رؤف خیر: فکر و فن کے آئینے میں ۔۔۔ جمیل شیدائی

 

بیسویں صدی کے آغاز ہی سے اُردو شاعری میں نمایاں تبدیلیاں ظہور پذیر ہونے لگی تھیں، ان تبدیلیوں کا محرک دنیا کا وہ پس منظر تھا جو تہذیبی، ثقافتی اور صنعتی ارتقاء کے علاوہ سائنس اور ٹکنالوجی کی تیز رفتاری سے مسلسل بدل رہا تھا، چنانچہ مارکس اور فرائڈ کے نظریات نے جہاں مغربی ادب کو متاثر کر کے ایک نئی جہت سے روشناس کرایا وہیں مشرقی ادب بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ مارکس نے اقتصادی مساوات پر زور دیا اور حاکم و محکوم کے فلسفے کو یک لخت رد کیا اور فرائڈ نے انسانی دماغ کو جو روایتی اخلاقی پابندیوں کا غلام تھا آزاد کر کے جسم کے تقاضوں اور ان کی نفسیاتی ضرورت کی اہمیت بتائی۔ اس طرح اُردو ادب ان دو رجحانات سے متاثر ہوا۔ مارکس کے زیر اثر ترقی پسند ادب ابھرا اور فرائڈ کے فلسفے اور نظریات سے جدید ادب کی ابتداء ہوئی۔ مارکس کے فلسفے کا پس منظر خالص سیاسی تھا اسی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کے اثرات مغرب میں زیادہ اور مشرق میں کم ہوتے گئے۔ لیکن فرائڈ چونکہ انسانی جذبوں کی پیچیدگیوں سے بحث کرتا ہے اس لیے اُس کا اثر ادب میں دیر پا رہا ہے۔ نصف صدی سے دنیا ایک انتشار اور بحران کا شکار ہوتی رہی ہے۔ اس انتشار میں بڑی قوتوں کی رسہ کشی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش نے خصوصاً شاعروں اور ادیبوں کو بہت مایوس کیا اور وہ ان تیزی سے تبدیل ہونے والے حالات کے دھارے میں اگر کچھ کر سکتے ہیں تو وہ خود ان کی اپنی ذات کی تلاش تھی اور وہ اس کوشش میں ان رشتوں کے بارے میں سوچنے لگے جو ان میں اور سماج کے دوسرے افراد میں ہیں۔ اس تعلق کی الجھنیں کچھ اتنی زیادہ تھیں کہ انھیں تنہائی کے کرب میں مبتلاء کیا اور پھر بہت سے ادیب یہ سمجھ نہیں پائے کہ انفرادی زندگی اچھی ہوتی ہے یا اجتماعی۔ اس کرب ناک کیفیت کے متوازی روایت کی وہ غیر صالح قدریں بھی تھیں جن کی سہل انگاری، سطحی جذباتیت اور معاملاتِ حسن و عشق کی تشریح نے ان شاعروں کو پھر ایک دو را ہے پر کھڑا کیا۔ بہتوں نے محض غیر صالح روایتی شاعری کی مخالفت کی کوشش میں شاعری کو مضحک بنا دیا۔ موجودہ ماحول میں جب ادب ایک تجرباتی دور سے گزر رہا ہے اور بیش تر شعراء کا کلام غیر واضح، مبہم اور غیر صحت مندانہ ہے تو ایسے ماحول سے رؤف خیر اٹھتے ہیں جو بقول وحید اختر ’’جن کی احتیاط پسندی اور تخلیقی صلاحیت نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اس بھیڑ چال سے گریز کر کے ان کے آداب کو ملحوظ رکھا اور انھیں سچے جذبے کی زبان دی‘‘۔ اور یہ واضح حقیقت ہے کہ رؤف خیر اپنے انفرادی رنگ کی جھلکیاں ہر صنفِ شاعری غزل، نظم، سانیٹ اور ترائیلے وغیرہ میں نمایاں بکھیرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گام زن ہیں۔

رؤف خیر کے مجموعۂ کلام ’’اِقرا‘‘ کی ابتداء قرآن مجید کی آیتوں سے ہوتی ہے جہاں سے اس شعری مجموعے کا نام لیا گیا ہے۔ ان آیتوں میں انسان کی تخلیق اور پھر قلم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ قلم کے ذریعے علم سکھایا گیا ہے اور وہ علم دیا گیا ہے جسے انسان جانتا نہ تھا۔ ان آیتوں کی شانِ نزول پر نظم کے بعد ہمیں نعت ’’نورِ مستند‘‘ ملتی ہے۔ بعض گوشوں سے شعری مجموعے کی اس طرح ابتداء کو بہت ہی فرسودہ قرار دیا جا سکتا ہے اس دور میں جب کہ بے راہ روی اور مذہب بیزاری عام ہے اس طرح سوچنا غیر فطری نہیں مگر حقیقت حال یہ ہے کہ مذہب انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ کردار کی پختگی، جرأت اور حوصلہ مندی اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ اخوت اور بھائی چارگی کا جذبہ بھی اس کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ شاعر ابتداء ہی سے اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے اور شاعر کی یہی بے باکی اُس کے سارے کلام میں نمایاں نظر آتی ہے۔

اس کے بعد اس مجموعے میں غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ غزل شروع ہی سے شعراء کی دلچسپی کا مرکز بنی رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ اُردو میں قوافی کی کثرت ہے اور ان قوافی اور ردیف کی تکرار سے صوتی ہم آہنگی نغمگی کو جنم دیتی ہے۔ ایک عرصے تک نغمگی ہی غزل کا معیار ہوتا رہا اور معاملات حُسن و عشق کا اظہار محبوب موضوع قرار پایا۔ اسی یکسانیت سے تنگ آ کر غالب نے غزل کی تنگ دامانی کا شکوہ کیا اور نئے نئے مضامین سے اُسے روشناس کرایا۔ بعد کو حالی نے اسے اخلاقی خیالات دئیے اور اقبال تک یہ ارتقاء کے مختلف منازل طئے کرتی رہی۔ اس کے بعد اس میں نئی آوازوں کا رس اور نئے لہجے کی جاذبیت کا اثر پیدا ہوا اور اب چونکہ نئے نئے مسائل سے ہم دو چار ہیں اور زندگی کی قدریں مسلسل بدلتی جا رہی ہیں تو شاعروں کا موضوع ان کی اپنی ذات کی تلاش بنا ہوا ہے۔ چنانچہ رؤف خیر کی غزلوں میں بھی آپ کو یہی تلاش ملے گی ؎

سنو یہاں سے میرے دوستو اجازت دو

مجھے تلاش میں اپنی روانہ ہونا ہے

شاعر کی یہ تلاش شاعر کو ذات کی گہرائیوں تک لے تو جاتی ہے مگر دوسروں کی طرح وہ اپنی ذات کے غار میں محصور ہو کر بھول بھلیوں میں کھو نہیں جاتا۔ غار کے گوشوں سے وہ بھلے ہی نا واقف سہی مگر وہ اس کے لیے تاریک نہیں، جب بھی وہ انھیں سر کرتا ہے وہ واضح اور روشن ہو کر اس کے سامنے آتے ہیں اور وہ ان گوشوں کو معاشرے کی تبدیلی کے رد عمل سے مربوط بھی پاتا ہے۔ گویا اس کی وضاحت ایک الگ اکائی کی شکل میں ہمارے سامنے نہیں آتی بلکہ معاشرے کا ایک جز ہوتی ہے۔ اس کی شاید وجہ محض یہی ہے کہ شاعر نے عصری حسیت اور مشاہدے کے علاوہ جو داخلیت ہے وہ خارجیت سے ٹوٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کی توسیع سمجھی جا سکتی ہے ؎

ستا رہی ہے بہت خود کو دیکھنے کی ہوس

انا کا آئینۂ پاش پاش دو مجھ کو

اپنی ذات کی اس تلاش میں شاعر اکثر اپنی انا سے بھی الجھتا ہے اور اس تصادم سے کسی ایک نتیجے پر نہیں پہنچتا بلکہ اس کا تجربہ ہر جگہ مختلف ہوتا ہے۔

