جدیدیت کی طرح جدید اردو ادب کی تاریخ بھی خاصی پرانی ہو چکی ہے۔ چند مصرعوں میں ہی کس طرح ان عورتوں کا سارا جسمانی اور روحانی کرب سمٹ آیا ہے جو نو عمری میں ہی جسم فروشی پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جسموں کی تمام تازگی اور شادابی ختم ہو جاتی ہے۔ انھیں ایسی خطرناک بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو ان کے جسمانی نظام کو ہی نہیں ذہنی نظام کو بھی بے ترتیب کر دیتی ہیں۔ گاہک آتے ہیں اور ان کے جسموں میں اپنے آتشک زدہ خون کا زہر انڈیل چلے جاتے ہیں۔ فاک لینڈ روڈ ایک بدبو دار جلتے ہوئے شہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ موت کی کالی مسکراہٹ سے مراد یہ ہے کہ ان جسم فروش عورتوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور ناقابل علاج بیماریاں انھیں دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ آخر کار وہ اس جگہ پہنچ جاتی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔
’’فا ک لینڈ روڈ‘‘ کے بعد ’’میرین ڈرائیو‘‘ پر نظر ڈالنا ایک قطعاً متضاد صورت حال سے دوچار ہونا ہے۔ اسے ایک خوشگوار ادبی اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۶۰ والی دہائی کے آخر میں اور ترقی پسندی کے دور شباب میں جدیدیت کا جو رجحان ابھر کر سامنے آیا اس کے خد و خال اور سروکار آج بھی اتنے ہی واضح، موثر اور تر و تازہ ہیں جتنے اس وقت تھے۔ جدید لکھنے والے ایک طرف اگر اس کٹر اور تنگ نظر ادبی ماحول کے لئے ایک بڑا چیلنج بن گئے جس کا تعلق مارکسزم سے نہیں اسٹالنزم سے تھا تو دوسری طرف انھوں نے راشد، منٹو، میرا جی، بیدی اور اختر الایمان وغیرہ کو ازسر نو دریافت اور مستحکم کیا۔یہاں ہم ضمنی طور پر یہ بھی لکھتے چلیں کہ جدید نقادوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں نے اپنے بڑے سے بڑے پیش رو کی بھی تقلید نہیں کی۔ انھوں نے اپنے انفرادی موضوعات کو خود شناخت کیا، اپنے لئے نئے اسالیب ایجاد کئے، اور نئی لفظیات کی مدد سے روایتی لسانی سانچوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ استالینی ترقی پسندی کی واپسی کا امکان ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آگے چل کر مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری اور جاں نثار اختر جیسے اہم ترقی پسند شاعر بھی اپنے ذہن میں رویوں میں تبدیلی کرنے اور جدیدیت سے ہم آہنگ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ کہنے کو تو آج بھی کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ ’ترقی پسند‘ کا لیبل چسپاں کرتے ہیں ان کی اصل حیثیت ادبی چٹکلوں اور تابوت برداروں سے زیادہ نہیں ہے۔ تا حال جدیدیت ہی اردو کا غالب محاورہ بنی ہوئی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے خصوصاً اور دیگر کئی جدید نقادوں نے عموماً غالی ترقی پسندی کے جس طرح پرخچے اڑائے وہ جگ ظاہر ہے۔ عادل منصوری غالباً ایسے واحد جدید شاعر ہیں جنھوں نے اس موضوع پر بڑی عمدہ اور بھرپور نظم لکھی ہے۔
کھوکھلے لفظوں کی دیوار بنانے والو
کھوکھلے لفظوں کی دیوار بنانے والو
کب کا وہ ٹوٹ چکا سرخ خطیبانہ طلسم
اور تم صبح کے رستے میں پڑے سوتے ہو
فکر کے بالوں پہ بے عقل سفیدی چھائی
منتشر کر گئیں گمنام ہوائیں تنکے
شیروانی سے ہوئے اور بھی موزوں قامت
پہلے اک چوکھٹا بنوا لو نئے دانتوں کا
تا کہ تم آئینہ دیکھو تو ذرا ہنس تو سکو
عادل کا شمار اس دور کے ان درجنوں بالکل نئے شاعروں میں ہوتا ہے جو ۱۹۶۸ میں ’نئے نام‘ (مرتبہ شمس الرحمن فاروقی اور حامد حسین حامد) نامی انتخاب کی اشاعت کے ساتھ سامنے آئے تھے۔ فاروقی نے ان کے مجموعے ’حشر کی صبح درخشاں ہو‘ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ عادل منصوری ہمارے عہد کے ’سب سے زیادہ تازہ کار اور سب سے زیادہ مہم جو اور با ہمت شاعر‘ ہیں۔ جو بات فاروقی نے نہیں کہی مگر جو بین السطور کے پردے کے پیچھے سے جھانک رہی ہے وہ یہ ہے کہ کئی دوسرے اہم جدید شاعروں کے یہاں سے مہم جوئی اور تازہ کاری جیسے عناصر رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ ابتدا تو سبھی شاعروں نے بڑی ہمت سے کی تھی، پھر آخر یہ لوگ اتنی جلد کیوں تھک گئے؟ سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمارے بیشتر نمائندہ شاعروں نے حالات سے گھبرا کر اور اعزاز و انعام کے چکر میں پڑ کر اپنی شاعری کو سماجی مصروفیتوں میں بدل دیا۔ سستی قسم کی شہرت اور بہت ہی معمولی مادی مفادات ان کی تخلیقی قوت کو موقع ملتے ہی کسی نہ کسی حد تک ہڑپ کر گئے۔ ہم یہاں خوف فساد خلق کی وجہ سے کسی کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ آپ خود ان ناموں کو یاد کر لیجئے۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے اہم شاعروں کے یوں تو اب تک کئی کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مگر ان کے پہلے مجموعے کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی وہ دوسرے تیسرے یا چوتھے کے حصے میں نہیں آئی۔
عادل منصوری چونکہ ان جھمیلوں میں نہیں پڑے اس لئے وہ تخلیقی تھکن کا شکار ہو جانے کے بجائے برابر اور خاموشی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ بالکل یہی بات قاضی سلیم اور شفیق فاطمہ شعریٰ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ عمیق حنفی نے زیادہ عمر نہیں پائی لیکن وہ بھی جب تک جئے شاعرانہ بانکپن اور بے نیازی کے ساتھ زندہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب اور دنیا داری کبھی بھی ہم سفر نہیں ہوسکتے۔ دنیا دار شاعر ہو یا افسانہ نگار وہ بہت جلد اپنے آپ کو دہرانے لگتا ہے۔
عادل کے یہاں شروع سے آخر تک جو تازگی اور ندرت ملتی ہے اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ خود اپنے ہی موضوعات کے جنگل میں پھنس کر رہ جانے کے بجائے ان سے آ زادی حاصل کرنے کی سعی پیہم میں مصروف نظر آتے ہی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کی شعری رینج یعنی ان کے موضوعات کا دامن بہت وسیع ہے۔ عادل کی نظموں کو باقاعدہ خانوں میں تقسیم کرنا ہی ناممکن ہے۔ تنقیدی سہولت کی خاطر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری پر مذہب سیاست، شہر، سماج، ثقافت، تاریخ، اسطور، خارجی واقعات، شخصی دکھ درد سبھی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس طرح ان کی شاعری میں بڑی لچک پیدا ہو گئی ہے۔
عادل منصوری کے سلسلے میں ہمیں فاروقی کے اس خیال سے بھی مکمل اتفاق ہے کہ وہ اردو کے واحد سرریلسٹ (Surrealist) شاعر ہیں۔ ہمیں اگر ان کی شاعری میں دادازم (Dadaism) کی بھی جھلکیاں نظر آتی ہیں تو شاید اس کا سبب یہ ہے کہ دونوں کے طریق کار میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جدید شاعروں نے سمبلزم اور امیجزم سے جو استفادہ کیا اور جس انداز میں نئے اسالیب کو متعارف کرایا وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے۔ عادل کی مادری زبان گجراتی ہے۔ ان کا شمار گجراتی کے نمائندہ جدید شاعروں میں ہوتا ہے۔ چونکہ گجراتی میں سر ریلسٹ شاعری پہلے سے ہو رہی تھی اس لئے عادل کے لئے سر ریلسٹ تکنیک سے فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان تھا۔ انھیں آندرے برٹین اور اس کے ساتھیوں تک جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔آگے چل کر یہی ان کی انفرادی شناخت بن گئی۔
سر ریلسٹ تکنیک کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ مختلف امیجز کو ایک دوسرے میں پیوست کر کے ان کے درمیان ایک ایسا رشتہ پیدا کر دیتے ہیں جو بظاہر غیر منطقی نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی کم و بیش سبھی نظموں میں منطقی تسلسل سے احتراز کیا ہے کیوں کہ منطق بطور اصول خیال اور تخئیل کو محدود کر دیتی ہے۔ ان کے یہاں لامحدود انسانی دماغ کے اندر جھانک کر دیکھنے اور روحانی آزادی سے لطف اندوز ہونے کا عمل ملتا ہے۔عادل کی نظموں میں ایک علامت دوسری علامت سے، ایک امیج دوسرے امیج سے اور ایک استعارہ دوسرے استعارے سے سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے غیر شعوری طور پر یہ دکھایا ہے کہ انسانی دماغ اور دنیا بظاہر دو اکائیاں ہونے کے باوجود ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حساس اور تخلیقی ذہن انھیں الگ الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا۔
یہ خصوصیات عادل کی سبھی نظموں، حتیٰ کہ ان نظموں میں بھی ملتی ہے جن پر مذہب کی چھاپ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انھوں نے مذہب کے سلسلے میں الیٹ کے نظرئیے کی پیروی نہیں کی۔ ایلیٹ نے عہد حاضر کے تمام مسائل کا حل چرچ میں ڈھونڈا ہے۔ عادل نے ’حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود‘، ’قلم اٹھا لئے گئے‘،’ الف سیریز‘ کی نظمیں اور’ تبوک آواز دے رہا ہے‘ وغیرہ میں تلمیحوں، استعاروں اور علامتوں کی مدد سے اسلامی تاریخ کی اعلیٰ ترین شخصیت کے علاوہ بعض بے حد اہم شخصیتوں اور واقعات کا ذکر کر کے موجودہ معاشرتی ماحول کی تشریح کی ہے۔ اردو میں ایسی نظمیں پہلے نہیں لکھی گئی تھیں۔ ان نظموں میں بلند ترین انسانی اقدار اور اخلاقیات کو اتنے تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ تاریخ زندہ اور موجود لمحے کے طور پر پوری روحانی قوت کے ساتھ اجاگر ہو جاتی ہے۔ان کا ایقان ہے کہ ان اقدار سے عدم واقفیت آج کے انسان کے حق میں عذاب بن گئی ہے۔ یہ وہ عظیم انسانی اور تاریخی روایات ہیں جن کا سوتا خشک نہیں ہوا ہے۔ البتہ موجودہ دور میں اس سے سیراب ہونے کے حوصلے کا فقدان ضرور ہے۔
’’حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود‘‘ میں عادل نے حضرت محمد، خلفائے راشدین اور کئی اہم صحابۂ کرام کی جلیل القدر اور مثالی شخصیتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے یادگار تاریخی واقعات کو بڑی خوبی اور نفاست سے سمیٹ لیا ہے۔ واقعات کی ترتیب وار اور تفصیلی پیش کش ان کی عادت نہیں ہے
فتح مکہ سے مگر لوگ ہدایت پائیں
خون جم جائے جو نعلین میں چلتے چلتے
عرش کی آنکھ سے رحمت کا سمندر ابلے
مسجد نبوی میں انبار غنیمت روشن
لوگ روتے ہوئے نکلے ہیں پریشاں منظر
روشنی پہنچی ابو جہل کی دیواروں تک
علم کے باب علی عمر میں سب سے چھوٹے
چاند کا نام ترے چاک گریبانوں میں
جان دی جاوداں لمحات تلاوت مشغول
خون کے دھبے ہیں قرآن پہ تابندہ نظر
نور مجسم ہوا گنبد خضرا مرکوز
حشر کی صبح درخشاں ہوں مقام محمود
ہاتھ روشن رہے کوثر سے قرابت منظر
اسی طرح جنگ تبوک میں شریک ہونے والے صحابہ سے متعلق نظم کا اختتام بھی ان دعائیہ مصرعوں پر ہوا ہے
تمھارے اونٹوں کی گردنوں سے
تمام دنیا میں نور پھیلے
تمھارے گھوڑوں کی ہنہناہٹ
تمھاری منزل کی راہ کھولے
تبوک کو اسلامی تاریخ میں اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ یہ وہ آخری غزوہ تھا جس میں حضور اکرم خود شریک ہوئے تھے۔ فتح کے بعد بھی بارہ نقاب پوش منافقین نے آپ پر قاتلانہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اگرچہ وہ منافق بعد میں خوف زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ مگر نبی کریم نے انھیں پہچان لیا تھا اور ان سب کے نام حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو بتا دیئے تھے۔ اسی لئے انھیں ’محرم اسرار نبوت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
عادل منصوری کی ایسی نظموں میں جو روحانی کیفیت اور ما بعد الطبیعیاتی جلا ملتی ہے وہ ان کا ذاتی سرمایہ ہے۔ ایسی نظموں میں عادل نے کہیں بھی خود کو مذہبی جذباتیت کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اس سلسلے کو ختم کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ عادل نے متذکرہ بالا نظموں کے علاوہ’ ’پرش’،‘سوریہ کا رتھ’، ‘استی’ اور ‘شراپ’ جیسی نظمیں بھی لکھی ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ اور اخلاقیات سے نہ ہو کر ہندو دھرم اور بدھ دھرم سے ہے۔
جذباتیت کی پرچھائیں ان کی اس نظم پر بھی نہیں پڑتی جو انھوں نے والد کی موت پر لکھی ہے۔ یہ نظم ان کی زخمی روح کی نمائندگی تو کرتی ہے مگر اس میں ذاتی اور جذباتی نقصان سے زیادہ اس کرب کو اجاگر کیا گیا ہے جو کسی شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے قسط وار مرتے دیکھ کر حساس انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دراصل انھوں نے خود پر شخصی غم کو حاوی کرنے کے بجائے انسانی وجود کی اس معنویت کو ابھارا جو بالآخر معنویت میں بدل جاتی ہے۔
وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا
وہ خوابوں کو اونٹوں میں لادے ہوئے
رات کے ریگزاروں پہ چلتا رہا
چاندنی کی چتاؤں میں جلتا رہا
میز پر
کانچ کے ایک پیالے میں رکھے ہوئے
روح کا ہاتھ چھلنی ہوا
سوئی کی نوک سے
خواہشوں کے دیے
جسم میں بجھ گئے
پوری نظم میں شاعر کے مطالعے کی صحت (Accuracy) قابل داد ہے۔ بستر مرگ پر پڑے ہوئے باپ کی ہر جسمانی اور ذہنی اذیت شاعر کے لئے ناقابل فراموش روحانی تجربے میں بدل گئی ہے۔ رات کے رہگذاروں پہ چلنے اور چاندنی کی چتاؤں میں جلنے کا صاف مطلب ہے کہ بیمار کے لئے ایک ایک پل کاٹنا مشکل ہے۔ کانچ کے پیالے میں رکھے ہوئے دانتوں کے ہنسنے سے مراد ضعیف العمری کا خندہ زن ہونا ہے۔ مسلسل لگنے والے انجکشنوں نے بیمار کے نحیف ہاتھوں کو ہی نہیں اس کی روح کو بھی چلنی کر دیا ہے۔ آخر نتیجہ جسم میں خواہشوں کے چراغوں کے بجھ جانے یعنی موت واقع ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
عادل منصوری کی نظموں کے دیگر موضوعات میں شہر اور شہری زندگی کا موضوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شہر اور شہری زندگی کا عذاب جدید شاعروں کا مشترکہ اور پسندیدہ موضوع ہے۔ اس رجحان کا تعلق کسی فیشن سے نہیں بلکہ اس حقیقت سے ہے کہ جدید دنیا بنیادی طور پر شہروں سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ جدید شاعروں نے بامعنی ماضی سے اپنا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے شہری زندگی کے عذابوں، پیچیدگیوں، اعصابی تناؤ، زندہ رہنے کے لئے کی جانے والی مسلسل بھاگ دوڑ، نیز صنعتی ترقی کے سیلاب میں تنکوں کی طرح بہہ جانے والی مہذب اور نفیس اقدار کا نہ صرف موثر اور حقیقت پسندانہ اظہار کیا ہے بلکہ ہر شاعر نے شہر کو اپنے انفرادی زاویئے سے دیکھا ہے۔
عادل منصوری اردو کے اکیلے شاعر ہیں جنھیں بین الاقوامی حسیت کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ ’ایک منظر‘،’تنہائی‘،’لہو جس کا معصوم ہے اس کو روکو‘، ’دشت ابہام‘، ’نقرئی رات‘، ’شعور نیلی رطوبتوں سے الجھ گیا ہے‘، ’وقت کی ریت پر‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کا اطلاق جتنا ممبئی، دلی اور کلکتہ پر ہوتا ہے اتنا ہی لندن، ٹوکیو، شنگھائی اور نیویارک جیسے شہروں پر بھی ہوتا ہے۔ ایک مثال پیش خدمت ہے
وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے
دیواروں کا چونا چاٹتی رہتی ہے
خاموشی کے صحراؤں میں اس کے گھر
مرے ہوئے سورج ہیں اس کی چھاتی پر
اس کے بدن کو چھو کر لمحے سال بنے
سال کئی صدیوں میں پورے ہوتے ہیں
(تنہائی)
اس قبیل کی سبھی نظموں کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ موجودہ عہد میں انسان کا وجود بے معنی سا ہو کر رہ گیا ہے۔ خود اس کا داخل اس کے خلاف سازش کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انسانی سائکی پر مکمل بے حسی طاری ہو جاتی ہے۔ یقین اور خود اعتمادی پر کوئی انجانا خوف غالب آ جاتا ہے۔ ہر گذرتا ہوا لمحہ حساس انسانوں کی رگوں سے خون نچوڑنے کا کام کرتا ہے۔ عام شہریوں کی حیثیت خستہ حال فرنیچر سے زیادہ نہیں رہ گئی۔ ایک اور مثال
زوال سبزوں پہ رینگتا ہو تو
لوگ سایوں کی سیڑھیوں پر
سفید بیلوں کے سینگ میں خواب دیکھتے ہیں
لہو میں موسم کا زہر تحلیل
کس خرابے میں ڈال آئیں
(زمین سر سے بندھی ہوئی ہے)
جہاں تک ممبئی کا تعلق ہے یہ شہر بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی شاعروں کا محبوب موضوع رہا ہے۔ بنگلہ شاعروں نے جو غیر معمولی توجہ کلکتہ پر کی ہے وہی توجہ اردو، مراٹھی اور گجراتی شاعروں نے ممبئی پر مبذول کی ہے۔ بحیثیت مجموعی مراٹھی شاعر نرائن سردے کی طویل نظم ‘ماجھی ودیا پیٹھ’ (میری یونیورسٹی) کو اس موضوع پر بہترین اور کامیاب ترین نظم کہا جا سکتا ہے۔ بیحد غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ساہتیہ انعام یافتہ شاعر سردے نے ماجھی ودیا پیٹھ، میں ممبئی کی زندگی کے تمام پہلوؤں اور سارے دکھ درد کو جس خوبی اور فنکارانہ چابک دستی سے سمیٹ لیا ہے اس کی کوئی اور مثال کسی اور ہندوستانی زبان میں نہیں ملتی۔ کم و بیش سبھی زبانوں میں اس نظم کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اردو ترجمہ رفیعہ شبنم عابدی نے کیا ہے۔
جن جدید شاعروں نے ممبئی پر نظمیں لکھی ہیں ان میں ندا فاضلی کی نظم ‘مہا نگر’ اہم بھی ہے اور اسے کافی شہرت بھی ملی ہے۔ عادل نے ممبئی پر عمومی انداز میں لکھنے کے بجائے یہاں کے چند ایسے علاقوں اور مقامات کو موضوع سخن بنایا ہے جنھیں کئی اعتبار سے سنگ میل کا مرتبہ حاصل ہے۔ ایسی نظموں میں ‘فاک لینڈ روڈ’،‘ میرین ڈرائیو’، ‘کوالٹی کی نیم عریاں شام’، چوپاٹی سے متعلق ایک مختصر سی نظم‘ رات چھ بجے نیروز میں ’ وغیرہ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں کو اگر ان کی کچھ دوسری تخلیقات مثلاً ‘کم سپٹمبر کی دھن پر’، ‘ایلن گنس برگ’ اور ‘جیسلمیر کے کھنڈر دیکھ کر’ وغیرہ کے ساتھ پڑھیں تو وہی لطف ملتا ہے جو عالمی جدید شاعروں پیٹر ریڈ گرو (Peter Redgrove)، نارمن میک کیگ (Norman MacCaig)، چارلس ٹاملنسن (Charles Tomlinson)، اسٹیون کلارک (Steven Clarke) اور ہنری ریگو (Henry Rego) جیسے شاعروں کی شاعری میں ملتا ہے۔
گرانٹ روڈ اسٹیشن سے قریب واقع فاک لینڈ روڈ نامی علاقہ سستی قسم کی عورتوں کا بہت بڑا بازار ہے۔ منٹو کے‘ ممو بھائی’ اور’ ’شاردا’ جیسے مشہور افسانے اسی علاقے کی دین ہیں۔ اردو میں عادل کے علاوہ کسی شاعر نے فاک لینڈ روڈ کو موضوع نہیں بنایا حالانکہ ماضیِ قریب کے کئی جانے پہچانے ادیب و شاعر اس بازار میں گھومتے پھرتے دیکھے جاتے رہے ہیں
زنگ آلودہ لہو کی نہر
گوشت کا جلتا ہوا اک شہر
نیلے جسموں سے ابلتا خواہشوں کا زہر
بستروں پر ٹوٹتی لذت کی آہٹ
موت کے ہونٹوں پہ کالی مسکراہٹ
دیکھ
شہریوں سے تنگ آ کر
شور سے دامن چھڑا کر
اونچی اونچی بلڈنگیں
خود کشی کرنے کی خاطر
صف بہ صف دریا کنارے
دیر سے آ کر کھڑی ہیں
‘فا ک لینڈ روڈ’ پر اگر وہ بدقسمت عورتیں رہتی ہیں جنھیں سماج نے پستی اور ذلت کی عمیق ترین کھاڑیوں میں ڈھکیل دیا ہے تو میرین ڈرائیو پلید حد تک امیر (Filthy rich) خاندانوں کا مسکن ہے۔ بحیرۂ عرب کے مقابل ایک ہی قطار میں بنی ہوئی اور یکساں اونچائی والی بلڈنگوں میں رہنے والے بڑے بڑے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور شیئر مارکیٹ (سٹہ بازار) کے دلالوں کے دن اگر آس پاس کے علاقوں میں واقع عالی شان، ایر کنڈیشنڈ دفتروں میں گذرتے ہیں تو راتیں پانچ ستارہ ہوٹلوں، کلبوں اور ڈسکوز کی رونق بڑھاتی ہیں۔
ممبئی میں جنوبی ممبئی کے نام سے مشہور یہ علاقہ بجائے خود ایک جزیرہ ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کو شہر اور شہریوں کے مسائل سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ لوگ تہذیبی اور ثقافتی یعنی بنیادی انسانی اقدار کے زوال کی چلتی پھرتی، کھاتی پیتی اور جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ہمارے اس مفروضے کا تازہ ثبوت ۲۶ جولائی ۲۰۰۵ کو اس وقت سامنے آیا جب اچانک بارش کے سبب پوری شمالی ممبئی میں سیلاب آ گیا تھا۔ بلا مبالغہ کئی سو افراد سیلاب میں بہ گئے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے، مگر جنوبی ممبئی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ شراب خانوں ہوٹلوں کے علاوہ سٹہ بازار بھی کھلا رہا۔ جنوبی ممبئی میں رہنے والوں کی یہ ذہنیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اب اس پس منظر میں عادل منصوری کی یہ مختصر سی طنزیہ نظم دیکھئے
شہریوں سے تنگ آ کر
شور سے دامن چھڑا کر
خود کشی کرنے کی خاطر
صف بہ صف دریا کنارے
دیر سے آ کر کھڑی ہیں
پہلے دو مصرعے واضح ہیں اور اسی ذہنیت کے غماز ہیں جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں۔ اونچی اونچی بلڈنگیں اپنے مکینوں کا استعارہ ہیں۔ آخری تین مصرعوں کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ شہر کے مرکزی دھارے اور عام شہریوں سے الگ تھلگ تعیش کی زندگی گذارنے والے، میرین ڈرائیو کے باشندے ایک طرف اگر ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے خود کشی پر مائل ہیں تو دوسری طرف بحری تموج کا معمولی سا جھٹکا بھی ان بلڈنگوں کو زمیں دوز کرنے کے لئے کافی ہو گا۔ سمندر کو ’دریا‘ غالباً گجراتی کا اثر ہے کیوں کہ گجراتی میں سمندر کو دریا ہی کہتے ہیں۔
میرین ڈرائیو کی طرح اور اس سے قریب چوپاٹی بھی ممبئی کا ایک مشہور ساحلی علاقہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ چوپاٹی نامی ساحل کافی چوڑا ہے اور بلڈنگیں سمندر سے خاصے فاصلے پر تعمیر کی گئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں فلموں کی شوٹنگ ہوتی تھی اور شرفا، سر شام، بال بچوں سمیت تفریحاً آتے تھے۔ اب اس پورے ساحل پر آئس کریم فروشوں، بریانی پوری کے اسٹالوں اور طوائفوں کا راج ہے۔ سورج ڈھلتے ہی سارا کاروبار دھڑلے سے شروع ہو جاتا ہے۔ عادل نے محض تین مصرعوں پر مشتمل اپنی نظم ‘رات‘ ‘میں اس تلخ حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
رات چوپاٹی کی ٹھنڈی ریت میں
خواہشوں کے گرم سائے سوگئے
لذتوں کے جنگلوں میں کھو گئے
عادل نے یوں تو متعدد ہوٹلوں اور ریستورانوں پر نظمیں لکھی ہیں مگر ہم یہاں صرف دو ایک مثالوں پر اکتفا کریں گے۔ چرچ گیٹ اسٹیشن سے قریب واقع ہوٹل نٹ راج اب سے ۲۰۔۲۵ سال پہلے تک آج کی طرح مہنگا نہیں تھا۔ اس کے پر فضا اور خوبصورت ریستوراں میں اوسط آمدنی والے شوقین لوگ بھی اپنی شامیں گذار سکتے تھے۔ عادل کی یہ نظم غالباً اسی زمانے کی یادگار ہے
موم کی دو انگلیاں
موم کی دو انگلیاں
کالی کافی کے کپوں میں گھل گئیں
کوکا کولا میں
اکیلی شام کے سورج کی کرنیں بجھ گئیں
پانی کے جگ میں سمندر چیخ اٹھا
سینڈوچ کے دل میں کانٹے گھپ گئے
پلیٹ میں بیٹھے ٹماٹر ہنس پڑے
کیتلی سے شام کی کالی اداسی بھاپ بن کر اڑ گئی
آنکھ مٹکاتی ہوئی وہ دوسرے ٹیبل کی جانب مڑ گئی
اگر ہم نظم کے موضوع کی حدبندی کرنا ہی چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ایک ایسے نوجوان کو پیش کیا گیا ہے جو تنہا بھی ہے، پریشان بھی ہے۔ اسے کسی کا انتظار بھی نہیں ہے اور اس کے دل میں یہ موہوم سی امید بھی ہے کہ شاید کوئی بھولی بھٹکی لڑکی اس کی طرف آ نکلے اور کالی، تنہا شام، تھوڑی دیر کے لئے ہی خوشگوار بن جائے۔ اس نظم کی تکنیکی اور فنی خصوصیت یہ ہے کہ تقریباً ہر منظر اور ہر احساس کو ٹھوس بصری پیکروں (Visuals) کے ذریعے قاری تک منتقل کیا گیا۔ کافی کے پیالوں میں گھل جانے والی موم کی انگلیاں دراصل شکر کی ٹکیاں (Cubes) ہیں۔ کوکا کولا کی گہری سیاہی مائل رنگت اس اندھیرے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو سورج ڈھلتے ہی چھا جاتا ہے۔ جگ میں سمندر کا چیخ اٹھنا اور پلیٹ میں رکھے ہوئے ٹماٹر کے قتلوں کا ہنس پڑنا، علامتوں اور استعاروں پر شاعر کی آنکھ اور اس کے کان کی فتح کے مصداق ہے۔
لڑکی کو ہوٹل میں داخل ہوتے ہوئے اگر شام کی کالی اداسی کیتلی سے بھاپ کی طرح اڑ جاتی ہے تو اس کا مطلب شاعر کا وہ موہوم سا یقین ہے کہ لڑکی اس کی میز کی طرف آ رہی ہے۔ نظم کلائمکس تک پہنچتے پہنچتے اس وقت اینٹی کلائمکس بن جاتی ہے۔ جب لڑکی ہیرو صاحب کو گھاس ڈالنے کے بجائے کسی اور میز کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ ’آنکھوں کا مٹکانا‘ علامتی طور سے یہ اشارہ کرتا ہے کہ موصوفہ ممبئی کی زبان میں خاص ’چالو‘ قسم کی چیز ہیں۔ اب عادل کی ایک اور نظم ‘کم سپٹمبر’ سے یہ چند مصرعے دیکھئے
کم سپٹمبر کی دھن پر تال دیتی انگلیاں
واز کے پھولوں پہ اڑتی تتلیاں
ٹیبلوں پر کالے سایوں کی جواں سرگوشیاں
سگرٹوں سے جھوم کر اڑتا دھواں
ان مصرعوں میں بھی کان اور آنکھ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ساز سے نکلنے والی دھنیں گلدان میں رکھے ہوئے پھولوں پر رقص کر رہی ہیں۔ نیم روشن ریستوران میں بیٹھے ہوئے نوجوان جوڑوں کو پوری طرح دیکھنا تو مشکل ہے مگر ان کی محبت بھری سرگوشیوں کو ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے۔
عادل کی دوسری اہم نظموں میں‘ کون ہے؟’،‘ میں تمھارا منتظر ہوں’، ‘پیتل کا سورج چمکاؤ’،‘ دو گھڑی کے درمیان’، ‘دھواں’ وغیرہ ان کے سر ریلسٹ اسلوب اور اچھوتے موضوعات سے ان کی فطری رغبت کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عادل کی نظموں کو Categoriseنہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان نظموں میں فلسفیانہ اور ما بعد الطبیعیاتی ادراک کی بھی فراوانی ملتی ہے، ان سے صحت مند جنس کی خوشبو آتی ہے، ان میں بڑی حد تک ناقابل فہم پراسراریت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور کہیں کہیں خالص عشق کا بانکپن بھی دکھائی دیتا ہے۔
جہاں تک سماج کا سوال ہے اسے ہر عہد کے ادب میں ’بادہ و ساغر‘ والی اہمیت حاصل رہتی ہے۔ عادل منصوری بھی سماج سے الگ تھلگ نہیں ہیں۔ ان کے ہاں موجودہ سماج کے تعلق سے ناراضگی اور برہمی کا جذبہ ملتا ہے۔ وہ سماج کے آسمان پر چھائے ہوئے کالے بادلوں کو دیکھ کر اعصابی تناؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظم ’اجداد‘ کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ عہد کے انسان نے مادی، سائنسی اور ٹکنولوجیکل سطح پر تو بہت ترقی کر لی ہے مگر عملی سطح پر وہ دور وحشت میں سانس لے رہا ہے۔ بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو بالکل بری طرح ختم کر رہی ہیں جس طرح ماقبل تاریخ والے دور کے لوگ دوسروں کے ‘سرخ کچے گوشت’ کو صفا چٹ کر جاتے تھے۔ وہ دن دور نہیں جب استعاراتی طور پر لوگ چاہنے لگیں گے کہ شام ہوتے ہی
سب اچھلتے کودتے واپس چلیں
دوسری ٹھوکر کے خوابوں کو جگا کر
غار کے دروازے میں جا کر سو رہیں
یوں تو عہد جدید کے اس غار کے کئی دروازے ہیں مگر وہائٹ ہاو ¿س اور ۱۰ ڈاؤننگ اسٹریٹ نامی دروازے سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ‘بوسنیا’ سیریز والی نظموں کے ٹھیٹ سرریلسٹ دبیز پردوں کے پیچھے سے ہی روشن حقیقت جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ‘کون ہے’ اور’ ’وہ مر گئی تھی’ جیسی نظموں میں انھوں نے ہم عصر زندگی کو اپنے مخصوص اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ‘کون ہے’ میں انھوں نے زندگی، یا یوں کہئے کہ انسانی وجود کو ایک پراسرار اور خوف ناک چاردیواری سے تعبیر کیا ہے جس کے اندر کا ماحول حساس انسانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے
کون ہے
اس چاردیواری کے اندر کون ہے؟
کس کے پیلے دانت
چھت پر چل رہے ہیں
کس کا خالی سر ہوا میں تیرتا ہے
کس کا نیلا خون بستر میں پڑا چلا رہا ہے
کس کے وحشی قہقہوں سے
بند کمرہ گونجتا ہے
‘کون ہے’ کے عنوان سے عادل نے ایک اور نظم بھی لکھی لیکن اس کا مضمون بالکل مختلف ہے۔’ ’دل کا چور’،‘ دور افق پر’ اور‘ میں تمھارا منتظر ہوں ’ جیسی نظموں میں جنس سے جو کام لیا گیا ہے مگر جنس زدگی نہیں ملتی۔ انھیں پڑھتے ہوئے جسمانی لذت کا نہیں بلکہ یہ احساس ہوتا ہے گویا شاعر اپنی کھال کے باہر اپنے جسم کو تلاش کر رہا ہو۔ یہ نظمیں درحقیقت، جنسی خواہشات اور دوسرے بہت سے انسانی تقاضوں کی آپسی کشمکش کا نتیجہ ہیں
کس کے جلتے لمس سے
پگھلا ہے یخ بستہ لہو
کروٹیں لیتی ہے دل میں
کس کے تن کی آرزو
کس نے میرے ہونٹ پر
کون ہے جو لذتوں کے
آئینوں کو توڑ دے
کون ہے؟
کون ہے؟
شہوت کو شیشے میں
پیتل کے جسموں کے اندر
تنہائی کا جال بنو
ٹیلیفون پہ حال سنو
مختصر یہ کہ عادل منصوری مذہب سے لے کر سیاست تک جس موضوع پر بھی لکھیں ان کا انداز نرالا اور انوکھا ہوتا ہے۔ اگر وہ ہمارے سب سے زیادہ منفرد جدید شاعر ہیں تو اس کی وجہ ان کا وسیع شعری کینوس ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے لئے ایک بالکل نئی زبان خلق کی ہے۔ انھوں نے جو تراکیب علامتیں، استعارے اور امیجز تراشے ہیں وہ کسی اور شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ ان ہی چیزوں نے عادل کی شاعری کو پیچیدہ اور بسا اوقات مبہم بنا دیا ہے۔ غالباً اسی لئے وہ اہم نقاد جو معمولی شاعری اور اس سے زیادہ معمولی افسانوں سے متعلق بلا تکلف صفحات کے صفحات سیاہ کرنے کے فن میں درجہ کمال تک پہنچ چکے ہیں، عادل منصوری کی شاعری کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
http://adilmansuri.wordpress.com/2008/03/09/adimansuriki-nazme_fuzailjafri/
٭٭٭