فہرست طویل تھی۔ مختصر کرتے کرتے تین نکات پر آ کر رک گیا۔ ایک نصیحت۔ ایک کتاب، (اور) ایک کنواں !‘‘
’’نصیحت والد محترم کی تھی۔ یک مشت نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں۔ یکدم نہیں بلکہ ایک طویل عرصے کے دوران۔ یہی کوئی آٹھویں جماعت سے لے کر ایم اے تک۔ ‘‘ (حرف شوق ص ۳۸۱۔ ۳۸۲)
نصیحت یہ تھی کہ صرف، فکر و اسلوب کی وسعت، ندرت اور گیرائی کی حامل کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور خود بھی صاحبِ طرز و صاحب اُسلوب بننے کی اَنتھک کوشش اور پیہم مشق کی جائے البتہ مقبولیت کسی لکھنے والے کے بس میں نہیں کہ بقول حافظ: قبول خاطر و لطف سخن خداداد است۔۔ اور یہ کہ۔۔ این سعادت بزور بازو نیست۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ! اپنے وقت کے دونوں ’آزادوں ‘محمد حسین اور ابو الکلام کو پڑھنے کی نصیحت بطور خاص تھی جس پر مختار مسعود نے حرفاً حرفاً، لفظاً اور معناً ہر طرح عمل کیا یہاں تک کہ بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبار خاطر ‘ہاتھ آ گئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔
مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبار خاطر ختم ہوئی میں نے اسے جہاں سے اٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی اس وقت تو (مجھے ) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور برضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اس نثر نے دیا ہے قرض حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔ اللہ میرا حامی ناصر ہو۔ ‘‘ اس عہد کا اپنوں کو پتہ چلا نہ غیروں کو۔ میں نے اس کو چھے پردوں کے پیچھے چھپا دیا تھا۔ پردے گرانے کے لیے ایک لمحہ بہت تھا۔ اُنہیں اُٹھانے کے لیے ایک عمر درکار تھی۔۔ تو برادرم ریاض الرحمٰن خاں شروانی! اگر تم مجھ سے اس ترغیبی تحریر کی نشاندہی کے لیے کہو جس کی مثال، کشش، انگیخت اور فیضان نے مجھے سنجیدگی سے اردو نثر لکھنے پر آمادہ کیا تو میں بلا تکلف غبار خاطر کا نام لوں گا۔ ‘‘ ( حرف شوق ص ۳۷۹۔ ۴۰۶)
اب جہاں تک کنویں کا معاملہ ہے تو ایک حقیقی ہے جس کی منڈیر پر بیٹھ کر وہ مستقبل کے سپنے سجاتے تھے اور معنوی تو بے شمار ہیں۔ بقول مختار مسعود ’’مسلم یونیورسٹی کے نامور اساتذہ سب بڑے گہرے اور پُر آب کنوئیں تھے۔ کسی کنویں پر میں اوک لگا کر پیاس بجھائی۔ کسی سے دو چار ڈول ڈول پانی لیا کسی سے دس بیس۔ چند کنویں ایسے بھی تھے جن سے میں نے ڈول کے بجائے چرس (رَہَٹ سے بیلوں کے ذریعے کھینچ کر پانی نکالنے والا چمڑے کا بڑا ڈول) بھر کر پانی لیا اور کِشتِ آرزو (تمناؤں کی کھیتی) کو خوب خوب سیراب کیا۔ ایک چرس پانی میں اس کنویں سے بھی لیا جس کی منڈیر پر بیٹھ کر ایک بار میں نے اردو نثر کی خدمت کا خواب، سر شام دیکھا تھا۔ وہ کنواں رشید احمد صدیقی کے گھر کی زمین میں واقع تھا اُنہوں نے گھر کی دیوار کو خم دے کر اُس کنویں کو گھر کے باہر ہی رکھا تاکہ ہر کوئی بے روک ٹوک اپنی پیاسی آرزوؤں کو سیراب کر سکے۔ ‘‘ (ص ۴۱۷) اور لاہور بھی ان کے نزدیک ایک کنویں ہی کے نمانند تھا جہاں سول سروس سے سبکدوشی و وظیفہ یابی کے بعد انہوں نے مستقل سکونت اختیار کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’لاہور (بھی تو) ایک کنویں (ہی) کی مانند ہے، اس کی تہ سے ٹھنڈے، میٹھے اور صاف پانی کے سوتے (گزشتہ) ایک ہزار برس سے پھوٹ رہے ہیں۔ میں (ٹھہرا) دزتِ آرزو کا ایک بے قرار مسافر۔۔ جہاں کہیں کنواں نظر آتا ہے اس کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ہوں۔ دل کو قرار آ جاتا ہے۔ علی گڑھ کے کنویں کی منڈیر سے میں خود اُٹھ کر نہیں آیا تھا۔ حالات نے اُٹھا دیا۔ اب لاہور کے کنویں کی منڈیر سے اُٹھ کر کہیں اور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ سنت ہے کہ ہجرت زندگی میں صرف ایک بار کی جاتی ہے ‘‘ (حرف شوق ص ۴۲۳)
انھوں نے لکھا ہے کہ غبار خاطر کے مطالعے سے جو سب سے بڑا فائدہ انہیں ہوا وہ یہ کہ: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہر گز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب کمال ‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جا کر ’عزیز جہاں شوی‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مُڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ! قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔ ‘‘ (حرف شوق ص ۴۰۳)
وہ علی گڑھ کی مٹی سے جنمے اور پوری دنیا کی خاک چھان کراس طرح ’کسبِ کمال کیا کہ ’عزیز جہاں ‘ ہو گئے۔ آج وہ لاہور کی مٹی میں آسودہ اور ’ قدرت کی فیاضی سے ہمیشہ کے لیے ’زندہ ‘ ہیں !
٭٭٭