ایک ایک موڑ پہ اک دیو کھڑا ہے، میں ہوں

میرے ہاتھوں میں بھی تلوارِ انا ہے، میں ہوں

 

ہر بے جواز بات پہ کرتے نہ تھے یقین

گویا جہالتِ ہمہ دانی بھی ہم میں تھی

 

میں سنگ زارِ انا ہوں تراش دو مجھ کو

کوئی حسین سا آزر تلاش دو مجھ کو

 

انا فریب ہے اور تشنگی ہے خود شکنی

یہی خیال سنا تم کو بھی سجھائی دیئے

 

انانیت کا جزیرہ تھا کم سوادی میں

جو بے ثبات ہوا بحرِ بے کنار بھی تھا

رؤف خیر کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ ان کے سارے کلام میں خصوصاً غزل کے سرمائے میں کسی شاعر کی پیروی نہیں ملتی۔ ان کا اپنا انفرادی رنگ ہے، کورانہ تقلید سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ چونکہ اب غزل اپنے اندر انواع و اقسام کے مضامین کو سمو لینے کی اہلیت رکھتی ہے اس لیے ان کے یہاں بھی کئی طرح کے مضامین ملتے ہیں، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ، اپنے مقام کا تعین، نجی مسائل، اور پھر معاملات حسن و عشق بھی۔ بظاہر حسن و عشق کا بیان بہت ہی پامال اور روایتی شاعری کی عکاسی کرتا ہے مگر یہاں بھی وہ سنبھل کر اور اعتدال پسندی سے لطیف اشارے کرتے جاتے ہیں جس سے ان کا جذبہ معتبر ہو جاتا ہے۔

آج تک بھی وہی دیوانہ ادا باقی ہے

گھر سے نکلے تو تری راہ گزر کو جانا

 

جانے کیا راز تھا کچھ اُس نے بھی پھیکا لکھا

ہائے کھلتا نہیں ہم پر بھی تو جی کا لکھا

 

ہم کہاں حرف شناس اتنے مگر پڑھتے ہیں

کاغذوں پر ترے ہاتھوں کی نمی کا لکھا

 

وہ شخص بڑے چاؤ سے کچھ پوچھ رہا ہے

تو ایسے میں ائے لذتِ گویائی کہاں ہے

 

کچھ کھُل گیا تھا ہم سے وہ محتاط شخص بھی

لگتا ہے کوئی بات سہانی بھی ہم میں تھی

 

یوں تو اکسایا بہت شوقِ نہایت نے اسے

مجھ سے کھُلنے نہ دیا پاسِ روایت نے اُسے

انہیں معاملاتِ عشق میں شاعر معشوق سے شکوہ بلب ہو جاتا ہے اور یہ شکوہ لہجے کی نرمی، طنز کی ہلکی ہلکی سی جھلکی کے امتزاج سے ایک حسین کیفیت پیدا کرتا ہے اور ہمیں یوں لگتا ہے جیسے شاعر لڑائی جھگڑے کی فضاء پیدا کیے بغیر بات یوں کہتا ہے کہ اُس کا اثر بھی ہو اور معشوق ناراض بھی نہ ہو۔ مثلاً

وہ میرے جذبۂ پندار سے واقف ہی نہیں

خیر مغرور کیا میری عنایت نے اُسے

 

یہ سوچتا کھڑا ہوں سرِ راہ پیش و پس

کیسے نِباہوں تم سے ریا کار کی طرح

 

سہا ہے کیا کیا نہ اب تک بھی ہم نے ہنس کے نہیں

تمھیں کہو کہ یہ حالات کس برس کے نہیں

 

ہمیں نے کچھ نظر اندازیوں کی حد کر دی

بُرا نہ مان کہ یہ گھاؤ تیرے بس کے نہیں

 

اے وہ خوش فہمی سے دامن کو جھٹکنے والے

والہانہ ترے دامن سے لپٹتا کب ہوں

 

بچ گیا ہے میرے پیراہنِ خوش کے صدقے

ورنہ وہ شخص تو باہر میری زد سے کب تھا

رؤف خیر لفظوں کے برتنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔ وہ بالراست بھی کہتے ہیں اور اشاروں کنایوں کی زبان میں بھی گفتگو کرتے ہیں اور علامت نگاری سے مفہوم کو گنجلک اور مشکل نہیں بناتے بلکہ اس کو اور آسان کر دیتے ہیں۔ ان کی خاص علامتیں قاتل، ابر، لہو، جزیرہ، سمندر، چراغ، دیا، سورج، ہوا وغیرہ ہیں۔ بہر حال ان کی غزلیں اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے دل و دماغ پر ایک نقشِ دیر پا چھوڑ جاتی ہیں۔ انھیں پڑھنے کے بعد قاری ایک سچی خوشی سے دو چار ہوتا ہے کیوں کہ قاری کو ان کے شعروں میں تجربے کی گہرائی، بیان کی سلاست ملتی ہے جو قوتِ متخیلہ کو تیز کر دیتی ہے اور وہ تخلیق کی رو کے ساتھ ساتھ بہنے لگتا ہے۔

غزلوں کے بعد رؤف خیر کے شعری مجموعے میں ہمیں نظمیں ملتی ہیں، غیر مقفیٰ، سانیٹ، ترائیلے۔ غیر مقفیٰ نظمیں قافیہ کی پابندی سے آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ بحر کے اراکین کی کمی و زیادتی کی بھی متحمل ہوتی ہیں۔ گویا شاعر اس صنف میں بہت ساری پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ Dryden کو یہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ شاعری میں جب اتنی ساری آسانیاں ہوں گی تو شاعر باتونی ہو جائے گا۔ یہ بات انگریزی ادب میں چاہے ہوئی ہو یا نہ ہو اُردو شاعری میں ایسا ضرور ہوا ہے کہ ہمارے بہت سارے شاعر بہت باتونی بھی ہوئے ہیں اور ان کی باتیں لایعنی بھی ہوئی ہیں، اس کی وجہ ان کے اپنے عجیب و غریب خیالات ہیں جو ایک محدود تجربے کی روشنی میں اظہار کی شکستگی اور بے جا خود پسندی کی وجہ سے مہمل اور بے اثر ہیں۔ اس ژاژ گوئی کی طرف وحید اختر نے ’’اقراء‘‘ میں یوں اشارہ کیا ہے ’’نظم میں چند پٹے پٹائے موضوعات کو سکہ بند اظہارات میں اکتا دینے والی یکسانیت کے ساتھ باندھتے رہنا بھی نئے پن کا شناس نامہ سمجھا جانے لگا ہے ‘‘۔ در اصل نیا پن شاعر کی ذات اور تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے جذباتی تجربوں کا اظہار ہے۔ شاعر کا شعور جس قدر بالغ ہو گا اسی قدر جذبے میں گہرائی ہو گی۔ رؤف خیر کی نظمیں بھی خصوصاً غیر مقفیٰ تجربہ کی گہرائی، اظہار کی چستی اور مواد کی شائستگی کی وجہ سے مختصر اور زود اثر ہیں۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اُنھیں کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ وہ اپنے خیالات کو بے قابو ہونے نہیں دیتے اور قوت متخیلہ سے جو افکار نکلتے ہیں انہیں پابند الفاظ یوں کرتے ہیں کہ اس میں لفظوں کا بے جا تصرف بھی نہیں ہوتا اور مطلب بھی واضح ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً ان کی ایک نظم ہے ’’بے اثاثہ‘‘ جسے انہوں نے اپنے والد مرحوم کی نذر کیا ہے، اس نظم میں دو متضاد صورتوں کو نظم کیا گیا ہے ایک صورت ظاہر کی ہے اور دوسری صورت مخفی کی، کہتے ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ میں ابن بے اثاثہ ہوں

نہ کوئی گھر نہ زمین پائی میں نے ترکے میں

 

وہ ایک گھر جو تھا پرکھوں کا آخری پندار

ہوا ہے اس پہ بھی اتمامِ لطف آخر کار

یہاں ایک تلخ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس مادیت پرست دنیا میں رشتے یکسر کاروباری ہو گئے ہیں۔ مگر شاعر کی انفرادیت اُسے عام روش سے ہٹا کر چلاتی ہے وہ اس صورت حال سے ملول و غمگین نہیں ہے وہ اپنے والد سے کہتا ہے ؎

مری شریک نفس ہے تمہاری ہانپتی سانس

مرے بدن میں تمھارا پسینہ شامل ہے

 

تمھارا رعشہ گناہوں سے روکتا ہے مجھے

یہ ہاتھ خالی نہیں، صاحب قلم ہوں میں

 

یہ آنکھ کاسہ نہیں، چشم معتبر ہوں میں

یہ دل سیاہ نہیں، نور کا سمندر ہے

یہ ساری باتیں مخفی ہیں اور مادیت پر بے شک فوقیت رکھتی ہیں۔ پھر شاعر کہتا ہے ؎

مجھے تمھارے وسیلے سے مل گیا کیا کیا

یہ جھوٹ لگتا ہے میں ابن بے اثاثہ ہوں

اس ساری نظم کا حسن تضاد میں ہے جو پہلے اور آخری مصرعوں میں ہے۔ جس شدت سے جذبات اُبھرے اُسی شدت سے قلمبند بھی ہوئے ہیں اور ان کا ارتکاز اُسی شدت سے قاری پر بھی ہوتا ہے۔ یہی ایک کامیاب نظم کی نشانی ہے۔ اسی طرح اس مجموعہ میں ہمیں بہت ساری کامیاب نظمیں ملتی ہیں جن میں قابل ذکر نظمیں صدف ہدف، قصہ دل دکھنے کا، پناہ، لذت آوارہ دودھ کا عذاب وغیرہ ہیں۔

رؤف خیر کے شعری مجموعہ ’’اِقرا‘‘ میں ہمیں دس سانٹس ملتے ہیں۔ سانٹس در اصل اطالوی شاعر Petrach کی ایجاد ہے اس کی ہئیت کی نزاکت اور متوازن شکل کی وجہ سے یہ نہ صرف اٹلی میں بلکہ یورپ میں بھی مشہور رہی ہے اور اب تک مسلسل لکھی جاتی ہے۔ اطالوی زبان سے یہ انگریزی زبان میں لائی گئی اور چودہ مصرعوں کی اس نظم کو انگریزی زبان میں بھی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ Petrachian فورم میں آٹھ مصرعوں یعنی Octave کے قافیوں کی ترتیب یوں ہے۔ ABBA ABBA اور پھر چھ مصرعوں یعنی Sestet کو دو یا تین قافیوں سے لکھا جاتا ہے۔ اس فورم کو شکسپئر نے رد کیا اور قافیوں کی ترتیب کو یوں کر دیا، ABABCDCD EFEF GG۔ شکپئر کے بعد ملٹن اور وڈزوتھ نے اس میں مزید ترمیمات کیں۔ رؤف خیر کے یہاں قافیوں کی ترتیب Petrachian اور Shakespearain سانٹس سے الگ ہے وہ ABBA CDDC EFFE GG کے قافیوں میں سانیٹ لکھتے ہیں۔

سانیٹ قافیوں کی ہم آہنگی اور موسیقیت کی وجہ سے نہ صرف اپنے اندر صوتی بانکپن رکھتی ہے بلکہ اس میں شاعر کو اپنا خیال بیان کرنے کا اچھا موقع بھی ہوتا ہے۔ قوافی اور موزوں بحروں کی وجہ سے اسے زیادہ سے زیادہ خوب صورت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اُردو میں ہمیں کئی سانٹس ملتی ہیں جو محض جذباتی ہم آہنگی کی وجہ سے پڑھنے میں لُطف تو دے جاتی ہیں مگر ان کا درجہ معنوی اعتبار سے بلند نہیں ہوتا۔ رؤف خیر پابند نظمیں کہنے میں کامیاب مہارت رکھتے ہیں اس وجہ سے ان کے سانٹس معنوی اعتبار سے بلند ہوتی ہیں اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ شاعر کے تخیل کا میدان محدود نہیں ہے۔ وہ غم ذات یا غم دوراں ہی کو اپنا موضوع نہیں بناتا بلکہ اس کے یہاں وہ موضوعات ملتے ہیں جو کسی حساس ذہن کے محور کی زد پر آتے ہوں۔ وہ غم ذات سے غم کائنات سب ہی باتوں پر غور کرتا ہے اور خوبی سے اپنے خیالات کو قلم بند بھی کرتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر رؤف خیر کی سانیٹ ہے ’’نا تراشیدہ پناہیں ‘‘ اِس دل کو چھونے والی سانیٹ کا پس منظر گھریلو ہے اِس نظم میں ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے جہاں عدم مساوات کا اب بھی سکہ چلتا ہے اور جہاں انسانی ذہن اور صلاحیت کا استحصال ہوتا ہے اس معاشرے میں فرد تمنا تو کر سکتا ہے، سوچ تو سکتا ہے مگر حالات کے چنگل میں وہ اتنا گھرا ہوا ہوتا ہے، وہ اپنی تمناؤں کو پورا نہیں کر سکتا چنانچہ شاعر ایک اور تمنا کرتا ہے ؎

مجھ کو اُمید ترے فن سے ہے ایسا ہو جائے

تو جو پتھر بھی تراشے تو وہ ہیرا ہو جائے

نا موافق حالات میں اچھی اُمیدیں اور نیک توقعات رکھنا ہی ہمارے سماج کا کردار ہے اس کی وجہ بقول ڈاکٹر محمد حسن یہی ہے کہ ہم غم پرست نہیں بلکہ غم نصیب ہیں۔ سماجی موضوع کے بعد شاعر ادب کی طرف رُخ کرتا ہے۔ ’’نذر غالب‘‘ میں وہ ماضی کے حالات اور ادبی قدروں کا موازنہ حال سے کرتا ہے جو کسی طور ملتے جلتے نہیں ہیں اور یہ بات واضح کرتا ہے کہ حالات کی تبدیلی سے شاعر کی سوچ کا انداز اور اس کا لہجہ بدل جاتا ہے ؎

غلط ہے یہ کہ ہم ماضی کی تصویروں سے چڑتے ہیں

مگر یہ سچ ہے اپنا درد اپنا درد ہوتا ہے

 

ترے لہجے میں اپنا غم سمونا ایک دھوکا ہے

نئے لوح و قلم پیچیدہ تحریروں سے چڑتے ہیں

 

تو اپنے دور کی آواز تھا یہ مانتے ہیں ہم

مگر جو غم ہے اپنے دور کا پہچانتے ہیں ہم

اپنے دور کے غم کا شاعر شکار ہے اس کی وجہ اس کی عصری حسیّت ہے چنانچہ وہ اپنے اس دور کے غم کو ایک اور سانیٹ ’’نذر ملٹن‘‘ میں یوں بیان کرتا ہے ؎

یہاں یہ حال کہ تیئس سال کا عرصہ

پلک جھپکتے تو کیا بیتتا کہ راہوں میں

ہزار موڑ تھے خون مانگتی پناہوں میں

کٹا ہے جاگتے خواب و خیال کا عرصہ

اُسے ملال رہا دور لاشعوری کا

یہاں ملال ہمیں اپنی با شعوری کا

یہی شاعر کا بالغ شعور ہے جو اُسے مختلف مسئلوں تک لے جاتا ہے اور وہ ان کے حل کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتا بلکہ ان کی نشاندہی کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ یہ مسئلے اتنے پیچیدہ یا فلسفیانہ نہیں کہ ایک اوسط ذہانت رکھنے والے فرد کی سمجھ میں نہ آ سکیں بلکہ یہ مسئلے روز مرہ زندگی سے لیے گیے ہیں اور ان حالات سے ماخوذ ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں۔ وہ بعض شعراء کی طرح صرف ذات ہی کو اپنا موضوع نہیں بناتا بلکہ وہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ ؎

چشم نظارہ کو وسعت دو سمندر دیکھو

اک ذرا خول سے باہر بھی نکل کر دیکھو

رؤف خیر کی اس وسعت نظری کی وجہ سے ہمیں ان کی شاعری میں آفاقیت کا عنصر ملتا ہے جو ایک قابل تحسین بات ہے۔

اِدھر اُردو میں بہت سے شاعروں نے سانیٹس لکھی ہیں جیسے اختر شیرانی، سلیم شہزاد، یوسف ظفر وغیرہ۔ مگر اکثر اُردو کے شاعروں نے اس صنف شاعری کو منہ کا مزہ بدلنے کی حد تک ہی رکھا ہے یا بہت کیا تو یوں کیا کہ ایک ہی موضوع کے اظہار کے لئے اسے مختص کیا اور اس طرح اس صنف میں جو وسعت ہے وہ بُری طرح مجروح ہوئی ہے مثلاً اختر شیدائی کی بہت سی سانٹس رومانی فضا ہی میں پروان چڑھتی ہیں اور ان کے اس خاص رنگ ہی کی غماز ہوتی ہیں۔ شکسپئر نے بھی اکثر سانٹس Black Lady ہی کو مخاطب کر کے لکھی ہیں اور Black Lady کا اشارہ محبت کے ایک خاص فلسفے کی طرف ہے۔

رؤف خیر کی سانٹس اس لحاظ سے قابل تحسین ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے موجودہ سماجی اور ذاتی مسائل کو موضوع بنا کر اسے نئی جہت سے روشناس کرایا ہے اور ان کے سانٹس جیسے ’’بنگال کا جادو‘‘ ’’ہمارے بعد‘‘ ’’درد کا رشتہ‘‘ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سانیٹ آسان اور پیچیدہ سب ہی مسائل کے بیان کے لئے موزوں صنف شاعری بن سکتی ہے۔

اس شعری مجموعہ کے آخر میں ہمیں ترائیلی ملتے ہیں۔ رؤف خیر کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی ان کے ترائیلی ہیں۔ ترائیلی در اصل فرانس صنف شاعری ہے جس میں آٹھ مصرعے دو قافیوں سے لکھے جاتے ہیں اور پہلا مصرع چوتھے اور ساتویں مصرع کی جگہ اور دوسرا مصرع آٹھویں یا آخری مصرع کی جگہ دہرایا جاتا ہے Thomas Hardy کی ترائیلی ہے۔

How great my grief, my joys how few

Since first it was my fate, to know thee!

Have the slow years not brought to view

How great my grief, my joys how few,

Nor memory shaped old times a new,

Nor living kindness helped to show thee

How great my grief, my joys how few,

Since first it was my fate, to know thee

اس صف شاعری کی خوبی اور کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ مصرعوں کا اعادہ فطری جیسا ہو اور ناگزیر لگے اور اس طرح اعادہ سے مختلف معنی نکلتے ہوں یا نفس مضمون کی تشریح ہوتی ہو۔ ترائیلی کے تاریخی پس منظر کے بارے میں O. Bloch اور W. Von Wart burg نے فرانسی زبان کی ڈکشنری میں لکھا ہے کہ ترائیلی 1486 تک نامعلوم سا لفظ تھا حالاں کہ یہ صنف بہت زیادہ قدیم ہے، کیوں کہ قرون وسطیٰ کے شاعر جیسے Deschamps اور Froissart نے بھی ترائیلی لکھے ہیں۔ مگر پندرھویں صدی کے اوآخر سے یہ صنف نظر انداز کر دی گئی تھی اور پھر اسے سترھویں صدی میں Vincent Voiture اور Jean de-la-foun lanie نے دوبارہ رائج کیا۔ انگلستان میں صرف Patric Carrey نے 1651 میں چند مذہبی ترائیلی لکھے تھے اُس وقت سے اب تک اس صنف میں خاص کام نہیں ہوا مگر اب انگلستان میں ترائیلی لکھنے والے کئی شاعر ہیں جیسے H.C. Burnner, Austin Dobson, W.E. Henely وغیرہ۔

چنانچہ فارسی میں بھی یہ صنف مقبول رہی ہے اور فارسی کے بہت سے جدید شاعروں نے اس فورم میں طبع آزمائی کی ہے۔ مثلاً فارسی زبان کے شاعر

قلی مستعان دست گردی کی ترائیلے یوں ہے۔

زبی مہری تو بیزار ہستم

مسلط عشق را برمن نہ کر دی

کہ من با زیست درپیکار ہستم

زبی مہری تو بیزار ہستم

گرفتاری چو تو دیدار ہستم

بسی زیر و زبر درمن نکر دی

زبی مہری تو بیزار ہستم

مسلط عشق را برمن نہ کر دی

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہماری شاعری ترقی یافتہ زبانوں سے ہمیشہ متاثر رہی ہے اور خصوصاً اس فرانسسی نظم کے فارم پر رؤف خیر کو جس طرح دسترس ہے اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو میں بہت زیادہ وسعت ہے اور وہ کسی بھی زبان کے کسی بھی فورم کی متحمل ہو سکتی ہے۔ رؤف خیر کے ترائیلی اپنے نفیس مضمون کے اعتبار سے متنوع اور دلچسپ ہیں۔ مثلاً ان کی ایک ترائیلی ہے جس کا عنوان Limbo ؎

میں جہاں ہوں وہاں اوس و خز رج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی سمیّہ بھی ہے

گھر کے آنگن ابوجہل کے کج بھی ہیں

میں جہاں ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

جور زانی، شرابی بھی ہیں جج بھی ہیں

میں ہوں سب سے الگ، سب سے رشتہ بھی ہے

میں جہاں ہوں وہاں اوس خزرج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی سمیّہ بھی ہے

اس مختصر سی نظم میں ہمارے معاشرے کی کامیاب تصویر کشی کی گئی ہے۔ خیر و شر کی قوتیں اور ان کے توازن سے سماجی اقدار تشکیل پائے ہیں چوں کہ شاعر سماج ہی کا ایک فرد ہوتا ہے اس لئے اس کا رشتہ سماج سے اٹوٹ ہے۔ اُس کی انفرادیت اُسے سب سے الگ تو کرتی ہے مگر الگ ہونے کے احساس کے ساتھ ؎ میں ہوں سب سے الگ سب کے رشتہ بھی ہے۔ ۔ ۔ یہی خاص بات رؤف خیر کے کلام میں ہوتی ہے کہ وہ ذات کو معاشرہ سے الگ کر کے نہیں دیکھتے بلکہ اس کا ایک حصہ بن کر ایک جُز ہو کر اس پر نظر ڈالتے ہیں، اور یا سیت کے احساس کے ساتھ صورت حال اور ماحول پر چُست فقرے کستے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ان کی مجبوری جیسے ترائیلی ’’کوہِ ندا‘‘ سے ظاہر ہوتی ہے ایک سماج کی مجبوری ہے۔ اس مجموعہ میں بہت اچھی اچھی نظمیں ملتی ہیں جیسے ’’دیوار‘‘ ’’انجام کار‘‘ Resgestae Hostile witness, cul de sac وغیرہ۔

Cleam the Brooks نے اپنی کتاب Understanding Poetry میں لکھا ہے کہ شاعری ہمیں علم دیتی ہے یہ علم خود ہمارے بارے میں ہی ہوتا ہے جو تجرباتی دنیا سے اخذ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ رؤف خیر کی تجرباتی دنیا کی وسعت مسلم ہے اور بالغ شعور کی وجہ سے ان کے تجربے رائے گاں نہیں جاتے بلکہ ہمارے ذہنوں پر ایک خاص کیفیت مرتسم کر جاتے ہیں۔

Wordsworth نے شاعر کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں سے بات کرتا ہے اس لحاظ سے رؤف خیر کی باتیں، لا یعنی، گنجلک نہیں اور نہ Soliloquy کی طرح یہ باتیں خود سے ہوتی ہیں بلکہ ان کی باتوں میں متانت ہے بھر پور اعتماد ہے لہجے کا بانکپن ہے اور سچا تجربہ ہے جو سُننے والوں کو چونکاتا بھی ہے اور دعوت فکر بھی دیتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے