آپ سوچ رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ یہ کیا بات ہوئی !۔ ۔ ۔ ’’ووٹ کا ویٹ‘‘۔ آخر یہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مضمون ہے۔ ۔ ۔ ؟ انشائیہ ہے ؟ افسانہ ہے ؟ اب یہ جو کچھ بھی ہے، ہے تو اردو میں ہی، تو بھلا انگریزی کے اس لفظ ’ ویٹ‘ کو یہاں گھسیٹ لانے کی کیا ضرورت تھی۔ اُردو کا ہی لفظ لیا جاتا تو بات صاف ہو جاتی۔ یعنی اگر اس ویٹ سے انتظار مراد ہے تو۔ ۔ ۔ ’ووٹ کا انتظار‘ لکھا جا سکتا تھا۔ اگر وزن مراد ہے تو ’ ووٹ کا وزن‘ نام دیا جا سکتا تھا اور اگر اس کے لفظی مفہوم سے گریز کرتے ہوئے ذرا گہری نظر ڈالنی ہے تو اسے وقار یا اہمیت کے معنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے تو ’ ووٹ کا وقار‘ ہی کہہ دیا جاتا۔ مگر یہ ویٹ جو بھی ہو، ہے ایک حقیقت اور یہی حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ چونکہ آج کل یہ رجحان غالب ہے کہ لکھنے والے کی یہ پروبلم نہیں کہ وہ سوچے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے، یہ مسئلہ قاری کا ہے کہ وہ رد و تشکیل کے عمل سے گزر کر خود مفہوم تک رسائی حاصل کرے۔ اس لئے یہ فیصلہ آپ کیجئے کہ اسے کس خانے میں ڈالیں گے۔ مجھے تو اصل بات کی طرف آنے دیجئے۔
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ الیکشن کا موسم پھر آ گیا۔ موسم کا تو کام ہی ہے پلٹ پلٹ کر آنا ہے سو وہ آئے گاہی مگر موسم کا اپنا ایک قانون بھی ہے سال میں ایک ہی بار وہ اپنی باری کا انتظار کر کے آتا ہے، یہ نہیں کہ برسات گرمی سے کہے کہ مجھے ذرا جلدی ہے اس لئے جاڑے کے بعد مجھے لائین میں لگ جانے دو۔ آنے والے سال میں میں بھی چھٹی پر چلی جاؤں گی اور میری جگہ تم لے لینا۔ اگر ایساہونے لگے تو۔ ۔ ۔ توبہ توبہ۔ ۔ ۔ ابھی تو الیکشن کے موسم کی بات کرنی ہے اور میں اس سے بھٹک کر قدرتی موسم کی بات کرنے لگی۔ شکر ہے موسم نے ابھی اپنا قانون نہیں توڑا ہے۔ مگر اس الیکشن نے تو پچھلے چند سالوں سے سال میں تین بار اُپجائے جانے والی سبزیوں کی کاشت کو بھی شرمندہ کر دیا ہے۔ جی ہاں پہلے سال میں کوئی بھی سبزی۔ خواہ وہ ٹماٹر ہو یا گوبھی، مٹر ہو یا گاجر، ایک بار اپنی بہار دکھاتی تھی۔ زبان کا ذائقہ کیا تراوٹ پاتا تھا۔ ہر چیز کا بس اپنا مزہ تھا، جس دن گوبھی کی سبزی،یا میتھی کے پراٹھے بن جائیں گھر کی پوری فضا معطر ہو جاتی تھی۔ گاجر کا حلوہ، نام آتے ہی بس پوچھئے مت خوشی سے چہروں پر گاجر کا رنگ آ جاتا تھا۔ اور ان چیزوں میں جو صحت بخش عنصر شامل ہوتے تھے ان سے بھلا کسے انکار ہو سکتا ہے۔ مگر جب سے ایگریکلچر نے ترقی کی ہے یہی سبزیاں اب ہر تیسرے مہینے دوکانوں پر نظر آ جاتی ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ سنئے۔ ۔ ۔ اس دن میں اپنے یہاں آئے ہوئے رشتے کے ایک چچا کے ساتھ سبزیاں خریدنے بازار گئی تو میرے ضعیف العمر چچا نے کہا۔
’’بیٹی۔ ۔ ۔ آج تم نے میری گرم جرسی نہیں پہنائی۔ پھر بھی مجھے سردی نہیں لگ رہی ہے۔‘‘ تو میں نے کہا۔ ۔ ۔
’’چچا جان بھلا اس گرمی کے موسم میں آپ کو سردی کیوں لگنے لگی۔‘‘ تو وہ چونک کر بولے۔
’’آں ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ یہ تو گرمی کا ہی موسم ہے مگر پھر یہ گوبھی، گاجر، ٹماٹر کی بہتات سبزی منڈی میں کیسے۔ ۔ ۔ ؟ یہ تو جاڑے کے موسم کی بہار ہیں ۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’چچا جان۔ ۔ ۔ اب جو سبزی میں آپ کو کھانے کا پرانا مزہ نہیں ملتا ہے نا۔ ۔ ۔ وہ ہم عورتوں کا کھانا پکانے کے شوق سے بددلی نہیں بلکہ یہی وجہ ہے کہ ہر چیز کی کاشت سال میں ایک بار کے بجائے تین بار ہونے لگی ہے۔ کھاد ڈال کر ان کے سائیز اور صورت کو جتنا بھی نکھار لو، ان کی سیرت کے کھوکھلے پن سے تو ہر کوئی جوجھ رہا ہے۔‘‘
لیجئے جناب اب میں پھر ایک نئی ڈگر پر بھٹک گئی۔ ۔ ۔ کیا کریں ’ ووٹ میں ویٹ‘ ہو تب ہی تو اس مدے پر ٹکیں ۔ بہر حال بات ہو رہی تھی الیکشن کی یعنی ووٹ کی۔ تو جب الیکشن کا موسم بے موسم کی سبزی کی طرح ہمارے سر پر آ ہی گیا ہے تو ظاہر ہے یہ صحت بخش بھی نہ ہو گا، مگر اب اس سے نبٹنے کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے۔ وہ تو بھلا ہوا الیکشن کمیشن کا جس نے پچھلی دفعہ غلط قسم کے پرچار پر، وچار کر کے روک لگا دیا ہے، ورنہ ہندوستان کی آدھی آبادی ہرسال ہونے والے الیکشن کی چیخ و پکار سے بہری ہو جاتی تو ان نیتاؤں کا بھاشن کون سنتا۔ اس لیے باقی آدھی آبادی تو الیکشن میں لڑنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
بہر کیف الیکشن کمیشن کے شکرانے کے بعد بھی میں سمجھتی ہوں کہ الیکٹرونک میڈیا کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی نا انصافی ہو گی۔ کیوں کہ اب ہر نیتا اپنے اپنے وچار کے پرچار کے لیے اسی کا استعمال کرتا ہے تاکہ گھر گھر اس کی آواز پہنچ سکے۔ اور اب بے چارے، ہندوستانی اس پرچار سے تنگ آ جائیں تو اپنا غصّہ نیتا جی کے کان اینٹھ کر تو نہیں کر سکتے مگر اپنے ریڈیو، ٹی۔ وی کے کان تو بخوشی اینٹھ سکتے ہیں ۔ پھر بھی ان ساری باتوں کے باوجود ہر پارٹی کے وچار چاہے، انچاہے ہم تک پہنچے تو ہمارے اپنے ذہن میں بھی وچاروں کی ہانڈی پکنے لگی۔ اور میں نے سوچا کیا میں اس بار پھر سے ووٹ دینے کی ہمت کر پاؤں گی۔ یہ سوال میرے ذہن میں اپنے پچھلے تجربے کی بنیاد پر آیا۔ کیوں کہ پچھلی بار میں نے بہت سوچ سمجھ کر، جوش و شوق سے ووٹ دینے کی پلاننگ کی تھی۔ کیوں کہ اس وقت مجھے یہ لگنے لگا تھا کہ اگر ہر بار ہم اپنے ووٹ کا سہی استعمال کریں تو روز روز کی اس جھنجھٹ سے چھٹکارا ملے گا اور یہ خیال آتے ہی میں خود کو مجرم سمجھنے لگی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اتنا پڑھ لکھ کر اپنے حق کا استعمال نہ کرنا یقیناً جہالت ہے اور مجھ سے بہتر تو گاؤں کی وہ ناخواندہ عورتوں ہیں جو نہ جانے کتنی مشکلوں سے اتنی دور دور سے ووٹ ڈالنے چلی آتی ہیں ۔ اگر ہم سوکالڈ (So-Called) پڑھے لکھے لوگ پولنگ والے دن چھٹی کا پورا مزہ اُٹھاتے ہوئے، منھ لپیٹ کر نہ سوئیں تو شاید ملک کو ایک اسٹیبل گورنمنٹ (Stable Government) مل جائے۔ مگراس نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا ہی کون ہے۔ جب نیتاؤں کی ہی کوئی نہیں سنتا۔ بہر حال اس کام پر دور درشن والوں نے پہلے ہی کمر کس رکھی ہے، اسی لئے طرح طرح سے دور دور کی کوڑی لا کر آپ کو درشن کرواتے ہیں ۔ اور کیسے کیسے سروے کر کے آپ کے کنفیوژن کو مزید بڑھا دیتے ہیں ۔ تاکہ اگر آپ میں سوچنے سمجھنے کی ذرا بھی صلاحیت ہے تو وہ بھی مفقود ہو جائے۔ مگر میں نے حتمی ارادہ کر لیا تھا کہ میں ووٹ ضرور دوں گی۔ یہ اس وقت کا قصّہ ہے جب چار سال پہلے اپنا نام ووٹ لسٹ میں ڈلوا لیا تھا۔ مگر پہلے دو الیکشن میں تماشبین کی طرح پوپ کورن کھاتے ہوئے ٹی وی پر سارا تماشہ دیکھا تھا۔ مگر تیسری بار خود اس کا حصّہ بننا چاہتی تھی، ملک کے تئیں اپنا فرض ادا کرنا چاہتی تھی۔ اور اس ارادے کی تکمیل سے جو تجربہ ہو اس کی بناء پر آج یہ سوال ذہن میں ہے کہ کیا ایک بار پھر وہی سب۔ ۔ ۔ ؟ اچھا آئیے آپ کو بھی پچھلا تجربہ تباہی دوں ۔ اُس بار ہوا یوں کہ ووٹ دینے کا خیال آتے ہی سب سے پہلی پریشانی یہ ہوئی کہ ووٹ کسے دوں ؟ سب کا بھاشن نہ چاہ کر بھی سن چکی تھی۔ نہ جانے نیتاؤں کی تقریر میں میں کیا تلاش کر رہی تھی کہ کسی نے مجھے متاثر نہ کیا۔ ہوا کرتی تھی اور سوچتی تھی کہ قبر میں پیر لٹکا یا ہوا آدمی حرص اور ہوس میں مبتلا نہ ہو کر ۰ شاید اپنی عاقبت سنوارنے کی خاطر لوگوں کا بھلا کرنے میدان میں اترا ہے۔ مگر اب تو یہ سوچ بھی غلط ثابت ہو چکی جب سے ایک بزرگ محترم کی جیت کا نتیجہ ہماری اس سوچ کے برعکس نکلا، کیوں کہ ایسے ہی ایک بزرگ لیڈر کو اپنی سات پشتوں کے لئے خزانے سمیٹتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ شاید اپنی عاقبت سے زیادہ وہ انھیں آئندہ نسل کا مستقبل سنوار نے کی زیادہ فکر تھی، اسی لیے اب عمر اور تجربے سے متاثر ہونے کا قطعی ارادہ نہ تھا، وعدوں پر اعتبار نہ تھا۔ البتہ ارادوں کا پتہ ضرور تھا۔ سب کے ارادے الگ الگ تھے۔ تیور بھی الگ الگ تھے۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ سب میں ایک بات بڑی مشابہ تھی۔ ان کے جسموں پر کرتا کھادی کا ہو یا سلک کا۔ ۔ ۔ ان کے ہاؤ بھاؤ بتاتے تھے کہ ان کی کھال بہت موٹی اور چکنی ہے۔ شاید مکھن کی مالش سے کھال موٹی اور چکنی ہو جاتی ہو۔ خیر میں پچھلی بار اپنے ووٹ ڈالنے کے تجربے کا ذکر کر رہی تھی۔ خدا خدا کر کے پولنگ والا دن آ گیا۔ چوں کہ میں کوئی فیصلہ نہ کر سکی تھی کہ ووٹ کسے دوں اس لئے سوچا محلے والوں پر نظر رکھوں کہ ان کا رجحان کدھر ہے، اسیلیے یہ طے کیا کہ آس پاس کے لوگوں کے ساتھ ہی ووٹ دینے جاؤں گی، اس طرح سب کے ساتھ قافلے کی شکل میں نکلی اور گھر کے پاس والے موڑ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ووٹرس کی آسانی کے لیے کئی پارٹی کی گاڑیاں سڑک پر دوڑ رہی ہیں ۔ اور ابھی میں یہ سوچ رہی تھی کہ ان سیاسی پارٹیوں کو عوام کی دوسری تکلیفوں اور پریشانیوں کا احساس اتنی جلدی کیوں نہیں ہو پاتا۔ ۔ ۔ کہ ایک بھیڑ کے دھکے کے ساتھ میں ایک ماروتی وین میں چڑھ گئی،یا یوں کہئے کہ چڑھا دی گئی۔ محلے کی بہت سے امائیں بھی ساتھ چڑھ چکی تھیں اس لیے چپ چاپ بیٹھ گئی۔ ہمارے بیٹھنے کے بعد کچھ خواتین نما حضرات بھی اس میں جگہ پا گئے۔ ان کی پاچھیں یوں کھلی پڑ رہی تھیں ، جیسے اپنی بھائی کی بارات میں جا رہے ہیں اور مجھے لگ رہا تھا کہ ہم لوگ سرکس کے جانور ہیں جنھیں ایک گاڑی میں بھر کر کرتب دکھانے لے جایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ وین کے چلتے ہی اس میں بیٹھی اماؤں کے بچے جو سڑک پر چھوڑ دیے گئے تھے ہلڑ مچاتے ہوئے کچھ دور تک وین کے پیچھے بھاگتے ہوئے آ گئے، پھر پیچھے چھوٹ گئے۔ پولنگ بوتھ پر پہنچتے ہی کچھ لوگ وین سے اترنے والوں کے آگے پیچھے لگ گئے۔ اور کان میں سرگوشیاں کرنے لگ۔ آپ کو نام چاہئے ؟ ادھر آئیے۔ ۔ ۔ نام لیجئے۔ ۔ ۔ ؟ عورتیں گروپ کی شکل میں بٹ گئیں اور ان کے ساتھ جانے لگیں میں تنہا کھڑی رہ گئی کہ کدھر جاؤں ۔ ۔ ۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا مگر جلد ہی سمجھ گئی کہ مختلف پارٹیوں کے لوگ الگ الگ جگہ پر بیٹھے ووٹ دینے والوں کو نام دے رہے تھے۔ اور اُمید کر رہے تھے کہ انھیں ہی اس نام کا ووٹ ملے۔ بات سمجھ میں آنے پر میں بڑے کانفیڈنس سے اس طرف گئی جہاں ووٹرس لسٹ لیے ایک آدمی بیٹھا تھا۔ اس ٹیبل پر پہنچ کر میں نے ووٹرس لسٹ میں اپنا نام دیکھنے کے لئے کہا۔ مگر میری اس بات پر اس آدمی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور ایسے مجھے نظر انداز کر دیا جیسے میں مخبوط الحواس ہوں ۔ تب ایک آدمی کسی طرف سے میرے قریب آ کر بولا۔ ۔ ۔ آپ ادھر آئیے۔ ۔ ۔ میں اس کے پیچھے گئی۔ وہ ایک درخت کے پاس مجھے لے گیا۔ وہاں زمین پر کچھ لوگ ایک لسٹ لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چاروں طرف عورتیں ٹوٹی پڑ رہی تھیں ۔ اس آدمی نے کہا یہاں آپ کو نام مل جائے گا۔ میں نے مشکور نگاہوں سے اسے دیکھا اور اس کوشش میں الگ گئی کہ لسٹ والے آدمی تک رسائی حاصل کر سکوں مگر مجھے کچھ انتظار کرنا پڑا۔ ۔ ۔ عورتیں اپنا اپنا نام لے کر ہٹ رہی تھیں ، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سب بار بارا پنا نام رٹ رہی ہیں ۔ آخر کار میری رسائی بھی اس فہرست والے آدمی تک ہوئی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی اس نے کہا۔ ’’میڈم۔ ۔ ۔ ایک ہی نام بچا ہے یہی لے لیجئے۔ جلدی سے ووٹ دے کر آ جائیے گا، کوئی دھیان نہیں دے گا۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ۔ ۔ ’’کیا مطلب؟‘‘
تو اس نے کہا۔ ’’دراصل جو نام بچا ہے اس کی عمر ہے بیس سال۔ ۔ ۔ مگر آپ اب یہی لے لیجئے۔‘‘ اور اس طرح ایک پرچی پر اس نے مجھے وہ نام پکڑا دیا اور میں بیوقوف کی طرح دیکھتی رہ گئی، کہ اپنی عمر سے آدھی عمر والی لڑکی کے نام پر مجھے ووٹ دینا تھا۔ میرا نام تو نا جانے کہاں گم تھا ممکن ہے اس بیس سال والی لڑکی کے پاس ہو۔ مگر اتنا سمجھ میں آ رہا تھا کہ آپ کے پاس ووٹ ڈالنے کی فرصت ہو نہ ہو آپ کے نام سے ووٹ پڑ ضرور جاتے ہیں ، خیر اب تو آ ہی چکی تھی اس لیے اپنا نیا نام رٹتے ہوئے میں ووٹ دینے کے آخری مراحل کی طرف چلی۔ میری سمجھ میں اب کچھ کچھ آ رہا تھا کہ یہ سب کیا چکر ہے، اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا سب کچھ اس ملک میں کبھی آرگینائز (Organize) نہیں کیا جا سکے گا۔ اور قوم کا بھلا کرنے کا جذبہ اس دھکم مکی میں کہیں گم ہو چکا تھا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ہر پارٹی کو ووٹ کے لیے ایک ہاتھ کی ضرورت تھی۔ اگر ان کا بس چلتا تو ووٹرس کو جمع کر کے لے جانے والی گاڑیاں صرف ہاتھوں کو بھر کر لے جاتیں اور ووٹ حاصل کر کے انھیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک آتیں ، کیوں کہ اگلے الیکشن تک ہاتھوں کی نئی کھیتی پھر اُگ آتی۔ مگر افسوس کہ ایک ہاتھ کے ساتھ ایک سرکی گنتی بھی ہو جاتی ہے، اور سربھی ایسے ایسے جس میں بھُس نہیں بھرے ہیں ۔ بلکہ وہ خود بھی سوچ اور سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی لئے تو نہ جانے ان کی گاڑیوں کا پیٹرول پھونکنے کے بعد اندر جا کر کس کے نام کے آگے ٹھپّہ لگاتے ہوں گے ؟ کون جانے ؟ مگراس وقت تو مجھے فیصلہ لینا تھا۔ میری انگلی پر سیاہی لگانے والے آدمی نے ذرا بھوئیں سکوڑ کر کہا۔ ۔ ۔ ’’آپ کا نام ؟‘‘
شکر ہے میرا نام زبان پر آتے آتے رہ گیا، اپنا نیا نام میں بھول چکی تھی صرف عمر یاد تھی۔ تبھی اس کے قریب بیٹھے آدمی نے دھیرے سے کہا۔ ’’جانے دو اپنی ہی گاڑی پر آئی ہیں ۔‘‘ جایئے‘‘ اس نے پردے کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔ میں اندر گئی، فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تھی، تھوڑا سوچا۔ ۔ ۔ لگا باہر بیٹھے آدمی نے میرا کنفیوژن دور کرنے کے لیے اشارہ دیا ہے۔ جس وین پر آئی تھی اس پر لگا بیز یاد کیا، پھر دوسری پارٹی کی گاڑی کا بیز یاد کیا، دل میں ہمدردی پیدا کی (ویسی ہی ہمدردی جیسی ان قوم کے رہنماؤں کے دل میں الیکشن کے وقت ووٹرس کے لیے ہوتی ہے) اور اس طرح اپنی انصاف پسند طبیعت کے تحت دونوں نشانوں پر اس طرح ٹھپّہ لگا دیا کہ دونوں پر برابری سے آدھا آدھا بٹ جائے۔ اور واپسی میں اس وین میں نہیں بیٹھی جس سے آئی تھی بلکہ دوسری پارٹی کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
اور اپنے اس انصاف پر عش عش کر اُٹھی۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار کے الیکشن میں میں پھر سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کر پاؤں گی؟ ہر گز نہیں ۔ ۔ ۔ اور ضرورت بھی کیا ہے ایسے ووٹ کا ویٹ ہی کسے ہے اور کتنا ہے۔
٭٭٭