محبّت تو باہر ہے ۔۔۔ کاوش عباسی

محبّت تو باہر ہے

اندر کہاں سے مِلے گی

 

محبّت سمندر،

سمندر سے

اِک اوک پانی

کو اِک لوہا چیمبر میں

مٹّی کے

کنکریٹ کے گھر میں

ہم نے مُقفّل کیا ہے

یہ بے رنگ و آہنگ

بے مَوج و طوفان

اِک اوک پانی

سمندر نہیں ہے

محبّت سمندر ہے

بے حد ہے

باہر ہے

اندر کہاں سے مِلے گی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے