سائنس کا علم دنیا کے ٹھوس حقائق کے انکشافات کے علم کے ساتھ کائنات اور انسانی بقا ء کی اصلیت کو پہچاننے کا علم ہے۔ اردو شاعری کے ذریعے بھی کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اگر کوئی شاعر سائنسی فکر رکھتا ہو تو وہ منطقی ذہن کے ساتھ استدلال اور ادراک کی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ پھر زمان و مکان کی حقیقت کو اپنی شاعری میں پرونے کی کوشش کرتا ہے۔
اردو غزل کے نامور شاعر غالب کے ہاں بھی سائنسی شعور کی جلوہ گری دیکھی جاتی رہی ہے اور ڈاکٹر محمد حامد نے تو ان کے سائنسی شعور پر باقاعدہ ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔ موجودہ دور کے نئے لہجے کے شاعر ذیشان ساجد کی شاعری کا ایک الگ رنگ، اسلوب، مزاج، موضوع اور پس منظر ہے۔ اسی بناء پر اپنے ہم عصروں میں وہ سب سے منفرد نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ انفرادیت جہاں شاعری میں ان کے فکری موضوعات کے حوالے سے ہے وہیں فنی نقطہ نظر سے بھی انہوں نے معاصرین میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔
ذیشان ساجد کی شاعری کا بغور معائنہ کیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ قدرت کے پوشیدہ رازوں کو کھوجنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اپنے سفر کے دوران کہیں وہ حیرت سے دو چار ہوتے ہیں اور اسی تحیر کے دوران ان کی شاعری کے شگوفے پھوٹتے ہیں، تو کہیں وہ صوفی نظر آتے ہیں۔ کہیں مضطر اور کہیں سائنس داں۔ ان کے طرزِ فکر میں تنوع ہے اور یہ تنوع سائنسی شعور کے طفیل ہی ممکن ہوا ہے۔
مرے یقین میں حائل مرے گمان کا شور
بڑا عذاب ہے یار و خیال دان کا شور
میں نے فٹ بال پہ فوکس نہیں رکھا ذیشاں
جاری اندر بھی مرے تھے بڑی بہتات سے کھیل
ذیشان ساجد کی خوبی یہ ہے کہ وہ ادق سائنسی مسائل کو مختلف صنعتوں کی جلوہ گری سے شعر کے پیکر میں ڈھالتے ہیں اور اس انداز میں کہ الفاظ کی بنت میں کہیں بھی کوئی سقم نظر نہیں آتا جیسا کہ درج بالا شعر میں انہوں نے صنعتِ تضاد کا استعمال کیا ہے۔
دائرہ توڑا تو حیرت ہی در آئی ذیشاں
اب یہ حیرت نہیں اندر سے نکلنے والی
ذیل میں ایک غزل کے دو اشعار دیکھیے۔ ایک میں نظریہ امکان اور دوسرے میں ڈیوائیڈ اینڈ کونکر سٹریٹیجی کو نہایت مناسب انداز مین بیان کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظریہ، خیال، فلسفہ چاہے کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو اگراس کی شعری بنت عمدہ ہو گی تو اس کی ترسیل میں جمال از خود داخل ہو جائے گا:
تمام قدرت کھڑی ہے امکاں کے نظریے پر
قدم اٹھانے سے پہلے سکے سے ٹاس کر لوں
کئی کٹھن مسئلوں کی تحلیل بھی ہے ممکن
اگر میں اک مسئلے کے ٹکڑے پچاس کر لوں
سائنسی فکر سے مزین ہر شعر کا اپنا ایک الگ پس منظر ہوتا ہے۔ دو مصرعوں میں پوری داستان پرو دینا معمولی بات نہیں ہے۔ سب سے زیادہ جس بات پر حیرانی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی حسیات و کیفیات میں پیچیدگی کے ساتھ اجنبی موضوع کو برتنے کے باوجود غیریت محسوس نہیں ہوتی۔ وہی روانی، وہی نغمگی اور وہی سلاست جو کہ شعر کی پہچان ہے، ذیشان ساجد کی شاعری میں موجود ہے۔ وہ جدید ذہن کے ساتھ چیزوں کو سمجھنے میں مگن نظر آتے ہیں۔ چونکہ ان کا شعور بیدار ہے اس لیے وہ فکری اور عقلی سطح پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بے تکلف انداز سے پیچیدہ موضوعات کو اور سائنسی اصول و حقائق کو اتنا سہل بنا کر پیش کرتے ہیں کہ قاری کو اشعار گنجلک محسوس نہیں ہوتے۔
ذیشان ساجد نے بگ بینگ تھیوری، کائنات کے ظہور اور کششِ ثقل کے موضوعات کو بہت عمدگی سے شعر کے جامے میں مقید کیا ہے۔
نہیں ہے امن و سکون کوئی اس کی فطرت میں
کہ اک دھماکے سے پھوٹی ہے کائنات میاں
اُڑا رہی ہیں اڑانیں بلندیوں کی طرف
کھنچاؤ کھینچ رہا ہے مگر زمیں کا بھی
انسان ہمیشہ سے ہی ارتقاء اور تغیر کا شکار رہا ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے کی نئی فکر، نئے پیکر، نئی کیفیت کو اپنے اندر سمو کر ترسیل کا جامہ عطا کرنے کے فن سے ذیشان بخوبی واقف ہیں۔ ان کی شاعری صرف زندگی کا مفہوم ادا نہیں کرتی بلکہ عرفان عطا کرتی ہے۔ ان کا شعر لفظ کی فصیلوں کو پار کر کے سوچ کے افق پر لامحدود کائنات کے در وا کرتا ہے۔ معنی سے آگے نئے جہان کی دریافت دیکھ کر زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ ذیشان نے اپنی شاعری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شاعری کی بنیاد تخیل یعنی قوتِ اختراع ہرگز نہیں ہے۔ ٹھوس حقیقت کو بنیاد بنا کر بھی بہترین شاعری کی جا سکتی ہے۔ اور اپنے فن سے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی طرزِ فکر انسان کو سراب سے نکال کر حقیقت کی دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ اسے قوت عطا کرتی ہے۔
کھوجنا ہے تو کبھی کھوج نظامِ قدرت
کھیلنا ہے تو کبھی ارض و سموات سے کھیل
تمہارا چہرہ ہے چاند، اور چاند ہے بیاباں
مرے بدن کے تمام تر مالیکیول مٹی
ان اشعار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ذیشان ساجد جدید فکر کے حامل شاعر ہیں۔ تیز نگاہی سے لفظ کی ماہیت کو سمجھتے ہیں۔ ان کی یہی جدید فکر انہیں انفرادیت بخشتی ہے۔ حیرت انگیز تخلیقیت، خارجی مشاہدے، فنکارانہ دروں بینی قاری کو حیرت اور استعجاب میں ڈالتی ہے۔
ہر سمندر کی روانی میں خلل ڈالتا ہے
چاند ظالم تو مزاجوں کو بدل ڈالتا ہے
اس شعر میں مد و جذر کی کیفیت میں چاند کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
زمین گھوم کے سورج کی سمت مڑنے لگی
سنائی دینے لگا ہے پرندگان کا شور
زمین جب کبھی سورج سے پھیر لیتی ہے منہ
دکھائی دیتی ہے لوگوں کو صرف رات میاں
ذیشان کی شاعری کا بغور معائنہ کرنے کے بعد زندگی سے محرومی و مایوسی، اکتاہٹ، بیزاری، زندگی کی بے معنویت اور اپنے دروں میں اتر کر آواز لگانے کی ایک منفرد فضا ملتی ہے۔ جو خستہ سماجی نظام، عصبیت، استحصال، تفریق بین البشر، تہذیب، سیاست، سماجیات اور اخلاقیات کے ہشت پہل معاملات بھی ان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کا لہجہ، آہنگ، اسلوب اور سب سے بڑھ کر موضوعات حساس ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے وسیلہِ اظہار کی تازگی کے ساتھ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر جو تنوعات حاصل کئے ہیں وہ اردو کے نئے شعری بوطیقا کی تشکیل میں اہم کارنامہ انجام دے گی۔
دیکھی جو بھی وحشت ہم نے اس کا نام خدا رکھا ہے
اور گمان و وہم کے اس جنگل کے اندر کیا رکھا ہے
قدرت کے ترازو میں سبھی کچھ ہے برابر
حیوان، ہوا، خاک، نباتات، سمندر
اس میں شک نہیں کہ ایسے بے رس موضوعات پہ اتنے عمدہ شعر کہنا لائق صد رشک ہے۔ ذیشان ساجد کا فن وسیع و بسیط کائنات، مظاہرِ کائنات، چاند ستاروں سے ہمکلامی کے ساتھ انسانی بے ثباتی، بے بسی، لاچاری، شخصی کرب کی آفاقیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جب شاعر کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہو گا تو وہ اپنے جذبات کو حقائق کی روشنی میں پیش کرے گا۔
زندگی کے مختلف رُخ پہ اندازِ فکر دیکھنے کا فن تو ذیشان ساجد کے پاس بدرجہ اتم موجود ہے ہی، تمام بات کو فلسفی کی نظر سے دیکھنا اور جذبات کی پیچیدگی پہ غور کرنا ذیشان ساجد کی فطرت ہے۔ نئی بات نئے خیالات کے اندازِ بیاں کی چاشنی قاری کو بار بار کلام پڑھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ ذیشان ساجد کی نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجئے:
سبھی بناوٹ دماغ کی ہے
کشش، توازن، وجود، لہریں
یہ خواہشوں کا جو محفلِ ذہن میں سماں ہے
شعور کی سطح پر امڈتا ہوا گماں ہے
یہی جہاں ہے
جو فکر و احساس ذیشان ساجد کو سائنسی علوم نے عطا کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ذیشان ساجد کے تازہ شعری رویے اور جدت سے آشنا ہو کر اس سے حظ اٹھانا چاہیے۔
٭٭٭