دکن کی چند ہستیاں (خصوصی مطالعہ) ۔۔۔ ڈاکٹر مقبول احمد مقبول

 

رؤف خیر حیدرآباد کے ان نامی گرامی شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی شہرت ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ہند بھی ہے۔ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے گلزارِ سخن کی سیر ہی کو کافی نہیں جانا بلکہ وادیِ نثر کی سیاحت کو بھی ضروری خیال کیا۔ گلزارِ سخن ہو کہ وادیِ نثر، رؤف خیر نے ان دونوں میدانوں میں اپنے منفرد نقوش مرتسم کیے ہیں۔ یہاں نثر سے مراد تخلیقی نثر نہیں بلکہ تنقیدی نثر ہے۔ لطف یہ ہے کہ ان کی تنقیدی نثر میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔ رؤف خیر کے حجرۂ پیکر میں ابتدا ہی سے ایک نقاد بھی معتکف ہے جو وقفے وقفے سے اعتکاف سے باہر آتا ہے اور اپنے تنقیدی مضامین سے اردو تنقید کے سرمائے میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے۔ قبل ازیں ایسے ہی تنقیدی مضامین پر مشتمل رؤف خیر کی چار کتابیں ’’ خطِ خیر‘‘ ’’دکن کے رتن اور اربابِ فن‘‘ ’’بچشمَ خیر‘‘ ’’حق گوئی و بے باکی‘‘ وقفے وقفے سے منظرِ عام پر آ کر اربابِ شعر و ادب سے دادو تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی پانچویں تنقیدی کتاب ’’دکن کی چند ہستیاں ‘‘ کے زیرِ عنوان ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ۲۰۱۴ء میں شائع ہو ئی ہے۔

زیرِ نظر کتاب ایک سو بیانوے صفحات کو محیط اور بتیس مضامیں پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، دو ایک سے قطع نظر کتاب میں شامل تقریباً تمام مضامین دکن سے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم کی شعری و ادبی خدمات کے حوالے سے قلمبند کیے گئے ہیں۔ ان میں بھی بیشتر قلم کار ایسے ہیں جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ رؤف خیر نے ان گراں قدر مضامین کے ذریعے دکن کے قلم کاروں کی شعری و ادبی خدمات کو خراجِ تحسین ہی پیش نہیں کیا بلکہ ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی کوشش بھی کی ہے۔ تمام مضامین رطب ویابس اور مبالغے سے پاک اور بے حد متوازن ہیں۔ یہ متوازن اندازِ نظر ان مضامین کو قابلِ قدر بناتا ہے۔ رؤف خیر جس طرح قلم تول کر شعر لکھتے ہیں اسی طرح تنقیدی مضامین بھی قلم تول کر لکھتے ہیں۔

خورشید احمد جامی، مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، شاذ تمکنت ابنِ احمد تاب اوج یعقوبی مضطر مجاز، مصلح الدین سعدی، اقبال متین، روحی قادری، طالب رزاقی، ذکی بلگرامی، غیاث متین، طالب خوندمیری، یوسف قادری، ڈاکٹر داؤد اشرف ولی دکنی شہید کوسگوی، ایثار احمد اور علیم صبا نویدی کی خدماتِ ادب کے حوالے سے تحریر کرد مضامین میں سے بیشتر مضامین بھر پور اور جامع ہیں۔ یہ مضامین ان صاحبانِ قلم کے فکر و فن اور ان کے مزاج و منہاج کو سمجھنے اور ان کے مقام و مرتبے کے تعین میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض مضامین سے شعرا کے طرزِ زندگی پر روشنی بھی پڑتی ہے۔ مثلاً خورشید احمد جامی نے تجرد کی زندگی گزاری۔ شاذ تمکنت نہایت خوش لباس و خوش اطوار تھے۔ اوج یعقوبی شعر کا کار خانہ چلاتے تھے اور مشاعرے پڑھنا ان کی معاشی مجبوری تھی۔ ۔ ۔ مصلح الدین سعدی پر تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’پیرِ خیری جنابِسعدی‘‘کے ایک ایک لفظ میں عقیدت و محبت کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ رؤف خیر نے سعدی صاحب سے جو علمی فیض اٹھایا اس کا اعتراف نہایت فراخ دلی سے اس مضمون میں کیا ہے۔ مضمون کا عنوان ہی اعترافیہ ہے۔ یہ اعتراف ان کیا علیٰ ظرفی کی دلیل ہے۔

رؤف خیر کی تجزیاتی قوت اور استدلالی اندازِ بیان قابلِ تحسین ہے۔ وہ نہایت غور فکر کے بعد قلم اٹھاتے ہیں اور نپی تلی اور متوازن رائے دیتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں افراط و تفریط اور غلو کو دخل نہیں۔ مثلاً مضطر مجاز کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :

جناب مضطر مجاز بڑی خوبیوں کے مالک ہیں عموماً ہمارے شاعر نثر پر توجہ نہیں دیتے اور      نثر نگار کا شاعر ہونا ضروری نہیں۔ مگر مضطر مجاز صاحب نظم و نثرپر یکساں دسترس رکھتے      ہیں۔ آپ کے اشعار ہی کی طرح آپ کی نثر بھی منفرد اور اپنے اندر ایک انوکھی کاٹ لیے ہوے ہوتی ہے۔ مضطر مجاز صاحب کی نثر نگاری ان کے اشعار میں سہلِ ممتنع کی  صورت اختیار کر گئی ہے۔ (ص:۴۲)

یوں تو سارے تفصیلی مضامین قابلِ تحسین ہیں لیکن ان میں ’’مجذوبِ دکن پیکرِ ایثارِ سخن بھی‘‘ بہت جاندار اور شاندار ہے۔ اس مضمون میں رؤف خیر کی استدلالی اور تجزیاتی قوت اور شعورِ نقد پورے شباب پر ہے۔ اس مضمون کے ذریعے مشہور مترجمِ اقبالِ فارسی سید احمد ایثارؔ کی ترجمہ نگاری کی خدمت کو خراجِِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں کئی علمی باتیں زیرِ بحث آئی ہیں۔ ایثار احمد سے جہاں جہاں رؤف خیر نے اختلاف کیا ہے، وہاں وہاں انھوں نے مدلل انداز میں اپنی بات پیش کی ہے۔ ابلیس اور منصور حلاج کے بارے میں بعض اہل تصوف کے عقائد و مزعومات پر جرح و تعدیل بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں :

علمی معاملات میں صوفیانہ عقائد کو قرآن وسنت کے معیارات سے ٹکراتا ہوا دیکھیں تو ان سے اجتناب ضروری ہے چاہے وہ اقبال جیسی عبقری شخصیت ہی کے  قلم سے کیوں نہ نکلی ہوں۔ ہمیں شخصیت پرستی سے بہرحال بچنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جناب ایثار احمد نے اسلامی اور غیر اسلامی تصوف پر اسرارِ رموز میں کافی سیر حاصل  بحث کی ہے۔ تاہم مزید تحقیق کی ضرورت تھی۔ بعض حکایات کی تہذیبی جہات میں   شاعرانہ حسن ضرو رہے مگر منطقی استدلال سے ان کی شعریت ہوا ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔  شعریت اور شریعت دو الگ الگ میدان ہیں۔ ۔ ۔ ۔ حافظ، رومی، اقبال کا کلام پڑھتے   ہوے ہم ان کے شاعرانہ مرتبے کی داد ضرور دیں گے مگر ان کے فکر وفلسفے کی تائید قرآن و سنت سے کرنا خود ان شاعروں کی شعریت سے مذاق کرنے کے برابر ہے اور خود قرآن و سنت کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ صوفیہ کے نزدیک ابلیس خواجۂ اہلِ فراق ہے۔ اب ایثار  احمد کیا کریں گے۔ آپ نے بھی انھی روایتی اور مروجہ عقائد کی روشنی میں جاوید نامہ کے   مقدمے میں صفحہ ۷۸ پر لکھا کہ ’’ابلیس جلال خداوندی کا گرویدہ تھا۔ لہٰذا ترکِ سجدۂ  آدم  سے معتوب ہو کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ وہ بحرِ عشقِ الٰہی کا واحد شناور ہے جو عقیدۂ  توحید پر سختی سے قائم رہا۔ ‘‘           (ص؛۱۷۹)

آگے لکھتے ہیں :

میرا معروضہ یہ ہے کہ شعرا کے کلام میں ایسی کسی شخصیت کی تعریف بھی ہو تو شاعر کے شاعرانہ رویے کی داد دیں مگر اس کے فکر و فن کو قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح  ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوے علمی متانت کا مذاق نہ اڑائیں۔ جیسے جاوید  نامے میں طاسین حلاج کے حوالے سے زندہ رود اور حلاج کے مکالموں کی ادبیت  سے استفادہ اپنی جگہ مگر حلاج کے دعوائے انا الحق کا دفاع ممکن نہیں۔ (ص:۱۸۰)

رضا وصفی مصحف اقبال توصیفی، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر مقبول فاروقی، اثر غوری اور اعظم راہی پر لکھے گئے مضامین بے حد مختصر ہیں۔ ایک طرح سے یہ ان کا مختصر تعارف نامہ ہیں۔ ان مضامین سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر ان مضامین میں اور تھوڑی طوالت گوارا کر لی جاتی تو بڑی حد تک ان قلم کاروں کا بھی حق ادا ہو جاتا۔

’’حیدرآباد میں اردو شاعری کی پون صدی ‘‘ تحقیقی نوعیت کا مضمون ہے جس میں تنقیدی شان بھی پائی جاتی ہے۔ اس مضمون میں حیدرآباد کی پچھلی پچھتر سالہ شعری تاریخ کے نشیب و فراز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگر چہ یہ موضوع طویل مقالے کا متقاضی ہے لیکن رؤف خیر نے اس پون صدی کی تاریخ کا نہایت اختصار کے ساتھ اس انداز سے جائزہ لیا ہے کہ اس دور میں حیدرآباد کے شعری افق پر طلوع ہونے والی اردو شاعری کے اہم خد و خال اور اہم ترین شعرا کی خدمات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ نام چھوٹ گئے ہوں ؛ تا ہم یہ مضمون سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی مثال ہے۔ اس مضمون میں شعرا کے ذکر میں زمانی ترتیب کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بعض مقامات پر جونیر شاعر کا ذکر پہلے اور سینیر شعرا کا تذکرہ بعد میں کیا گیا ہے۔ ’’حیدرآباد میں بچوں کا ا دب :ایک اجمالی جائزہ ‘‘ بھی اسی نوعیت کا بھر پور مضمون ہے۔ اس مضمون سے حیدرآباد میں بچوں کے ادب کی سمت رفتار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ’ ’آج کے منظر نامے میں اردو نظم‘‘ ایسا مضمون ہے جس میں اگرچہ دکن کے نظم نگاروں کے حوالے بھی ہیں لیکن یہ مضمون خالصتاً دکن میں نظم نگاری کے متعلق نہیں بلکہ عمومی نوعیت کا مضمون ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران اردو نظم نگاری کچھ نئی جہتوں سے آشنا ہوئی ہے اور کچھ نئی نئی اصناف بھی رواج پا گئی ہیں۔ اس مضمون میں نہ صرف ان جہتوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں بلکہ یہ مضمون اردو میں نئی شعری اصناف کے حوالے سے اچھی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔

زیرِ نظر کتاب کے مضامین صرف معنوی اعتبار سے معیاری اور متاثر کن نہیں بلکہ اسلوب نگارش کے لحاظ سے بھی متاثر کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان مضامین کی ساری دلکشی ان کے اسلوب ہی میں پوشیدہ ہے۔ رؤف خیر نے جس طرح شاعری میں اپنے مخصوص اور منفرد اسلوب سے اپنی شناخت قائم کی ہے اسی طرح ان کی نثر بھی ان کے منفرد اسلوب کی غمازی کرتی ہے۔ وہ تنقید میں بھی انشا پردازی کے جوہر دکھاتے ہیں۔ تنقیدی مضامین میں انشا پردازی کو مناسب خیال نہیں کیا جاتا ؛ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا یہ اسلوبِ نگارش ناگوار نہیں بلکہ پُر لطف معلوم ہوتا ہے۔ یہی مخصوص اسلوب نگارش انھیں عام ناقدین سے منفرد بناتا ہے۔

رؤف خیر کے ہر مضمون میں چونکانے والے اور معنی خیز جملے ہوتے ہیں۔ انھیں سطور میں جو کچھ کہنا ہے وہ تو کہتے ہی ہیں، اس کے علاوہ بین السطور بھی وہ بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ مثلاً خورشید احمد جامی سے متعلق مضمون کے ابتدائی دو جملے ملاحظہ کریں :

’’فارسی میں جامی کا مطلب ہوتا ہے مولانا عبد الرحمن جامی اور اردو میں جامی سے مراد  ہے خورشید احمد جامی۔ باقی جامیوں کو اپنے سابقوں اور لاحقوں کے بغیر نہیں جانا جا سکتا‘‘۔ (ص:۸)

مخدوم سے متعلق مضمون ’’کمانِ ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل‘‘ کی تمہید میں نظم کے مقابلے میں غزل کی اثر آفرینی اور طاقت سے بحث کرتے ہوے لکھتے ہیں :

جس کسی نے غزل کو حقیر جان کر اس سے رو گردانی کی وہ بد نصیب اور ’’ بے ادب‘‘ ہی ٹھیرا۔  محض نظم گوئی پر تکیہ کرنے والے شعرا تو وہ حنوط شدہ لاشیں ہیں جن کا مسالہ کچھ ہی دن میں  دم دے جاتا ہے۔ چنانچہ اختر شیرانی، سلام مچھلی شہری۔ میرا جی، جوش ملیح آبادی، اختر الایمان  وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کچھ ن۔ م۔ نظم گو شعرا کا کریا کرم ہو گیا۔ آتشِ ادب میں کود پڑنے کے لیے بھی ابراہیمی عشق چاہیے اور یہ راز غزل کے دو مصرعوں میں پوشیدہ ہے۔      (ص۱۳)

ملک الشعرا اوجؔ یعقوبی کی گزر بسر کا اہم ذریعہ مشاعروں سے ہونے والی آمدنی تھی۔ بقول رؤف خیر وہ مشاعروں میں شرکت کی خاطر ضرورتاً سلام، منقبت اور مرثیہ لکھتے تھے۔ وہ ایسے ہی کسی مشاعرے میں اورنگ آباد تشریف لے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس تناظر میں وہ لکھتے ہیں :

نعت، منقبت، سلام اور مرثیہ پر مشتمل ’’اوجِ عرش‘‘ میں نورِ عقیدت سے زیادہ شکم کی آگ کارفرما ہے۔ یہی شکم کی آگ انھیں اورنگ آ باد تک لے گئی۔ جب  لوٹے تو آگ مٹی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ (ص؛۴۰)

مضمون ’’اقبال متین بہ حیثیتِ شاعر‘‘ کا اختتام ان جملوں پر ہوا ہے :

علامہ اقبال کے بعد شاعری کا دعویٰ کرنا نبوت کا دعویٰ کرنے کے برابر ہے۔  زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل اور اوصیائے نظم ہو سکتے ہیں۔    (ص:۶۳)

اس طرح کے چونکانے والے اور معنی خیز جملے ان کے ہر مضمون میں مل جائیں گے۔

رؤف خیر کے اسلوب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جن شخصیات پر قلم اٹھاتے ہیں ان کی تصانیف، ذہن و فکراورسماجی و مذہبی پس منظر کی مناسبت سے وہ ایسا اندازِ تحریر اختیار کرتے ہیں اور ایسی لفظی مناسبت سے کام لیتے ہیں کہ جن کے مطالعے سے عجیب لطف وسرور حاصل ہوتا ہے۔ اس لطف وسرور کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ خورشید احمد جامی نے شادی نہیں کی۔ اس پس منظر میں رؤف خیر لکھتے ہیں :

عروسِ سخن کے سوا جامی صاحب نے کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا گورا نہ کیا اور یوں ہی تجرد کی زندگی گزار  دی لیکن کسی کے ہجر کا کرب وہ زندگی بھر جھیلتے رہے۔ (ص:۱۲)

’’رخسارِ سحر‘‘ ’’برگِ آوارہ‘‘ اور ’’یاد کی خوشبو‘‘ جامی صاحب کے مجموعہ ہائے کلام کے نام ہیں۔ اس مناسبت سے وہ رقم طراز ہیں :

سلیمان اریب کی طرح خورشید احمد جامی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر سن ۱۹۷۰ ء میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور یاد کی خوشبو سے بھرا برگِ آوارہ چھوڑ گئے جورخسارِ سحر کی طرح آج بھی چمکتا ہے۔        (ص:۱۲)

قوی سیف کے مجموعۂ کلام کا نام ’’ایک چٹکی آگ‘‘ ہے۔ ان کا انتقال نہایت کم عمری میں ہوا۔ اس تناظر میں وہ قوی سیف کے بارے میں اس طرح گل افشانیِ گفتار کرتے ہیں :

قوی سیف کی ’’ایک چٹکی آگ‘‘ ابھی شعلہ نہ بننے پائی تھی کہ ان کی مٹی ٹھکانے لگی۔ ۔ ۔ نام کے قوی تھے دل کے کمزور، اسی لیے دل کے عارضے نے جان لے لی۔       (ص:۱۵۵)

ذکی بلگرامی اہلِ تشیع تھے۔ چنانچہ ان پر قلمبند کیے گئے مضمون میں شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والے اصطلاحات اور لفظیات کا اس خوبصورتی اور فنی چابک دستی سے استعمال کیا ہے کہ بے ساختہ زبان سے داد وتحسین نکلتی ہے۔ اس مضمون سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں تا کہ راقم الحروف کی بات پایۂ ثبوت کو پہنچے :

۔ ۔ ۔ اسی قندیلِ سخن کے سہارے وہ کوفۂ فن کی نیت باندھ کر عصائے موسوی ٹیکتے ہوئے   بابل و نینوا تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے راستے میں کوئی فرات حائل نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔     ۔ ۔ اردو کی شعری روایت کو انھوں نے حرم میں جگہ دے رکھی تھی توفارسی کے دل نواز حسن  سے بھی متعہ کر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان ذکی کا وجود توازنِ تعلقات نباہتا رہا۔    (ص:۷۵)

ہر اچھے خیال کو وہ اپنی چادرِ تطہیر میں لے لیتے ہیں۔ اگر کوئی اچھوتا خیال امیرِ شام  کے نمک پر پل بھی رہا ہو تو وہ حُر کی طرح ان کے لشکرِ سخن میں درانہ چلا آتا ہے۔     (ص:۷۵تا ۷۶)

ذکی اپنا مشکیزۂ خوننابِ خالی بھرتے بھی ہیں تو دجلۂ غم سے کہ یہی اک سلسبیل ہے  جو ان کی تشنگی کی حریف ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ذکی بھی ’’اثنائے شعری‘‘ کے اس قبیلے   سے تعلق رکھتے ہیں جو ادب میں بدعتِ حسنہ کا استقبال کرتا ہے اور روایت صالحہ سے خروج کرنے والوں پر تبرا بھی بھیجتا ہے۔     (ص:۷۶)

بلا تقیہ وکتمان حق یہ بات کھل کر کہی جا سکتی ہے کہ ذکی کے ہاتھ میں قلم اک ایسا  نشان ہے جس کے سر نگوں ہونے کی آس میں کئی کوفی اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ ۔ ۔  حرفِ ذکی سے صرفِ نظر کرنا اپنی خوش مذاقی کا ماتم کرنا ہے۔ ذکی کے ہاں بھی بہتّر  نشتر نکل ہی آئیں گے۔ فی الحال بارہ اشعار کی معصومیت کی داد دیجیے۔    (ص:۷۸)

اگر غور کیا جائے تو اس طرح کی مناسبتِ لفظی ان کے تقریباً ہر مضمون میں کہیں نہ کہیں نظر آئے گی۔ اس صنعت گری نے ان کے مضامین کو بوجھل نہیں بلکہ پُر لطف بنا دیا ہے۔ یہ اسلوبِ نگارش رؤف خیر کو ان کے ہم عصر نقادوں میں امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروف ریڈنگ باریک بینی سے نہیں کی گئی۔ نتیجے کے طور پر اکثر مقامات پر کمپوزنگ کی غلطیاں راہ پا گئی ہیں ۔ معلوم نہیں رؤف خیر جیسے محتاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے ادیب وشاعر نے پروف ریڈنگ کی طرف خاطر خواہ توجہ کیوں نہیں دی۔ ۔ ۔ اعظم راہی سے متعلق مضمون میں ایک بات قارئین کو کنفیوژ کر دیتی ہے۔ اس مضمون میں رؤف خیر لکھتے ہیں :

نئی نسل کے بیشتر قلم کاروں کا ادبی سفر ’’پیکر‘‘ کے ذریعے شروع ہوا۔ آج کے  مشہور و معروف قلم کاروں نے اعظم راہی کے ’’پیکر‘‘ کے حوالے سے اپنی پہچان  بنائی۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۰ء تک یعنی تقریباً تیس سال تک اعظم راہی نے اپنے  رسالے کے ذریعے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اعظم راہی ۲۶ اکتوبر  ۱۹۴۰ ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔       (ص:۱۰۸)

کنفیوژ کرنے والی بات یہ ہے کہ اعظم راہی نے کیا صرف دس سال کی عمر میں رسالہ ’’پیکر ‘‘ جاری کیا تھا؟یہ بات ناممکن نظر آتی ہے۔ اگر ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران رسالہ جاری کیا بھی ہو تو ’’تیس سال‘‘ تک تہلکہ مچانے کی بات تو یقیناً ناممکن ہے۔ بیس سال ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ بقول رؤف خیر، اعظم راہی نے ۱۹۶۰ ء کے آس پاس لکھنا شروع کیا تھا۔ یہاں یہ واضح نہیں ہو پا رہا ہے کہ سنین تحریر کرنے میں کمپوزر نے غلطی کی ہے یا رؤف خیر سے تسامح ہوا ہے یا یہ بات سہوِ قلم کا نتیجہ ہے۔ بظاہر تو کمپوزنگ کی غلطی نظر نہیں آتی۔

ان دو ایک باتوں سے قطع نظر کتاب اس معیار کی ہے کہ اس کا نہ صرف مطالعہ کیا جا سکتا ہے بلکہ بوقتِ ضرورت استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے اسلوب سے جو لطف وسرور حاصل ہو گا وہ اضافی فائدے کے ذیل میں آئے گا۔ یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ قاری اس کتاب کو پڑھ کر مایوس نہ ہو گا۔ اسے علم و ادب اور فکر و نظر کی کچھ نہ کچھ روشنی ملے گی۔ ورنہ آج کل ایسی کتابیں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں جن میں روشنی تو ہوتی نہیں البتہ سیاہی کی کثرت ضرور ہوتی ہے۔ خدا خیر کرے ! آمین!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے