سخت گیر آقا ۔۔۔ حفیظؔ جالندھری

 

آج بستر ہی میں ہُوں

کر دیا ہے آج

میرے مضمحل اعضا نے اِظہارِ بغاوت برملا

واقعی معلوم ہوتا ہے تھکا ہارا ہُوا

اور میں

ایک سخت گیر آقا۔ ۔ ۔ ۔ (زمانے کا غلام)

کِس قدر مجبُور ہُوں

پیٹ پُوجا کے لیے

دو قدم بھی، اُٹھ کے جا سکتا نہیں

میرے چاکر پاؤں شل ہیں

جھُک گیا ہُوں اِن کمینوں کی رضا کے سامنے

سر اُٹھا سکتا نہیں

آج بستر ہی میں ہُوں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے