اردو زبان میں جمالیات شناسی اور اُس میں شکیل الرحمان کا حصّہ ۔۔۔۔ اسیم کاویانی

اردو زبان میں جمالیات شناسی اور اُس میں شکیل الرحمان کا حصّہ

 

نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا!

 

               اسیم کاویانی

 

 

شکیل الرحمان نے خسرو کی کثیر جہتی (وسط ایشیائی+ترکی+عربی+عجمی) شخصیت کو جلوۂ صد رنگ قرار دیا ہے، جو اپنی روایات کی اعلا قدروں اور اپنے ہند عجمی خدوخال کے ساتھ ہندستان کے رنگ و آہنگ میں ڈھل گئی ہے۔ خسرو نے سات سلاطین کا زمانہ دیکھا تھا۔ وہ اُن سلاطین کی مداح سرائی اور وقائع نویسی کرتے کرتے بے اختیار اس ملک کی دھرتی، موسموں ، وحوش و طیور، تہذیب و تمدن اور اشیا و مظاہر کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں ۔ موضوع سے یہ بھٹکاؤ جو شبلی کی مورخانہ نگاہ میں نقص تھا، شکیل الرحمان نے اسی میں خسرو کی جمالیات کا رمز پایا ہے۔ اُن کی یہ بات بھی قائل کرتی ہے کہ انسان دوستی، تصوف اور ہمہ مشربی کے مسلک نے بھی خسرو کے احساسِ جمال کو توانا اور صحت مند روایات کا حامل بنایا تھا۔

غالب اور اقبال پر بھی اُنھوں نے کافی لکھا ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے اُنھوں نے یہ بنیادی نکات پیش کیے ہیں کہ غالب کی شاعری میں فینتاسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اُس کی آبیاری میں اُن کے مزاج کی داستان پسندی کا بڑا حصّہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی شاعری میں رنگ، آہنگ اور رقص کے دلدادہ اور حسّی لذّتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں ۔ اقبال کی جمالیات میں اُنھوں نے ’روشنی‘ کو مرکزی حیثیت دی ہے، اور اُن کے اشعار میں سے روشنی اور اُس کے تلازمات کی متعدد مثالیں فراہم کر کے اپنے نقطۂ نظر سے تفہیم اقبال کی راہ روشن کی ہے۔ یہ دونوں ہی مقالے کم از کم اتنا تو ثابت کر ہی دیتے ہیں کہ غالب اور اقبال کے افکار شعری کو سمجھنے کے لیے داستان اور روشنی کے تلازموں پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غالب و اقبال کی فکری وسعتوں کی تفہیم میں اس طرح کے جمالیاتی اشارے بہت دور تک ساتھ نہیں دے سکتے۔ غالب ہی کے لفظوں میں کہوں تو یہ ’طبعِ بلبل و شغلِ سمندر‘ کا سا معاملہ ہے۔

اُنھوں نے بارہ ماسے کی صنف کو یک کرداری تمثیل بتایا ہے۔ جس میں عورت کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیتیں موسم کے جمال و جلال کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ عشق و اُلفت، اور ہجر و وصل کے جنسی جذبات میں بہت سے رس سموئے ہوئے ملتے ہیں ۔ مثلاً عیش  و عشرت کا شررنگار رس، وصل و اختلاط کا رتی رس، جدائی کی اذیت کا شوک رس، تجسّس کاوس مایا رس وغیرہ۔ بارہ ماسے کی مخاطب عموماً سکھی ہوتی ہے، اور کچھ اس طرح کہ سکھی خود پریمیکا کا آئینہ بنی نظر آتی ہے۔ شکیل صاحب نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ بھگتی شعرا کے یہاں بارہ ماسے میں فرد کی روح عورت ہے اور اللہ محبوب ہے۔ مجموعی طور پر بارہ ماسے پر اُن کا جمالیاتی مطالعہ سراہنے کے لائق ہے۔

قلی قطب شاہ کو شکیل الرحمان نے شررنگاررس کا سب سے بڑا شاعر بتایا ہے اور بجا طور پر لکھا ہے کہ قلی قطب شاہ وہ پہلا فیمینسٹ شاعر ہے، جس نے اپنی شاعری میں عورت کو مرکزی حیثیت دی ہے اور اُس کے یہاں عرب کے دور جاہلی کے شعرا کا سا کھرا اور سچّا جنسی تجربوں کا بیان ملتا ہے اور عورت کے روایتی اور معروضی تصور سے اعراض۔ تاریخ بھی شاہد ہے کہ قلی قطب شاہ کی شاہی دسترس اور آزاد فطرت نے اُس کے لیے جنسی جذبات کے بے محابانہ اور صحت مندانہ تجربوں کے اظہار و عمل کی راہ سہل بنا رکھی تھی۔

اردو کی کلاسیکی مثنویوں پر داستانی غلبے کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے ان مثنویوں کے داستانی عناصر، عشق و دغا، جادو ٹونا، چھل فریب، مہم و مجادلہ، دیو پری اور توتا مینا کے طلسمِ ہوش رُبا کی تفصیلات کا طومار کئی صفحات پر پیش کیا ہے۔ ان میں غالباً کچھ ہی باتوں کا سررشتہ کھینچ تان کر جمالیات سے جوڑا جا سکے۔

فراق نے اپنی شاعری میں کسی حد تک اور ’روپ‘ کی رباعیوں میں بڑی حد تک عشق و محبت اور وصل و مہجوری کی جنسی و جذباتی کیفیتوں کو دل آویز ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ ہندی الفاظ کے رچاؤ، معشوق ہندی کے حسن و جمال اور شام و شب کی خواب ناک فضا کے پس منظر نے بھی اُن کے بیان کو پُر کیف بنایا ہے، اور وہ یقیناً  شررنگا رس کے بھی ایک اچھے شاعر ہیں ۔ شکیل صاحب نے نہ صرف اُنھیں شررنگا ررس کا سب سے بڑا شاعر ( !) قرار دیا ہے بلکہ اُن کے صوفیانہ حسنِ ظن نے فراق کے یہاں حسنِ زن میں بھی الوہیت کا نظارہ کیا ہے!

واقعہ یہ ہے کہ فراق کی شاعری کا نمایاں اور حاوی پہلو کیفیت آفرینی ہے، جو اُن کے کلام میں جاری و ساری ملتی ہے۔ ان کیفیات و احساسات کا کچھ ہی حصّہ شررنگا رس سے اور بڑا حصّہ انسانی فطرت اور کائنات کے دیگر علائق سے استوار ملتا ہے۔ فراق خود یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ    ؎

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست

وصال کو میری دنیائے آرزو نہ بنا

اس کے علاوہ خالص حُسن نسوانی کی واضح مثالوں (ہنگامِ وصال پینگ لیتا ہوا جسم، کولھے بھرے بھرے، سینے کا اُبھار، دیکھے کوئی پنڈلی کا گداز اور تناؤ) کے ہوتے ہوئے اُنھیں الوہی حسن سے جوڑنا بھی قائل نہیں کرتا۔ طرفہ تماشا یہ کہ حافظؔ کے سلسلے میں عام روش سے ہٹ کر اُن کی یہ دل چسپ اور جرأت مندانہ رائے ملتی ہے کہ حافظ کی شاعری میں ساری مستی شراب کی سی ہے‘ اور حافظ کے حسنِ نسوانی سے متعلق اشعار ہر عہد میں اپنا erotic رشتہ قائم کرنے کے اہل رہے ہیں ، اُنھیں یارانِ طریقت نے عشقِ حقیقی سے جوڑنے کی کوشش کیوں کی!

اخترالایمان کی رومانیت کی شناخت اُن کے لہجے کے حزن و افسردگی، یاسیت اور احساسِ شکست میں ڈھونڈنی مشکل نہیں اور ان جذبات کا ماضی سے تعلق اُنھیں ایک خوابوں کی سی کیفیت دے دیتا ہے۔ ان کی شاعری ایسے ہی احساسات کی پیکر تراشی سے عبارت ہے۔ مجموعی طور پر اُن کے یہاں زندگی اور قدرت کے حسن کے اظہار سے زیادہ زندگی اور قدرت کے حسن سے انسان کے فاصلے اور فقدان کے کرب کا اظہار ہے۔ اب اسے جمالیات کی معنوی وسعت کا کرشمہ ہی کہیے کہ اس میں حسنِ قدرت سے انسان کی قربت کا لطف ہی نہیں بلکہ فاصلے کا کرب بھی شامل ہے!

مولانا آزاد کی جمالیات میں ’ترجمان القرآن‘ اور ’غبارِ خاطر‘ اُن کی مرکزِ نگاہ رہی ہے۔ ’غبارِ خاطر‘ میں مولانا کے دل کش اسلوب اور اُن کے رومانی مزاج و شعور کی مدح و توصیف میں سیکڑوں صفحات لکھے جا چکے ہیں ۔ اسی طرح ’جمالیات، قرآن حکیم کی روشنی میں ‘ ایک مستقل کتاب نصیر احمد ناصر کی 1958ء میں آ چکی ہے۔ یوں بھی قرآن کی فصاحت و بلاغت، اُس کے اسلوب کے اعجاز اور عناصرِ جمال پر ہر دور میں گفتگو ہوتی رہی ہے۔ مختصر یہ کہ شکیل صاحب کی ’ابوالکلام‘ ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرتی، البتہ اُس میں شامل حکومت ہند کی شائع کردہ کتاب ’آثار ابوالکلام‘ پر اُن کا مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ وزیر تعلیم بن جانے کے بعد بھی مولانا آزاد کو مسلمانوں کے مسائل کی کتنی فکر رہا کرتی تھی۔ مولانا کے ذاتی رقعات اور سرکاری ریکارڈ کی مدد سے مرتب کردہ اس کم معروف کتاب کو اردو قارئین سے متعارف کرانے کی بِنا پربس اُ س مضمون کی ایک اہمیت ہے۔

پریم چند کے جن نسوانی کرداروں میں اپنے حسن کے تعلق سے خود پسندی اور تملق نمایاں ہے یا جن کے رویّوں میں انحراف اور سرکشی ملتی ہے شکیل صاحب نے اُن کا عمدہ نفسیاتی تجزیہ پیش کیا ہے، اگرچہ وہ چنندہ کردار پریم چند کے نسوانی کرداروں کی نمائندہ حیثیت نہیں طے کرتے۔ پریم چند پر لکھی اُن کی کتاب میں شامل مضمون ’تیسرا آدمی‘ ضرور ایک نیا مضمون ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ناول، افسانے اور شاعری میں بھی میں دل کشی کا گہرا رنگ یہی تیسرا آدمی بھرتا ہے۔ یہ ہمیں کہیں رقیب، کہیں رفیق، کہیں راہ بر، اور کہیں راہ کھوٹی کرنے والا نظر آتا ہے اور فکشن میں اسرار، تجسّس اور دل چسپی پیدا کرتا جاتا ہے۔

منٹو کے افسانوں میں ہمیں عورت کی نفسیات، مرد و زن کے جبلی تقاضوں ، تقسیم ہند اور فرقہ واریت کے المیوں ،  انسانی فطرت پر معاش و ماحول کے اثرات اور اس کے پست و بلند کی مرقع نگاری نظر آتی ہے۔ منٹو اپنی حقیقت نگاری میں کسی نظریے یا تعصب سے وابستہ نہیں ملتا۔ وہ بُروں اور بُرائیوں تک کے ذکر میں کہیں نفرت و اکراہ یا کوئی مذہبی زاویہ یا تادیب و اصلاح کا پہلو نہیں لاتا۔ منٹو کے یہاں سماج کے رد کردہ لوگوں سے ہمدردی اور انسان دوستی کا جذبہ اُس کے فن کی شناخت بن گیا ہے۔ شکیل الرحمان نے ’منٹو شناسی‘ میں اُس کے پندرہ افسانوں اور کرداروں (بُو، کھول دو، سوگندھی، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ) کے نفسیاتی تجزیے سے  منٹو فہمی کو ایک دل چسپ رُخ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن جہاں اُن کے اسلوب پر داستانی و جذباتی رنگ غالب ہے، وہیں اپنے ہر مضمون کو ایک نئی مذہبی تمثیل کے حوالے کر کے اُنھوں نے بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ موذیل اور بابو گوپی ناتھ جیسے کرداروں کی فطرت کی گہرائیاں سمجھانے میں وہ اکثر اتنی گہرائیوں میں چلے گئے ہیں کہ ہماری احتیاطیں اُن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہیں ۔ مثلاً

اردو کا قاری ’ہتک‘ کی ویشیا سوگندھی کے down to earthکردار سے بخوبی واقف ہے۔ ایک رات کوئی سیٹھ اُسے زد کرتے ہوئے ’اُونھ‘ کہہ کر اپنی کار میں آگے بڑھ گیا تھا۔ چونکہ ویشیا کی قدر و قیمت اسی میں ہے کہ وہ بِکاؤ بنی رہے، اس لیے سوگندھی کے احساسِ ذلّت اور غم و غصے کو منٹو نے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے، لیکن اس کی جمالیاتی تفہیم میں ہمیں گوتم بدھ کی وہ حکایت سنائی جاتی ہے، جس میں کسی شخص نے بدھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا وہ اُسے ازلی سچائی بتا سکتے ہیں ؟ بدھ نے اُسے جواب دیا تھا کہ وہ اسے ازلی سچائی بتانے کا وعدہ تو نہیں کرتے، لیکن اس کی پیاس کو اور بڑھا دیں گے اور اس پیاس کی تکلیف اس کے وجود کو مقدس بنا دے گی، شکیل صاحب اس شردھا لو کی پیاس کو سوگندھی اور سوگندھی سے اردو کے قاری تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ سیٹھ اشارے سے بُلا لیتا تو وہ اُس کے ساتھ چل پڑتی اور اگر مادھو حوالدار اُسے جھانسے کی جگہ کھولی کا کرایہ، خرچہ دے دیا کرتا تو وہ اُس کی رکھیل بنی رہتی۔ اپنی ’ہتک‘ سے جھلائی سوگندھی جب مادھو کو ذلیل کر کے اپنی بھڑاس نکالتی ہے تو افسانے کا قاری اپنی پوری ہم دردی اور  طرف داری کے ساتھ سوگندھی کا شریک بن جاتا ہے اور یہی منٹو کا منشا تھا۔ رہا افسانے کے آخر میں سوگندھی کے من کا خلا اور سونے پن کا احساس تو وہ سوگندھی ہو یا مہاتما وِدُور ہر انسان ایسے تجربوں سے گزرتا ہے۔ شکیل صاحب نے اسی طرح منٹو کے کئی کرداروں میں حضرت عیسا، حضرت موسا، مہاتما بدھ، سنت کبیر اور زین مذہب کی تمثیلوں سے عارفانہ نِکات پیدا کیے ہیں اور کہیں کہیں تل کا تاڑ تک بنا دیا ہے۔ اگر سعادت حسن کو جیتے جی ان باتوں کا احساس ہو جاتا تو وہ بندۂ عاصی منٹو کو یہ بشارت دینا نہ بھولتا کہ  ع   تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!

منٹو کے یہاں اُس کے اب تک دستیاب 268 افسانوں (مع افسانچوں ) میں سے آٹھ دس میں عورت کی چھاتیوں کی خوبصورتی کا ذکر کوئی پندرہ بیس سطروں میں آیا ہے۔ ع  لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم! کے مصداق شکیل صاحب نے چھاتیوں کے حسن کے ذکرِ جمیل میں مزے لے لے کر کئی صفحوں میں اپنے وسیع مطالعے کا کمال دکھایا ہے۔ جس میں ’ریتو سمہار‘ کے حوالے سے نوجوان لڑکیوں کا جاڑوں کی صبحوں میں بستر سے اُٹھ کر اپنے جسم اور چھاتیوں پر ناخن اور دانتوں کے نشانات دیکھ کر مُسکرانا بھی شامل ہے اور ’کمار سمبھو‘ میں اُوما کا اپنی ناف تک بڑھتے ہوئے شیو کے ہاتھ کو روکنا بھی! یہ تفصیلات دلچسپ ہیں ، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ ابھی اردو قارئین کا مذاقِ نظر اتنا بلند نہیں ہوا کہ وہ منٹو کے یہاں عریانیت (بہت کم سہی) میں بھی شکیل الرحمان کی نظروں سے روحانیت کا جلوہ کرسکیں جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں اظہار کیا ہے۔

اُن کا نظریۂ فن یہ رہا ہے کہ ’جمالیات فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔۔۔ ہر اچھی اور بڑی تخلیق بنیادی طور پر جمالیاتی ہوتی ہے۔ معاشرتی، معاشی یا نفسیاتی نہیں ہوتی، اگرچہ یہ عوامل اس کے محرک ضرور ہوتے ہیں ۔ (ہندستانی جمالیات) کسی نے کہا ہے کہ نورِ جمال مشتاق دلوں میں زیادہ درخشاں ہوتا ہے بہ نسبت مشاہدہ کرنے والی آنکھوں کے۔ اُن کی جمالیات شناسی کے سفر میں بھی کئی مقام ایسے ملتے ہیں کہ بے اختیار یہ شعر یاد آ جاتا ہے:

میرے مذاقِ شوق کا اس میں بھرا ہے رنگ

میں خود کو دیکھتا ہوں کہ تصویرِ یار کو

واقعہ یہ ہے کہ منٹو اور پریم چند کے افسانوی کرداروں کے تجزیوں اور اخترالایمان، فراق، غالب اور میر وغیرہ کے ذہنی رویوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے انھوں نے نفسیات ہی سے قابل قدر نتائج اخذ کیے ہیں ۔ اُن کے یہاں جمالیات کی گردان تو ہر جگہ موجود ملتی ہے، لیکن وہ جہاں قلی قطب شاہ، فراق، میر اور حافظ کے جمالیاتی طبائع کا انسلاک کسی حد تک اُن کے فن سے واضح کر پائے ہیں ، وہیں کئی فنکاروں کے یہاں اُن کی جمالیاتی تشریحات (آہنگ، آرکی ٹائپس، فینتاسی، سیمٹری وغیرہ) الگ سے دھری اور آرائشی نظر آتی ہیں یا پھر کئی فنکاروں کے یہاں بینِ سطور میں اُصولی رجحان یا شعریات کا احوال ہمیں اُن کی جمالیات کے حوالے سے ملتا ہے یا کہیں یہ جمالیات علم الاصنام کے دھندلکوں میں لپٹی ہوئی ملتی ہے۔

پریم چند اور منٹو کے سروکارِ فن پر غور کیجیے تو پریم کا قلم ہل کی کانٹی اور منٹو کا قلم جاروب یا اُستر ا نظر آتا ہے۔ پریم دھرتی سے جڑے انسانوں کے دُکھ درد اور اُن کی زندگی کے پست و بلند کو واشگاف کرنا چاہتے ہیں اور منٹو سماج کی گندگی کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ وہ سماجی حقائق کو بغیر کسی ملمع کے اور عزت مآبوں کو بغیر کسی آرائش کے بلکہ اُن کا مونڈن کر کے پیش کرتا ہے، لیکن ہمارے کچھ نقادوں کو اُنھیں حقیقت پسندانہ طریقے سے قبول کرنے میں raw-dealکا احساس ہوتا ہے، اس لیے وہ اُن کی آرائشِ جمال سے ہنوز فارغ نہیں نظر آتے۔

بہرکیف تصوف کی جمالیات ہو یا کلاسیکی مثنویوں کی، اساطیر کی جمالیات ہو یا داستان امیر حمزہ کی اپنے نِکاتِ جمال کی ترسیل سے کہیں زیادہ شکیل الرحمان اپنے وسعتِ مطالعہ کا نقش قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ اُن کی کتابیں عقل و وجدان اور فکرو تخیل کا سنگم ہیں ، نیم علمی، نیم افسانوی۔

اُنھوں نے لکھا ہے کہ مولانا روم کی حکایتیں اور کہانیاں اُن کے شعورِ مسعود (blissful consciousness) کی ترجمان ہیں اور اس شعورِ مسعود کی بنیاد محبت ہے نہ کہ مذہب! اُنھوں نے ’کبیر کے نغموں پر گفتگو‘ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کبیر کے یہاں انسان دوستی کے علاوہ پریم لیلا کا رنگ بھی چوکھا گہرا ہے۔ اُنھوں نے ’مثنوی چراغِ دیر‘ میں غالب کے تحیّرِ باطنی اور کشادگیِ فکر کا جلوہ کیا بھی ہے اور دکھایا بھی ہے۔ انھوں نے امیر خسروکے مسلک صلح کُل اور گنگا جمنی کردار اور دارا شکوہ کے صوفیانہ ذہن و ہندوی مزاج کو وقت کی طنابیں کھینچ کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر پیش کر دیا ہے۔ اُن کی مذکورہ تحریروں میں خاص طور پر اور دیگر تحریروں میں جا بجا انسان دوستی یا اُخوتِ انسانی کا پیغام جاری وساری ملتا ہے۔ میرے خیال میں اِن تحریروں کی اہمیت ’ہندستانی جمالیات‘ سے کہیں زیادہ اس لیے ہے کہ ان کی دانش و بینش کی مدد سے ہم مستقبل کی دید و دریافت کی جستجو کرسکتے ہیں ، جب کہ ماضی میں سفر کرنا (ہندستانی جمالیات) کہیں نہیں پہنچاتا۔

معترضہ طور پر عرض ہے کہ شکیل الرحمان کی جمالیات نگاری سے قبل جمالیات کے تعارف و تشریح اور مغربی مفکرین کی جمالیات شناسی پر اردو میں کتابیں آ چکی تھیں ۔ اُن کتابوں میں مولانا عبدالماجد کے یہاں ثقالت و غرابت، محمد مظفر حسین کے یہاں بے ربطی و ژولیدگی، پنڈت مولوی حبیب الرحمان شاستری کے یہاں قدیمی پیرایۂ اظہار، مرزا رُسوا کے یہاں دقّت پسندی اور مجنوں گورکھپوری کے یہاں مواد کی کم مایگی کو دیکھتے ہوئے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ بابائے جمالیات ایک کتاب نصابی طرز کی جمالیات اور متعلقاتِ جمالیات کی عام فہم تشریح میں تحریر فرما دیتے! لیکن اس مشکل سے وہ یہ کہہ کر پہلے ہی پِنڈ چھُڑا چکے ہیں کہ جمالیات کا ایک سائنس یا علم کی طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ گویا   ؎

شعر می گویم بہ از قند و نبات

من ندانم فاعلاتن فاعلات!

مولانا روم

اگرچہ ’منطق کی تفہیم کے لیے منطق کے خدوخال اُبھارنے‘ کے فرمودۂ ہیگل کی پیروی میں شکیل الرحمان زندگی بھر جمالیات کے خدوخال اُبھارتے رہے، لیکن مجھ جیسے اوسط فہم قاری کا ذہن اُن کے کسی طے شدہ نظریۂ جمال کی تہ تک نہیں پہنچ سکا۔ نہ ہی شکیل صاحب کے بنائے دھندلکاتی خدوخال جمالیات کا کوئی پیکر تشکیل کرسکے۔ بہ ایں ہمہ کتنے ہی اساتینِ ادب کے فن و فکر کی جمالیاتی تفہیم کی قابل قدر کوششوں کے لیے بابا سائیں (شکیل الرحمان اب اسی لقب سے مخاطب کیا جانا پسند کرتے ہیں ۔ ) کا مقام ادب میں محفوظ ہے۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں میں حسن و جمال کا پُر لطف داستاں در داستاں سلسلہ دراز کر کے اردو ادب کو ایک انداز دل رُبائی اور طرح داری بخشی ہے جسے اردو زبان بھُلا نہ پائے گی۔ اُن کی زندگی آج بھی   ع   دامانِ باغباں و کفِ گل فروش ہے۔

 

نوٹ:

*سہ ماہی ’ادبی محاذ‘ (کٹک) کے ’شکیل الرحمان نمبر‘ بابت (جنوری تا مارچ 2013ء) کے آخری دو صفحوں پر اُن کی تیس سے زائد کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ’ہندستانی جمالیات‘ کی تین جلدیں ’ہندستان کا نظام جمال۔۔۔ ‘ ہی کی نقشِ ثانی ہیں ۔ اسی طرح مصوری، موسیقی اور خطاطی کی جمالیات اُن کتابوں کے ذیلی موضوعات میں شامل ہیں ، اس کے علاوہ اُن کی ایک کتاب ’ادب اور جمالیات‘ (مطبوعہ 2011ء) جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ، شکیل الرحمان کی آٹھ کتابوں (جو دراصل کتابچے ہیں ) کا بنیادی مواد حشو و  زوائد کے بِنا اور دو کتابوں کا جزوی و منتخب مواد سموئے ہوئے ہے تو بحیثیت مجموعی اُن کے جمالیاتی ادب کا سرمایہ تقریباً بیس کتابوں پر مشتمل ٹھہرتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے