ضیاء الحسن
تری آنکھوں سے جتنا دیکھتا ہوں
میں بس اتنی ہی دنیا دیکھتا ہوں
نظر آئے گا وہ خُود بھی کسی دن
ابھی تو اُس کا سایہ دیکھتا ہوں
کبھی وہ حُسن بھی دیکھوں گا جا کر
ابھی اُس کی تمنّا دیکھتا ہوں
گزرتی ہے ترے کوچے سے دنیا
تری کھڑکی سے کیا کیا دیکھتا ہوں
وہ کہتا ہے: مجھے تم دیکھتے ہو!
میں کہتا ہوں کہ اچھا دیکھتا ہوں
مری آغوش میں ہونا تھا جس کو
اُسے میں سوچتا یا دیکھتا ہوں
ٹھٹھک کر ٹھیر جاتا ہوں وہیں پر
جہاں کوئی دریچہ دیکھتا ہوں
رسائی میں رکھی ہے اُس نے دنیا
جسے چپ چاپ بیٹھا دیکھتا ہوں
میں جس کشتی میں پار اُتروں گا آخر
ابھی تو اُس کو آتا دیکھتا ہوں
میں اپنے آپ سے باہر نکل کر
ضیاء اپنا تماشا دیکھتا ہوں
٭٭٭
"مُحبّت ہے ، تماشا تو نہیں ہے”
دکھائیں کیا ، یہ دنیا تو نہیں ہے
سمجھتا ہے سب آدابِ مُحبّت
یہ دل ہے ، کوئی لڑکا تو نہیں ہے
دمکتا ہے مگر کس روشنی سے
بدن اُس کا ستارہ تو نہیں ہے
بدل سکتا ہے سب کچھ ایک پل میں
بدل سکتا ہے ، بدلا تو نہیں ہے
زیادہ سے زیادہ بھی یہ دنیا
ضیاء اتنی زیادہ تو نہیں ہے
٭٭٭