بعض محققین کا خیال ہے کہ اردو کے عروج کا زمانہ سلطنت مغلیہ کے زوال (1857) کا زمانہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے محض دس سال بعد ہی سے اردو کے زوال کی بھی داستان شروع ہو جاتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ 1867میں متحدہ صوبہ جات (United Provinces)، جسے اب اتر پردیش کہتے ہیں، کے بعض ہندو حکومت برطانیہ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری زبان اردو کو، جسے 1837میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، کو ختم کر کے اس کی جگہ دیو ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے اور سرکاری عدالتوں اور دفتروں میں اردو کی جگہ ہندی کو رائج کیا جائے۔ ان اردو مخالف سرگرمیوں میں بنارس کے بابو شیوپرساد (1) (1823-1895) پیش پیش تھے۔ بعد میں پنڈت مدن موہن مالویہ (2) (1861-1946) بھی ہندی کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لینے لگے تھے۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں کے اوائل میں کئی ہندو تنظیمیں معرضِ وجود میں آئیں جن میں ناگری پرچارنی سبھا (جو بنارس میں 1893 میں قائم ہوئی تھی)، اور ہندی ساہتیہ سمیلن (جس کا قیام الٰہ آباد میں 1910 میں عمل میں آیا تھا) خاص ہیں۔ ان تنظیموں کے زیرِ تحت ہندی تحریک کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ہندوؤں کی یہ تحریک اردو کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے تو انھوں نے اردو کے تحفظ و دفاع کے بارے میں سوچنا شروع کیا جس نے رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ سرسید احمد خاں (1817-1898) اس تحریک کے روحِ رواں تھے۔ انھوں نے جب یہ محسوس کیا کہ اردو کے خلاف ہندوؤں کی یہ تحریک مسلم مخالف رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک قوم کی حیثیت سے متحد رہنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ (3)
ہندی تحریک زور پکڑتی گئی اور ہندوؤں کا سیاسی محاذ پر دباؤ بڑھتا گیا، چنانچہ برطانوی حکومت کو اپنی لسانی پالیسی پر از سرِ نو غور کرنا پڑا۔ بالآخر یوپی(متحدہ صوبہ جات) کے لفٹیننٹ گورنر سر انٹونی پیٹرک میکڈانل (Sir Antony Patrick Mac Donnell) نے، جو مسلمانوں کے خلاف دل میں کینہ رکھتے تھے اور ہندوؤں کے زبردست حمایتی اور بہی خواہ تھے، 19اپریل 1900 کو ایک آرڈیننس (Ordinance) جاری کر کے سرکاری سطح پر ہندی کو اردو کے برابر درجہ دے دیا جس کی رو سے سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو کے ساتھ دیوناگری رسم خط میں لکھی جانے والی ہندی بھی رائج ہو گئی۔ ہندوؤں نے حکومت کے اس فیصلے کا گرم جوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا، لیکن مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، اور انھوں نے اس وقوعے (Event) پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اس وقت تک سرسید احمد خاں کا انتقال ہو چکا تھا، چنانچہ اردو تحریک کی باگ ڈور نواب محسن الملک (4) (1837-1907) نے سنبھالی جو سرسید احمد خاں کے دست راست تھے۔ وہ اس وقت محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (MAO College) کے آنریری سکریٹری تھے۔ انھوں نے اردو تحریک کو جِلا بخشی اور اردو کے تحفظ و بقا اور دفاع کے لیے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن (Urdu Defence Association) کی تشکیل کی۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام کئی مقامات پر احتجاجی جلسے منعقد ہوئے۔ اس کا پہلا جلسہ 13 مئی 1900 کو علی گڑھ میں منعقد ہوا۔ اس سرگرمی سے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو مہمیز ملی۔ لفٹیننٹ گورنر انٹونی میکڈانل کو جب اس کا پتا چلا تو وہ سخت برہم ہوئے۔ انھوں نے سید محمود (5) (1850-1903) کو ایک خط لکھ کر اردو دفاعی تنظیم کی سخت نکتہ چینی کی، لیکن محسن الملک اپنی جگہ پر ڈٹے رہے اور اردو کے دفاع میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ گورنر نے اسے اپنی سبکی سمجھی اور علی گڑھ آ دھمکے۔ ایم. اے . او. کالج کے ٹرسٹیز (Trustees) کی ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اردو کے تحفظ و بقا کے لیے جو کچھ ہو رہا تھا اس پر اپنی سخت ناگواری اور برہمی کا اظہار کیا اور دھمکی دی کہ اگر حکومت کی پالیسی کے خلاف عوامی جلسے اور احتجاجی سرگرمیاں جاری رہیں تو حکومت کی جانب سے کالج کو دی جانے والی مالی امداد بالکل بند کر دی جائے گی۔ نواب محسن الملک کے ساتھ بھی ان کا رویہ نہایت ہتک آمیز تھا۔ انھوں نے جب گورنر سے ملنا چاہا تو گورنر نے ملنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انھیں جو کچھ کہنا ہے، خط لکھ کر کہہ سکتے ہیں۔ نواب محسن الملک نے جب دیکھا کہ ہندی – اردو تنازع پر حکومت کے فیصلوں کی مخالفت سے کالج کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو انھوں نے کالج کی سکریٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا اور خود کو اردو کے کاز کے لیے وقف کر دینے کا تہیہ کر لیا، لیکن کالج اور قوم کے بہی خواہوں کے نزدیک محسن الملک کے بغیر کالج کا تصور نا ممکن تھا، چنانچہ سرسید احمد خاں کے دوستوں کے پیہم اصرار پر محسن الملک نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا، لیکن شرط یہ رکھی کہ کالج کے سکریٹری کے عہدے کے ساتھ وہ ذاتی طور پر اردو کے تحفظ و بقا کے لیے بھی کام کرتے رہیں گے۔ اب سیاسی حالات بدل چکے تھے، لفٹیننٹ گورنر انٹونی میکڈانل جا چکے تھے اور یوپی کے گورنر کا عہدہ سر جیمز لاٹوش (Sir James La Touches) نے سنبھال لیا تھا، تبھی محسن الملک نے سرسید احمد خاں کی قائم کردہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس (1886) کی ایک وِنگ (علمی شعبے) کے طور پر 1902 میں علی گڑھ میں انجمن ترقیِ اردو کی تشکیل کی جس نے اردو کے تحفظ و بقا اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے، اور اردو تحریک کے کام کو آگے بڑھایا۔ دس سال بعد 1912 میں جب مولوی عبدالحق (1870-1961) انجمن کے سکریٹری منتخب ہوئے تو اس کے کام میں اور بھی تیزی آ گئی۔ وہ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد (دکن) لے گئے جہاں وہ پہلے سے ملازم تھے۔ اورنگ آباد میں اپنے قیام کے دوران میں تقریباً ربع صدی تک وہ نہایت تندہی اور یکسوئی کے ساتھ اردو کے تحفظ و بقا اور فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔ سنہ 1938 میں انجمن ترقی اردو کا دفتر دہلی منتقل ہو گیا اور مولوی عبدالحق بھی دہلی آ گئے، لیکن 1947 میں تقسیمِ ملک کے وقت اردو کے لیے حالات نہایت ناسازگار ہو گئے۔ انجمن کا دفتر جو دریا گنج میں واقع تھا بلوائیوں کے ہاتھوں لٹ گیا، اس کا کتب خانہ تباہ و برباد ہو گیا، کتابوں اور مسودات کا قیمتی ذخیرہ نذرِ آتش کر دیا گیا۔ مولوی عبدالحق یہاں کے ناگفتہ بہ حالات سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان ہجرت کر گئے اور وہاں نئے سرے سے انجمن کی بنیاد ڈالی جو انجمن ترقیِ اردو (پاکستان) کے نام سے موسوم ہوئی، جو کراچی میں آج بھی قائم ہے، اور اردو کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ مولوی عبدالحق کو ان کی بے بہا اردو خدمات کے لیے ’بابائے اردو‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ پاکستان میں بھی وہ تا دمِ آخر بابائے اردو ہی کہلائے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
مولوی عبدالحق کے کراچی چلے جانے کے بعد انجمن ترقیِ اردو بے سر و سامانی کے عالم میں دہلی سے علی گڑھ منتقل ہو گئی۔ یہاں اسے سلطان جہاں منزل (واقع شمشاد مارکیٹ) کے ایک گوشے میں پناہ ملی، لیکن تیس سال بعد یہ 1977 میں پھر نئی دہلی منتقل ہو گئی اور اب بھی وہیں ہے۔ قاضی عبدالغفار (6) (1889-1956) 1947 کے بعد کی انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے پہلے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے جنھوں نے اس کے تنِ نیم جان میں نئی روح پھونکی، اور یہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
آزاد ہندوستان میں اردو کے لیے فضا سازگار نہ تھی۔ فرقہ واریت اور لسانی عصبیت کا بازار گرم تھا۔ اس کے مخالفین اسے مٹانے اور نیست و نابود کر دینے کے درپے تھے۔ سرکاری سطح پر اس کے لیے دروازے بند ہو چکے تھے۔ ہر طرف قومی زبان کا مسئلہ چھایا ہوا تھا۔ گاندھی جی (1869-1948) ہندی، اردو کی صف آرائی سے حد درجہ ملول تھے۔ وہ اسے اس ملک کی ’’بد قسمتی‘‘ سمجھتے تھے۔ ایسے عالم میں انھوں نے ’ہندوستانی‘ کا نعرہ بلند کیا۔ یہ اردو اور ہندی کو ملا کر ایک زبان بنانے کی کوشش تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ’ہندوستانی‘ عربی فارسی (Perso-Arabic) اور دیوناگری دونوں رسومِ خط میں لکھی جائے اور یہی ہندوستان کی ’راشٹر بھاشا‘ (قومی زبان) تسلیم کر لی جائے۔ گاندھی جی نے قومی زبان کے مسئلے کا یہ حل بہت سوچ سمجھ کر نکالا تھا، لیکن اہلِ سیاست نے اس پر کان نہیں دھرا اور ان کی یہ پکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ ہندی (دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زبان) کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ اردو پر کس مپرسی کا عالم طاری ہو گیا۔ یہ ایک اقلیتی زبان بن کر رہ گئی جس کا نہ کوئی علاقہ تھا اور نہ جسے کسی قسم کی مراعات حاصل تھیں۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے نئے سکریٹری قاضی عبدالغفار کے لیے اردو کے تحفظ و بقا کا مسئلہ ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سے عہدہ برآ ہونا آسان نہ تھا، لیکن انھوں نے ہمت اور حوصلے سے کام لیا اور مرتے دم تک اردو کی لڑائی لڑتے رہے۔
قاضی عبدالغفار ادیب و انشا پرداز اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اردو تحریک کے علم بردار بھی تھے۔ انھوں نے انجمنِ ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اردو کے تحفظ و بقا اور اس کے آئینی و دستوری حقوق کے لیے منصوبہ بند طریقے سے جو اقدامات کیے اسے ہم اردو تحریک کا ایک روشن باب کہہ سکتے ہیں۔ جب اتر پردیش کے سرکاری اسکولوں سے اردو خارج کر دی گئی اور وہ بچے جن کی مادری زبان اردو تھی، اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئے تو قاضی عبدالغفار نے یہ طے کیا کہ ایک وفد کی شکل میں وزیر تعلیم سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ اس کے لیے تیاری شروع کر دی گئی اور شہر لکھنؤ کے صرف ایک حصے سے ان والدین اور سرپرستوں کے دس ہزار دستخط حاصل کیے گئے جن کے بچے اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں انجمنِ ترقی اردو (ہند) کے سات اراکین پر مشتمل ایک وفد نے ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969)، صدرِ انجمن کی قیادت میں 23مئی 1951 کو اتر پردیش کے وزیر تعلیم ڈاکٹر سمپورنانند (1891-1969) سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، اور انجمن کی جانب سے ان کی خدمت میں ایک عرضداشت پیش کی، لیکن افسوس کہ انجمن کی اس جد و جہد کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کیوں کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس کے با وصف قاضی عبدالغفار نے ہمت نہیں ہاری اور اردو کو اس کا آئینی حق دلوانے کے لیے ایک زبردست عوامی تحریک کا آغاز کر دیا، کیوں کہ ان کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اردو کو دستورِ ہند کی دفعہ 347 کے تحت صدرِ جمہوریہ کی ہدایت پر علاقائی زبان قرار دیا جا سکتا ہے اور سرکاری طور پر اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ علاقائی زبان کی اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اتر پردیش میں بہت بڑے پیمانے پر دسختی مہم کا آغاز ہوا۔ قاضی عبدالغفار نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ تحریک قطعی طور پر غیر سیاسی ہے اور اس کا مقصد محض اردو کو اس کا حق دلوانا ہے جس کی صراحت دستورِ ہند کی دفعہ 347 میں موجود ہے۔ جب بیس لاکھ دستخط جمع ہو گئے تو انجمنِ ترقی اردو (ہند) کے ایک وفد نے جس کی قیادت انجمن کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین نے کی تھی اور جس میں علاوہ اور لوگوں کے قاضی عبدالغفار بھی شامل تھے، صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر راجیندر پرساد (1884-1963) سے یکم فروری 1953 کو ملاقات کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا اور قاضی صاحب 17 جنوری 1956 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح اردو تحریک کے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ قاضی عبدالغفار کے بعد پروفیسر آل احمد سرور (1911-2002) انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں بھی اردو کے مسائل جوں کے توں رہے۔ وہ انجمن کے ترجمان ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ کے توسط سے اردو کی وکالت کرتے رہے اور اردو کے مسائل اور اردو بولنے والوں کے مطالبات کی جانب مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ مبذول کراتے رہے۔ اسی زمانے میں پروفیسر مسعود حسین خاں (1919-2010) نے بھی ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ کے اداریوں اور اس میں شا ئع ہونے والے کالم ’میرا صفحہ‘ کے تحت مضامین لکھ کر اردو تحریک میں جان ڈالی۔
مسعود حسین خاں اردو کے ممتاز ادیب و انشا پرداز، محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ انھوں نے اردو تحریک کے فعال قلم کار کی حیثیت سے بھی نام پیدا کیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے، قاضی عبدالغفار کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ اکثر ان کی غیر موجودگی میں مختلف زمانوں (سال 1969، 1970 اور 1972 کے دوران) میں مسعود حسین خاں نے انجمن کے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دیے اور ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بڑی بیباکی اور جرأت مندی کے ساتھ اس کے اداریے قلم بند کیے۔ تقریباً اسی زمانے میں انھوں نے ’ہماری زبان‘ کے کالم ’میرا صفحہ‘ کے تحت بھی اردو کے مسائل پر مختصر انداز میں مضامین بھی لکھے۔ ’ہماری زبان‘ میں تحریر کردہ مسعود حسین خاں کے ان اداریوں اور مضامین کو راقم السطور نے مرتب کر کے کتابی شکل میں ’اردو کا المیہ‘ کے نام سے 1973 میں شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے شائع کر دیا۔ ’عرضِ مرتب‘ کے عنوان کے تحت اس کتاب کے دیباچے میں راقم السطور نے ان خیالات کا اظہار کیا:
’’ان کے [مسعود حسین خاں کے] تحریر کردہ یہ مضامین ہندوستان میں اردو کی لسانی صورتِ حال کا نہ صرف صحیح جائزہ پیش کرتے ہیں، بلکہ ان سے اردو کے موقف کی بھرپور وضاحت و حمایت بھی ہوتی ہے۔ ان تحریروں میں اردو کے دستوری و جمہوری حقوق کو منوانے کا عزمِ مستحکم بھی ملے گا اور تعلیمی اداروں، سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اس کے از سرِ نو نفاذ کی پیہم کوششیں بھی نظر آئیں گی…اردو جس طرح روز بروز ہمارے گھروں اور تعلیم گاہوں کو خیرباد کہہ رہی ہے اور آنے والی نسلیں جس طرح اس سے منہ موڑتی جا رہی ہیں، یہ مضامین اس لسانی المیے کی مختصر داستان بیان کرتے ہیں۔ ان میں اردو کے ساتھ اربابِ حکومت کی نا انصافیوں کا شکوہ بھی ہے اور ابنائے وطن کے لسانی تعصبات کا گلہ بھی، اپنی کوتاہیوں پر پشیمانی کا اظہار بھی ہے اور اپنی بے بسی پر افسوس کی ترجمانی بھی۔ ان میں اردو کے تعلیمی نظام کے درہم برہم ہو جانے کا غم بھی ہے اور موجودہ نسلوں کے اپنی زبان سے محروم ہو جانے کا قلق بھی۔ ‘‘
پروفیسر رشید احمد صدیقی (1894-1977)، مسعود حسین خاں کے ان اداریوں کو پڑھ کر اکثر اپنی رائے کا خطوں کے ذریعہ اظہار کرتے تھے۔ ان میں سے بعض خطوں کے اقتباسات کو ’اردو کا المیہ‘ کا پیش لفظ بنا دیا گیا ہے۔ 13 مارچ 1970 کے خط میں انھوں نے مسعود حسین خاں کو لکھا:
’’آپ کا شمار مَیں ان چند (چند سے بھی کم) لوگوں میں کرتا ہوں جو ہندوستان میں اِن دنوں اردو کے بہترین وکیل اور سفیر کہے جا سکتے ہیں۔ ‘‘ (7)
اسی طرح 11دسمبر 1969 کے خط میں انھوں نے مسعود حسین کو لکھا:
’’جب سے آپ نے یہ اداریے لکھنے شروع کیے ہیں اردو کے معرکہ آرا مسائل پر اس اختصار و جامعیت کے ساتھ ایسے خوبصورت اسلوب اور شگفتہ عالمانہ انداز میں کسی اور کا کوئی بھی مضمون کم سے کم میری نظر سے نہیں گذرا، مدتوں پہلے سے بھی۔ ‘‘ (8)
5 جنوری 1970 کے خط میں وہ انھیں لکھتے ہیں:
’’میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جب سے آپ نے ’ہماری زبان‘ کی ادارت کا کام اپنے ذمے لیا ہے، آپ کی تحریر میں اردو سے متعلق امید و عزم کی وہ تازگی و تابناکی آ گئی ہے جس کا مَیں ہمیشہ سے متمنی رہا۔ ‘‘ (9)
مسعود حسین خاں ایک لسانی مؤرخ اور ماہرِ لسانیات تھے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ اردو زبان کیسے پیدا ہوئی اور کن عوامل نے اس کی تشکیل کی، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اس زبان کا جنم مخصوص حالات میں ہوا ہے۔ یہ صدیوں کے تہذیبی عمل میں ڈھل کر نکلی ہے۔ اس زبان کی تشکیل میں رواداری، مفاہمت، لین دین کا جذبہ اور ہندوستانی قومیت کے خد و خال، سب شامل ہیں۔ اردو ہماری ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ کا شاہکار ہے۔ اس میں ہم صدیوں سے چاہ اور نباہ کرتے چلے آئے ہیں۔ اس میں ایک مخلوط زبان کی ساری توانائی، اظہار کی بے پناہ قوت، تکلف و آداب کی ساری نزاکتیں، سب و شتم کی جملہ فصاحتیں موجود ہیں۔ ‘‘ (10)
اپنے ایک اور اداریے ’’زبانوں کا عروج و زوال‘‘ میں وہ اردو زبان کی تاریخ یوں بیان کرتے ہیں:
’’اردو ایک ایسے سیاسی و تہذیبی انقلاب کی یادگار ہے جو اس ملک میں ازمنہ وسطیٰ میں ظہور پذیر ہوا تھا۔ یہ مسلمانوں کے داخلۂ ہند کا ایک لازمی تہذیبی تتمہ تھا۔ فارسی اس عہد کی تہذیبی و سرکاری زبان تھی، لیکن وہ بھی انگریزی کی طرح عوامی نہیں بن سکتی تھی، اس لیے اس کے سہارے سے ایک عوامی محاورے کا پیدا ہو جانا ناگزیر تھا۔ ۱۲۰۰ء سے لے کر ۱۵۰۰ء تک اردو زبان کی تشکیل کا زمانہ تھا۔ اٹھارھویں صدی عیسوی تک اس میں اعلیٰ ترین شعری تخلیقات ہو چکی تھیں۔ انیسویں صدی کے آغاز سے یہ جدید نثر سے آشنا ہوئی اور سرکاری و عدالتی حیثیت سے شمالی ہند کے بڑے حصے میں رائج ہو گئی۔ عام مقبولیت کے اعتبار سے یہ زمانہ اس کا نقطۂ عروج تھا، ہر چند علمی و تعلیمی نقطۂ نظر سے یہ اپنے منتہا کو بیسویں صدی کے آغاز کے وقت پہنچی۔ ‘‘(11)
مسعود حسین خاں نے سطورِ بالا میں اردو زبان کی چھے سو سالہ تاریخ بیان کر دی ہے، لیکن عین اس وقت جو اردو کے عروج کا زمانہ تھا، انگریزوں نے کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا جس نے ہندوؤں کے لیے ایک علاحدہ زبان کھڑی بولی ہندی کو جنم دیا۔ ہندوؤں میں جیسے جیسے ’’قومیت‘‘ کا رجحان اور ’’سیاسی شعور‘‘ بڑھتا گیا کھڑی بولی ہندی کی تحریک بھی زور پکڑتی گئی جیساکہ اس زمانے کے کہ بعض ہندوؤں کے ایک نعرے ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ مسعود حسین خاں انیسویں صدی کے دوران میں ہندی اردو تنازع پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
’’۱۸۰۰ء سے کھڑی بولی ہندی کا چلن ہوا جو قومیت کی تحریک اور سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا تا آں کہ انیسویں صدی کے اواخر تک دونوں زبانوں کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ سر سید جیسے لوگ نہ صرف نئی قومیت کے تقاضوں پر انگشت بہ دنداں تھے، بلکہ ہندی کے دعووں پر سر بہ گریباں بھی۔ نئی امنگوں نے نئی مانگوں کو جنم دیا۔ جمہوریت نے اکثریت کی تائید کی۔ کچھ عرصہ تک ’ہندوستانی‘ سمجھوتے کی آڑ رہی، بالآخر عین اس وقت جب اردو اپنے بامِ عروج پر تھی، ہندوستان کی سب سے ترقی یافتہ زبان سمجھی جاتی تھی، ہندوستان کی واحد زبان تھی جو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ تھی— یہ ایک بہت بڑے سیاسی الٹ پھیر کی لپیٹ میں آ گئی۔ ۱۹۴۷ء میں دو ٹوک فیصلے کا وقت آ گیا، ملک تقسیم ہو گیا، ’ہندوستانی‘ کی گدی ہندی کو مل گئی۔ ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں کے علاقوں کا تعین ہو گیا، اردو ’’ہرجائی‘‘ رہی۔ ‘‘(12)
تقسیمِ ملک کے بعد اردو پر کیا گذری، یہ مسعود حسین خاں کی زبانی سنیں۔ انھوں نے مایوسی کے عالم میں یہ تک کہہ دیا کہ ’’ہندوستان میں اردو زوال کی راہ پر بھرپور قدم رکھ چکی ہے۔ ‘‘:
’’حیدرآباد کی ریاست کے ٹوٹتے ہی جامعۂ عثمانیہ مرحوم ہو گئی۔ اردو کا نظامِ تعلیم یوپی اور بہار جیسی آباد ریاستوں میں درہم برہم ہو گیا …نئی نسلیں اردو سے دور ہوتی گئیں۔ ا ردو کی لیڈری نامراد اور پلیڈری ناکام ثابت ہوتی گئی…ہمارے انتشار سے اغیار مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نئی نسلوں کی زبان بدلتے جا رہے ہیں۔ نئی نسل اردو سے ’بیگانہ آشنا‘ ہوتی جا رہی ہے …غرض کہ ہندوستان میں اردو زوال کی راہ پر بھرپور قدم رکھ چکی ہے۔ اس راہ سے باز گشت کے لیے زبردست تنظیم، عمل اور جذبۂ ایثار کی ضرورت ہے، اس ایقان کے ساتھ کہ مردہ زبانیں بھی زندہ ہو جاتی ہیں۔ ‘‘(13)
اردو کو مسعود حسین خاں ایک تہذیبی قدر اور ضرورت تسلیم کرتے تھے جس کے بغیر، بقول ان کے، ’’ہم گونگے، توتلے اور ہکلے ‘‘ہو جائیں گے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں یہ بات کہی ہے کہ ’’جب کسی سیاسی انقلاب کے تحت کوئی جماعت اپنی زبان کے ترک پر مجبور ہو جاتی ہے تو اس کی ذہنی موت کا آغاز ہو جاتا ہے، اس کی تہذیبی انفرادیت ختم ہونے لگتی ہے اور تخلیقی اعتبار سے وہ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ ‘‘(14) مسعود حسین خاں کے نزدیک ’’زبان کی موت ایک گروہ کی تہذیبی موت سے عبارت ہے۔ ‘‘(15) تقسیم ملک کے بعد کے حالات ہندوستان میں اردو کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ اپنے مضمون ’’اردو زبان: ایک تہذیبی روایت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تقسیم ملک کے بعد حالات تیزی سے بدل گئے، اور اب زیادہ تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں۔ اسے مسلمانوں کی زبان کہا جا رہا ہے (حالاں کہ حالات نے مسلمانوں کی نئی نسل کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ اسے نہ سیکھ سکیں)۔ بہرحال اب یہ ایک لسانی اقلیت کی زبان ہے جس کا دائرہ روز بروز تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ایک زندہ حقیقت بن کر ہندوستان میں رہے گی یا تاریخ کے ایک دور کی سنہری یاد ہو کر رہ جائے گی۔ ‘‘(16)
اردو کی حیثیت پہلے کیا تھی، اس پر بھی مسعود حسین خاں نے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اردو زبان … ایک ایسی لسانی روایت کی حامل رہی ہے جسے کم از کم ہنگامۂ ۱۸۵۷ء تک بلا امتیازِ مذہب و ملت شمالی ہند میں سب تسلیم کرتے تھے۔ یہ نہ ہندو تھی نہ مسلمان، سب کی تھی۔ اس میں دیا شنکر نسیم، چکبست، سرور جہان آبادی اور بے شمار چھوٹے موٹے شاعروں نے نغمہ سرائی کی اور اس کے افسانوی ادب پر تو بیسویں صدی تک غیر مسلم چھائے رہے۔ ‘‘(17)
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ تقسیم ملک کے وقت انجمن ترقی اردو پر بھی زد پڑی اور اس کا شیرازہ پورے طور پر بکھر گیا، لیکن انجمن ترقی اردو (ہند) کی شکل میں یہ فعال بن کر پھر سے ابھری اور اردو تحریک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اردو کو اس کا دستوری و جمہوری حق دلوانے کے لیے انجمن ترقی اردو (ہند) کی 1951 میں جس تحریک کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوا تھا اس کے پسِ پشت مسعود حسین خاں ہی کی ذہنیت کام کر رہی تھی۔ (18) انھوں نے ہی رشید احمد صدیقی کو دستورِ ہند کی دفعہ 347 کی تفصیلات بتائی تھیں کہ اسی دفعہ 347 کے تحت صدر جمہوریہ کی ہدایت پر اردو کو علاقائی زبان قرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ رشید احمد صدیقی نے جو انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے ایک رکن تھے بہار ریاستی اردو کانفرنس کے پٹنہ اجلاس میں 12 مئی 1951 کو اپنا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پہلی بار محبانِ اردو کی توجہ دفعہ 347 کی جانب مبذول کرائی اور یہیں سے اردو کی علاقائی زبان کی تحریک کا آغاز ہوا جس کا قدرے تفصیل سے ذکر اوپر آ چکا ہے۔
چوں کہ تقسیمِ ملک کے بعد یوپی میں اردو نظامِ تعلیم کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا تھا، اس لیے مسعود حسین خاں نے اس کے خلاف مہم چھیڑی اور مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ وہ فلسفۂ تعلیم کے اس مسلمے سے واقف تھے کہ بچے کی کم از کم ابتدائی تعلیم، تمام تر اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ مادری زبان ان کے نزدیک ’’وہ زبان ہے جس سے کسی گروہ کے بچے کا سابقہ زیادہ مدت تک اور اس کے ذہن کی تشکیل کے وقت مسلسل رہتا ہے۔ وہ نہ صرف ابتدا سے اس کے لیے خارجی ماحول کے علم کا وسیلہ ہوتی ہے، بلکہ اس کے تخیل کے لیے جولاں گاہ اور جذبات کی پرورش گاہ بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے کوئی دوسری زبان… اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ‘‘(19) مسعود حسین خاں دوسری زبانوں کے خلاف نہیں تھے۔ ان کا قول ہے، ’’دوسری زبانوں کا مقام درجہ بدرجہ اپنی جگہ پر آتا ہے۔ ‘‘ ان کے خیال کے مطابق ’’اردو میڈیم کے ابتدائی اسکولوں میں ہندی تیسرے درجے سے شروع کی جا سکتی ہے (ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے نہیں )، لیکن انگریزی کو پانچویں یا چھٹے درجے سے پہلے شروع کر دینا بچے کے ذہنی ارتقا میں خلل اندازی کے مترادف ہو گا۔ ‘‘(20)
اردو نظامِ تعلیم کو عملی شکل دینے کے لیے مسعود حسین خاں نے بتدریج حسبِ ذیل امور پر عمل پیرا ہونا ضروری قرار دیا ہے: (21)
-1 سب سے پہلے ایسے اضلاع اور مراکز کی فہرست تیار کر لی جائے جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد کافی ہو۔
-2 اردو ذریعۂ تعلیم کے ابتدائی سرکاری اسکول ہر اس گاؤں اور شہر میں قائم کیے جائیں جہاں اردو پڑھنے والے بچے موجود ہوں، کیوں کہ ’’مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ان کادستوری حق ہے۔ ‘‘
-3 ثانوی اور اعلیٰ سطحی ثانوی اسکول منتخب مقامات پر قائم کیے جائیں، لیکن ان کا رابطہ ابتدائی سطح کے اسکولوں سے ضرور ہو۔
-4 ان ابتدائی اور ثانوی اسکولوں کے منتظمین اردو داں حضرات ہوں۔
-5 اردو ذریعۂ تعلیم کے ان اداروں میں تربیت یافتہ اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔ سرکاری سطح پر ان اساتذہ کو اردو تدریس کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ جس طرح کہ ہندی اور دوسری زبانوں کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔
-6 اردو کی درسی کتب کی تیاری کا کام بھی سرکاری سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے نجی ادارے بھی اس کام کو کر سکتے ہیں۔
مسعود حسین خاں نے یونیورسٹی کی سطح پر بھی اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر زور دیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ ’’اردو کو زبان کے منصب پر فائز رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نظامِ تعلیم کی ابتدائی مدارج سے یونیورسٹی کی سطح تک تنظیم کی جائے۔ ‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’اردو یونیورسٹی خلا میں قائم نہیں کی جا سکتی۔ اردو یونیورسٹی قائم کرنے سے قبل اردو اسکولوں اور کالجوں کا ایک جال سا بچھنا ضروری ہے۔ ‘‘ (22)
مسعود حسین خاں نے اپنے ایک مضمون ’’اردو کا محضر نامہ‘‘ میں دو ٹوک انداز میں یہ مطالبہ پیش کیا کہ اردو کو اتر پردیش، بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، میسور اور دہلی میں دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ دوسری سرکاری زبان ہو جانے کے بعد ہی ان ریاستوں میں اردو کے متوازی نظامِ تعلیم کی قانونی مانگ پیش کی جا سکتی ہے۔ (23) مسعود حسین خاں نے ہمیشہ ان بچوں کے لیے جن کی مادری زبان اردو ہے، اردو ذریعۂ تعلیم کی وکالت کی ہے، لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ہندی یاکسی دوسری زبان کے خلاف تھے۔ انھوں نے واضح طور پر کہا ہے:
’’ہندی یا ہندی والوں سے ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں۔ ہندی، ہندوستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔ یہ ہمارے لیے رابطے کی زبان کا حکم رکھے گی، لیکن مادری زبان کا نہیں۔ ‘‘(24)
ایک اور موقع پر انھوں نے کہا:
’’اردو ہندی کی حریف نہیں، حلیف ہے۔ دونوں ایک مشترک بولی کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی مختلف زبانیں ہیں۔ اردو، اردو والوں کے وجود کے لیے اسی قدر اہم ہے جس قدر کہ ہندی، ہندی والوں کے لیے۔ ‘‘(25)
انھیں اس بات کا شکوہ ضرور تھا کہ ہندی نے اردو کو اس کے گھر میں ’’بے گھر‘‘ کر دیا ہے۔ وہ اپنے ایک اداریے ’’اردو بنام ہندی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بالآخر آزادی کے ساتھ ہندی بصد ناز آئی اور اردو کو ہندی کی ’’شیلی‘‘ کہہ کر اس کے گھر میں بے گھر کر دیا گیا۔ ‘‘(26)
وہ اردو کے مستقبل کے بارے میں خاصے مایوس ہو گئے تھے، چنانچہ ایک دوسرے اداریے ’’زبانوں کا عروج و زوال‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’غرض کہ ہندوستان میں اردو زوال کی راہ پر بھرپور قدم رکھ چکی ہے۔ اس راہ سے بازگشت کے لیے زبردست تنظیم، عمل اور جذبۂ ایثار کی ضرورت ہے، اس ایقان کے ساتھ کہ مردہ زبانیں بھی زندہ ہو جاتی ہیں۔ ‘‘(27)
ایک اور موقع پر انھوں نے لکھا:
’’غرض کہ اردو کی موت تہذیب کے ایک تصور کی موت ہو گی، ہندوستانی تاریخ کے ایک دور کی موت ہو گی، یہ ہندوستانی قومیت کے ایک جاندار حصے کی بھی موت ہو گی، اس لیے ہندوستانی قومیت اور اس کی رنگا رنگی کا عین تقاضا ہے کہ یہ لسانی اقلیت اپنی انفرادیت کی تلاش نا مساعد حالات میں بھی جاری رکھے !‘‘(28)
مسعود حسین خاں نے اردو تحریک کو ایک نیا رُخ اس وقت دیا جب ہندوستان میں نئی مردم شماری کا وقت آیا۔ انھوں نے برملا یہ اعلان کیا کہ ’’مردم شماری کو اصطلاحاً سرشماری بھی کہا گیا ہے۔ یاد رکھیے کہ جو سر شمار نہیں ہو گا، وہ قلم ہو گا، اس لیے اردو بولنے والوں کا فرض ہے کہ وہ مادری زبان کے خانے میں اردو لکھوائیں۔ ‘‘ (29)مردم شماری کے سلسلے میں سرکاری عملہ اکثر دھاندلے بازی سے کام لیتا ہے اور جان بوجھ کر غلط اندراج کر دیتا ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مسعود حسین خاں محبانِ اردو کو ان کی ذمے داری کا احساس دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مردم شماری کا سرکاری ہرکارہ اپنے قلم سے اس خانے [زبان کے خانے] کو غلط بھر دے تو اسے ٹھیک کرائیں۔ مادری زبان کے لکھنے میں دھاندلہ بازی کرنے کا موقع گانووں کی آبادی میں زیادہ ملتا ہے، اس لیے جو لوگ قصبات اور شہروں کے رہنے والے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں کے دیہات کا دورہ کر کے وہاں کی کم پڑھ آبادی کو مادری زبان اور اس کے بولنے والوں کی تعداد کے صحیح اندراج کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔ اس کے لیے گاؤں، قصبات اور ضلع کی سطح پر اردو کمیٹیوں کی تشکیل ضروری ہے۔ ‘‘(30)
مسعود حسین خاں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مردم شماری کے زمانے میں اردو کے سلسلے میں اصل کام دیہی علاقوں میں کرنے کا ہے ’’جہاں اردو، ہندی کو ایک زبان کہہ کر بہکایا جا سکتا ہے۔ ‘‘ انھوں نے اپنے مضمون ’’نئی مردم شماری‘‘ کے توسط سے بحیثیتِ شیخ الجامعہ، جامعۂ اردو کے تمام مہتممینِ مراکز اور اس کے طلبائے قدیم سے یہ اپیل کی کہ ’’وہ اپنے اپنے حلقوں میں اردو کا مادری زبان کی حیثیت سے صحیح اندراج کرانے میں پیش قدمی کریں اور اس ادارے [جامعۂ اردو، علی گڑھ] کے حقِ خدمت کو اس طرح ادا کریں۔ ‘‘(31)
ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد بڑے پیمانے پر انتخابات ہوتے ہیں، چنانچہ یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب سیاسی جماعتیں ووٹ دہندگان کو لبھانے کے لیے ہر قسم کے وعدے کرتی ہیں۔ مسعود حسین خاں کا قلم اس موقع پر بھی اردو والوں میں حرارت پیدا کرنے کے لیے فعال ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مضمون ’’اردو اور الکشن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ موقع عہد وفا باندھنے کا نہیں، مصلحت اور حکمت کا ہے ‘‘، یعنی اردو والوں کو اس موقع پر سیاسی پارٹیوں سے سودے بازی کرنا چاہیے کہ انھیں ووٹ تبھی ملیں گے جب وہ اردو کو اس کا حق دلوائیں گے، ع
کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے (32)
مسعود حسین خاں کا عقیدہ ہے کہ اردو، اردو والوں کے لیے ایک تہذیبی قدر کی حیثیت رکھتی ہے، اس کا محفوظ رکھنا اس ملک کے سیکولر کردار کے لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ یہ ’ہندلمانی‘(ہندو+مسلمانی)تہذیب کا ایک عظیم ورثہ ہے، نیز اس کی اپنی پہچان اور انفرادیت ہے۔ اس لیے جیسا کہ ان کا خیال ہے، الکشن کے موقع پر اردو والوں کا ’’سیاسی پروگرام‘‘ صرف ایک ہونا چاہیے یعنی ’’اس زبان کو اس کا حق دلوانا، کہیں مراعات کی شکل میں اور کہیں دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے۔ ‘‘(33)
بیسویں صدی کے نصف دوم میں جن علمی و ادبی شخصیتوں نے اردو تحریک کو جِلا بخشی ان میں مسعود حسین خاں کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے ہر محاذ پر اردو کی لڑائی لڑی۔ ان کا قلم اردو کے دستوری و جمہوری حقوق کو منوانے کے لیے ہمیشہ رواں دواں رہا۔ رشید احمد صدیقی نے مسعود حسین خاں کو بجا طور پر ’’ان چند (چند سے بھی کم)‘‘ لوگوں میں شمار کیا جو ہندوستان میں اُن دنوں اردو کے ’’بہترین وکیل اور سفیر‘‘ کہے جا سکتے تھے۔
حواشی
-1 بابو شیو پرساد 1823 میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ وہ سرسید احمد خاں (1817 -1898) کے معاصرین میں تھے، اور متحدہ صوبہ جات (United Provinces) کے جوائنٹ انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا شمار اردو کے اوّلین مخالفین میں ہوتا ہے، حالاں کہ وہ اردو زبان سے بخوبی واقف تھے اور فارسی بھی جانتے تھے۔ انھوں نے برطانوی نو آبادیاتی حکومت (British Colonial Government)کو 1868 میں ایک میمورنڈم بعنوان:
"Court Characters in the Upper Provinces of India”پیش کیا تھا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ عدالتوں میں اردو کی جگہ دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی ہندی کو رائج کیا جائے۔ انھیں حکومت برطانیہ کی جانب سے ’راجا‘ اور ’ستارۂ ہند‘ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔
-2 پنڈت مدن موہن مالویہ 1861 میں الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ ماہرِ تعلیم، صحافی اور قانون داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی مدبر بھی تھے جن کا ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں نمایاں رول رہا ہے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ وہ ہندو مہاسبھا کے بھی لیڈر تھے اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی بھی۔ انھوں نے ہندی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا اور عدالتوں سے اردو کے اخراج اور اس کی جگہ ہندی (دیوناگری رسمِ خط میں ) کے استعمال کے لیے پوری طرح کوشاں رہے تھے۔ انھوں نے 1897 میں ہندی کی حمایت میں ایک مجموعۂ دستاویزات و بیانات شائع کیا جس کا نام تھا:
Court Character and Primary Education in North Western Provinces and Oudhکہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں انھوں نے 1898 میں برسرِ اقتدار برطانوی حکام سے رابطہ بھی قائم کیا تھا۔
-3 بہ حوالہ الطاف حسین حالی، ’حیاتِ جاوید‘ (لاہور، 1957)، ص 193۔
-4 نواب محسن الملک 1837 میں اٹاوہ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ’محسن الملک‘ ان کا خطاب تھا۔ ان کا اصل نام سید مہدی علی خاں تھا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرتے رہے پھر انھوں نے تحصیل دار کی ملازمت اختیار کی، پھر مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مرزاپور (یوپی) کے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد انھیں ریاست حیدرآباد (دکن) آنے کی دعوت دی گئی جہاں کے وہ سکریٹری مقرر ہوئے۔ حیدرآباد سے پنشن یافتہ ہونے کے بعد وہ علی گڑھ آ گئے۔ سرسید احمد خاں سے ان کے نہایت دوستانہ مراسم تھے۔ انھوں نے سرسید کے تعلیمی و اصلاحی مشن کی پر زور حمایت کی اور علی گڑھ تحریک کو کامیاب بنانے میں انھیں پورا تعاون دیا۔ سرسید کے انتقال (1898) کے بعد محسن الملک کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (MAO College) کا آنریری سکریٹری بنایا گیا۔ ان کے زمانے میں اردو مخالف سرگرمیاں بہت تیز ہو گئی تھیں، چنانچہ انھوں نے اردو کے تحفظ و بقا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کا انتقال 1907میں علی گڑھ میں ہوا۔ انھیں یہیں کالج کی جامع مسجد کے صحن کی داہنی جانب سرسید احمد خاں کے مرقد کے برابر سپردِ خاک کیا گیا۔
-5 سید محمود، سرسید احمد خاں کے بیٹے اور پیشے کے اعتبار سے ایک ممتاز قانون داں تھے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم انگلستان میں رہ کر حاصل کی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام میں انھوں نے سرسید کے ساتھ زبردست تعاون کیا تھا۔
-6 قاضی عبدالغفار 1889 میں مراد آباد (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد قاضی ابرار احمد مراد آباد کے اسپیشل مجسٹریٹ تھے۔ برطانوی حکومت کی جانب سے انھیں ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا ہوا تھا۔ قاضی عبدالغفار کی ابتدائی تعلیم مراد آباد میں ہوئی، پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجے گئے۔ ابھی انھوں نے وہاں سے صرف انٹرمیجیٹ کا ہی امتحان پاس کیا تھا کہ والد کے اصرار پر انھیں تحصیل دار کی ملازمت اختیار کرنا پڑی، لیکن جلد ہی انھوں نے اسے چھوڑ کر صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور مولانا محمد علی کے اخبار ’ہمدرد‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہو گئے۔ اس کے بعد وہ کئی دوسرے اخبارات سے بھی منسلک رہے۔ بالآخر وہ انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور اس حیثیت سے انھوں نے اس کے ترجمان ’ہماری زبان‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔
قاضی عبدالغفار ایک بے باک صحافی ہونے کے علاوہ فکشن نگار، ڈرامہ نگار، سوانح نگار اور مترجم بھی تھے۔ انھوں نے ’نقشِ فرنگ‘ کے نام سے اپنا یورپ کا سفر نامہ بھی لکھا تھا۔ اردو ادب میں ان کی شہرت ’لیلیٰ کے خطوط‘ اور ’مجنوں کی ڈائری‘ کی وجہ سے آج بھی قائم ہے۔
-7 مسعود حسین خاں، ’اردو کا المیہ‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973)، ص 24۔
8- ایضاً،ص 17۔
-9 ایضاً، ص 19۔
-10 مسعود حسین خاں، ’’اردو: ایک تہذیبی قدر اور ضرورت‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘، ص 62۔
-11 مسعود حسین خاں، ’’زبانوں کا عروج و زوال‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘،ص 131-32۔
-12 ایضاً،ص 132۔
-13 ایضاً،ص 132-33۔
-14 مسعود حسین خاں، ’’اردو: ایک تہذیبی قدر اور ضرورت‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘، ص 61۔
-15 ایضاً،ص 61۔
-16 مسعود حسین خاں، ’’اردو زبان: ایک تہذیبی روایت‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص 150۔
-17 ایضاً،ص 150۔
-18 یہ بات مسعود حسین خاں نے راقم السطور کو ایک نجی گفتگو کے دوران بتائی کہ آئین کی دفعہ 347 کا علم سب سے پہلے انھیں ہوا، پھر انھوں نے ہی رشید احمد صدیقی سے اس کا ذکر کیا۔
-19 مسعود حسین خاں، ’’اردو بحیثیت ذریعۂ تعلیم‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘، ص270۔
-20 ایضاً،ص 270۔
-21 مسعود حسین خاں، ’’کچھ اردو کے بارے میں ‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘،ص 169-70۔
-22 مسعود حسین خاں، ’’اردو بحیثیتِ ذریعۂ تعلیم‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘،ص 67-68۔
-23 مسعود حسین خاں، ’’اردو کا محضر نامہ‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘، ص 145-46۔
-24 مسعود حسین خاں، ’’اردو دوسری سرکاری زبان‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’ادیب‘ (مدیر: مرزا خلیل احمد بیگ)، شمارہ 1989، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘، ص 263۔
-25 مسعود حسین خاں، ’’نئی مردم شماری‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’ادیب‘ (مدیر: مرزا خلیل احمد بیگ)، شمارہ دسمبر 1990، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘، ص 259۔
-26 مسعود حسین خاں، ’’اردو بنام ہندی‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘، ص 89۔
-27 مسعود حسین خاں، ’’زبانوں کا عروج و زوال‘‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘،ص 133۔
-28 مسعود حسین خاں، ’’لسانی انفرادیت کی تلاش‘‘، مطبوعہ ’ہماری زبان‘ (کالم میرا صفحہ)، بابت 22 نومبر 1971، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘، ص 219۔
-29 مسعود حسین خاں، ’’نئی مردم شماری‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’ادیب‘، بابت دسمبر 1990، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘، ص 258۔
-30 ایضاً،ص 258۔
-31 ایضاً،ص 259۔
-32 مسعود حسین خاں، ’’اردو اور الکشن‘‘، مطبوعہ سہ ماہی ’ادیب‘، شمارہ 1989، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘،ص 266۔
-33 ایضاً، ص 264۔
٭٭٭