غزلیں ۔۔۔ ناہید ورک

 

میں تو سمجھی مرا کوئی نہیں دوست

اُس سے بڑھ کر ملا کوئی نہیں دوست

 

تیری باتیں خدا سے کرتی ہوں

اور تو رتجگا کوئی نہیں دوست

 

تُو مرادوں بھرا جزیرہ ہے

تجھ سے بہتر دعا کوئی نہیں دوست

 

کتنی شفاف ہیں تری آنکھیں

دوسرا آئینہ کوئی نہیں دوست

 

بے طلب ہی لپیٹ لیتی ہے

خامشی کا سِرا کوئی نہیں دوست

 

میں محبت کے بُت بناتی ہوں

سانس لیتا ہُوا، کوئی نہیں دوست

 

اس کو جھیلا ہے، جانتی ہوں میں

ہجر جیسا خلا کوئی نہیں دوست

٭٭٭

 

 

۔۔۲۔۔

 

 

 

عکس بھی عرصۂ حیران میں رکھا ہُوا ہے

کون یہ آئینہ رُو دھیان میں رکھا ہُوا ہے

 

شام کی شام سے سرگوشی سُنی تھی اک بار

بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہُوا ہے

 

ہاں ترے ذکر پہ اک کاٹ سی اُٹھتی ہے ابھی

ہاں ابھی دل ترے بحران میں رکھا ہُوا ہے

 

ایک ہی آگ میں جلنا تو ضروری بھی نہیں

ہاں مگر چہرہ وہی دھیان میں رکھا ہُوا ہے

 

رابطے اُس سے سبھی توڑ کے یاد آیا ہے

آخری وعدہ تو سامان میں رکھا ہُو ہے

 

راس آتا ہی نہیں کوئی تعلق ناہید

دلِ خوش فہم مگر مان میں رکھا ہُوا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے