مسعود حسین خاں کی خاکہ نگاری ۔۔۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔  اسے اردو اصنافِ نثر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے، کیوں کہ مرزا فرحت اللہ بیگ (1) (1883-1۔ 947) سے لے کر مرزا اکبر علی بیگ (2) (1942-2۔ 005) تک اردو کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے ادیب نے خاکے لکھے ہیں اور اس صنف ادب کو استحکام بخشا ہے۔  ہر چند کہ خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ہمیں محمد حسین آزاد (1830-1۔ 910) کے تذکرے ’آبِ حیات‘ (1880) میں دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن اس کا باقاعدہ طور پر ارتقا مرزا فرحت اللہ بیگ کی ادبی تحریروں سے ہوتا ہے جنھوں نے ڈپٹی نذیر احمد (1830-1۔ 912) کا نہایت دلکش اور دلچسپ خاکہ لکھا۔  اس کے بعد اردو خاکہ نگاروں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے جس میں مسعود حسین خاں کے علاوہ مولوی عبدالحق، خواجہ حسن نظامی، شاہد احمد دہلوی، رشید احمد صدیقی، سید عابد حسین، مالک رام، محمد حسن، صالحہ عابد حسین، چراغ حسن حسرت، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، عابد سہیل اور عوض سعید کے نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

خاکہ نگاری کو بالعموم اسکیچ (Sketch) کہا جاتا ہے، لیکن یہ اس کا صحیح انگریزی ترجمہ یا متبادل نہیں ہے۔  اسکیچ کسی شے یا شخص کا محض بیرونی یا بالائی ڈھانچا (Surface Structure) ہوتا ہے جس کے صرف ظاہری نقوش اور خد و خال ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔  خاکہ اسکیچ سے بڑی اور آگے کی چیز ہے۔  اس میں خاکہ نگار کسی شخص کے ظاہری نقوش، خد و خال، چہرے اور حلیے کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی باطنی پرتیں بھی ٹٹولتا ہے، اور اپنے ذاتی تاثرات بھی پیش کرتا ہے۔  کسی شخصیت کا خاکہ بیان کرتے وقت اس کی ہو بہو تصویر کشی کی جاتی ہے اور معروضی انداز سے کام لیا جاتا ہے، نیز اس کی خوبیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔  ایک اچھا خاکہ وہی سمجھا جاتا ہے جس میں صاحب خاکہ کی شخصیت جیسی کہ وہ ہے، ابھر کر سامنے آ جائے خواہ وہ اس کا حلیہ اور لباس ہو یا وضع قطع، عادات و اطوار ہوں یا طرزِ بود و ماند، اندازِ گفتگو اور مزاج ہو یا افتادِ طبع۔  اس شخصیت کے ساتھ پیش آنے والے بعض حالات و واقعات بھی خاکہ نگار کی دلچسپی کا باعث ہو سکتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ بعض خاکے سوانح نگاری اور سیرت نگاری کی حدوں کو چھو لیتے ہیں۔

مسعود حسین خاں (1919-2۔ 010) ایک ماہرِ لسانیات تھے، اور لسانی مسائل و مباحث سے انھیں پیشہ ورانہ دلچسپی تھی، لیکن وہ ناقد، شاعر، محقق، مدون اور خاکہ نگار بھی تھے۔  انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس میں بہترین شخصی مرقعے پائے جاتے ہیں۔  مسعود حسین خاں کے چھے مقتدر شخصیات پر لکھے ہوئے خاکے یہ ہیں:  رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر ذا کر حسین، جسٹس محمد ہدایت اللہ، عبد القادر سروری، عبد اللطیف اعظمی اور مغیث الدین فریدی۔

 

رشید احمد صدیقی

 

مسعود حسین خاں کا سب سے دلچسپ خاکہ ان کے استاد رشید احمد صدیقی (1894-1۔ 977) پر ہے جو ان کے انتقال کے بعد لکھا گیا اور’’رشید صاحب:  چند یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔  رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے نہ صرف شفیق و محترم استاد تھے بلکہ مربی بھی تھے، چنانچہ انھوں نے ہمیشہ اس رشتے کا پاس رکھا۔  وہ جب بھی ان سے ملتے حفظِ مراتب کا ضرور خیال رکھتے۔  رشید احمد صدیقی بھی انھیں اپنے تمام شاگردوں میں سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔  رشید احمد صدیقی سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ذا کر حسین کالج(سابق اینگلو عربک کالج)، دہلی سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے میں داخلے کی غرض سے جولائی 1939 میں علی گڑھ پہنچے تھے۔  رشید احمد صدیقی اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد تھے۔  مسعود حسین خاں نے پہلے ایم اے (تاریخ) میں داخلہ لیا تھا، لیکن ہفتہ عشرہ کے اندر تبدیلیِ مضمون کی درخواست دے کر ایم اے (اردو) میں منتقل ہو گئے تھے۔  مسعود حسین خاں اپنے متذکرہ خاکے کی ابتدا ان الفاظ سے کرتے ہیں:

’’میں شاگردِ رشید ہوں۔  یہ کلمۂ توصیفی نہیں، کلمۂ اضافی ہے۔  اس کو کلمۂ توصیفی کہنا میرے اختیار کی بات نہیں۔  یہ اختیار تو رشید صاحب کو تھا۔‘‘

مسعود حسین خاں نے اپنے استاد سے پہلی ملاقات کی جو تصویر کشی کی ہے وہ لاجواب ہے۔ اس سے ان کی شگفتگیِ مزاج اور افتادِ طبع کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔  یہ جاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی کہ مسعود حسین خاں کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہو رہی ہے جو منفرد ہے اور جس کا طنز و مزاح کی دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔  اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کی یونیورسٹی برادری میں کتنی عزت و توقیر تھی، اور لوگ ان کا کس قدر ادب و احترام کرتے تھے۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:

’’جولائی ۱۹۳۹ء میں جب مَیں سابق اینگلو عربک کالج، دہلی سے بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے میں داخلے کے لیے علی گڑھ پہنچا تو رشید صاحب سے پہلی مڈبھیڑ ہوئی۔  یہ ان کے نئے تعمیر شدہ مکان کے مردانہ حصے میں، کمرے سے باہر، پھوس کے چھپر کے نیچے، بے کمر اور با کمر سرکنڈوں (3) کے مونڈھوں پر میرا ان کا پہلا سامنا غالب کے مشہور شعر’’روکے‘‘ اور’’کھینچے‘‘ سے بخوبی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  (4) عرضِ حال سن لی اور بولے،’’کل شعبۂ اردو میں تشریف لائیے،‘‘ اور اس کے ساتھ ملاقات یک لخت ختم کر دی۔  لوٹتے وقت ایسا محسوس ہوا نہ تماشا کامیاب آیا نہ تمنا بے قرار۔  داخلے کی حاجت مندی سوار تھی اس لیے دوسرے دن شعبۂ اردو میں جا دھمکا۔  بغیر توجہ کے انھوں نے میرے ہاتھ سے داخلے کا فارم لیا اور’’آئیے حضرت‘‘ کہہ کر میرے ساتھ ساتھ جا نکلے۔  اسٹریچی ہال میں، جہاں ان دنوں داخلے کا بازار لگتا تھا، کلرکوں سے لے کر پرووسٹ اور دیگر اربابِ داخلہ تک، بے شمار میزیں:  یہاں اندراج کرائیے، یہاں ہال اور ہوسٹل کا انتخاب کیجئے، یہاں فیس داخلہ جمع کیجئے، ہر میز پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔  پیروکار عام طور پر سینیر طلبہ اور رشید صاحب جیسے بعض اساتذہ تھے۔  میں نے دیکھا کہ رشید صاحب کا جس میز کی طرف رخ ہوتا ہے، پرے کا پرا ہٹ جاتا ہے۔  کلرک ہو کہ اسسٹنٹ رجسٹرارا یک ہلکی سی اٹھک بیٹھک لگاتا ہے اور ان کے فقرے کی تاب نہ لا کر جھٹ ان سے فراغت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس دن رشید صاحب کے وار بھرپور پڑ رہے تھے اور شاید ہی کوئی مردہ دل ہو جو اس سوداؔ اور ان کے غنچے کے کام سے پہلو تہی کرنے کی ہمت کرتا ہو، لیجیے جو کام گھنٹوں میں ہونا تھا وہ منٹوں میں ہو گیا۔  اس درمیان میری طرف سے مسلسل تجاہلِ عارفانہ رہا۔  ایک دھچکا اور لگا جب آخر میں مجھے داخلے کا فارم تھماتے ہوئے انھوں نے کہا’’لیجیے حضرت! باقی کام آپ کا ہے، فیس وغیرہ داخل کیجیے اور شعبۂ تاریخ… کا رخ کیجیے۔‘‘(5)

شعبۂ تاریخ سے شعبۂ اردو میں منتقل ہونے کا حال مسعود حسین خاں یوں بیان کرتے ہیں، یہاں بھی ان کا سابقہ رشید احمد صدیقی اور ان کی حسِ مزاح سے پڑتا ہے:

’’ابھی میرے قدم شعبۂ تاریخ میں جمنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک مؤرخ ہی کے ورغلانے پر (میری مراد پروفیسر مجیب سے ہے جو ان دنوں علی گڑھ آنکلے تھے) اکھڑ گئے اور ہفتہ عشرہ کے اندر ہی تبدیلیِ مضمون کی درخواست لے کر سہما سمٹا شعبۂ اردو میں صورتِ سوال کھڑا ہوا تھا۔  جب رشید صاحب سے میں نے اپنی اس نیت کا تذکرہ کیا تو بولے،’’خوب! یہ میں نے کب کہا تھا کہ آپ مجھ پر نازل ہوں۔‘‘ پھر ٹھوک بجا کر پوچھا،’’کیا بالکل طے کر لیا ہے؟‘‘ میں نے کہا،’’جی ہاں، ایک مؤرخ ہی کے کہنے پر‘‘۔  کہا،’’اچھا تو لائیے درخواست۔‘‘ اور ایک شانِ بے نیازی سے دستخط کر دیے۔  لیجیے، اب میں شعبۂ اردو کا طالب علم بن گیا، یعنی شاگردِ رشید!‘‘(6)

رشید احمد صدیقی طبعاً کم آمیز واقع ہوئے تھے۔  وہ محفلوں اور مجمعوں سے گھبراتے تھے۔  انھیں خلوت ہی میں سکون ملتا تھا۔  ان کے مزاج کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عام لوگوں سے بہت کم ربط ضبط رکھنا پسند کرتے تھے۔  ان کا دیرینہ ملازم سکندر ان کے اس مزاج سے بخوبی واقف تھا، چنانچہ جب کوئی ان سے ملنے جاتا اور درِ دولت پر دستک دیتا تو سکندر ہی وارد ہوتا اور وہ اگر گھر میں موجود بھی ہوتے تو سکندر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ان کے درونِ خانہ وجود کی نفی کر دیتا اور ملنے والا نامراد واپس لوٹ جاتا۔  مسعود حسین خاں نے رشید احمد صدیقی کا خاکہ لکھتے وقت ان کی اس سماجی کمزوری کو نظر انداز نہیں کیا اور جیسا دیکھا اور محسوس کیا ویسا بیان کر دیا۔  وہ لکھتے ہیں:

’’رشید صاحب ابتدا سے خواص پسند تھے۔  طالب علموں سے وہ اپنا رشتہ یا تو درس تک محدود رکھتے تھے یا چلتے چلاتے ایک آدھ فقرے تک۔  ان کی اس خواص اور خلوت پسندی کی وجہ سے اکثر حضرات کو شاکی پایا۔  ان کا مکان ان کا حصار تھا۔  اس کا احاطہ کچھ اس قسم کا تھا کہ ملنے والا یا تو مردانے دروازے سے ٹکریں مار کر رہ جاتا یا زنانے دروازے پر پہنچ کر چلا جاتا۔  ان کی رہائش کا کمرہ دونوں دروازوں سے اس قدر محفوظ فاصلے پر تھا کہ ان کے وفادار ملازم سکندر کے توسط کے بغیر آپ کی کوئی صدا یا پیغام ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اور سکندر نہ صرف وفادار تھا، تربیت یافتہ اور مردم شناس بھی تھا۔  وہ نہایت خوش اسلوبی سے حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر کر دیتا تھا۔  بس یہیں سے سماجی رشتوں کی نزاکتیں پیدا ہوتی تھیں۔  جمیع خلائق کو معلوم تھا کہ رشید صاحب ہمہ وقت علی گڑھ اور اپنے مکان میں موجود رہتے ہیں اور یہ صرف سکندر کی سکندری ہے جو اس خضرِ ادب کو غائب اور حاضر بنائے رکھتی ہے۔‘‘(7)

رشید احمد صدیقی کو پھولوں سے بہت رغبت تھی، بالخصوص گلاب کے پھولوں سے۔  یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا۔  انھوں نے اپنے مکان کے وسیع اور کشادہ صحن میں گلاب کی کاشت کر رکھی تھی اور ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے، کھرپی ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔  مسعود حسین خاں، رشید احمد صدیقی کے اس’’شوقِ فضول‘‘ کا تذکرہ اپنے خاکے میں یوں کرتے ہیں:

’’رشید صاحب معاشرتی و جمالیاتی دونوں اعتبار سے بیرونِ خانہ سے زیادہ اندرونِ خانہ کی زیبائش کے قائل تھے۔  چنانچہ جب کہ مکان کے باہری حصے میں خاک دھول اڑتی تھی اندر ایک لہلہاتا چمن اور سبزہ زار تھا اور پھولوں کی وہ بھرمار کہ پریاں قطار اندر قطار۔  قلم کے بعد صرف کھرپی کو یہ شرف حاصل تھا کہ ان کے دستِ مبارک میں دیکھی جاتی جس سے وہ کیاریوں میں قلم کاری کرتے۔‘‘(8)

پھولوں کی نسبت سے وہ رشید احمد صدیقی کے بارے میں مزید لکھتے ہیں:

’’پھولوں ہی کی نسبت سے انھیں جانوروں سے چڑ تھی۔  میں نے کبھی ان کے مکان پر کوئی کتا پلا ہوا نہیں دیکھا۔  انھیں سالانہ چوریاں گوارا تھیں، لیکن کتا پالنا منظور نہیں تھا۔  اکثر کہتے کہ انسان سے بہتر جانور ہوتا ہے، لیکن سب سے بہتر یہ خاموش پھول پودے ہوتے ہیں۔  ان کا سب سے قیمتی تحفہ گلاب کا پھول ہوتا اور سب سے بڑی مرحمت گلاب کی پود جسے وہ دوسروں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص مالی سے آپ کے مکان میں لگوا دیتے۔‘‘ (9)

خاکے کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار صاحبِ خاکہ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتا ہے۔  مسعود حسین خاں نے 1941 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا۔  وہ دو سال تک رشید احمد صدیقی کے باقاعدہ طور پر شاگرد رہے تھے، چنانچہ مسعود حسین خاں کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کا زبردست رول رہا ہے۔  وہ بھی اپنے استاد کے طریقۂ درس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔  وہ رشید احمد صدیقی کے بارے میں اپنے تاثرات اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے طریقۂ تدریس کی تمام خوبیاں قاری کے سامنے آ جاتی ہیں، ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’رشید صاحب کا طریقۂ درس منفرد اور نرالا تھا۔  مطالعہ کی طرح درس کے میدان بھی مخصوص اور محدود تھے، یعنی بیشتر غالب یا اقبال یا جدید شعراء میں حسرت، فانی، اصغر اور جگر۔  انھوں نے تمام شعراء کے بارے میں اپنے انداز میں سوچا تھا۔  ان کی یہ سوچ ان کے بلیغ فقروں کی شکل اختیار کر لیتی تھی جن میں ندرت اور اپج ہوتی اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی اور کی ٹکسال سے ڈھل کر نہیں نکلے ہیں۔  ہم لوگ اکثر آپس میں مختلف اساتذہ کے طریقۂ تدریس اور علمیت کا موازنہ کرتے اور عام طور پر یہ رائے قرار پاتی کہ علمِ کتابی رشید صاحب کا میدان نہ تھا۔  لیکن ایک تو رچے ہوئے ذوقِ ادب اور دوسرے خدا داد طباعی کی وجہ سے ان کی تحسین شناسی دوسروں سے بالکل مختلف انداز کی ہوتی۔  سونے پر سہاگہ ان کا منفرد اندازِ بیان جو صرف تحریر تک محدود نہ تھا، بلکہ ایک ایک فقرے سے جھلکتا تھا۔  جب کہ دوسرے اساتذہ کی تقریر یاد رہ جاتی، ان کی یادگار بن جاتی!‘‘(10)

مسعود حسین خاں نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر رشید احمد صدیقی کی بعض ادبی شخصیات سے غیر معمولی دلچسپی اور قربت کا تذکرہ کیا ہے۔  ان کے الفاظ میں:

’’غالب رشید صاحب کے محبوب شاعر تھے۔  اقبال سے وہ مرعوب تھے، لیکن ان کے ادبی ذوق کی تربیت غالب کے زیر سایہ ہوئی تھی جس کا کلام ان کے منفرد اسلوب کا سب سے بڑا ماخذ تھا۔  اصغر اور جگر سے ان کا ذاتی تعلق تھا، لیکن اصغر کی تراشیدہ شاعری کے وہ زیادہ قائل تھے۔‘‘ (11)

اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے رشید احمد صدیقی کی خامیوں اور کمزوریوں کا بھی برملا ذکر کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’شعر سے شغف کے باوجود یہ عجیب و غریب بات تھی کہ انھیں شعر بالکل یاد نہیں رہتے تھے۔  وزن کا احساس بہت کمزور تھا۔  کبھی آدھے مصرعے سے آگے نہیں بڑھ پاتے، اور ہر بار اہلِ حلقہ میں سے کسی کو شعر اٹھانا پڑتا، یا بڑھ جاتے تو ’بحرِ ہزج میں ڈال کر بحرِ رمل چلے، کی سی صورت پیدا ہو جاتی، لیکن شعر کا مفہوم حیرت ناک طریقے پر ان کے ذہن میں محفوظ ہوتا تھا جس سے وہ انتہائی محظوظ ہوتے اور بے ساختہ اس شعر کے کچھ الفاظ ان کی نوکِ زبان پر آ جاتے۔‘‘(12)

مسعود حسین خاں نے ایم اے (اردو) کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں ملازمت اختیار کر لی تھی جہاں ان کی ملاقات اردو ادب کی تین ممتاز شخصیات پطرس بخاری، ن.م. راشد اور میرا جی سے ہوئی، لیکن چھے ماہ کے اندر ہی ان کی طبیعت ریڈیو کی ملازمت سے اچاٹ ہو گئی، اور وہ وہاں سے مستعفی ہو کر علی گڑھ آ گئے اور رشید احمد صدیقی سے ملے اور ریسرچ میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ رشید صاحب اس بار خنداں نہیں، انگشت بدنداں تھے، کہنے لگے،’’آپ کو کیا پڑی ہے کہ اچھی خاصی ملازمت چھوڑ کر پچاس روپے کے ریسرچ وظیفے پر آنا چاہتے ہیں۔‘‘ مسعود حسین خاں نے کہا،’’بس یہی اب ٹھانا ہے۔‘‘ اس پر رشید احمد صدیقی بولے،’’آ جائیے، اور کوئی دن یہ زندگانی بھی کر لیجیے۔‘‘ کچھ ہی عرصے کے بعد مسعود حسین خاں کو شعبۂ اردو میں عارضی جگہ پر بہ حیثیت لکچرر کام کرنے کا موقع مل گیا۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’’اب رشید صاحب کا اور میرا ہمہ وقت کا ساتھ تھا۔‘‘ ان دونوں شخصیات کا ساتھ اور ملنا جلنا 1976 تک قائم رہا، تا آنکہ جنوری 1977 میں رشید احمد صدیقی کا علی گڑھ میں انتقال ہو گیا۔

بہترین خاکہ نگار وہ ہوتا ہے جس کی صاحبِ خاکہ سے نہ صرف معاصرت ہو، بلکہ ملاقات اور قربت بھی ہو۔  مسعود حسین خاں کی رشید احمد صدیقی سے نہ صرف معاصرت تھی، بلکہ گہری ملاقات اور قربت بھی تھی۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے نوکِ قلم سے رشید احمد صدیقی کا بہترین خاکہ نکلا۔  مسعود حسین خاں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا تھا۔  ان کی شخصیت کے عام پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی جن میں سے بعض کا ذکر انھوں نے اپنے اس خاکے میں کیا ہے۔  انھیں میں سے ایک پہلو مذہب کے متعلق ان کا رویہ تھا۔  بقول مسعود حسین خاں’’رشید صاحب طبعاً ایک مذہبی ذہن کے مالک تھے۔  خاص طور پر اسلام کی عظمت اور فوقیت کے مقر اور قائل، لیکن طاعت و زہد کی جانب عملی رجحان بہت کم تھا۔  اس لیے انھوں نے مذہبی مباحث اور فرائض سے بیشتر خود کو دور رکھا، لیکن ہندی مسلمانوں کی تاریخ، تہذیب اور معاشرت سے انھیں گہری دلچسپی تھی جو ان کی تحریر و تقریر دونوں سے ظاہر ہوتی ہے۔  سرسید کو وہ مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے تھے اور علی گڑھ تحریک کو ان کی نشاۃِ ثانیہ۔‘‘(13) مسعود حسین خاں ان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ’’بنیادی طور پر وہ انسان اور قوم پرست تھے۔  اس لیے گاندھی، نہرو، محمد علی، اقبال اور ذا کر حسین جیسی شخصیتیں ان کے تخیل کو گرماتی تھیں۔‘‘ (14)

رشید احمد صدیقی اور مسعود حسین خاں کا علی گڑھ میں تقریباً 37سال تک ساتھ رہا تھا۔  رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے سب سے پہلے شفیق استاد اور مربی بنے، پھر شعبۂ اردو میں دونوں ایک دوسرے کے رفیقِ کار ہو گئے۔  اس کے بعد تا دمِ آخر رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے ہمدرد اور بہی خواہ بنے رہے۔  اس طویل عرصے کے دوران میں دونوں کے درمیان نہایت مخلصانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رہے۔  جوں جوں وقت گزرتا گیا رشید احمد صدیقی کی گوناگوں شخصیت کی پرتیں کھلتی گئیں جس کا’’مجموعی تاثر‘‘ مسعود حسین خاں نے ان کا خاکہ لکھتے ہوئے یوں پیش کیا:

’’میرا رشید صاحب کی شخصیت کا مجموعی تاثر ایک شدید انفرادیت، داخلیت پسند اور حساس طبیعت رکھنے والے فن کار کا ہے۔  وہ غیر معمولی، غیر تعقلی ذہانت اور بصیرت کے مالک تھے۔  ایک مخصوص طبقے اور عہد کی اقدار اور وضع داریوں کو عزیز رکھتے تھے، اور انھیں پیمانوں سے ان سب کو ناپتے جو ان کی رہ گذرِ حیات پر آ نکلتے۔  وہ بت شکن سے زیادہ خدا ساز تھے …اپنی ستائش سے گھبراتے، لیکن دوسروں کی ستائش جی کھول کر کرتے …انسانی ہمدردی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔  جہاں تک ممکن ہوتا ہر ایک کی حاجت روائی کرتے۔  سیکڑوں پران کے خاموش احسان ہیں، بعض احسان فراموش ہیں۔‘‘ (15)

 

ڈاکٹر ذا کر حسین

 

مسعود حسین خاں کا ڈاکٹر ذا کر حسین (1897-1۔ 969) پر خاکہ اولاً تقریری صورت میں معرضِ وجود میں آیا، پھر اسے تحریر کا جامہ پہنایا گیا جو’’ذا کر صاحب:  ذاتی یادیں‘‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔  ذا کر حسین، مسعود حسین خاں کے حقیقی چچا تھے۔  ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں ذا کر حسین کا اہم رول رہا ہے، کیوں کہ ان کے (مسعود حسین خاں کے) والد کا انتقال جب وہ صرف دو سال اور دو مہینے کے تھے تبھی ہو گیا تھا۔  مسعود حسین خاں کی ذا کر حسین سے قرابت تو تھی ہی، انھیں ان کا قرب بھی حاصل تھا، چنانچہ انھیں اپنے چچا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔  اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے ذا کر حسین کی شخصیت کی نمایاں خوبیوں کو بیان کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

ذا کر حسین جب جرمنی سے 1926 میں پی ایچ .ڈی کی ڈگری لے کر اپنے وطن قائم گنج (ضلع فرخ آباد) لوٹے تو اس وقت مسعود حسین خاں کی عمر غالباً چھ سات برس کی تھی۔  وہ ان کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں:

’’ان کے چہرے پر کالی داڑھی تھی۔  معلوم نہیں انھوں نے بمبئی یا کہاں سے ایک سفید شیروانی حاصل کر لی تھی، وہ پہنے ہوئے تھے۔ اسی شیروانی کے کپڑے کی ٹوپی بھی تھی، ان کے سر پر۔‘‘ (16)

مسعود حسین خاں کی اپنے چچا سے یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلا تاثر بھی، کیوں کہ تین چار سال قبل جب وہ جرمنی گئے تھے تو مسعود حسین خاں بہت چھوٹے تھے اور انھیں اس وقت کا کچھ یاد نہ تھا۔  جرمنی سے واپسی پر ذا کر حسین کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ کا شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) بنا دیا گیا تھا اور وہ دہلی چلے گئے تھے۔  چوں کہ قائم گنج میں تعلیم کا معقول انتظام نہ تھا، اس لیے ذا کر حسین نے اگلے سال (1927) مسعود حسین کو جامعۂ ملیہ اسلامیہ بلا لیا اور درجۂ دوم میں داخلہ دلوا کر بورڈنگ ہاؤس میں رہنے کا انتظام کروا دیا۔  جامعہ ملیہ اس زمانے میں قرول باغ میں واقع تھی، اور وہیں شیخ الجامعہ کی رہائش گاہ بھی تھی، لہٰذا ذا کر حسین کے گھر ان کا برابر آنا جانا رہتا تھا جس سے چچا اور بھتیجے میں قربت بڑھتی گئی۔  خاکہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ خاکہ نگار اور صاحب خاکہ میں معاصرت کے علاوہ قربت بھی ہو۔  مسعود حسین خاں کی ذا کر حسین سے نہ صرف قرابت تھی، بلکہ انھیں ذا کر حسین کا قرب بھی حاصل تھا۔  اسی لیے اس خاکے میں انھوں نے ذا کر حسین کی شخصیت کے بعض ایسے ذاتی نقوش کو اجاگر کیا ہے جن کا کسی کو بھی علم نہیں۔

جس زمانے میں ذا کر حسین نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ کا عہدہ سنبھالا تھا وہ نہایت آزمائش کا زمانہ تھا۔  جامعہ بری طرح’’افلاس‘‘ کا شکار ہو گئی تھی۔  اخراجات کافی حد تک بڑھ گئے تھے اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ اب بند ہو جائے گی، لیکن ذا کر حسین کو قوم کے نونہالوں کی تعلیم عزیز تھی۔  انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا، دکھ جھیلے، اور کم مشاہروں پر کام کیا، لیکن جامعہ کو بند ہونے نہ دیا۔  یہ ان کے کردار کی ایک نمایاں خوبی اور ان کے عزم و عمل کا روشن پہلو ہے۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:

’’اس وقت ذا کر صاحب کی تحریک پر پندرہ بیس جاں بازوں کے ایک قافلے، ایک ٹولی نے عزم کیا کہ جامعہ کو بند نہیں ہونے دیں گے، اور اس عزم کے ساتھ وہ جتنے جامعہ کے مربی تھے ان سے ملا … کہا کہ ہم اپنی تنخواہیں بند کر لیں گے، لیکن جامعہ کو بند نہیں ہونے دیں گے … بہرحال جامعہ بند نہ ہوئی اور ہم لوگ مکانوں اور گھروں کو واپس نہ کیے گئے۔‘‘ (17)

ایک عمدہ خاکہ نگار کی نظر صاحبِ خاکہ کی ایک ایک چیز پر مرتکز ہوتی ہے جس کی وہ دلکش قلمی تصویر بنا کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔  علاوہ ازیں وہ صاحب خاکہ کی بعض ایسی باتوں کا بھی ذکر کرتا ہے جس سے اس کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، مثلاً اپنے مشاہدے کی بنیاد پر مسعود حسین خاں، ذا کر حسین کی حسِ مزاح اور انداز گفتگو کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’میں نے دیکھا کہ ان کے ہاں مزاح اور ٹھٹھول، بہت ہی شائستہ قسم کا مزاح بات بات سے ٹپکتا تھا۔  وہ اچھے کنورسیشنلسٹ (Conversationalist) تھے، مقرر تو تھے ہی …لیکن ان کی ٹیبل ٹاکس (Table Talks)اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہوتی تھیں، اور وہ اپنے مخصوص حلقوں میں جب کھلتے تھے تو واقعی ان کی زبان سے پھول جھڑتے تھے۔‘‘(18)

ذا کر حسین کی سرشت میں فیاضی کی صفت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔  وہ دوسروں کی مدد کرنے اور مالی امداد بہم پہچانے میں پیش پیش رہتے تھے۔  مسعود حسین خاں نے ان کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس سے ان کی شخصیت کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’اس زمانے میں یہ اکثر ہوا ہے کہ کئی برس کے انتظار کے بعد نیا لحاف یا نیا گدّا، جڑاول بنائی گئی اور بعد کو معلوم ہوا کہ ایک دن وہ جڑاول، ابھی سردیاں آ بھی نہیں پائی تھیں، اس کا استعمال بھی نہیں شروع ہوا تھا کہ گھر سے غائب ہو گئی۔  تمام شور مچ رہا ہے، کون لے گیا، کہاں لے گیا، تو معلوم ہوا کہ انھوں نے کسی غریب طالب علم کو جو سردی میں اکڑ رہا تھا یا کسی اور غریب ساتھی کو اڑھا دی — اور خود اپنے پرانے لحاف میں، گدے میں پڑے رہتے تھے۔‘‘(19)

ذا کر حسین کی شخصیت کئی صفات سے متصف تھی جن میں سے ایک تحمل اور قوتِ برداشت ہے۔  مسعود حسین خاں نے اسے ان کی’’اخلاقی صفت‘‘ قرار دیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’سب سے بڑی ان کی اخلاقی صفت جو تھی وہ تحمل تھا، برداشت تھی۔  وہ خود اپنی جان پر عذاب لیتے تھے، لیکن دوسروں کے لیے عذاب نہیں بنتے تھے۔‘‘(20)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کے بعد بھی ان کے اندر وہی تحمل تھا۔  مسعود حسین خاں کے الفاظ میں:

’’علی گڑھ میں انھیں دیکھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ جتنا ضبط و تحمل ان کے پاس تھا وہ واقعی کم لوگوں کے پاس ہو گا۔‘‘(21)

مسعود حسین خاں نے ذا کر حسین کو خلوت اور جلوت، نیز گھر کے اندر اور باہر، ہر جگہ دیکھا تھا۔  انھوں نے ان کی سیرت و شخصیت کا نہایت گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ بنیادی طور پر ایک’’اخلاقی آدمی‘‘ تھے اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے تھے۔  مذہب کی جانب بھی ان کا رجحان تھا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’آخری عمر میں ان کا رُجحان مذہب کی طرف ہو گیا تھا۔  ویسے وہ مذہب کے خلاف کبھی بھی نہیں رہے، اور اسلام کی جو بھی عبادات ہیں ان میں حسبِ توفیق حصہ بھی لیتے رہے، لیکن بنیادی طور پر وہ اخلاقی آدمی تھے …انھوں نے اپنی زندگی چند اخلاقی قدروں کے گرد بنائی تھی۔  وہ اخلاقی قدریں کچھ تو انھیں خود مذہب اسلام میں ہی مل گئی تھیں، کچھ انسانیت دوستی کی تحریک میں مل گئی تھیں جس سے یورپ کی فضا معمور تھی۔‘‘(22)

انگریزی کا ایک مقولہ ہے:  A picture on the wall is the picture of the mind of the man who hangs it.اس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کی پسند و ناپسند اس کے ذہن کی غمازی کرتی ہے۔  مسعود حسین خاں نے ذا کر حسین کی تین سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جس سے ان کی ذہنی قربت تھی اور اسی سے ان کی شخصیت کے خمیر کا پتا چلتا ہے۔  یہ شخصیتیں ہیں:  گاندھی جی، علامہ اقبال اور حکیم اجمل خاں۔  گاندھی جی سے ذا کر حسین کا جو ذہنی ربط رہا ہے اس کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے، لیکن اقبال سے ذا کر حسین کے قلبی لگاؤ کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ چوں کہ، جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے، مسعود حسین خاں کی ذا کر حسین سے نہ صرف قرابت تھی بلکہ قربت بھی تھی، اس لیے وہ ان کے گھر کے ’بھیدی‘ کے مانند تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گاندھی جی کے بعد’’دوسری بڑی شخصیت جس سے کہ وہ [ذا کر حسین] متاثر تھے اور جو ان کی ذہنی ساخت کے بہت قریب تھی وہ اقبال کی شخصیت تھی۔  اقبال کا جادو سر پر بہت پہلے چڑھ گیا تھا …انھیں اقبال کے اشعار بے شمار یاد تھے۔‘‘ (23)

اقبال سے ذا کر حسین کی ذہنی قربت اور ہم آہنگی کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں:

’’اقبال کے کلام کا وہ حصہ جو کہ عمل کی آواز دیتا ہے، انسان کی خودی کو بیدار کرتا ہے، جو نفس کو مارتا ہے، اوپر لے جاتا ہے اور انسان کو خدا صفت اور خدا نما بنانے کی کوشش کرتا ہے، یہ تمام چیزیں یقیناً ان کے مزاج سے ہم آہنگ تھیں۔‘‘ (24)

مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ذا کر حسین کو اقبال کی نظم’’مسجدِ قرطبہ‘‘ بہت پسند تھی اور اس کا حسب ذیل بند انھیں بیحد’’محبوب‘‘ تھا:

ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز

مسعود حسین خاں کا بیان ہے کہ ذا کر حسین آخری دور میں جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے’’شام کو کھانے کے بعد‘‘ اس بند کو’’گنگنا کر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔  اقبال نے متذکرہ بند میں’’بندۂ مومن‘‘ کی تعریف یوں کی ہے:

اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل

رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’’ذا کر صاحب کی شخصیت بھی اسی سے عبارت تھی، جو رزم اور بزم میں دلِ پاکباز کے ساتھ رہے۔‘‘ (25)

ایسا نہیں ہے کہ مسعود حسین خاں نے ذا کر حسین کی صرف خوبیاں ہی بیان کی ہوں، انھوں نے ان کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کیا ہے، خاص طور پر اس زمانے میں جب وہ جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ) تھے۔  جامعہ کے ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ نہایت نرم تھا، خواہ وہ استاد ہو یا کلرک یا چپراسی۔  وہ کسی پر سختی کرنا جانتے ہی نہ تھے۔ اگر کبھی کوئی کسی بات پر خفا ہو جاتا تو اس کے مکان پر جا کرتا سف کا اظہار کرتے اور اسے منا لیتے۔  ہر شخص کو برابری کا درجہ حاصل تھا، کوئی بھی شخص کسی کو بھی خواہ وہ عہدیدار ہی کیوں نہ ہو ٹوک دیتا تھا۔  یہاں تک کہ’’جب مجلسِ شوریٰ ہوتی تھی تو ہر شخص شیخ الجامعہ سے یا دوسرے کسی عہدیدار سے، خازن سے برابری کی گفتگو کرتا تھا، اور اپنی تجاویز پر اٹھ کے واک آؤٹ (Walkout)بھی کر جاتا تھا۔‘‘ (26)جب وہ 1948 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر آئے تو مسعود حسین خاں وہاں شعبۂ اردو میں لکچرر تھے۔  انھوں نے ذا کر حسین سے کہا،’’علی گڑھ کو آپ اس انداز سے نہ چلائیے جس انداز سے کہ جامعہ ملیہ چلائی ہے۔‘‘ وہ ان سے کہتے تھے یہ بڑا ادارہ ہے، یہاں آپ کو’’ایڈمنسٹریٹر‘‘ بننا ہے۔ (27)

ذا کرحسین پر مسعود حسین خاں کے اس خاکے کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو تعلیمی میدان میں ان کی خدمات سے بحث کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے سیاسی کارنامے بیان کیے گئے ہیں، بلکہ اسے صرف ذاتی باتوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور ان کی شخصیت کے وہ نقوش پیش کیے گئے ہیں جو عام نظروں سے اوجھل تھے۔

 

جسٹس محمد ہدایت اللہ

 

مسعود حسین خاں نے جسٹس محمد ہدایت اللہ (1905-1۔ 992) کا بھی خاکہ لکھا ہے جن سے ان کے تقریباً پانچ سال تک (1973 تا 1978) مراسم رہے تھے۔  ہدایت اللہ سے مسعود حسین خاں کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انھوں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کا عہدہ سنبھالا۔  ہدایت اللہ جامعۂ ملیہ اسلامیہ (جو اس وقت’’ڈیمڈ‘‘ یونیورسٹی تھی) کے امیرِ جامعہ (چانسلر) تھے۔  انھوں نے ہی، بحیثیت امیرِ جامعہ، مسعود حسین خاں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر شپ کے لیے تین اشخاص کے ایک پینل میں سے منتخب کیا تھا۔ (28)

مسعود حسین خاں کی ہدایت اللہ سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو ان کے ذہن پر ہدایت اللہ کی شخصیت کا بہت اچھا تاثر قائم ہوا۔  وہ اپنے خاکے’’امیرِ جامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’۱۵ منٹ کی گفتگو کے بعد میرے ذہن میں جو ان کا تاثر قائم ہوا وہ یہ تھا کہ اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے کے باوجود ان کی باتوں میں ایک خاص قسم کی سادگی اور بے تکلفی تھی۔ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ مدھیہ پردیش کے چیف جسٹس یا چیف جسٹس آف انڈیا کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکے ہیں، جن کے قانونی فیصلے تاریخ ساز رہے، اور جو اپنی دیانت اور حق گوئی کے باعث اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔‘‘ (29)

مسعود حسین خاں کا خیال یہ تھا کہ چوں کہ ہدایت اللہ ملک کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکے تھے، اس لیے جامعۂ ملیہ اسلامیہ کی چانسلری ان کے لیے ایک’’معمولی منصب‘‘ تھا۔  مسعودحسین خاں نے اپنے متذکرہ خاکے میں ہدایت اللہ کی شخصیت کے حقیقی خد و خال بلا تکلف بیان کر دیے ہیں۔  ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جو ایک قومی و ملی طرز کا ادارہ تھا، ان کی دلچسپی، امیرِ جامعہ ہونے کے باوجود’’برائے بیت‘‘ تھی۔  مسعود حسین خاں کے الفاظ میں:

’’ان کا تعلق ان قوم پرست سرفروشوں کے گروہ سے نہیں رہا تھا جنھوں نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی تھی، اور پھر اپنے بے پناہ جذبۂ ایثار و قربانی سے اسے پروان چڑھایا۔  در اصل ان کی شخصیت مولانا محمد علی، حکیم اجمل خاں یا ڈاکٹر ذا کر حسین کے کینڈے سے بالکل مختلف تھی۔‘‘(30)

ہدایت اللہ کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور غالباً اسی میں ان کی شخصیت کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، ملاحظہ کیجئے:

’’عوام سے دور، خواص میں مقبول، گولف اور برج کے شائق، مگر اپنے فن میں طاق!‘‘(31)

مسعود حسین خاں نے اس ایک بھرپور جملے میں ان کی شخصیت کی پوری عکاسی کر دی ہے۔  یہ ان کی خاکہ نگاری کا کمال ہے۔

چونکہ امیرِ جامعہ ہدایت اللہ کی جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے معاملات سے دلچسپی برائے نام تھی، اس لیے جامعہ کو چلانے کی پوری ذمے داری مسعود حسین خاں کے کندھوں پر آن پڑی تھی جن کا بنیادی رشتہ اور گہرا تعلق علمی دنیا سے تھا، اور انتظامی امور کا انھیں نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ اس سے کوئی دلچسپی تھی۔  انھوں نے (بقولِ خود) صرف جامعہ کی محبت میں’’اوکھلے میں سر‘‘ دیا تھا۔ (32) وہ طبعاً سرکار کی دہلیز سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔  وہ بحیثیتِ شیخ الجامعہ گورنمنٹ آف انڈیا کے کسی جوائنٹ سکریٹری یا ڈپٹی سکریٹری سے ملنے میں بھی اپنی’’سبکی‘‘ محسوس کرتے تھے۔  ایسی صورت میں جامعہ کی ترقی یا Expansionکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’’جب جسٹس صاحب سے میں نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس معاملے میں وہ مجھ سے بھی زیادہ خستہ تر نکلے۔‘‘(33)

ہدایت اللہ کی عوام سے دوری اور خواص میں مقبولیت کا ذکر آ چکا ہے، چنانچہ جامعہ کے سلسلے میں جب بھی کسی صاحب معاملہ سے ملنے ملانے کا ذکر آتا تو بقولِ مسعود حسین خاں:

’’ان کا ٹکا سا جواب ہمیشہ یہ ہوتا کہ مَیں وزیر اعظم سے مل سکتا ہوں، صدرِ جمہوریۂ ہند کے یہاں حاضری دے سکتا ہوں، لیکن ان سے کم درجہ عہدہ داروں سے ملنا میرے لیے کسرِشان ہے۔‘‘ (34)

یہ ہدایت اللہ کا خواص پسند مزاج تھا کہ وہ وزیر اعظم کا ذکر بار بار مسعود حسین خاں سے کرتے تھے، چنانچہ انہی کے مشورے سے یہ طے پایا تھا کہ سال 1976کے جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے کانووکیشن ایڈریس کے لیے وزیرِ اعظم مسزاندراگاندھی (1917-1۔ 984) کو مدعو کیا جائے۔  مدعو کرنے کی ذمے داری بھی انھوں نے ہی لے لی، چنانچہ اندرا گاندھی جامعہ ملیہ تشریف لائیں اور کانووکیشن بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔

مسعود حسین خاں نے ہدایت اللہ کی خواص پسند افتادِ طبع کی ایک اور مثال بھی پیش کی ہے۔  اگلے سال جب جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے کانووکیشن کا زمانہ آیا تو ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل چکا تھا، اور اب مرکز میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم تھی اور اس کے قائد کی حیثیت سے شری مرار جی ڈیسائی (1896-1۔ 995) ملک کے وزیر اعظم تھے۔  چنانچہ ہدایت اللہ کے مشورے سے مرار جی ڈیسائی کو کانووکیشن ایڈریس کے لیے مدعو کیا جانا طے پایا۔  اس بار بھی انھوں نے وزیر اعظم کو جامعہ میں لانے کی ذمے داری قبول کی اور وہ اس ادارے میں بخوشی تشریف لائے۔  مسعود حسین خاں ہدایت اللہ کے اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’معلوم ہوا کہ ان کی رسائی نئے وزیر اعظم کے در تک اسی طرح ہے جیسی کہ سابق وزیرِ اعظم کے در تک تھی۔‘‘(35)

مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے میں ہدایت اللہ کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کی ہے، اور ان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی اُجاگر کیا ہے۔  ان میں سے بعض باتوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔  اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے صاحب خاکہ سے متعلق اپنے مشاہدات اور قیاسات بھی بیان کیے ہیں جس کا ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے انھیں پورا حق حاصل ہے، مثلاً—

(1       ’’جسٹس ہدایت اللہ پر امیرِ جامعہ کا منصب ایک طریقے سے تھوپا گیا تھا۔‘‘

(2        ’’ہدایت اللہ صاحب اپنی قانونی مہارت، حلم اور دیانت داری کا شہرہ رکھتے تھے۔‘‘

(3        ’’جن کے قانونی فیصلے تاریخ ساز رہے۔‘‘

(4        ’’جسٹس ہدایت اللہ وزیرِ اعظم سے کم درجہ کے عہدے دار سے کسی قسم کی بات کرنے کو …اپنی کسرِ شان سمجھتے تھے۔‘‘

(5        ’’وہ مجمع کے نہیں مجلس کے انسان تھے۔‘‘(36)

اس خاکے سے ہدایت اللہ سے متعلق بعض ذاتی نوعیت کی باتوں کا بھی انکشاف ہوتا ہے جن کا ان کی شخصیت سے بھی گہرا تعلق ہے، مثلاً —

(1       وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔

(2        ان کی اہلیہ کا نام پشپا تھا جنھیں رفاہی کاموں سے دلچسپی تھی۔

(3        وہ جب دہلی آتے تھے تو اشوکا ہوٹل ان کا مسکن ہوتا تھا۔

(1       ان کے کپڑے کناٹ پلیس (نئی دہلی) میں واقع Laffon Tailorsکے یہاں سلتے تھے۔

(5        وہ گولف اور برج کے شائق تھے۔ (37)

ہدایت اللہ کی شخصیت میں جو اَنا تھی اس کی عکاسی مسعود حسین خاں ان کے اس خاکے میں کر چکے ہیں۔  اب وہ ان کی شخصیت کے ایک اور رُخ کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔  یہ اپنے سے کم رتبے والے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہ کے با عزت اساتذہ کے تئیں ان کا غیر اخلاقی، غیر مہذب اور آمرانہ رویہ تھا۔  مسعود حسین خاں کی جامعۂ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر شپ کے دوران میں وہاں کے اساتذہ نے اپنی بات منوانے کے لیے دھرنے اور اسٹرائک کا سہارا لیا تھا۔  اساتذہ کی یہ’’شورش‘‘ وہاں کے شعبۂ اردو کے ایک معروف پروفیسر کے خلاف اور نتیجتاً مسعود حسین خاں (وائس چانسلر) کے خلاف تھی۔  مسعود حسین خاں نے جب اس بات کا تذکرہ ہدایت اللہ (چانسلر) سے کیا تو انھوں نے’’مٹھی باندھ کر اور ہاتھ اٹھا کر‘‘ غصے کے لہجے میں کہا:

’’مسعود صاحب! ان کا علاج ڈنڈا، بس ڈنڈا ہے۔‘‘

مسعود حسین خاں نے جو خود ایک استاد رہ چکے تھے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر یوں تبصرہ کیا:

’’بحیثیت ایک پیشہ ور استاد کے مجھے ان کے اس فقرے پر تعجب ہوا اور کسی قدر تکلیف بھی، لیکن بعد کو جب معلوم ہوا کہ جسٹس کی حیثیت سے وہ مجرموں کی سزائے موت اور جسمانی سزا دونوں کی تائید میں تھے، تو زیادہ تعجب نہیں ہوا۔‘‘ (38)

 

عبد القادر سروری

 

عبد القادر سروری (1906-1۔ 971) پر مسعود حسین خاں کا خاکہ اس جملے سے شروع ہوتا ہے:

’’مرنے والے کی خوبیاں اور نیکیاں یاد رہ جاتی ہیں۔‘‘(39)

اس میں کوئی شک نہیں کہ عبد القادر سروری کی شخصیت بے شمار خوبیوں کا مرقع تھی جن کا ذکر مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے’’پروفیسر عبد القادر سروری مرحوم‘‘ میں بڑی محبت سے کیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ان کی شخصیت کی بعض کمزوریاں بھی نوکِ قلم پر آ گئی ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی جو چونکا دینے والی ہیں۔  عبد القادر سروری سے مسعود حسین خاں کے نہایت دیرینہ مراسم تھے۔  عبد القادر سروری کا تعلق دکن سے تھا، اور مسعود حسین خاں نے بھی چھے سال (1962تا 1968) حیدرآباد (دکن) میں گزارے تھے جب وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر و صدر تھے، لہٰذا ان دونوں اکابرین میں معاصرت کے علاوہ قربت بھی تھی۔  اسی لیے مسعود حسین خاں نے ان کی شخصیت کا نہایت گہرا مطالعہ کیا تھا۔  وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے انھیں قریب و دور، ہر فاصلے اور ہر رنگ میں دیکھا ہے۔‘‘(40)

عبد القادر سروری علمی میدان میں شروع ہی سے سرگرم رہے تھے۔  ان کی سب سے پہلی کتاب ’دنیائے افسانہ‘ اس وقت شائع ہوئی تھی جب وہ محض بیس سال کے تھے۔  تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کا تقرر جامعۂ عثمانیہ (حیدرآباد) کے شعبۂ اردو میں’’مددگار پروفیسر‘‘ کی حیثیت سے ہو گیا تھا۔  ’دنیائے افسانہ‘ کے بعد ان کی کئی اور کتابیں شا ئع ہوئیں، مثلاً ’کردار اور افسانہ‘، ’جدید اردو شاعری‘، ’اردو مثنوی کا ارتقا‘، وغیرہ۔  عثمانیہ یونیورسٹی کے بعد انھوں نے میسور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو و فارسی میں پروفیسر اور صدرِ شعبہ کی خدمات انجام دیں، چنانچہ وہاں بھی ان کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں اور وہاں کے دورانِ قیام میں بھی انھوں نے کچھ نہ کچھ لکھا۔  آخرِ عمر میں وہ کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) کے شعبۂ اردو میں پروفیسر و صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے، اور وہیں 11مارچ 1971کو ان انتقال ہو گیا۔  سری نگر (کشمیر) کے دورانِ قیام میں بھی انھوں نے دو کتابیں بعنوان ’کشمیر میں اردو‘ اور ’کشمیر کے دو ادیب، دو بھائی‘ تصنیف کیں۔  غرض کہ وہ جہاں کہیں بھی رہے، ان کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں۔

عبد القادر سروری نے پونا کے دکن کالج میں 1956 میں منعقدہ لسانیات (Linguistics)کے سَمراسکول میں بھی شرکت کی اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ’زبان اور علمِ زبان‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس سے طلبہ آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔  یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ جب انھوں نے دکن کالج (پونا) کے سَمر اسکول میں داخلہ لیا تھا تو وہ سن رسیدہ تھے۔  وہ مسعود حسین خاں (جو اس سَمر اسکول میں استاد کی حیثیت سے پہنچے تھے) سے بھی عمر میں کافی بڑے تھے۔  یہ عبد القادر سروری کا علمی ذوق و شوق ہی تھا جو انھیں کشاں کشاں پونا(دکن کالج) لے گیا تھا۔  مسعود حسین خاں عبد القادر سروری کی شخصیت کے اس پہلو کو اپنے خاکے میں اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’علمی مشاغل میں ان کی بے پناہ لگن، تحصیل علم کے لیے ان کی سن و سال سے بالا تر ہو کر مسلسل تگ و دو … اپنے کم عمروں سے علمی استفادہ حاصل کرنے میں ان کی بے تکلفی …بے شمار واقعات ہیں جو اس سلسلے میں یاد آ رہے ہیں۔‘‘ (41)

پونا کے لسانیات کے سَمر اسکول میں عبد القادر سروری کی شرکت کا ذکر مسعود حسین خاں ذرا تفصیل سے کرتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں:

’’جب ۱۹۵۵ء میں پونا میں لسانیات کے اسکولوں کا آغاز ہوا تو دوسرے ہی اسکول میں ایک طالب علم کی حیثیت سے [عبد القادر سروری نے ] اپنا نام درج کرایا اور ڈیڑھ ماہ تک طالب علم کی حیثیت سے دیگر طالب علموں کے ساتھ ہاسٹل میں مقیم رہے۔  مَیں ان اسکولوں میں استاد کی حیثیت سے پڑھانے جاتا تھا، جب بھی ان کی اس ریاضت کے ذکر پر تعجب کا ذکر کرتا، ہنس کر کہتے، اکتسابِ علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔‘‘(42)

مسعود حسین خاں نے عبد القادر سروری کا خاکہ لکھتے ہوئے ان کی شخصیت کی تین خصوصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے — سادگی، توانائیِ مجسم اور نئے دوست بنانا۔  ان کے الفاظ میں:

’’سروری صاحب کی شخصیت کی سب سے پرکار خصوصیت ان کی سادگی تھی۔  کیا لباس، کیا خوراک اور کیا سفرو حضر، ہمیشہ موٹر نشین رہے، لیکن اسے ہمیشہ اپنا مرکب سمجھا، اپنے لیے باعثِ افتخار نہیں بنایا …سروری صاحب توانائیِ مجسم تھے، مسلسل حرکت ان کے لیے ناگزیر تھی۔  جہاں جاتے نئی دوستیاں … بآسانی پیدا کر لیتے۔‘‘(43)

عبد القادر سروری کی شخصیت کی ایک خامی یا کمزوری یہ تھی، بلکہ ان کی شخصیت کا تضاد تھا کہ جہاں وہ لوگوں سے’’دوستیاں‘‘ پیدا کرتے تھے وہیں’’مخالفتیں‘‘ بھی مول لے لیتے تھے، اور اس پر اظہار تاسف نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے جواز میں مولوی عبدالحق (1870- 1961) کا ایک قول دہراتے تھے جو انھیں بیحد پسند تھا، وہ یہ کہ —’’انسان کی مخالفت درختوں یا جڑوں سے نہیں پیدا ہوتی، انسانوں ہی سے ہوتی ہے۔‘‘ مسعود حسین لکھتے ہیں:

’’مَیں ہمیشہ اس قول پر ان کو داد ان الفاظ میں دیتا، سروری صاحب آپ میں مخالفت پیدا کرنے اور پھر اس کو سر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔‘‘ (44)

اس کے جواب میں وہ مسکرادیتے۔  مسعود حسین خاں اس کی منظر کشی ایک فارسی مصرع کے ذریعے یوں کرتے ہیں، ع

تبسمے بہ لبِ اور سید و ہیچ نہ گفت

عبد القادر سروری کا تعلق اگرچہ خطۂ دکن سے تھا، لیکن انھوں نے کبھی دکنی، غیر دکنی یا ملکی، غیر ملکی (شمالی) کی تفریق کے بارے میں نہیں سوچا۔  وہ علاقائیت سے بالاتر ہو کر اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے۔  وہ حیدرآباد میں بھی رہے اور میسور میں بھی، اور آخری زمانے میں ان کا قیام سری نگر (کشمیر) میں بھی رہا۔  وہ جہاں کہیں بھی رہے، اردو کی خدمت کرتے رہے اور اس کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر حصہ لیتے رہے۔  اردو کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مسعود حسین خاں نے ان کے اس جذبے کو جو ان کی شخصیت کے خمیر میں شامل تھا خوب سراہا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’سروری صاحب کی وفاداری ایک عالم کی حیثیت سے مقام سے نہیں زبان سے تھی۔  اردو کو جہاں جہاں جس روپ میں پایا اس کے تحفظ و بقا کے لیے اپنی علمی صلاحیتوں کو وقف کر دیا۔  اس زبان کے لیے ان میں ایک لگن تھی…ہمہ وقت وہ اس کی تعلیم اور تنظیم میں منہمک رہے۔  اسی کا کھایا، اسی کا گایا، اسی کو اپنی میراث جانا، اسی کو اپنی نجات مانا۔‘‘(45)

ان کے سانحۂ ارتحال سے اردو پر کیا گذری، مسعود حسین خاں کے الفاظ میں:

’’آج جو وہ ہم میں نہیں تو اردو کے قافلے کا ایک اہم شہسوار نابود ہو گیا ہے، آج جو وہ دور چلے گئے ہیں تو اردو کا افق کچھ اور غبار آلود ہو گیا ہے۔‘‘(46)

 

عبد اللطیف اعظمی

 

مسعود حسین خاں، عبد اللطیف اعظمی سے شخصی طور پر اس وقت واقف ہوئے جب وہ بغرضِ اعلیٰ تعلیم 1955میں علی گڑھ آئے۔  مسعود حسین خاں اس وقت وہاں شعبۂ اردو میں استاد تھے۔  اس کے بعد سے وہ ان کے علمی، ادبی اور صحافتی کارناموں سے واقف ہوتے گئے۔  لیکن مسعود حسین خاں کا عبد اللطیف اعظمی سے گہرا تعلق اور رابطہ اس وقت قائم ہوا جب وہ 1973میں جامعۂ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کے عہدے پر فائز ہو کر نئی دہلی پہنچے، اور عبد اللطیف اعظمی ان کے سکریٹری مقرر ہوئے۔  مسعود حسین خاں نومبر 1973تا اگست 1978 جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے۔  اس دوران میں ان کا عبد اللطیف اعظمی سے شب و روز کا ساتھ رہا تھا۔  یہی وہ زمانہ ہے جب بقول مسعود حسین خاں عبد اللطیف اعظمی کے کردار کی خوبیاں ان پر اُجاگر ہوتی گئیں۔

مسعود حسین خاں نے عبد اللطیف اعظمی کو انتظامی امور میں اپنے سکریٹری کی حیثیت سے بہت قریب سے دیکھا۔  وہ ان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی’’وفاداری بہ شرطِ استواری‘‘ بتاتے ہیں۔  یہ ان کے کردار کی خوبی ہی تھی کہ وہ اپنی رائے شیخ الجامعہ پر کبھی نہیں تھوپتے تھے۔  مسعود حسین خاں نے عبد اللطیف اعظمی پر اپنے خاکے میں لکھا ہے کہ’’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی بھی انھوں نے اپنی رائے کو میرے اوپر تھوپا ہو۔‘‘(47)

عبد اللطیف اعظمی ہرچند کہ شیخ الجامعہ مسعود حسین خاں کے سکریٹری تھے، لیکن وہ انھیں سکریٹری سے زیادہ دوست کا رتبہ دیتے تھے۔  مسعود حسین خاں، عبد اللطیف اعظمی سے اپنے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’غالباً ہم دونوں نے حفظ مراتب کے سلسلے میں ایک ایسا نقطۂ توازن تلاش کر لیا تھا جو کبھی نہیں بگڑتا تھا۔  میں مکمل طور پر اعتماد کرتا تھا، وہ پورے طور پر اعتماد نبھاتے تھے۔‘‘(48)

جامعۂ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرشپ کے دوران میں مسعود حسین خاں کو جامعہ برادری کی شورشوں اور ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے اکثر مشکلوں اور ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔  عبد اللطیف اعظمی ان مشکل گھڑیوں میں ان کا پورا ساتھ دیتے تھے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر جامعہ میں وہ [عبد اللطیف اعظمی]اور ان جیسے چند اور رفیق مجھے نہ مل گئے ہوتے تو میرا وہ مزاحیہ جملہ جو میں نے جامعہ پہنچ کر پہلی تقریر میں کہا تھا:  ’لوگ اوکھلی میں سر دیتے ہیں، میں نے اوکھلے میں سردیا ہے ‘ ایک ایسے المیے کی شکل اختیار کر چکا ہوتا جہاں اوکھلی، اور اوکھلا کا امتیاز مٹ جاتا اور صرف ’موسلوں کی مار‘ یاد رہ جاتی!‘‘(49)

جامعہ کے حالات جب بد سے بدتر ہو گئے تو مسعود حسین خاں نے اپنی مدتِ عہدہ ختم ہونے سے تقریباً ڈھائی ماہ قبل 15؍اگست 1978کو نہایت دل برداشتہ ہو کر وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور علی گڑھ واپس آ گئے، لیکن اس کے بعد بھی عبد اللطیف اعظمی سے ان کا تعلق قائم رہا۔  وہ جب بھی علی گڑھ آتے تو مسعودحسین خاں سے ملنے ان کے یہاں ضرور جاتے۔  مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’’مجھے ان سے ہر بار مل کر خوشی ہوتی ہے۔  یہ ’ملاقاتِ محض‘ ہوتی ہے۔  یہ دیکھ کر حوصلہ بڑھ جاتا ہے کہ ان کا علمی و ادبی انہماک بدستور، بلکہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔‘‘(50)

مسعود حسین خاں کے جامعۂ ملیہ کا وائس چانسلر بننے سے قبل محمد مجیب جامعہ کے وائس چانسلر تھے، چنانچہ عبد اللطیف اعظمی ایک طویل عرصے تک ان کے بھی سکریٹری رہے تھے۔ ان کے اس تجربے کی بنا پر مسعود حسین خاں نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ جامعہ کے سلسلے میں جس قدر معلومات اور تفصیلات ان کے دست رس میں ہیں دوسروں کی ان تک رسائی ممکن نہیں۔ عبد اللطیف اعظمی کی علمی اور تصنیفی کار گزاریوں سے مسعود حسین خاں بیحد متاثر تھے، چنانچہ اس ضمن میں انھوں نے ان کی تین خوبیوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے (51):

1۔        ’’وہ جزئیات پر نظر رکھتے ہیں اور تفصیلات فراہم کرنے میں کوئی گوشہ نہیں اٹھا رکھتے۔‘‘

2۔        ’’علمی عصبیت سے بالا تر ہونے کا ملکہ خوب جانتے ہیں، اس لیے تفصیلات سے جو رائے اور جو تصویر بناتے ہیں وہ کانٹے پر نپی تلی اور موتی کے مانند سچی ہوتی ہے۔

یقین نہ آئے تو ان کی تصنیف ’اقبال، دانائے راز‘ کو دیکھیے جو اقبالیات میں اہم اضافہ ہے۔‘‘۔

3۔        ’’ان کے اسلوب نگارش میں ایک قسم کی ہمواری اور صلابت ملتی ہے جو دبستانِ شبلی کی دین ہے جس میں وہ پلے بڑھے ہیں۔‘‘

مسعود حسین خاں نے اپنے اس خاکے میں عبد اللطیف اعظمی کے کردار کی ان تمام خوبیوں کو بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے جن کی وجہ سے وہ بھلائے نہیں جا سکے۔  جامعۂ ملیہ اسلامیہ میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’زندگی میں ماضی سے دامن کشی اس قدر آسان نہیں۔  اس کے سفر میں بعض ایسے ساتھیوں کا ساتھ ہو جاتا ہے جو’’سبک سارانِ ساحل ہا‘‘ بن کر بھی ختم نہیں ہوتا۔  میرا اور اعظمی صاحب کا تعلق اب کچھ اسی نوعیت کا ہے۔‘‘

 

مغیث الدین فریدی

 

مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے’’مغیث الدین فریدی‘‘ میں مغیث الدین فریدی (1926-2۔ 001) کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:

’’مغیث الدین فریدی، دبستانِ اکبر آباد (آگرہ) کے نسبتاً کم معروف، لیکن خواص کے پسندیدہ غزل گوتھے۔  فتح پور سیکری کے خانقاہی ماحول اور خانوادے کے چشم و چراغ پروفیسر حامد حسن قادری اور پروفیسر محمد طاہر فاروقی کے فیضِ نگاہ کے تربیت یافتہ، علامہ سیمابا کبر آبادی اور میکش اکبر آبادی کی شعری محفلوں سے بہرہ یاب، جنھوں نے اپنی تعلیم اور ادبی ذوق کی تکمیل ۱۹۴۶ء میں علی گڑھ آ کر مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں کی۔‘‘(52)

مسعود حسین خاں کا مغیث الدین فریدی سے استاد اور شاگرد کا رشتہ یہیں سے قائم ہوتا ہے۔  وہ مسعود حسین خاں کے شاگردِ رشید تھے۔  وہ شاعر بھی تھے، چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بعد ان کے ادبی ذوق کی تربیت میں مسعود حسین خاں کا نمایاں کردار رہا ہے۔  مغیث الدین فریدی اپنی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ سے چلے گئے، تب بھی مسعود حسین خاں سے ان کا تعلق جامعۂ اردو کے توسط سے برقرار رہا۔  جامعۂ اردو محمد طاہر فاروقی کی کوششوں سے 1939میں آگرے میں قائم ہوئی تھی، لیکن تقسیم ملک کے بعد جب طاہر فاروقی پاکستان ہجرت کر گئے تو سید ظہیر الدین علوی اسے آگرے سے علی گڑھ لے آئے۔  رشید احمد صدیقی کی تحریک پر 1973 میں مسعود حسین خاں اس کے سربراہ (شیخ الجامعہ) بنا دیے گئے۔  مغیث الدین فریدی جامعۂ اردو کی مختلف مجالس کے سرگرم رکن کی حیثیت سے اس سے منسلک رہے اور مسعود حسین خاں سے ان کے مراسم پہلے ہی جیسے عقیدت مندانہ رہے۔  مسعود حسین خاں پر ان کی شخصیت کا جو تاثر قائم ہوا اسے انھوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’فریدی صاحب کو جب کسی شخص سے عقیدت ہو جاتی تھی تو عمر بھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے۔  مجھے اس وفاداری بہ شرطِ استواری کا تجربہ جامعۂ اردو میں ان کے سنگ ساتھ میں ہوا۔  وہ اس کے قدیم ترین کارکنوں میں سے تھے …اور ایک طرح سے جامعۂ اردو میں میرے دست و با زو بنے رہے۔  جب ہی تو میں اس کی تقریباً بیس سال تک سربراہی کرتا رہا۔  ہر کانٹے کے وقت میں ان کی تائید مجھے حاصل رہی۔‘‘(53)

مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے میں مغیث الدین فریدی کی غزل گوئی کا بہ طورِ خاص ذکر کیا ہے، کیوں کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور ان کی شعر گوئی کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہو گیا تھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے۔  مسعود حسین خاں کے خیال کے مطابق وہ کم گو رہے، تاہم غزل پر ایک انفرادی چھاپ چھوڑ گئے۔  مغیث الدین فریدی کو غزل گوئی کے علاوہ تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا، بلکہ تاریخ گوئی کی بدولت انھیں زیادہ شہرت ملی تھی۔ زیر نظر خاکے میں مسعود حسین خاں نے ان کی تاریخ گوئی کے کئی نمونے پیش کیے ہیں جن میں ایک وہ ہے جو انھوں نے 1989میں ’نذرِ مسعود‘ کے لیے راقم السطور کی فرمائش پر لکھا تھا جس کے بارے میں مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:

’’۱۹۸۹ء میں میرے عزیز شاگرد اور دوست ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے جب میری سترویں سالگرہ پر ’نذرِ مسعود‘ کا تحفہ پیش کیا تو فریدی صاحب نے کس محبت اور عقیدت سے’’با صنعت توشیح‘‘ اس کے لیے یہ قطعہ لکھا:

ن ’نذرِ مسعود‘ کا ایک ایک ورق

سرمۂ اہلِ نظر ہے الحق

ذ ذوقِ اربابِ ادب کی تسکیں

کاوشِ اہلِ قلم کی تزئیں

ر روحِ تخلیق کا آئینہ ہے

دُرِ تنقید کا گنجینہ ہے

……

 

م محرمِ رمزِ زبانِ اردو

ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو

س سب کو تسلیم ہے ان کی عظمت

ان کی بے لوث ادب کی خدمت

ع عالم و ناقد و شاعر مسعود

فنِ تحقیق کے ماہر مسعود

و ورقِ دہر پہ نقشِ جادو

حرفِ تاریخِ زبانِ اردو

د دیکھو تاریخِ طرب کا آہنگ

 

نذرِ مسعود’’بیاض خوش رنگ‘‘(54)

۱۹۸۹ء

 

مسعود حسین خاں نے کل چھے خاکے لکھے ہیں۔  یہ ان لوگوں کے خاکے ہیں جو ان کے معاصرین میں تھے اور جن سے وہ ذاتی طور پر بہ خوبی واقف تھے۔  رشید احمد صدیقی مسعود حسین خاں کے شفیق استاد تھے، اور مغیث الدین فریدی کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل تھا۔ اسی طرح جسٹس ہدایت اللہ اگرچہ عہدے میں ان سے بڑے تھے تو عبد اللطیف اعظمی کو ان کے تحت کام کرنے کی سعادت حاصل تھی، اور ڈاکٹر ذا کر حسین ان کے حقیقی چچا تھے جن کے گھر میں دہلی میں انھوں نے اپنی تعلیم کے دوران کچھ عرصے قیام کیا تھا۔  مسعود حسین خاں کا ان کے ساتھ شب و روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔  ایک اور صاحب خاکہ عبد القادر سروری ان کے ہم پیشہ اور دوست تھے، چنانچہ متذکرہ شخصیتوں سے مسعود حسین خاں کی نہ صرف معاصرت تھی، بلکہ قربت بھی تھی، اور ڈاکٹر ذا کر حسین سے ان کی معاصرت اور قربت کے علاوہ’’قرابت‘‘ بھی تھی۔  یہی وجہ ہے کہ ان شخصیتوں کی ان کے ذہن پر گہری چھاپ پڑی اور ان کی خوبیوں کو انھوں نے بڑے سلیقے سے اپنے خاکوں میں پیش کیا۔  کوئی بھی محقق مسعود حسین خاں کے معاصرین پر خامہ فرسائی کرتے وقت، ان شخصیات سے جن کے خاکے انھوں نے تحریر کیے ہیں، صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔

مسعود حسین خاں کے تحریر کردہ یہ خاکے، خاکہ نگاری کی تمام خوبیوں سے متصف ہیں۔  خاکہ نگاری کا ایک وصف یہ ہے کہ صاحب خاکہ کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیاں بھی بیان کی جاتی ہیں، چنانچہ مسعود حسین خاں نے اپنے استاد رشید احمد صدیقی کے کردار کی اس خامی یا کمزوری کو بھی اُجاگر کیا ہے جو معاشرتی سطح پر پائی جاتی تھی کہ ان سے ملنے آنے والا، ان سے ملے بغیر مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتا تھا جب کہ وہ اپنے گھر میں بہ نفسِ نفیس موجود ہوتے تھے۔  اسی طرح ڈاکٹر ذا کر حسین اور جسٹس ہدایت اللہ کے کردار کی بھی بعض خامیوں کی طرف انھوں نے اشارے کیے ہیں۔

مسعود حسین خاں کے یہ خاکے انھیں اردو کے بہترین خاکہ نگاروں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے وہی لکھا جو محسوس کیا اور بے جا تعریف و توصیف سے گریز کیا، نیز کسی بھی صاحب خاکہ کو ’ہیرو‘ یا ’سُپر مَین‘ بنا کر پیش نہیں کیا۔

٭٭

 

حواشی

 

1۔        مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی کے رہنے والے تھے، لیکن ان کی عمر کا بیشتر حصہ حیدرآباد (دکن) میں گذرا اور وہیں انھوں نے وفات پائی۔  وہ اردو کے مایۂ ناز خاکہ نگار تھے۔ ’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی‘‘ ان کا بہترین خاکہ ہے جس کی وجہ سے ان کا شمار اردو کے صفِ اول کے خاکہ نگاروں میں ہوتا ہے۔  اسے اردو کا پہلا کامیاب ترین طویل خاکہ کہا گیا ہے۔  یہ خاکہ سب سے پہلے انجمن ترقیِ اردو کے سہ ماہی مجلے ’اردو‘، بابت جولائی 1927 (ساتویں جلد) میں شائع ہوا۔

2۔        مرزا اکبر علی بیگ کا تعلق بھی حیدرآباد (دکن) سے تھا۔  وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) میں اردو کے استاد تھے۔  خاکہ نگاری سے انھیں بیحد دلچسپی تھی۔  ان کے خاکوں کے دو مجموعے، ’خوش نفساں ‘ (1983) اور ’نفوسِ گرامی‘ (2003) شائع ہو چکے ہیں۔

3۔        ایک مونڈھے میں Backنہیں تھی اور دوسرا مونڈھا Backکے ساتھ تھا، جیسے کہ Back Chairہوتی ہے۔

4۔        غالب کا وہ شعر یہ ہے:

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

5۔        مسعود حسین خاں،’’رشید صاحب:  چند یادیں‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ از مسعود حسین خاں (علی گڑھ:  ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص 209-1۔ 0۔

6۔        ایضاً،ص 210۔

7۔        ایضاً،ص 211۔

8۔        ایضاً، ص 211۔

9۔        ایضاً، ص 212۔

10       ایضاً، ص 212۔

11       ایضاً، ص 212

12       ایضاً، ص 212-13

13       ایضاً، ص 215-16

14       ایضاً، ص 216

15       ایضاً، ص 215

16       مسعودحسین خاں،’’ذا کر صاحب:  ذاتی یادیں‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ از مسعود حسین خاں (علی گڑھ:  ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص 192

17       ایضاً، ص 194

18       ایضاً، ص 195

19       ایضاً، ص 196

20       ایضاً، ص 200

21       ایضاً، ص 203

22       ایضاً، ص 204-205

23       ایضاً، ص 205

24       ایضاً، ص 206

25       ایضاً، ص 208

26       ایضاً، ص 198-99

27       ایضاً، ص 201

28       وہ تین اشخاص یہ تھے:  (1 پروفیسر مسعود حسین خاں، (2 پروفیسر محمد شفیع (علی گڑھ)، (3) ڈاکٹر سلامت اللہ (جامعۂ ملیہ اسلامیہ)

29       مسعود حسین خاں،’’امیرِ جامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ از مسعود حسین خاں (علی گڑھ ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص 218-19

30       ایضاً، ص 219

31       ایضاً، ص 219

32       یہ فقرہ مسعود حسین خاں کا ہے۔ جامعۂ ملیہ اسلامیہ دہلی کے جس علاقے میں واقع ہے اسے’’اوکھلا‘‘ کہتے ہیں’’اوکھلی میں سر دینا‘‘ اردو کا ایک عام محاورہ ہے اوکھلی میں سر دینے کا کیا انجام ہوتا ہے یہ سبھی کو معلوم ہے اوکھلی از روئے قواعد اسمِ تصغیر ہے (اور اسمِ مونث بھی) اوکھلا اسمِ مذکر ہے اور اوکھلی سے بڑا بھی ہے، چنانچہ اس میں اگر سر دیا جائے تو کیا انجام ہو گا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں مسعود حسین خاں نے اوکھلی (جو یہاں مضمر ہے) اور اوکھلا میں لغوی مناسبت پیدا کی ہے اور لفظ ’اوکھلا‘ میں ذو معنیت جس سے مزاح کی چاشنی پیدا ہو گئی ہے (دیکھیے ’مضامینِ مسعود‘،ص 219)

33       ایضاً، ص 219

34       ایضاً، ص 219

35       ایضاً، ص 221

36       دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون’’امیرِ جامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘،ص 218-24

37       ایضاً، ص 218-24

38       ایضاً، ص 223

39       مسعود حسین خاں،’’پروفیسر عبد القادر سروری مرحوم‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘ از مسعود حسین خاں، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ:  شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973)،ص 189

40       ایضاً، ص 190

41       ایضاً، ص 190

42       ایضاً، ص 190

43       ایضاً، ص 191

44       ایضاً، ص 191

45       ایضاً، ص 192-93

46       ایضاً، ص 193

47       مسعود حسین خاں،’’اعظمی صاحب‘‘، مشمولہ ’عبد اللطیف اعظمی:  حیات و خدمات‘ (نئی دہلی:  مکتبۂ جامعہ لمیٹڈ، 1985)، ص 12

48       ایضاً، ص 13

49       ایضاً، ص 13

50       ایضاً، ص 13

51       ایضاً، ص 13-14

52       مسعود حسین خاں،’’مغیث الدین فریدی‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’شاعر‘ (ممبئی)، جلد 73، شمارہ 1(جنوری2002)،ص 24

53       ایضاً، ص 25

54       ایضاً، ص 26

٭٭٭

9 thoughts on “مسعود حسین خاں کی خاکہ نگاری ۔۔۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

  • اردو کی طالبہ نہیں ہوں لیکن یہ بات مزہ دے رہی ہے کہ مسعود حسین خان نے چند معاصر شخصیات پہ خاکے لکھے اور خلیل احمد بیگ نے اس پہ تنقیدی مضمون لکھا جوکہ خود بھی مسعود حسین خان کا خاکہ پیش کرتا ہے۔
    خلیل احمد بیگ کا اندازِ تحریر خوبصورت ہے۔ کسی کسی جگہ تکرار نظر آتی ہے اور کسی جگہ مترادفات کے استعمال کی کمی محسوس ہوتی ہے لیکن مجموعی لحاظ سے یہ ایک جامع مضمون ہے۔

  • مغیث الدین فریدی کے خاکہ میں مسعود صاحب کے لیے لکھے گئے قطعات تو شامل ہیں لیکن ان کی کوئی غزل یا کچھ اشعار ہی ہوتے تو ایک بہتر خاکہ ہوتا۔ لیکن یہ خاکہ خاصی تشنگی کا احساس دلاتا ہے۔

  • عبدالقادر سروری کا خاکہ بھی خوب ہے لیکن کچھ تشنگی محسوس ہورہی ہے۔
    یہاں مسعود حسین خان نے استفادہ حاصل کرنے کا لفظ استعمال کیا ہے۔
    "سے علمی استفادہ حاصل کرنے”
    کیا یہ درست ہے؟

  • ہدایت اللہ کے خاکہ سے کافی سبق ملتا ہے ہمیں کہ میانہ روی ہی بہترین ہے۔ اس طرح لوگوں کو جود سے کمتر سمجھنے کا روّیہ ایک بیمار روّیہ ہی کہلائے گا۔

  • ذاکر حسین پہ مسعود حسین خان کے خاکہ کے بارے میں مرزا خلیل احمد بیگ نے بہت خوب لکھا ہے۔ ذاکر حسین ایک حسین شخصیت کے مالک تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے