اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ۔۔۔۔ محمد مجاہد سید

 

اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘

 

               محمد مجاہد سید

 

مضطر مجاز نے غالب کے منتخب فارسی کلام کا منظوم ترجمہ پیش کیا ہے، اس انتخاب کے ذریعہ اصل تو رانی غالب کا پیکر بھی قارئین اردو کی نگاہوں میں محفوظ ہو گیا۔

مضطر مجاز کی شاعرانہ صلاحیتوں کے سلسلے میں انہیں ناقدین وسامعین نے یکساں طور پر ہندوستان کے ان غزل گو شعرا میں شمار کیا ہے جو گزشتہ نصف صدی سے معیاری شاعری کے سلسلے میں کسی سمجھو تے کے لیے تیار نہیں ۔ یوں تو مضطر مجاز کا کلام بر صغیر کے تمام معیاری ادبی رسائل اور جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے، ان کے متعدد شعری مجموعے،  طویل نظموں کا مجموعہ اور ان کے منظوم اور منثور تراجم نے انہیں نہایت بلند پایہ شاعر کے ساتھ ساتھ نہایت فطری مترجم کا مرتبہ بھی عطا کیا ہے۔ مضطر مجاز حیدرآباد دکن کے کثیر الاشاعت اردو روزنامے ’منصف‘ کے ادبی صفحات کے مدیر بھی ہیں ۔

مضطر میرے ناقص مطالعے کے مطابق کمیت کے بجائے کیفیت اور ادبی معیار کی سلامتی کے لیے زیادہ کوشاں نظر آتے ہیں ۔ شاید یہی سبب ہے کہ’’ شہر بقا‘‘ جیسی طویل نظم میں بھی جس میں طنز و مزاح پر مبنی دور جدید کا منظر نامہ ہے، ایک گہری فکری قدرت کلام نظر آتی ہے اور تیزابیت کے بجائے قدرے شگفتگی اس کی خصوصیت ہے۔ جاوید نامہ کے طرز پر مرتب شدہ اس شعری تصنیف کو دور حاضر کے سماجی تضادات اور سیاسی گھٹیا پن پر اقبال کے طرز میں عمدہ تبصرہ کہا جا سکتا ہے۔ اس پورے تبصرے کو قاری کے سامنے پیش کرتے وقت مضطر کی آنکھیں پل بھر کے لیے بھی بند نہیں ہوئی ہیں ۔ یہ ان کی بہت بڑی خوبی ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ مضطر کے ہاں سوقیانہ پن نہیں بلکہ ایک رکھ رکھاؤ ہے جس کی وجہ سے ان کا طنز اپنے طے شدہ نشانے پر بیٹھا ہے۔ اقبال کی فارسی تصنیف جاوید نامہ جو 1981ء میں میرے زیر مطالعہ رہا تھا۔ اس کے ترجمے پر تبصرہ کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہو گا۔ اس ترجمے کے دوران مضطر اقبال کی شعری دنیا کا حصہ رہ کر بھی اس سے باہر موجود قاری سے ہم کلام ہو کر اسے اپنے مشاہدے کے طفیل ان دیکھی دنیاؤں کا سفر کرا دیتے ہیں ۔ ان کی ترجمہ نگاری نہ تو اقبال کی شعریت کو مجروح کرتی ہے اور نہ فلسفہ ہی اپنا مقام کھوتا ہے۔ اس ترجمے میں تحلیل، تجزیے کا عمل بالکل اصل کلامِ اقبال کی طرح جاری اور مسلسل ہے جس کے سبب سے قاری لمحہ بھر بھی اس جادوئی سفر میں اقبال اور مضطر کا ساتھ نہیں چھوڑ پاتا۔

اس وقت زیر گفتگو، مضطر مجاز کا نہایت ادبی و شعری ذوق کا نمائندہ ’’ غالب کے منتخب فارسی کلام کا منظوم ترجمہ’’ میرے پیش نظر ہے۔ اسے نقش ہائے رنگ رنگ کے عنوان سے مکتبہ شعر و حکمت حیدرآباد، دکن، ہندوستان نے شائع کیا ہے۔

غالبؔ اقبال کے پیش رو ہیں ۔ اردو شاعری میں فلسفے کی باقاعدہ ابتدا غالب کے کلام میں نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال تک آتے آتے فکری انتشار ایک مربوط فلسفے اور نظام فکر کی شکل اختیار کر کے اردو زبان کو عالمی شاعری کے ہم پلہ کر دیتا ہے۔ اردو ادب میں غالب، اقبال ان شعرا میں ہیں جو نہ صرف یہ مہم ایک تخیلی کاوش بھی ہے۔ اس لیے آپ کو یہ احساس کم ہو گا کہ یہ سب کا سب ترجمہ ہے۔ ‘‘ ہمیں مضطر مجاز کے فیضان مشق سخن اور ان کی جرأت رندانہ کا قدم قدم پر قائل ہونا پڑتا ہے جس کے طفیل غالباً پہلی مرتبہ فارسی غالب سے اردو والے روشناس ہوں گے۔

اصل فارسی کلام غالب اور مضطر مجاز کے شعری ترجمے کو مقابل نمونے حاضر خدمت ہیں :

٭ غالبؔ:

اے بہ خلا و ملا خوئے تو ہنگامہ زا

باہمہ در گفتگو، بے ہمہ باماجرا

٭ترجمہ:

اے بہ خلا وملا خوتری ہنگامہ زا

سب سے تری گفتگو سب سے ہے بے ماجرا

٭غالبؔ:

آئینہ دار پر تو مہر است آفتاب

شان حق آشکار زشان محمدؐی

٭ ترجمہ:

آئینہ دار پر تو خور ہے یہ ماہتاب

ہر شان حق عیاں ہے زشان محمدؐ ی

٭غالبؔ:

دودِ سودائے تتق بست، آسماں نامید مش

دیدہ بر خواب پریشاں زد، جہاں نامید مش

٭ترجمہ:

جب دھواں چھا یا جنوں کا آسماں میں نے کہا

دیکھا اک خواب پریشاں تو جہاں میں نے کہا

٭غالبؔ:

تا فصلے از حقیقت اشیا نوشتہ ایم

آفاق را مرادف عنقا نوشتہ ایم

٭ترجمہ:

جب ہم نے بابِ ہستیٔ اشیا رقم کیا

آفاق کو مرادف عنقا رقم کیا

٭غالبؔ:

آغشتہ ایم ہر سر خارے بہ خون دل

قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم

٭ترجمہ:

ہر نوک خار دل کے لہو میں ڈبو کے پھر

قانون باغبانی صحرا رقم کیا

٭غالبؔ:

سحر د میدہ و گل درد میدن است مخسپ

جہاں جہاں گل نظارہ چیدن است مخسپ

٭ترجمہ:

سحر ہوئی ہے وہ کھلنے لگے ہیں پھول نہ سو

چمن چمن گل نظارہ چن، فضول نہ سو

٭غالبؔ:

درد روغن بہ چراغ و کدر مئے بہ ایاغ

تا  خود از شب چہ بجا با ماند کہ مہماں شدہ است

٭ترجمہ:

درد روغن ہے چراغوں میں نہ تلچھٹ جام میں ہے

رات سے اب خود بچا کیا ہے کہ مہماں ہو گئی ہے

٭غالبؔ:

ہے !چہ می گویم اگر این ست بزم روزگار

دفتر اشعار باب سوختن خواہد شدن

٭ترجمہ:

یہ زمانے کی روش یوں ہی اگر قائم رہی

نذر آتش دفتر شعر وسخن ہونے کو ہے

طوالت اور زبان فارسی سے لوگوں کی نا آشنا ئی کے خوف سے یہ چند اشعار اور ان کے تراجم ہی فارسی کلام غالب سے ماخوذ ہیں ، ہدیہ قارئین ہیں ورنہ تو 80صفحات پر مبنی اس گراں قدر فارسی کلام غالب کے مختصر انتخاب میں بھی متعدد مقامات پر ایسے زر و جواہر نظر سے گزر تے ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہو جائیں ۔ قطعات اور نظموں کے انتخاب کیلئے بھی مضطر مجاز قابل مبارک باد ہیں کہ ان کی ترجمہ نگاری اور شعری کاوش کے اعلیٰ نمونے کے ساتھ ساتھ اصل تورانی غالب کا پیکر بھی اس انتخاب کے ذریعہ قارئین اردو کی نگاہوں میں محفوظ ہو گیا۔ غالب کے مزاج  و ماحول اور شعر ی آہنگ کو سمجھنے میں فطری شاعری مضطر مجاز کو 50سال یعنی نصف صدی لگی۔ تب کہیں جا کر گل مراد کھلا ہے۔ اس منظوم ترجمے سے مضطر مجاز بحیثیت شاعر و مترجم نہایت اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں ۔

ناشر:مکتبہ شعرو حکمت حیدرآباد

ملنے کا پتہ : (1)ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس‘ پرانی حویلی۔ حیدرآباد۔

قیمت :100 روپئے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے