تھوڑی سی مہلت
شہناز نبی
مجھے تھوڑی سی مہلت دو
کہ میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے شرمندہ ہو سکوں
اپنی نیکیوں کو گن کر مسرور ہو سکوں
جانے کتنی شبیں بے آس گذری ہیں
کتنے دن نا مراد
مجھے تھوڑی سی مہلت دو
کہ میں جانے سے پہلے
اپنے نام کی تختی پر جمی ہوئی گرد پونچھ سکوں
اپنے جلے ہوئے دامن کی گرد جھاڑ سکوں
بھاگتی ہوئی زندگی نے سستانے کا موقعہ ہی نہیں دیا
میں ایک پوری شام کسی کی یاد میں رونا چاہتی ہوں
ایک پوری صبح چڑیوں کی چہکار سننا چاہتی ہوں
سورج کو سر پر لئے گھومنا اور بات ہے
اس کی تمازت میں بالیدہ ہونا اور
مجھے اپنے لئے ایک مٹھی سورج
ایک چٹکی چاند چاہیے
ستاروں سے بھرا آسمان چاہیے
میں ایک رات فرصت میں ستارے گننا چاہتی ہوں
باتیں کرنا چاہتی ہوں چاندنی سے
بھیگنا چاہتی ہوں اوس کی بوندوں میں
پتھریلے راستوں نے میرے قدموں کو جکڑ لیا ہے
میں ناپ کر سفر کرتی ہوں
اور آہٹیں گن کر لوٹ آتی ہوں
مجھے تھوڑی سی مہلت چاہیے
کہ میں کچے راستوں پر مٹی کی سگندھ محسوس کر سکوں
پھسل کر سنبھل سکوں
جھیل کی سطح پر بہتے ہوئے کمل کو کنارے پر لگتے دیکھ سکوں
منڈلاتی ہوئی تتلیوں کے پروں کو چوم سکوں
مجھ میں ایک معلم
ہر دن اسباق کی گنتی کرتا ہے
پرانے ادب کی جگالی
نئے ادب کا انتظار
میرا شعار
مجھے اتنی مہلت چاہیے
کہ میں نئے عہد کی تعمیر میں
اپنی سوچ کا آمیزہ دے سکوں
مکمل مشین بننے سے پہلے
میں اپنے دل کی دھڑکنیں گننا چاہتی ہوں
اپنے کھوئے ہوئے بچپن
ریزہ ریزہ جوانی
اور موت کا انتظار کرتے بڑھاپے سے
آنکھیں چار کرنا چاہتی ہوں
مجھے تھوڑی سی مہلت چاہئے
کہ میں وہ سب کر سکوں
جسے کرنے کی تمنا میں
اب بھی ایک حصہ انسان
مجھ میں زندہ ہے
٭٭٭