غالب کی مذہبی وابستگیاں ۔۔۔ انور معظم

 

غالب کی مذہبی وابستگیاں

 

               پروفیسر انور معظم

 

ہم موحد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

عقائد: شاعری سے ہٹ کر غالب کی فکر کے مذہبی پہلو خصوصاً متصوفانہ تصورات پر کافی لکھا گیا ہے۔ متصوفانہ فکر پر میں نے علاحدہ اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہاں خطوط میں مذہبی رجحانات پر جو مواد ملتا ہے اس کی بنا پر نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ دیکھنا دل چسپ ہو گا کہ غالب کی مذہبی یا روحانی شخصیت، شعر اور نثر میں کس طور ظاہر ہوتی ہے، یہ ایک ہی شخصیت ہے یا ایک سے زیادہ شخصیتیں ہیں ۔

غالب نے اپنی مذہبی اور متصوفانہ شخصیت کی پوری وضاحت ایک خط میں کی ہے جو ۱۸۶۴ میں علاؤ الدین خاں کے نام لکھا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا تفصیلی اقتباس درج ذیل ہے۔

’’دریبے کے بنیوں کے لونڈوں کو پڑھا کر مولوی مشہور ہونا اور رسائل ابو حنیفہ کو دیکھنا اور مسائل حیض و نفاس میں غوطہ مارنا اور ہے عرفا کے کلام سے حقیقت حقہ وحدتِ وجود کو اپنے دل نشین کرنا اور ہے۔ مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب و ممکن میں مشترک جانتے ہیں ، مشرک وہ ہیں جو مسلیمہ کو نبوت میں خاتم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں ، مشرک وہ ہیں جو نومسلموں کو ابوالائمہ کا ہم سر مانتے ہیں ۔ دوزخ ان لوگوں کے واسطے ہے۔ موحدِ  خالص اور مومن کامل ہوں ۔ زبان سے لاالہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں ’’لا موجود الا اللہ، لا موثر فی الوجود الا اللہ سمجھے ہوا ہوں ۔ انبیا سب واجب التعظیم اور اپنے اپنے وقت میں سب مفترض الطاعت تھے۔ محمد علیہ السلام پر نبوت ختم ہوئی۔ یہ خاتم المرسلین اور رحمتہ اللعالمین ہیں ۔ مقطع نبوت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ من اللہ ہے اور امام من اللہ علیہ علیہ السلام ہے۔ ثم حسن، ثم حسین۔ اسی طرح تا مہدی موعود علیہ السلام:

بریں زیستم، ہم بریں بہ گزارم

ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباحث ار زندقہ کو مردد اور شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں ۔ اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا بلکہ میں دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین اور منکرین نبوت مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں ۔ ‘‘

مندرجہ بالا اقتباس میں جن عقائد اور مسائل پر غالب نے دو ٹوک رائے دہی ہے، وہ یہ ہیں :

۱۔ اسلام کا مطالعہ بالآخر وحدت الوجود کا مطالعہ ہے۔

۲۔  اسلام کی قانونی ؍ فقہی تفسیر، اسلام کی مکمل ترجمانی نہیں ہے۔ عارفین کی وحدت وجود کی تحقیق اور ان کے تجربات اور تاثرات ہی اس کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔

۳۔ شرک

شرک فی التوحید: وجود صرف واجب الوجود میں موجود ہے، ممکن میں نہیں ۔ وہ شرک کے مرتکب ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وجود واجب اور ممکن دونوں میں ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں ، ایک نہیں ، وجود دو ہیں ۔ اللہ اور ماسوا اللہ یعنی موجودات۔

شرک فی الرسالت: مشرک وہ ہیں جو رسول اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی خاتم المرسلین مانتے ہیں ۔

شرک فی الامامت: مشرک وہ ہیں جو ان لوگوں کو جو بعد میں مسلمان ہوئے حضرت علی کے برابر درجہ دیتے ہیں ۔

۴۔ موحد خالص اور مومن کامل: وہ ہے جو زبان سے لاالہ الا اللہ کہتا ہے اور دل میں یہ سمجھتا ہے کہ لا موجود الااللہ اور لا موثر فی الوجود الا اللہ۔ غالب توحید کے زبانی اور دلی اقرار و ایمان میں فرق کر رہا ہے۔ اس فرق کو برتنے کا کوئی جواز اسلامی تعلیمات سے ڈھونڈنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ فرق توحید میں نہیں ، توحید کی دو معروف تعبیروں کے درمیان یعنی وحدت الوجود کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ہے۔ غالب وحدت الوجودی ہے اور وہ اس کا اقرار و اعلان اپنے اشعار میں بھی بلا کی خوب صورتی اور معنی آفرینی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہی نقطہ ٔ نظر اس بیان میں بھی ملتا ہے لیکن دل اور زبان کے زائد ذرائع کے ذکر کے ساتھ۔ زبان سے لا الہ الااللہ کہنے سے غالباً مراد یہ ہے کہ غالب مسلمان ہونے کی اصل شرط پوری کر رہا ہے۔ اس کلمے کی دل جو تفہیم و تعبیر کر رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کوئی شے موجود نہیں ہے۔ اگر اس کے سوا کوئی اور ’’وجود‘‘ محسوس ہوتا ہے تو اس ’’محوس وجود‘‘ میں بھی اللہ ہی موثر ہے۔

۵۔ نبی : سب نبی اپنے اپنے وقت میں اطاعت کے قابل تھے۔ رسول اکرم خاتم المرسلنا و رحمت اللعالمین ہیں ۔

۶۔ امامت: اول یہ کہ غالب نبوت اور امامت کے درمیان ایسا ہی تعلق دیکھتا ہے جیسے مقطع اور مطلع کا ہوتا ہے لیکن یہ دونوں شعری اصلاحات کے طور پر ہیں ، اپنے لفظی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ مقام جہاں نبوت قطع ہوئی وہی مقام ہے امامت کے طلوع ہونے کا۔ یعنی امامت نبوت ہی میں بالقوہ موجود تھی اور نبوت کے ختم ہوتے ہی وہ وجود میں آ گئی۔ دوم یہ کہ غالب نبوت کے اختتام اور امامت کے آغاز کے درمیان کوئی وقفہ تسلیم نہیں کرتا جس میں اجماع وقوع پذیر ہوا اور خلافت کا سیاسی سلسلہ شروع ہوا۔ یعنی کوئی انسانی ذریعہ استعمال نہیں ہوسکتا۔ امامت کے مقم کے لیے وہ ’’من اللہ‘‘ ہے۔ اس لحاظ سے رسول اللہ کے بعد حضرت علی امام ہوئے۔ ان کے بعد حسن اور ان کے بعد حسین تا مہدی موعود۔ واضح ہے کہ ۱۸۶۴ میں لکھا گیا یہ خط غالب کو فرقۂ امامیہ میں شامل کرتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے