ادبی دنیا۔ کراچی۔ اشاعت اول۔ اپریل۲۰۱۴
_______________________________
کراچی میں مقیم اردو زبان کے مایہ ناز ادیب۔ دانش ور۔ صحافی۔ محقق۔ نقاد اور منفرد اسلوب کے حامل شاعر عار ف شفیق کا نام علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مقبول مجلے ’’اخبارِ جہاں ‘‘میں ان کا ترتیب دیا ہوا ادبی صفحہ قارئین کی توجہ کا مرکز ہے۔ معاشرتی زندگی کے تضادات۔ بے اعتدالیوں۔ طبقاتی کشمکش۔ استحصالی عناصر کی مناقشت پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور قسمت سے محروم مظلوم انسانیت کی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز پر کڑی نظر رکھنے والے۔ انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار اس فطین۔ فعال۔ مستعد اور مخلص تخلیق کار کی علمی۔ ادبی اور قومی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ عارف شفیق کی شاعری فکر و نظر کو مہمیز کر کے قلب۔ روح اور وجدان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ منفر د اسلوب کی مظہراس شاعری کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اور قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ جس انداز میں یہ شاعری جامد و ساکت پتھروں۔ سنگلاخ چٹانوں اور بے حِس مجسموں پر اثر انداز ہوتی ہے اس سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اس زیرک۔ حساس اور دردِ دِل رکھنے والے تخلیق کار نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے۔ وہ ثمر بار ہو رہی ہے۔ اپنے شعری تجربوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے عارف شفیق نے زندگی کے نئے امکانات تک رسائی کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔ اس نوعیت کے تجربات کے اعجاز سے جمود کے خاتمے اور حرفِ صداقت لکھنے کی روش کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سماجی زندگی میں پائی جانے والی منافقت۔ تعصبات۔ تضادات اور نا انصافیوں کے خلاف عار ف شفیق نے ہمیشہ کھل کر لکھا ہے۔ اس کے تخلیقی وجدان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے :
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کُشی کر لی
میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف
اور ہی کچھ مجھے وجدان بنا دیتا ہے
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایک حساس تخلیق کار کو فکری اعتبار سے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ معاشرتی زندگی میں اسے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پِستی ہوئی دُکھی انسانیت کے مسائل سنگلاخ چٹانوں اور بے حس و جامد سر بہ فلک کوہساروں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں۔ مادی دور میں زندگی کے اعصاب شکن داخلی تضادات اور سماج کے مناقشات نے فکر و نظر پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہماری حباب کی سی ہستی میں سراب کی سی کیفیت ہے جو نہ ہونے کی ہونی کی خبر دیتی ہے۔ اپنے تخلیقی سفر میں زمانہ ساز لوگوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اور دنیا داری کے پردے میں بھی معرفت کی شمع فروزاں رکھتے ہوئے عارر ف شفیق نے فقر و مستی کی شانِ استغنا کو ہمیشہ زادِ راہ بنایا ہے۔ اپنی انا اور خود داری کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے عارف شفیق نے صبر و تحمل سے کٹھن حالات کا نہایت خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والے اس جری۔ بے باک اور مخلص تخلیق کار نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ درِ کسریٰ پر صدا کرنا اس کے مسلک کے خلاف ہے وہ جانتا ہے کہ ان کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشوں۔ مجسموں اور خذ ف ریزوں کے سوا کچھ موجود نہیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے ان کے سب کس بل نکال دئیے ہیں۔ وہ جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کو منافقت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس لیے ظلمتِ شب کی شکایت کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ عار ف شفیق کی شاعری میں فقر کی ایک ایسی شان ہے جس کے معجز نما اثر سے قاری کے لیے زندگی کے خوش رنگ دامن میں نہاں موت اور وجود کے پر کشش لبادے میں اوجھل عدم کی سب کیفیتوں کی تفہیم سہل ہو جاتی ہے :
ٹوٹا کاسہ۔ میلی چادر اور فقیری کیا ہوتی ہے
پُوچھے خالی پیٹ کا پتھر اور فقیری کیا ہوتی ہے
اللہ ہُو کی ایک صدا سے کیف کے چشمے جاری ہیں
وہ ہی وہ ہے دِل کے اندر اور فقیری کیا ہوتی ہے
چھوڑ کے خواہش اِس دنیا کی۔ کر کے مسلک صبر و رضا کو
آ بیٹھا ہوں اُس کے در پر اور فقیری کیا ہوتی ہے
روح نے بھی محسوس کیا ہے دل کی آنکھ نے دیکھا ہے
کون و مکاں سے آگے بھی اِک نُور کا دریا بہتا ہے
بھید بھرے رستوں کے مسافر خود کو ڈھونڈنے نکلے ہیں
دنیا کے اس شور سے آگے موت کا اِک سناٹا ہے
آگے فنا کی سرحد سے سب بھید بقا کے کھُلتے ہیں
آخر ہر اِک قطرہ اپنے دریا سے جا ملتا ہے
عارف شفیق نے اپنے داخلی جذبات کے علاوہ زندگی کے خارجی اور جامد و ساکت مظاہر کو بھی اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے زندگی کی حرکت و حرارت اور فکر و خیال کے ارتقا میں ان مظاہر کے اہم کردار کا پُختہ یقین ہے۔ جس طرح فطرت خود بہ خو د قبائے گُل کے نکھار نے اور لالے کی حنا بندی میں ہمہ وقت مصروف ہے اسی طرح تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور وادیِ خیال کی تزئین و آرائش میں فطرت کی ہمہ گیر اثر آفرینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عار ف شفیق نے فطرت کے مقاصد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور فضاؤں میں پھیلے ہوئے بے شمار مظاہرِ فطرت کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ زندگی کے مسائل کا احساس و ادراک عارف شفیق کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ اسی احساس سے سرشار ہو کر وہ اپنی شاعری میں مضامین اور ہیئت کے نئے اور متنوع تجربات پر مائل ہوتا ہے۔ ذوقِ سلیم کے مظہر اس کے تخلیقی تجربات کے اعجازسے قاری احساس۔ ادراک اور وجدان کی متاعِ بے بہا سے متمتع ہوتا ہے۔ حریتِ فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے عارف شفیق نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں زندگی کے متعدد نئے حقائق تک رسائی کے امکانات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ معاشرتی زندگی میں ہمارے قومی تشخص کو جن مسائل کا سامنا ہے عارف شفیق کی ان پر گہری نظر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سماجی زندگی کو جن کٹھن حالات کاسامنا ہے وقت گزرنے کے ساتھ سا تھاس قدر لرزہ خیز اور گمبھیر صورت اختیار کر لیں گے کہ ان کے مسموم اثرات سے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ جس خلوص اور دردمندی سے وطن۔ اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ عہدِ وفا استوار رکھنے پر اصرار کرتا ہے وہ اس کی فکری بصیرت اور تخلیقی وسعت کی دلیل ہے۔
انساں کوئی ملا نہیں انسان کی طرح
پھیلی ہیں نفرتیں یہاں سرطان کی طرح
کیوں تلخ ہے حیات کوئی سوچتا نہیں
توڑے حصارِ ذات کوئی سوچتا نہیں
ظلم کی تیرگی میں دیا چاہیِے
اپنی پہچان اپنا پتا چاہیِے
زبان و نسلی تعصب سے کیا ملا ہم کو
کہ نفرتوں نے تو زندہ جلا دیا ہم کو
میرے مالک تیرے بندوں سے محبت کرتے
عمر گذری ہے فقط یوں ہی عبادت کرتے
جب یہ انسان بھی غاروں میں رہا کرتے تھے
درد اِک دوسرے کا بانٹ لیا کرتے تھے
عارف شفیق نے اس عالمِ آب و گِل میں حقائق۔ خواب اور سراب کے بارے میں پائی جانے والے تذبذب۔ اضطراب اور تشویش کے بارے میں ایک واضح اور قابلِ فہم اندازِ فکر اپنا یا ہے۔ اپنی مٹی کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے جس کا بر ملا اظہار اس کی شاعری میں موجود ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت۔ ادب اور فنون لطیفہ کو وہ اپنے آبا و اجداد کی ایسی عظیم میراث قرار دیتا ہے جوہر محبِ وطن کے لیے لائق صد افتخار ہے۔ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے اور سماج کی اجتماعی قدریں ہوں یا معاشرتی زندگی کے معمولات سب تغیر و تبدل کی زد میں ہیں۔ ہڑپہ۔ ٹیکسلا۔ موہنجو دڑو اور شورکوٹ کے کھنڈرات زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ سیلِ زماں کی مہیب موجوں میں اقوام تو خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں مگر تہذیب و ثقافت کے نقوش باقی رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری کے وسیلے سے نئی نسل میں اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے میں حقیقی شعور پروان چڑھانے کا آرزو مند ہے۔ اس کے تخلیقی وجدان اور قاری کی سوچ میں ایک ایسی پُر کیف ہم آہنگی پروان چڑھتی ہے جو موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتی ہے۔ اسے اس بات کا قلق ہے کہ زندگی کی مسلمہ صداقتوں۔ ارفع معائر۔ لائق تقلید تصورات۔ درخشاں روایات اور ا قدارِ عالیہ کو پسِ پشت ڈال کر مغرب کی کورانہ تقلید کی روش نے قومی کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اپنی شاعری میں عارف شفیق نے زندگی کے جن حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے ان کی تفہیم سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے شعور اور وجدان کی تخلیق میں اس کے تجربات۔ مشاہدات اور احساسات کا نہایت اہم کردار ہے۔ مواد۔ موضوعات اور ہئیت کے حسین امتزاج سے اس نے اپنی شاعری میں جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے وہ اس کی انفرادیت کا منھ بو لتا ثبوت ہے۔ اس شعری مجموعے کی اشاعت سے اُردو شاعری کی ثروت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔
٭٭٭