جنگل راج ۔۔۔ شہناز نبی

 

          جنگل راج

 

شہناز نبی

 

 

سارا جنگل سیاروں کی چیخ سے گونج رہا تھا

لیکن انتخاب ایک لومڑی پر ٹک گیا

عموماً لومڑیاں چالاک سمجھی جاتی ہیں

لیکن یہ ایک بے وقوف لومڑی تھی

جسے جنگل کی سرداری سونپ دی گئی تھی

اس جنگل کی

جہاں درختوں پہ کوڑیالے سانپوں کا بسیرا ہے

لاتعداد اژدہے

آدم خور جانور

اور موقعہ پرست پرندے

جسے اپنا آبائی مسکن سمجھتے ہیں

جہاں کی مٹی دلدلی ہوتی جا رہی ہے

اور دریا جوہڑ میں بدلتے جا رہے ہیں

جہاں کے پھل کسیلے

اور پھول زہریلے ہو چکے ہیں

 

اس عجیب و غریب جنگل میں

شیروں کی آبادی یکایک گھٹ گئی ہے

بچے کھچے شیر

کمزور اور بے بس ہو چکے ہیں

 

 

اب ان کے اندر

نہ تو دھاڑنے کی طاقت ہے

نہ شکار کرنے کا ولولہ

ان کا راج پاٹ اس بھٹ تک سمٹ گیا ہے

جس کے وہ مکین ہیں

ان کی غذا

وہ بے وقوف جانور

جو خود چل کر  ان کے بھٹ میں داخل ہو جاتے ہیں

نادانی سے

اور کبھی شکار کی تلاش میں شکار ہو جاتے ہیں

 

ماہرین کہتے ہیں

ایسے جنگل دنیا میں تقریباً ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں

جہاں تازہ دم ہواؤں پر

بادِ سموم ہونے کا شک گذرتا ہے

جہاں ندیوں کا رخ محض اس لئے موڑ دیا جاتا ہے

کہ اس میں مگر مچھ نہ ہوں

جہاں ٹوٹی ہوئی کشتیوں کی مرمت کرنے کے بجائے

ناکارہ سمجھ کر

نظر انداز کر دیا جاتا ہے

جہاں درختوں کی جڑیں دیمک کے حوالے کر دی جاتی ہیں

اور تازہ شاخوں کو چھانٹ دیا جاتا ہے

جہاں پھلوں سے لدے درخت کاٹ دئے جاتے ہیں

ایسے ہی اور پھولوں سے بھری ٹہنیوں میں آگ لگا دی جاتی ہے

 

یک جنگل میں شروع ہوا

ایک لومڑی کا راج

وہ جنگل

جو سیاروں سے بھرا ہے

جہاں لاتعداد اژدہے اور آدم خور جانور

اور موقعہ پرست پرندے رہتے ہیں

اور چند کمزور شیر

اب دیکھنا یہ ہے

کہ لومڑی کا سیاروں سے سمجھوتہ ہوتا ہے یا نہیں

جنگل  کی مٹی میں زر خیزی لوٹتی ہے یا نہیں

جنگل ہرا رہتا ہے

یا پھر لمحوں کی تپش

اسے پہلے سے زیادہ خاکستری اور بھورا کر دیتی ہے

کیا کمزور شیروں میں توانائی عود کر آئے گی

یا کلی طور پر ان کا خاتمہ ہو جائے گا

لومڑی کے راج میں ندیاں الٹی چلیں گی۔ ؟

بارشیں بے وقت ہوں گی۔؟

زلزلے بے سبب آئیں گے۔؟

آگ  بے موقعہ لگے گی۔؟

کیا تجربے لومڑی کو چالاک بنا دیں گے

یا وہ سیاروں کی عیاری کا شکار ہو جائے گی۔؟

کیا جنگل پر سفید فام شیروں کی حکمرانی ہوگی۔؟

کچھوے برآمدات میں شمار ہوں گے۔؟

 

اماوس پورے چاند کی رات کہلائے گی

 

کیا چودھویں کو اندھیرا ہوگا

سمندروں سے شعلے نکلیں گے

ریگستانوں میں سیلاب آئے گا

موسم غیر متوازن ہوں تو گھڑی کی سوئیاں

الٹی چلتی ہیں

سویرے سیاہ ہو جاتے ہیں

اندھیرے سرخ

ستاروں کے ٹوٹ گرنے سے پہلے آسمان کو تھامنا ہوگا

پاتال سے باہر آنے والے بونے

اپنی اپنی سیڑھی سنبھالے

کہکشاں کو چھونا چاہتے ہیں

ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں

قدموں کا بے ہنگم شور

کیا صدیوں پر محیط ہو جائے گا

آدم کی پستی

حوا کی بے وقوفی

اک نئی دنیا سے منحرف

تعمیر سے تخریب

اور تخریب سے تعمیر تک کا راستہ طویل ہوتا ہے

جب تک کچھ متشکّل نہ ہو

سیال منصوبوں

اور خام خیالیوں کی بنیاد پر

اک جمہوری ملک کے شہری ہونے کی

بد ترین سزا جھیلنی ہے           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے