عالی کے مطابق انہوں نے دوہا ستمبر 1944ء میں کہا ہے۔ وہ ہندی نہیں جانتے تھے مگر لوہارو میں قریبی گاؤں میں جو جئے پور کی حدود میں واقع ہے کچھ بھاٹ فقیر آ جاتے تھے اور میرا بائی کے دوہے سناتے تھے اور عالی کو اس سے بڑا لطف آتا تھا۔ لیکن جب اگست 1944ء میں اپنے چچازاد بھائی صمصام الدین فیروز کی دعوت پر بلند شہر گئے تو انہیں چھوٹے چھوٹے میلوں میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں دو چیزیں ان کے من کو بھ گئیں ایک تو لوگ گیت جو بھاٹوں کی ٹولیاں اونچی تان میں گاتیں اور دوسری چیز جو انہیں اس سے زیادہ بھ گئی وہ ان کے چچا زاد بھائی جن کے یہ مہمان تھے ان کی صاحبزادی۔
عالی کی بے باکی اور انقلابی طبیعت ملازمت پر راضی نہ تھی اور جو والی ریاست سے الاونس ملتا تھا وہ بھی قضیے میں پڑ گیا تھا۔ عالی کو پریشانی یہ تھی کہ دوہے کا پہلا مصرعہ تو شاید ہو جاتا لیکن دوسرا مصرعہ بے ڈگری۔ بے رقم خطیر اور ضد کہ دلہن گھر لا کے چھوڑوں گا ایک شام دو دوہے کہہ ہی دئے پہلا دوہا تو یوں تھا کہ
دوہے بہت کہہ کہہ کر عالیؔ من کی آگ بجھائی
من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
دوسرا دوہا اسی شام نکاح کے بعد کہا
نا مرے سر کوئی طرہ کلغی نہ کیسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اللہ کا نام
عالی نے اردو کے ذریعے میرا بائی، بھگت کبیر، رحمٰن، تلسی داس، بہاری کو پڑھنا سمجھنا چاہا لیکن یہ ٹھیٹ ہندی میں تھے۔ پھر شائد امیر خسرو کے مزار کے سرہانے کھرنی کے پیڑ کی کچھ کھرنیاں کھالیں کہ ان کے اردو دوہوں میں رنگ، رس، سر اتر آیا اور عالی آٹھویں سر کی جستجو میں آخری لمحے تک مصروف رہے۔ عالی اس وقت دہلی سے پونہ اور حیدرآباد تک پھیلے ہوئے تھے لیکن خود ان کا کہنا ہے کہ جانے کب سے مری روح میں گھنگرو کبھی بجتے ہیں کبھی روتے ہیں۔ یعنی آواز کا بدن شرح بیان کی تاب نہیں لا سکتا۔
خود جھومیں گے پائل گھنگرو ٹھمری اور کھماچ
سر میرے چاکر گت تیری داسی، میں گاؤں تو ناچ
نقاد ان سخن کا خیال ہے کہ عالی کا دوہا ہندی کے فن پر پورا نہیں اترتا لیکن بات صرف اتنی ہے کہ بحر متدارک اپنے مزاحف کے اعتبار سے اتنی لچکدار بحر ہے کہ عالی نے اس کی مماثلت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور اردو کو ہندی سے ملتی جلتی ایک خوبصورت بحر ہاتھ آ گئی۔ عالی کا دوہا ہندی کا دوہا نہ سہی لیکن اب یہ اردو شاعری کی ایک زندہ اور مقبول عام صنف سخن ہے جس کا سہرا عالی کے سرجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں کوئی چیز لی جاتی ہے تو کچھ نہ کچھ اس کی شکل کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔ زبانوں کے درمیان لین دین کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔ قصیدہ عربی سے آیا لیکن اردو والوں نے غزل کو اس سے توڑ کر الگ کر لیا۔ یہی صورت مرثیے اور اصناف کی ہے۔ اردو نے اپنے ابتدائی دور ہی سے تخلیق کاروں کو لسانی مزاج کے مطابق ادبی اجتہاد کی اجازت دے رکھی ہے اس لئے مرثیے، سانیٹ اور ہائیکو کی طرح دوہے میں بھی متناسب ترمیم کے ساتھ لچکدار ہئیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ ہندی پنگل کے اعتبار سے عالی کے دوہے سر سی چھند ہوسکتے ہیں یا نہیں یہ کام نقادوں کے سپرد ہے لیکن سرسی چھند میں بھی مطلعے کی طرح دو مصرعے ہوتے ہیں اور ہر مصرعہ دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے پہلے حصے میں سولہ ماترائیں اور دوسرے میں گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں۔ دونوں حصوں کے درمیانی وقفہ کو وشرام کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس جدت طرازی یا بدعت کا آغاز جمیل الدین عالی سے ہوا اور ان کے بعد نئی نسل نے ان سے استفادہ اور ان کی تقلید کی ہے، اس طرح سے جمیل الدین عالی کے دوہے میں سرسی چھند کے استعمال کو ادبی اجتہاد کے طور پر قبول کر لیا جا سکتا ہے۔
میں اپنی طبیعت کے اعتبار سے غزل مزاج،گیت پسندواقع ہوا ہوں۔حضرت امیر خسرو کا شیدائی ہوں۔ایک میں کیا کون سا احساس مند دل ہے جو امیر خسرو پر جان نہ چھڑکتا ہو۔ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ خسرو کے گیت ،دوہے،پہیلیاں،کہہ مکرنیاں،گاوں گاوں،دیہات،دیہات اتنی مقبول تھیں کہ صبح پو پھٹنے سے پہلے لڑکیاں،بالیاں دودھ دوھتے ہوے خسرو کے دوہے گنگنایا کرتی تھیں۔بزرگ تو بزرگ ہیں ہی،مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا۔لیکن میں بھی سوچتا ہوں کہ اساڑھ کی چاندنی میں جب چاند کی کرنیں برفیلی پہاڑیوں سے اُتر کر ندی کے کنارے آ کر تھم سی جاتی ہیں اور کوئی برہا کی ماری سوچتی ہے کہ ،میرے حصے میں ملاح کے راگ کا رس تو نہیں ہے شاید ڈوبتی ناؤ کی سسکیاں ہوں تب اُ س کے ہونٹوں سے یہ سُر اُبلتا ہے۔بہ حال مسکیں مکن تغافل۔چُراے نیناں بناے بتیاں۔گیت آرزوؤں اور تمناؤں کے اظہار کا وسیلہ بھی ہیں۔پیغام محبت بھی، محبت آشنا دل شایدخسرو کے اس دوہے کو کبھی نہ بھُلا سکے۔
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارو کھیس۔۔۔۔۔چل کھُسرو گھر آپنے ،سانجھ بھئی چو دیس۔
جمیل الدین عالی کا تعلق اسی قبیلے سے ہے،محبتوں کے قبیلے سے،انسانیت کے قبیلے سے،درد کے قبیلے سے،جہاں کسی میں ضم ہو جانا حاصل حیات ہے۔ کس کی دھڑکنوں سے اپنی دھڑکنوں کو ہم آہنگ کر دینا سرگم کا آٹھواں سُر ہے جو کسی کم ظرف پر نہیں کھلتا۔عالی نے زندگی بھر اپنے دوہوں ور گیتوں میں اسی سُر سے کام لیا ہے۔میرے خیال میں نالہ پابند نہیں اور نہ گیت۔ہونٹوں پر آ کر اُبل جائے تو نغمہ ہے،خواہ سسکی کیوں نہ ہو۔صرف احساس میں بس جائے توآنسو ہے۔گیت ملن کا بھی،فراق کا بھی،زندگی کا بھی،موت کا بھی،برکھا کا بھی،قحط کا بھی،سونچ کا بھی، خیال کا بھی۔ میں،سن ۲۰۰۵ میں کراچی گیا تھا۔پروفیسر جمیل جالبی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری،مُشتاق احمد یوسفی،شکیل عادل زادہ،افتخار عارف،زہرہ نگاہ،پیرزادہ قاسم،مہدی حسن اور بہت سارے احباب سے ملاقات ہوئی۔ میں نصیر تُرابی کا مہمان تھا۔جب بھی جمیل الدین عالی کا ذکر آتا ،وہ کہہ دیتے ’’ہاں ہاں! چلے چلیں گے کسی دن۔‘‘میری واپسی کی تاریخ قریب آ رہی تھی۔ ایک دن اُنہوں نے کہا ’’بھئی عالی جی کا گھر بہت دور ہے‘‘ میں نے کہا ’’انجمن ترقی اردو کے دفتر پر چلے چلیں گے‘‘ بعد کو پتہ چلا کہ دونوں میں کچھ شکر رنجی ہے۔ایک دن خود ہی انجمن کے دفتر ٹیلیفون کر کے کہا ’’عالی صاحب سے کہنا، علامہ اعجاز فرخ ،حیدر آباد دکن سے تشریف لائے ہیں،عالی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں‘‘ جواب آ یا’’بسرو چشم‘‘۔وہ مجھے لے چلے راستے میں چپ چُپ سے رہے۔ لیکن عالی جی میرے استقبال کو باہر آئے تو نصیر ترابی سے یوں لپٹ گئے کہ دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔میں گیا تو دوپہر میں تھا لیکن واپسی رات دیر گئے ہوئی لیکن ایک نشہ تھا، گیتوں کا ،دوہوں کا، عالی جی کی باتوں کا۔آج سوچتاہوں کہ وہ آواز بجھ گئی۔لیکن دور کہیں سے سسکیاں سی سُنئای دیتی ہیں شاید دوہے سسک رہے ہیں، گیت بلک رہے ہیں۔
عالی جی اک دوست ہیں اپنے جن کا ہے یہ کام
جیون بھر نردوش رہیں اور جیون بھر بدنام
جنم مرن کا ساتھ تھا جن کا انہیں بھی ہم سے بیر
واپس لے چل اب تو عالیؔ ہو گئی جگ کی سیر
چھوٹے بڑوں کے سنگم کا سب دیکھ لیا انجام
پاٹ بڑھایا جمنا نے پر ہے گنگا کا نام
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار
یہ ہر سندر نار کو تکنا یہ جھک جھک پر نام
عالی تو تو گیانی دھیانی یہاں ترا کیا کام
حیدرآباد کا شہر تھا بھیا اندر کا دربار
اک اک گھر میں سو سو کمرے ہر کمرے میں نار
گئے تلنگانے بھی عالیؔ اور دیکھے واں کے ڈھنگ
تن پاپی تو یونہی رہا پر من ہوا ان کے سنگ
چھنن چھنن خود باجے مجیرا آپ مرلیا گائے
ہائے یہ کیا سنگیت ہے جو بن گائک ابھرا آئے
ایک ہی دھن یوں تھرائی ہے سوتے دکھ گئے جاگ
ایک ہی لے یو ں لہرائی ہے جیسے ناچیں ناگ
دھندلی دھندلی کہر کے پیچھے کرنوں کی جھنکار
اتھلا جل اور گہری کائی ناچیں ہار سنگار
اک اک تال کھرچ لے من کو اک اک سر پر پیاس
اک اک مر کی بدن جلائے جیسے آگ پہ گھاس
بھوکی آنکھ سے بیٹا دیکھے خالی پیٹ ہو باپ
ساوتری ماں بیٹی لاج سے روز کرائے پاپ
کون ہے جس کی یاد سے ہی مری نس نس میں ہے آگ
کون ہے جس کے بدن کی دوری کھینچ رہی ہے جان
٭٭٭
ماخذ:
http://www.jahan-e-urdu.com/aah-jameel-uddin-aali-allama-aijaz-farruq/