شاہو کو گم ہوئے چار گھنٹے ہو چکے تھے۔
کہاں گیا ہو گا۔؟
کس کے ساتھ ہو گا۔۔؟
ہائے اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔ میں یہ سوچتے ہی گھبرا گیا۔ ایک بار پھر ماہ نور، زیبا سے پوچھا کہ بھائی کو آخری بار انہوں نے کہاں دیکھا تھا۔ وہ دونوں روہانسی اسے ہی ڈھونڈ رہی تھیں اور بار بار یہی کہے جا رہی تھیں۔ ” ابو جی شاہو یہاں دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔ ” میں پھر چیخ پڑا” اور تم لوگ سوئے ہوئے تھے اس وقت۔ .” اور” آپ۔ کہاں تھیں۔ جو بیٹے کا خیال نہ رکھ پائیں۔ .” مجھے رہ رہ کر سلمی پر غصہ آ رہا تھا کہ وہ تو ماں تھی۔ اس نے کیسے لاپرواہی کر لی۔ کہ شاہو کو داخلی دروازے پر دیکھا اور سرزنش نہیں کی۔
آپ کو معلوم ہے نہ کہ "وہ بول نہیں سکتا۔ کسی کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتا۔ وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتا۔ ” اس کے ساتھ ہی میری آواز نے میرا ساتھ چھوڑ دیا.. مجھے شاہو کی معذوری نے ذہنی مریض بنا ڈالا تھا۔ میں جو پوری دنیا کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتا تھا.. اس کی پیدائش کے چھ ماہ بعد بھر بھری مٹی کی طرح زمین بوس ہو گیا۔
” سنیئے مل جائے گا شاہو۔ ” سلمی کے نرم ہاتھ بھی مجھے اپنے شانوں پر کانٹوں کی طرح لگ رہے تھے۔
شاہو بھلا کہاں جا سکتا ہے۔ .؟ کو ئی دوست تو دور کی بات اس کی تو اپنی ماں بھی اس کے لئے چھاؤں نہ تھی اور بہنیں بھی غمگسار نہ تھیں۔ گھر میں اسے اتنا ہی پوچھا جاتا جتنا ضروری ہوتا۔ میرے خدا اسے تو سوائے بلا وجہ ہنسنے، ایک ٹک بولنے والے کو دیکھتے رہنے یا چلتے رہنے کے علاوہ کچھ اور آتا بھی تو نہ تھا۔۔ ۔ میری آنکھوں میں اپنے بیٹے شاہو کی تنہائی پر نمی سی اتر آئی۔ قدرت بھی عجیب تھی اس کی کل کائنات میں شاہو کو صرف دو لفظ نصیب ہوئے تھے ” ابو اور پاری "۔ پاری کا ذہن میں آتے ہی میں اسے ڈھونڈنے صحن سے اپنے کمرے میں آ گیا کہ اس وقت وہ دونوں زیادہ تر میرے ہی کمرے میں کھیلتے تھے۔ میں نے جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا ہر کونے میں، بیڈ کے نیچے، الماری کے اندر دیکھ ڈالا پر پاری ہوتی تو ملتی۔۔ پاری شاہو کی بلی تھی جو ہم نے دو ماہ پہلے ڈاکٹر ریشم کے کہنے پر خریدی تھی۔
میں نے وہیں سے زیبا سے پاری کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ بھی صبح ہی سے غائب ہے۔۔ اوہ میرے خدا کہیں شاہو اسے ڈھونڈنے گھر سے باہر نہ چلا گیا ہو۔۔ ۔ سوچتے ہی میرے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی۔۔ حلق میں کانٹے سے پڑ گئے۔۔ میرے خدا چار گھنٹوں سے شاہو نہیں ہے اور تم لوگ اتنے سکون سے بیٹھے کیا میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں اپنی بے بسی اور تینوں کی بے حسی پر چلا پڑا۔
"اور مانیئے آپ اس ڈاکٹر ریشم کی باتیں۔ ” سلمی کو تو جیسے زہر اگلنے کا بہانہ مل گیا تھا۔۔ میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا جو باورچی خانے سے مسلسل بول رہی تھی۔ .خدایا یہ کونسا وقت ہے ڈاکٹر ریشم کو کوسنے کا، پر سلمی کی شکی اور جھکی طبعیت سے کون جیتے۔ میں کمرے سے نکل کر دوبارہ صحن میں آ گیا جہاں داخلی دروازے کے عین سامنے ایک چھوٹا سا چبوترا بنا ہوا تھا۔۔ صبح میں شاہو کو یہیں بٹھا کر ناشتہ کروایا کرتا تھا اور یہی سے اسے خدا حافظ کہہ کر آفس کے لیئے گاڑی میں بیٹھ جاتا تھا۔۔ اور وہ مسکرا کر کہتا۔۔ ابو پاری۔۔۔ میں نے ایک بار پھر اس کی تلاش میں چبوترے کے آس پاس، ادھر ادھر دیکھا۔۔ بارہ سالہ شاہو جس کی جسمانی ساخت اور زہنی عمر صرف پانچ سال کی تھی۔ وہ کہیں پر نہیں تھا۔ پر میرے تصور میں وہ ابھی تک جیسے چبوترے پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔ اور اس کے ساتھ اس کی بھوری بلی "پاری ” بھی اس سے جڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ پاری کے بھورے جسم پر کالے رنگ کے دائرے اور کالے ہی پیر اسے کئی بلیوں میں منفرد کرتے تھے۔۔ جب وہ اپنے مخاطب کی بات سنتے ہوئے اپنے کان اسی رخ پر ہلاتی اور اپنی بڑی بڑی ہلکی بھوری آنکھیں کھولتی بند کرتی تو جیسے چابی سے چلنے والی کوئی گڑیا لگتی۔۔ اس کے گلے میں لال رنگ کے بینڈ کے ساتھ پرویا ہوا چھوٹا سا سنہرا گھنگھرو جہاں کہیں بجتا شاہو مسحور ہو کر اس کو ڈھونڈنے نکل پڑتا۔۔ پھر دونوں دنیا سے بے نیاز ایک دوسرے کے آمنے سامنے یوں بیٹھ جاتے جیسے دو دوست مدتوں بعد ایک دوسرے سے ملے ہوں۔ پر آج وہ دونوں دلدار گھر پر نہیں تھے۔۔
میں نے نمناک آنکھوں سے باہر بڑھتی ہوئی شام کو بے بسی سے دیکھا اور تیزی سے چھت کی طرف لپکا کہ کہیں وہ کھیلتے کھیلتے وہاں نہ چلے گئے ہوں۔۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے شاہو کی زندگی کے اتار چڑھاؤ بھی یاد آتے گئے۔ وہ، ماہ نور اور زیبا دونوں سے بڑا تھا۔۔ اس کا اصل نام شابین تھا پر لاڈ میں پیار سے ہم سب اسے شاہو کہہ کر پکارتے تھے۔۔ ۔ میں شاہو کو پا کر اتنا خوش تھا کہ اس دن میرا دل کیا کہ خدا کو بھی مٹھائی بھیج دوں۔ میں اپنی اس نئی پہچان پر کہ میں اب سرخ و سفید، بولتی ہوئی آنکھوں اور پھولے ہوئے گالوں والے شاہو کا باپ ہوں کئی بار خود پر فخر کرنے بیٹھ جاتا..۔ میں اپنی خوشی میں مگن ہی رہتا جو سلمی کی تشویش مجھے خبردار نہ کرتی۔۔ شاہو کو گردن ٹکانے میں دقت ہو رہی تھی، سہارے سے بھی بیٹھ نہ پاتا تھا۔۔ ۔ میں اسے سلمی کا وہم ہی سمجھتا جو ایک دو ماہ کی دیر سویر ہوتی۔ پر شاہو نے جب مجھے ابو کہہ کر نہیں پکارا تو میں چونک گیا۔ اس نے میری طرف محبت سے نہیں دیکھا تو میں ڈر گیا۔ میں جب آفس سے آیا تو وہ لپک کر مجھ تک نہیں پہنچ پایا تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ سلمی جو پہلے ہی سے پریشان تھی اب خاموشی سے مجھ سے لا تعلق ہو گئی جیسے شاہو کی معذوری میں سارا قصور میرا تھا۔۔
سلمی کی لاتعلقی اتنی بڑھی کہ میں اکیلا ہی شاہو کو لئے ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر تک دوڑتا رہا۔۔ پر ہماری قسمت لکھی جا چکی تھی۔ میں دن رات افسردہ اور الگ تھلگ رہنے لگا اور سلمی اپنے معذور بچے کو ذہنی طور قبول نہ کر سکنے کی وجہ سے اس سے بھی دور ہو گئی۔۔ پھر یوں ہوا کہ سلمی، ماہ نور اور زیبا ایک پارٹی بن گئے اور میں اپنے شاہو کے ساتھ اکیلا پڑ گیا۔۔ سارا دن آفس میں رہنے کے بعد گھر آتا تو مجھ سے جو جو بن پڑتا میں شاہو کے لیے کرتا۔ شاید اسی لئے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ شاہو اور پاری کہاں چلے گئے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے دل ہی دل میں سب دعا کر رہے ہوں کہ خدا نہ کرے جو شاہو ملے۔ مجھے شاہو کے ساتھ سلمی کی سرد مہری بہت دکھی کرتی تھی۔ پر ہر بار خود کو بہلانے بیٹھ جاتا کہ وہ عورت پہلے ہے پھر ماں ہے۔ معذور بچے کے کام دس بچوں کے برابر ہوتے ہیں۔ پیمپرز بدلنا.. کھانا کھلانا۔ نہلانا دھلانا، اس کی حفاظت کرنا۔ اس کی باتوں تک رسائی پانا۔ لوگوں کے ہر وقت کے دل دکھا دینے والے سوالات کو جھیلنا۔۔ ہر پل اپنی تمناؤں اور خوابوں کو اجڑتے دیکھنا کچھ بھی تو آسان نہ تھا۔ شاید ہم میں سے کوئی بھی کسی کے لئے تسلی نہ بن سکا تھا۔۔ میں نے سرد آہ بھری۔۔ ان دونوں کو چھت پر بھی نہ پا کر مایوسی سے سر کو جھکائے سیڑھیاں اتر کر پھر صحن میں آ گیا۔۔
جب سے ماہ نور اور زیبا نے اسکول جانا شروع کیا تھا تب سے شاہو اور بھی تنہا ہو گیا تھا۔۔ سلمی کے گھر پر ہونے کے باوجود وہ اداس رہتا۔۔ میں جب بھی آفس سے واپس گھر آتا وہ اسی چبوترے پر ملتا جہاں چھوڑ کر گیا ہوتا جیسے سارا وقت وہ دھوپ چھاؤں کا گواہ رہا ہو۔۔ گھر بھر میں وہ صرف مجھ سے ہی مانوس تھا سو میری وجہ سے کھانا بھی ایک ہی وقت کھانے لگا تھا۔ اب تو کچھ ہفتوں سے اس کا وہ کھانا بھی برائے نام رہ گیا تھا۔۔ میں جب منت کرتا تو وہ اکثر میرے ہونٹوں پر ابو پاری کہتا ہوا اپنا منہ رکھ دیتا۔ ہائے میرے بیٹے کو چومنا بھی نہیں آتا تھا۔ .۔ پچھلے ہفتے ہی تو پڑوس کے کریم صاحب کہہ رہے تھے کہ شاہو کا خیال رکھا کریں۔ اس کے سامنے گاڑی بھی آ جائے تو وہ ہٹنے کی بجائے اس کے آگے آگے چلتا رہتا ہے۔ ۔ کریم صاحب کا ساتھ شمیم صاحب نے بھی دیا کہ وہ بھی اسی طرح کے واقعات کے چشم دید گواہ تھے کہ کئی بار انہوں نے شاہو کو گلی کے کتے کے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔۔ کتا بھونکتا رہتا اور شاہو ہنستا رہتا۔. میں شرمندہ سا ہو گیا۔ کیا کہتا کہ میں تو سارا دن آفس میں ہوتا ہوں اور سلمی کو کچھ بھی سمجھانا بیکار ہے۔
اس دن کی شرمندگی، ضمیر کی ملامت اور سلمی کی روز کی بحث تکرار کا ایک فائدہ ہوا کہ شاہو کو اسپیشل اسکول میں داخل کروانے کا ارادہ جو کئی برسوں سے غیر اہم جان کر آج اور کل پر ٹل رہا تھا وہ تکمیل پا گیا. اس کا اسپیشل اسکول صبح نو بجے سے دوپہر تین بجے تک کا تھا اور فیس بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔۔ دل میں سکون سا اتر آیا کہ اس بہانے سلمی کو بھی تھوڑا آرام مل جائے گا اور وہ بھی کچھ سیکھ جائے گا۔
شاہو کے اسکول کی ڈاکٹر ریشم نے اس کا جسمانی اور نفسیاتی تجزیہ کرنے کے بعد یہ کہہ کر ہمیں حیران کر دیا کہ شاہو کو ڈپریشن ہے۔۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ” دنیا اتنی خود غرض ہو چکی ہے کہ عام انسانوں کو قبولیت نہیں ملتی شاہین تو پھر ایک معذور بچہ ہے ".. میں بے بسی سے ڈاکٹر ریشم کو دیکھتا رہ گیا پر انہیں بتا نہ سکا کہ مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ معذور کا لفظ کبھی اچھا نہیں لگا۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے باپ کی گالی دے دی ہو۔ یا تہمت لگا کر بدنام کر ڈالا ہو۔۔ یا پھر اپنوں غیروں کی عدالت میں مجرم بنا دیا ہو۔ میں تو یہ بھی انہیں نہ بتا سکا کہ سلمی اور بچے جہاں تک ممکن ہوتا شاہو سے فاصلہ رکھ کر چلتے تھے۔ اسی بے توجہی سے وہ الگ تھلگ رہنے لگا تھا۔ ڈاکٹر ریشم کی تجویز تھی کہ شاہو کو ڈپریشن سے باہر لانے کے لئے کو ئی پالتو جانور کتا یا بلی رکھ دیں۔۔ تاکہ اس کا دل لگ جائے۔۔ توجہ بٹ جائے۔ بہت سوچ سمجھ کر ہم سب نے فیصلہ کیا کہ کم خرچ اور کم توجہ پر بھی خوش رہنے والی ایک بلی خرید لیتے ہیں۔۔ اتفاق رائے سے اسی ہفتے بلی ہمارے گھر آ گئی۔ شاہو اسے دیکھ کر حیران سا تھا۔۔ پھر جانے کیا ہوا۔۔ مسکراتے ہوئے اپنا منہ بلی کے سر پر رکھ دیا۔۔ ” ابو پاری ” کہہ کر مجھے تائید کے لئے دیکھا۔۔ میں نے خوشی سے سر ہلاتے ہوئے پانچ ہفتے کی بلی کا نام ” پاری ” رکھ دیا۔
پاری بڑی ہی ملنسار اور خوش اخلاق بلی تھی۔ پہلے ہی دن اس نے بھی شاہو سے دوستی کر لی۔ وہ جہاں جاتا وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ ہوتی۔۔ کبھی اس کی گود میں بیٹھی ہوتی تو کبھی اس کو کھینچ کر باہر لے جا رہی ہوتی تو کبھی دونوں ایک پتلی سی ڈنڈی جس پر میں نے لال رو مال باندھ دیا تھا اس سے کھیل رہے ہوتے۔۔ شاہو ڈنڈی گھماتا اور پاری اس کو پکڑنے کے لئے اس کے گرد گھومتی رہتی۔ کتنے مہینوں کے بعد شاہو مسکرایا تھا۔ یونہی۔ ایک دن کھانا کھاتے ہوئے شاہو کے منہ سے نوالہ زمین پر گر گیا جسے پاری نے دوڑ کر اپنے دانتوں میں دبا لیا اور اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔۔ شاہو نے وہی نوالہ محبت سے پاری کو ایسے کھلایا جیسے میں اسے کھلایا کرتا تھا۔۔ ۔ شاہو میں ایک مہربان انسان دوست کو دیکھ کر میں حیران ہی تو رہ گیا تھا۔۔
جس دن شاہو دیر تک سوتا رہتا اس دن پاری کو تنہائی کاٹنی محال ہو جاتی۔۔ کبھی اس کے ماتھے کو چوم کر اسے جگا رہی ہوتی تو کبھی اس کے گالوں پر زبان پھیر کر شرارت کر رہی ہوتی۔ .شاہو کی آنکھ اس وقت طرح کھل جاتی جب وہ اس کی گردن پر پیار کر رہی ہوتی۔ شاہو اسے دیکھ کر ادھ کھلی آنکھوں سے مسکرا دیتا۔ ۔۔ اور پاری اس کی ساری رمزیں، باتیں سمجھ لیتی اور اس کے ساتھ اس وقت تک لیٹی رہتی جب تک شاہو خود نہ اٹھ جاتا۔ .۔ .ابھی کچھ ہفتوں پہلے ہی کی بات تھی۔ چھٹی کا دن تھا وہ اسی چبوترے پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ گلی کی طرف والی دیوار پر سے دو تین بلیاں کود کر ایک ساتھ گھر میں گھس آئیں۔ شاہو انہیں دیکھ کر ہنستا جا رہا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی ان بلیوں کو شاہو کے پاس سے ہٹاتا، جانے کس کونے سے پاری اڑتی ہوئی آئی اور غرا غرا کر پنجے مار مار کر انہیں گھر سے باہر نکال دیا۔۔ اور خود شاہو کی کمر سے اپنی کمر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔۔ اس دن شاہو چبوترے سے اس وقت تک نہ اٹھا جب تک اس نے خود آنکھیں نہ کھولیں۔۔ ۔ اسی رات پاری آخری نوالہ شاہو کے ہاتھ سے کھاتے ہوئے اس کی انگلیوں کو اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر خوشی کا اظہار کرتی۔ رہی۔ میں رات گئے تک سوچتا رہا کہ خدا نے بولنے والوں کو ایسی محبت سے کیوں محروم رکھا۔۔ پھر دیر تک ایک ایسی محبت کے خواب دیکھتا رہا جو غمگساری اور دلداری کی رمزیں سکھاتی ہے۔۔ اظہار اور رشتوں کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔۔
اب دونوں اکثر ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے۔ پاری جب تک شاہو کے ہاتھ سے اپنے کھانے کا آخری نوالہ نہ کھاتی اس کے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی۔ کھانے کے بعد شاہو ٹی دیکھ رہا ہوتا تو وہ اچک کر اس کی گود میں بیٹھ جاتی اور اپنی زبان سے خود کو صاف کرتے کرتے اس کے ہاتھ پاؤں بھی صاف کرتی جاتی۔۔ ۔ شاہو کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا۔۔ اب تو وہ پاری سے ہوں ہاں میں باتیں بھی کرنے لگا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے جب وہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھتا تو اس کا لمس پاتے ہی پاری بل کھا کر اپنی گردن اس کے سامنے رکھ دیتی جسے شاہو اتنے پیار سے سہلاتا کہ پاری کی آنکھیں بند ہونے لگتیں۔
میرا بس نہ چلتا تھا کہ میں ڈاکٹر ریشم کو دنیا کا سب سے بڑا مسیحا کہہ دیتا جن کی وجہ سے شاہو اب گھر میں کسی کو ” وجہ شرم ” نہ لگتا تھا بلکہ پاری کی وجہ سے اکثر موضوع سخن رہتا۔۔ شاہو کا یہ مثبت رویہ گھر کے ماحول کو جہاں خوشگوار بنا رہا تھا وہاں اس کی جانب سے سب اتنے مطمئن رہنے لگے تھے کہ اکثر گھر میں کسی کو دھیان ہی نہ رہتا کہ وہ کہاں ہے۔۔ ۔؟ آج بھی یقیناً یہی ہوا ہو گا۔ پر اب سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ آجکل ویسے بھی دھند نے صبح کو شام اور شام کو رات بنا رکھا تھا۔ ایسے موسم اور وقت میں شاہو اور پاری کو کہاں ڈھونڈوں۔۔؟ اس پر گلی کے کتوں اور گاڑیوں کے ساتھ اندھیرے اور سردی کا خیال آتے ہی میری روح تک کانپ گئی۔۔ اب مجھے دونوں کو گھر سے باہر ڈھونڈنے میں ایک سیکنڈ بھی دیر نہیں کرنی چاہیئے۔۔ میں نے جلدی سے کرسی کی پشت پر سے کالا کوٹ اٹھا کر ابھی پہنا ہی تھا کہ ماہ نور کی آواز نے چونکا دیا۔۔
” ابو جی۔ ابو جی۔۔ جلدی سے آیئے۔۔ شاہو اور پاری مل گئے ہیں "۔ ماہ نور کی آواز یوں لگی جیسے دونوں جہاں کی سب سے میٹھی آواز ہو۔
” کہاں سے ملے "۔ میں اپنی خوشی کو نہ چھپا سکا۔۔ ماہ نور مسکرا دی۔ ” آیئے میرے ساتھ "۔ وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھے مجھے بھی خاموش رہنے کا کہتے ہوئے شاہو کے کمرے کی طرف چل دی جو اس کے اور زیبا کے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ گھر لینے کے بعد ہم نے خاص طور پر ایک دروازہ دونوں کمروں کے بیچ بنوایا تھا جو ہمیشہ کھلا ہی رہتا تھا کہ ماہ نور اور زیبا کی نظر آتے جاتے شاہو پر رہے۔ وہ دونوں اسی دروازے کے پیچھے سے ملے تھے۔ شاہو شدید سردی میں کمبل کے بغیر ٹھنڈی ننگی زمین پر گھٹنے سکیڑے بے خبر سو رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی پاری نیلے پھولوں والا کمبل اوڑھے شاہو کے بازو پر اپنا سر اور ایک ہاتھ اس کی گردن پر رکھے سو رہی تھی۔۔ شاہو نے کھڑکی کی طرف سے آنے والی ہوا سے بچانے کے لئے کمبل کے کونے کو اپنی مٹھی میں دبا رکھا تھا کہ کہیں پاری کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے بے خبر سو رہے تھے۔ شاہو رحم دلی اور محبت کے اوج کمال پر تھا۔
مجھے یاد آیا۔۔ کل ہی تو سب کے لئے نئے کمبل آئے تھے۔۔ میں نے جب شاہو سے پوچھا کہ اسے کونسا رنگ پسند ہے تو وہ مسکرا دیا۔۔ آہستگی سے بولا ” ابو پاری "۔۔ شاہو کے لیئے یہی دو لفظ اس کی کل کائنات اور اس کے ہر احساس کا اظہار تھے۔۔ پاری جو اس کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی اچک کر نیلے پھولوں والے کمبل پر بیٹھ گئی اور گردن موڑ کر شاہو کی طرف دیکھنے لگی۔۔ اس کی آنکھیں جگنوؤں جیسی جل بجھ رہی تھیں۔۔ شاہو نے ہاتھ بڑھا کر کمبل اپنے سینے سے لگا لیا اور” ابو پاری ” کہتا ہوا، اکیلے ہی کمبل گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔ اس کے پیچھے پیچھے مدھر گھنٹیاں بجاتی پاری جا رہی تھی۔۔
میں بے اختیار ہو کر وہیں دو زانو بیٹھ گیا۔۔ میرا وجود آنسوؤں میں ڈھل گیا۔ خدایا جو محبت کرنا جانتے ہیں انہیں بولنا کیوں نہیں آتا!!
٭٭٭
میں افسانے کی اشاعت کے لئے ادارہ سمت کی بے حد ممنون ہوں ۔