ملک حبیب
اپنے وجود سے ہی جھگڑتے رہے سدا
ہم سے ہماری ذات کی ہی دشمنی رہی
میں آئینہ مزاج ہوں کچھ تو خیال کر
سُنتے ہیں پتھروں کی تو ہم سے ٹھنی رہی
کیسے شبِ فراق کا ہو ماجرا بیاں
بس ہم ہی جانتے ہیں جو حالت بنی رہی
غیروں سے میل جول تو اچھا رہا مگر
اپنوں سے گر رہی بھی تو بس دشمنی رہی
ظلمت کے دور میں بھی یونہی منفرد رہے
آنکھوں کے اِن دِیوں میں سدا روشنی رہی
دنیا مرے وجود کو کرتی رہی تلاش
مجھ پر ترے خیال کی چادر تنی رہی
ہم دھوپ کے حصار میں جلتے رہے حبیب
وہ جس جگہ رہے وہاں چھاؤں گھنی رہی
٭٭٭