ہندی غزلیں ۔۔۔ طفیل چترویدی

 

 

ہندی غزلیں: طفیل چترویدی

 

 

 

غبار دل سے پرانا نہیں نکلتا ہے

کوئی بھی صلح کا رستہ نہیں نکلتا ہے

 

اٹھائے پھرتے ہیں سر پر سیاسی لوگوں کو

اگرچہ، کام کسی کا نہیں نکلتا ہے

 

کریں گے جنگ تو لیکن، ذرا سلیقے سے

شریف لوگوں میں جوتا نہیں نکلتا ہے

 

تیرے ہی واسطے آنسو بہائے ہیں ہم نے

سبھی کا ہم پہ یہ قرضہ نہیں نکلتا ہے

 

جو چٹنی روٹی پہ جی پاؤ، تب تو آؤ تم

کہ میرے کھیت سے سونا نہیں نکلتا ہے

 

یہ سن رہا ہوں کہ تو نے بھلا دیا مجھ کو

وفا کا رنگ تو کچا نہیں نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دھوپ ہوتے ہوئے بادل نہیں مانگا کرتے

ہم سے پاگل، ترا آنچل، نہیں مانگا کرتے

 

ہم فقیروں کو یہ گٹھری، یہ چٹائی ہے بہت

ہم کبھی شابوں  سے مخمل نہیں مانگا کرتے

 

چھین لو، ورنہ نہ کچھ ہوگا ندامت کے سوا

پیاس کے راج میں، چھاگل نہیں مانگا کرتے

 

ہم بزرگوں کی روایت سے جڑے ہیں بھائی

نیکیاں کر کے کبھی پھل نہیں مانگا کرتے

 

دینا چاہے تو اگر، دے ہمیں دیدار کی بھیک

اور کچھ بھی  ترے پاگل نہیں مانگا کرتے

 

آج کے دور سے امیدِ وفا! ہوش میں ہو؟

یار، اندھوں سے تو کاجل نہیں مانگا کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پل پل سفر کی بات کریں آج ہی تمام

منزل قریب آئی، ہوئی زندگی تمام

 

پو کیا پھٹی، کہ شب کے مسافر چلے گئے

پیپل کی چھاؤں تجھ سے ہوئی دوستی تمام

 

پچھلی صفوں کے لوگ جلائے لہو سے دیپ

میں چک گیا ہوں، میری ہوئی روشنی تمام

 

بس اس گلی میں جا کے سسکنا رہا ہے یاد

اس کی طلب میں چھوٹ گئی سر کشی تمام

 

کچھ تھا کہ جس سے زخم ہمیشہ ہرا رہا

بے چینیوں کے ساتھ کٹی زندگی تمام

 

یہ اور بات  پیاس سے دیوانہ مر گیا

لیکن کسی طرح تو ہوئی تشنگی تمام

٭٭٭

 

 

 

 

عدالتیں ہیں مقابل ، تو پھر گواہی کیا

سزا ملے گی مجھے  میری بے گناہی کیا

 

میرے مزاج میں شک بس گیا میرے دشمن

اب اس کے بعد میرے گھر کی ہے تباہی کیا

 

ہر ایک بونا میرے قد کو ناپتا ہے یہاں

میں سارے شہر سے الجھوں مرے الہی کیا

 

سمے کے ایک طمانچے کی دیر ہے پیارے

میری فقیری بھی کیا،  تیری بادشاہی کیا

 

تمام شہر کے خوابوں میں کیوں اندھیرا ہے

برس رہی ہیں گھٹاؤ! کہیں  سیاہی کیا

 

مرے خلاف مرے سارے کام جاتے ہیں

تو میرے ساتھ نہیں ہے، مرے الٰہی کیا

 

بس اپنے زخم سے کھلواڑ تھے ہمارے شعر

ہمارے جیسے قلم کار نے لکھا ہی کیا

٭٭٭

 

 

 

ورق  ورق پہ اجالا اتار آیا ہوں

غزل میں میر کا لہجہ اتار آیا ہوں

 

برہنہ ہاتھ سے تلوار روک دی میں نے

میں شاہزادے کا نشّا اتار آیا ہوں

 

سمجھ رہے تھے سبھی، موت سے ڈروں گا میں

میں سارے شہر کا چہرہ اتار آیا ہوں

 

مقابلے میں وہ ہی شخص سامنے ہے مرے

میں جس کی جان کا سودا اتار آیا ہوں

 

اتارتی تھی مجھے تو نگاہ سے دنیا

تجھے نگاہ سے دنیا اتار آیا ہوں

 

غزل میں نظم کیا آنسوؤں کو چُن چُن کر

چڑھا ہوا تھا، وہ دریا اتار آیا ہوں

 

تیرے بغیر کہاں تک یہ وزن اٹھ پاتا

میں اپنے چہرے سے ہنسنا اتار آیا ہوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے